قوم سے ایک سوال
آج معاشرہ جس اخلاقی و ذہنی پسماندگی کا شکار ہے وہ تو ایسے میں ہونا ہی تھا۔
ضیا الحق مرحوم کے 5 جولائی سے 1988 کے گیارہ سالہ تاریک آمرانہ دور میں سیاستدان، سیاسی اخلاص گنوا چکے تھے۔ معمولی دام اور مراعات پر اپنے سیاسی نظریات فروخت کرنے پر تیار اور آمر کی غیر سیاسی شاطرانہ چالوں سے باوقار، ملک دوست اور اخلاقی سیاست کا جنازہ ہی نکل گیا۔ آج کوئی بھی سیاسی جماعت کتنا ہی حب الوطنی اور عوامی خدمت کا دعویٰ کرے مگر صد فی صد ایسا ہونا ممکن نہیں رہا، البتہ کوئی کم کوئی زیادہ، بڑی بڑی سیاسی جماعتیں تو شاید صفر فیصد حد تک جذبہ حب الوطنی سے عاری ہیں۔ ان کی سیاست ذاتی اغراض و مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔
اس طویل سیاہ دور حکمرانی میں تمام قومی ادارے ہر لمحہ دباؤ اور خوف کا شکار رہے اور سب اپنی اصل کارکردگی بھول گئے۔ ''اوپر کے حکم'' کے مطابق ادارے اپنے فرائض سے ہٹ کرکام کرتے رہے ، جو رفتہ رفتہ اپنے مقاصد سے ہی دور ہوگئے، جب قومی ادارے ہی تباہی سے دوچار ہو جائیں تو معاشرہ خود بخود ابتری و انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ادارے افراد ہی چلاتے ہیں۔
یہ کارکردگی کی بدترین صورتحال ادارے کے کارکنان کی ذات میں بھی گہرائی تک اثرانداز ہوتی ہے، یوں معاشرہ میں اچھے باکردار افراد کو بھی اپنا دامن بچانا اور ایمان برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، مگر ایسا نہیں آج بھی پاک دامن اور ایماندار افراد کی کمی نہیں، مگر بدعنوان اکثریت جو صاحب اقتدارواختیار بھی ہو سے بلا رشوت وسفارش اپنا جائز کام کروانا ممکن نہ سہی جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور ہے۔ یوں بدعنوانی، اقربا پروری مقاصد کو پس پشت ڈالنا جرم کے بجائے ''ہنر'' بنتا گیا اور ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں فخر محسوس کرنے لگا۔
آج معاشرہ جس اخلاقی و ذہنی پسماندگی کا شکار ہے وہ تو ایسے میں ہونا ہی تھا، اپنے ملک کی ترقی وخوشحالی جو دراصل عوام ہی کی خوشحالی ہوتی ہے کو پس پشت ڈال کر ذاتی اغراض ومقاصد اور خوشحالی کو اپنانے کے رواج نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناکر درمیانی خلیج وسیع ترکردی، مشہور ہے کہ ''ایک دروازے سے غربت آتی ہے دوسرے سے غربت روانہ ہوجاتی ہے'' پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ دولت چند ''خاص اور صاحبان اقتدار کے چہیتوں'' کے پاس جمع ہوگئی اور اکثریت جب فاقوں میں مبتلا ہو تو اخلاق و تہذیب کو برقرار رکھنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتے نتیجتاً وہ چوری کرے یا ڈاکہ ڈالے یا چند سو روپوں کی خاطر کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے وہ یہ سب کریں گے اور جب یہ صورت آبادی کی اکثریت کو درپیش ہو تو معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن جائے گا۔ یہی کچھ اس بدنصیب ملک کے ساتھ ہوا کیونکہ ''بھوک تہذیب کے سانچوں میں نہیں ڈل سکتی'' اگر کچھ والدین کی اچھی تربیت میں پلے ہوئے تمام تر محنت اور جدو جہد کے باوجود اپنا حق حاصل نہ کرسکیں تو جرائم میں ملوث نہ بھی ہوں تو وہ تہذیب کا دامن تھام کر نہیں جی سکتے کم ازکم خود غرضی اور چند غیر روایتی طریقوں کو تو ضرور اپنالیں گے وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال ہمارے موقف کا واضح ثبوت ہے۔
حکمرانوں کو ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے، ان کے تمام مخالفین کو قدرت کی طرف سے دلی کدورت سامنے لانے کا بہترین موقع ہاتھ آیا ہے حکمرانوں میں دنیا کا ہر عیب ہر جرم ثابت کرنے کا، ادب اس کا تدارک اپنے دامن کو تمام الزامات سے صاف و شفاف ثابت کرنے کی کوشش کے بجائے ''جواب آں غزل'' کے طور پر تمام حکومتی مشینری نے دیگر سیاسی مخالفین کے وہ وہ عیب اور کرتوت سامنے لانا شروع کردیے کہ الامان الحفیظ ۔ ہمارا لیڈر تو فرشتہ ہے، تم چور، بے ایمان، دغا باز، امریکی جاسوس، یہودی ایجنٹ ہو۔ ہم پر الزام لگانے والے بتائیں کہ انھوں نے اپنا جلسہ کس کی مدد سے کیا؟
فلاں جائیداد کیسے بنائی؟ غیر ملکی دورہ کس مقصد سے کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں اپنا دامن تو تمام غلاظت سے آلودہ رہا البتہ عوام حکمرانوں کے علاوہ تمام سیاستدانوں کے کردار و کرتوت سے بھی آگاہ ہوگئے۔ چلیے جناب! سب کچھ ٹھیک ہے آپ بھی سچے وہ بھی سچے۔ مگر جب سب کے سب چور، بے ایمان، بدعنوان، ملک دشمن آرٹیکل 63-62 پر پورے نہ اترنے والے تو پھر کس منہ سے عوام سے ووٹ کی آس لگاتے ہیں اور آیندہ نہ صرف مرکز بلکہ چاروں صوبوں میں بھی حکومت بنانے کے دعوے کیسے؟
اچھا ہوا کہ ملک کے راندۂ درگاہ عناصر یعنی عوام کو تمام سیاستدانوں کے دامن کے داغ نظر آگئے۔ مگر اخلاقی حالت ان کی اتنی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ تھوڑے سے فائدے کے محض وعدے پر وہ پھر ان ہی بدکردار، بے ایمان، ملک دشمن، غیر ملکی ایجنٹوں کو ووٹ دینے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ وعدے وفا ہوں گے، نہ ان کے دن بہتر ہوں گے مگر یہی کافی ہے کہ انھیں جو کچھ ووٹ کے لیے پیش کیا جائے گا وہ چند ماہ بلکہ چند دن کے لیے ہی ان کو بھوک سے بچالے گا۔
اس ساری حقیقت کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر واضح اور مستحکم انتخابی اصلاحات کے آیندہ انتخابات کا کوئی جواز بنتا ہے؟ اور یہ کہ کیا ہمارے حالات کبھی بھی درست نہ ہوں گے۔ یہ سوال پوری قوم سے جواب طلب ہے۔
اس طویل سیاہ دور حکمرانی میں تمام قومی ادارے ہر لمحہ دباؤ اور خوف کا شکار رہے اور سب اپنی اصل کارکردگی بھول گئے۔ ''اوپر کے حکم'' کے مطابق ادارے اپنے فرائض سے ہٹ کرکام کرتے رہے ، جو رفتہ رفتہ اپنے مقاصد سے ہی دور ہوگئے، جب قومی ادارے ہی تباہی سے دوچار ہو جائیں تو معاشرہ خود بخود ابتری و انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ادارے افراد ہی چلاتے ہیں۔
یہ کارکردگی کی بدترین صورتحال ادارے کے کارکنان کی ذات میں بھی گہرائی تک اثرانداز ہوتی ہے، یوں معاشرہ میں اچھے باکردار افراد کو بھی اپنا دامن بچانا اور ایمان برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، مگر ایسا نہیں آج بھی پاک دامن اور ایماندار افراد کی کمی نہیں، مگر بدعنوان اکثریت جو صاحب اقتدارواختیار بھی ہو سے بلا رشوت وسفارش اپنا جائز کام کروانا ممکن نہ سہی جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور ہے۔ یوں بدعنوانی، اقربا پروری مقاصد کو پس پشت ڈالنا جرم کے بجائے ''ہنر'' بنتا گیا اور ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں فخر محسوس کرنے لگا۔
آج معاشرہ جس اخلاقی و ذہنی پسماندگی کا شکار ہے وہ تو ایسے میں ہونا ہی تھا، اپنے ملک کی ترقی وخوشحالی جو دراصل عوام ہی کی خوشحالی ہوتی ہے کو پس پشت ڈال کر ذاتی اغراض ومقاصد اور خوشحالی کو اپنانے کے رواج نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناکر درمیانی خلیج وسیع ترکردی، مشہور ہے کہ ''ایک دروازے سے غربت آتی ہے دوسرے سے غربت روانہ ہوجاتی ہے'' پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ دولت چند ''خاص اور صاحبان اقتدار کے چہیتوں'' کے پاس جمع ہوگئی اور اکثریت جب فاقوں میں مبتلا ہو تو اخلاق و تہذیب کو برقرار رکھنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتے نتیجتاً وہ چوری کرے یا ڈاکہ ڈالے یا چند سو روپوں کی خاطر کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے وہ یہ سب کریں گے اور جب یہ صورت آبادی کی اکثریت کو درپیش ہو تو معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن جائے گا۔ یہی کچھ اس بدنصیب ملک کے ساتھ ہوا کیونکہ ''بھوک تہذیب کے سانچوں میں نہیں ڈل سکتی'' اگر کچھ والدین کی اچھی تربیت میں پلے ہوئے تمام تر محنت اور جدو جہد کے باوجود اپنا حق حاصل نہ کرسکیں تو جرائم میں ملوث نہ بھی ہوں تو وہ تہذیب کا دامن تھام کر نہیں جی سکتے کم ازکم خود غرضی اور چند غیر روایتی طریقوں کو تو ضرور اپنالیں گے وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال ہمارے موقف کا واضح ثبوت ہے۔
حکمرانوں کو ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے، ان کے تمام مخالفین کو قدرت کی طرف سے دلی کدورت سامنے لانے کا بہترین موقع ہاتھ آیا ہے حکمرانوں میں دنیا کا ہر عیب ہر جرم ثابت کرنے کا، ادب اس کا تدارک اپنے دامن کو تمام الزامات سے صاف و شفاف ثابت کرنے کی کوشش کے بجائے ''جواب آں غزل'' کے طور پر تمام حکومتی مشینری نے دیگر سیاسی مخالفین کے وہ وہ عیب اور کرتوت سامنے لانا شروع کردیے کہ الامان الحفیظ ۔ ہمارا لیڈر تو فرشتہ ہے، تم چور، بے ایمان، دغا باز، امریکی جاسوس، یہودی ایجنٹ ہو۔ ہم پر الزام لگانے والے بتائیں کہ انھوں نے اپنا جلسہ کس کی مدد سے کیا؟
فلاں جائیداد کیسے بنائی؟ غیر ملکی دورہ کس مقصد سے کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں اپنا دامن تو تمام غلاظت سے آلودہ رہا البتہ عوام حکمرانوں کے علاوہ تمام سیاستدانوں کے کردار و کرتوت سے بھی آگاہ ہوگئے۔ چلیے جناب! سب کچھ ٹھیک ہے آپ بھی سچے وہ بھی سچے۔ مگر جب سب کے سب چور، بے ایمان، بدعنوان، ملک دشمن آرٹیکل 63-62 پر پورے نہ اترنے والے تو پھر کس منہ سے عوام سے ووٹ کی آس لگاتے ہیں اور آیندہ نہ صرف مرکز بلکہ چاروں صوبوں میں بھی حکومت بنانے کے دعوے کیسے؟
اچھا ہوا کہ ملک کے راندۂ درگاہ عناصر یعنی عوام کو تمام سیاستدانوں کے دامن کے داغ نظر آگئے۔ مگر اخلاقی حالت ان کی اتنی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ تھوڑے سے فائدے کے محض وعدے پر وہ پھر ان ہی بدکردار، بے ایمان، ملک دشمن، غیر ملکی ایجنٹوں کو ووٹ دینے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ وعدے وفا ہوں گے، نہ ان کے دن بہتر ہوں گے مگر یہی کافی ہے کہ انھیں جو کچھ ووٹ کے لیے پیش کیا جائے گا وہ چند ماہ بلکہ چند دن کے لیے ہی ان کو بھوک سے بچالے گا۔
اس ساری حقیقت کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر واضح اور مستحکم انتخابی اصلاحات کے آیندہ انتخابات کا کوئی جواز بنتا ہے؟ اور یہ کہ کیا ہمارے حالات کبھی بھی درست نہ ہوں گے۔ یہ سوال پوری قوم سے جواب طلب ہے۔