ہماری زندگی کا سائنسی کتب خانہ پہلا حصہ
انسان جتنا اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی حیرتوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔
ISLAMABAD:
انسانی علوم کے مطابق تمام علوم میں سب سے پیچیدہ علم اگر کوئی ہے تو وہ انسانی دماغ کا علم ہے، دنیا بھر میں ماہرین اس کی کارکردگی اور مختلف احساسات کے دوران اس کے رد عمل کو جاننے کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں، ہمارے جسم کا یہ اہم حصہ ہماری پیدائش کے بعد سے مسلسل محنت میں مشغول ہوجاتا ہے اور جسم کے باقی تمام اعضا کی دیکھ بھال اور انھیں ہدایت دینے میں ساری زندگی بتا دیتا ہے۔
اس وقت دماغ پر کی جانے والی تحقیق کے لیے اس وقت مختلف تجربہ گاہیں قابل قدر کام کر رہی ہیں ان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق انسانی دماغ پر شکم مادر ہی سے اثرات پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، لہٰذا جو خواتین امید سے ہوتی ہیں ان کی سوچ اور طرز زندگی کے دنیا میں آنے والے بچے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر وہ مثبت سوچ رکھیں اور مصائب و آلام کو ہنسی خوشی جھیلیں تو ان کی اولاد بھی نڈر اور بہادر ہوگی جو خواتین اس دوران فی الحال جاپان کی مشہور یونیورسٹیاں پیدائشی ذہنی معذور بچوں کی شکم مادر ہی میں شناخت اور ان کے علاج کی جستجو میں مصروف ہیں۔
در اصل ہم انسان تقریباً پانچ ارب بٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہماری ڈی این اے کی دہری چکردار شکل میں معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہیں اور یہ انتہائی اہم معلومات بڑی آسان، بے حد جامع اور غیر معمولی حد تک کارگر ہوتی ہیں، اگر ان کے متعلق تمام معلومات کو لکھا جائے تو ہزاروں جلدوں پر مشتمل ایک کتب خانہ بن جائے گا، ہمارے کھربوں خلیوں میں ایک مکمل کتب خانہ موجود ہوتا ہے جس میں جسم کے ہر حصے کو تخلیق کرنے اور اس کی نشوونما کرنے کی معلومات ہوتی ہے، ہمارے جسم کا ہر خلیہ دوسرے خاص خلیے سے وجود میں آتا ہے جو حقیقتاً ہمارے والدین سے منتقل ہونے والے بیضہ حیات ہوتا ہے۔
آسان الفاظ میں جو خلیہ ہماری پیدائش کا ذمے دار ہوتا ہے، وہی مسلسل تقسیم ہوکر جسم کے ہر خلیے کو پیدا کرتا ہے جتنی مرتبہ یہ موروثی خلیہ تقسیم ہوکر ایک نیا خلیہ بنتا اتنی ہی اولین تخلیقی معلومات دوسرے خلیے میں منتقل ہوجاتی ہیں، لہٰذا آپ کے جگر کے خلیوں میں بھی آپ کی ہڈیوں کی نشوونما کی معلومات محفوظ ہیں مگر وہ کبھی استعمال نہیں ہوںگی یہی کچھ ہڈیوں کے خلیوں کے ساتھ ہوتا ہے آپ کے جینی کتب خانے میں وہ تمام معلومات ذخیرہ ہیں جن سے آپ کا کبھی کسی وقت بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔ یہ قدیم معلومات بہت بھرپور اور محتاط انداز میں آپ کے اندر موجود ہیں۔ مثلاً کس طرح ہنسنا ہے، کس طرح چھینکنا، کس طرح چلنا ہے، کس طرح رنگوں کو پہچاننا ہے، کس طرح نسل بڑھانی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہ تمام ہدایات کیمیائی زبان میں پیش کی جائیں اور صرف ایک سیب میں موجود شکر کو ہضم کرنے کی تفصیلات ظاہر کی جائیں تو وہ کئی صفحات پر مشتمل ایک طویل کیمیائی عمل ہوگا۔جس میں درجنوں پیچیدہ کیمیائی مساواتیں درج ہوںگی۔ فرض کیجیے کہ ماحول اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ آپ کی جینی کتاب جو اس سے قبل بڑی کار آمد تھی اب آپ کے لیے ناکافی ہوگئی ہے۔ اس موقع پر ہزاروں جلدوں والا جینی کتب خانہ بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرسکے گا، اس لیے تو ہمارے پاس دماغ ہے۔
دماغ کی زبان ڈی این اے کی زبان نہیں بلکہ کچھ ہمیں دماغ کے متعلق معلوم ہے وہ ان خلیوں میں محفوظ ہوتا ہے جنھیں عصبانیے (نیورونز) کہا جاتا ہے یہ نیورونز خرد بینی برقی کیمیائی (مائیکرو اسکوپک الیکٹروکیمکل) بٹن ہیں جو ایک ملی میٹر کے بھی چند سوویں حصے کے برابر ہوتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کے دماغ میں تقریباً دس کھرب نیورونز ہوتے ہیں یعنی ہماری دودھیاں کہکشاں میں ستاروں کے برابر کئی نیورونز اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہزاروں رابطے Connection رکھتے ہیں ہمارے دماغ میں خیالات کی برقی کیمیائی چنگاریاں ہمہ وقت ادھر سے ادھر سفر کرتی رہتی ہیں۔
اگر ہم دماغ کے اندر جاکر اس کا نظارہ کریں تو ہمیں ہر جانب بجلیاں سی چمکتی ہوئی دکھائی دیںگی۔ یہ ہمارے خیالات کے کوندے ہیں جو ہر وقت لپکتے رہتے ہیں نیند میں بھی دماغ انسانی کوبارمیں مشغول رہتا ہے پھڑکتا ہے، پھیلتا ہے، سکڑتا ہے اور روشن رہتا ہے، گویا خواب دیکھتا ہے، حافظے کو آواز دیتا ہے اور معاملات پر غوروفکر کرتا ہے، ہمارے تصوراتی خاکے اور خیالات ٹھوس حقیقت کے مختلف روپ ہیں۔
ہماری ایک فکر سیکڑوں برقی کیمیائی تجربات سے عبارت ہوتی ہے، اگر ہم نیورونز جتنے ہوسکتے تو بڑے پیچیدہ مفصل اور عارضی نقوش کو دیکھ سکتے۔ یہ ہمارا حافظہ ہے یہاں گلاب کی خوشبو بھی تحریر ہے اور وہ نقوش بھی جو کسی کے کھوجانے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ذہن کی مملکت میں کئی وادیاں ہیں دماغ کا اعصابی کیمیا بے حد مصروف رہتا ہے۔
دماغ کے یہ سرکٹ نہایت حیرت انگیز ہیں، کسی بھی انسانی ایجاد سے زیادہ پیچیدہ اور دل کش لیکن اس قدر پیچیدہ کیمیا کے باوجود بہ ظاہر اس مشین کی کار گزاری محض ان 10/14 بٹس رابطوں کی بہ دولت ہوتی ہے جو شعورکا نفیس جال بنتے ہیں، انسانی ذہن کی معلومات کو اگر بٹس کی صورت میں لکھیں تو یہ تعداد نیورونز کے درمیان روابط کی تعداد جتنی ہوگی یعنی 10/14 بٹس ۔ اگر ہم ان معلومات کو انگریزی میں لکھنا چاہیں تو اس سے 20 لاکھ کتابیں بھر جائیںگی یعنی اتنی کتابیں جتنی دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے میں ہوںگی۔ 20 لاکھ کتابوں کے برابر معلومات مواد انسانی دماغ میں موجود ہے۔ دماغ در اصل ایک بہت بڑی جگہ ہے۔
انسان جتنا اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی حیرتوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے جاپان میں انسٹیٹیوٹ آف فزیکل اینڈ کیمیکل ریسرچ میں انتہائی حساس اور جدید ترین الیکٹرونک آلات کی مدد سے انسانی دماغ کی گہرائیوں کا سراغ لگایا جارہاہے۔
ماہرین یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں دماغ کس طرح تشکیل پاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت کو کس طرح ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے۔ نیز پیدائش سے پہلے دماغی امراض کا کس طرح علاج کیا جاسکتا ہے۔ در اصل شکم مادر میں جب بچہ بننا شروع ہوجاتا ہے اس سے قبل اس کی صورت ایک کھوکھلے بال کی سی ہوتی ہے جو خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ان خلیوں کو ماہرین کوئی نام دینے سے قاصر ہیں پھر اس کا بال کا ایک حصہ اندرکی طرف مڑنے لگتا ہے اس تبدیلی کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندرونی تہہ کے بالائی حصے کے خلیے اعصابی خلیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اعصابی نظام تشکیل پانے لگتا ہے۔
ابتدا میں ان خلیوں کی شکل ایک ہموار سطح کی سی ہوتی ہے لیکن پھر یہ مسلسل تقسیم ہونے لگتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی تعداد بڑھنے لگتے ہیں حتیٰ کہ یہ ایک ٹیوب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں یہ ٹیوب نشوونما پاکر ریڑھ کی ہڈی بن جاتا ہے پھر ریڑھ کی ہڈی کا بالائی حصہ سوجنے لگتا ہے اور ایک ماہ بعد یہ گیند نما ابھار اس بچے کا دماغ بن جاتا ہے، جسے ابھی پانچ ماہ بعد دنیا میں جنم لینا ہے۔
(جاری ہے)
انسانی علوم کے مطابق تمام علوم میں سب سے پیچیدہ علم اگر کوئی ہے تو وہ انسانی دماغ کا علم ہے، دنیا بھر میں ماہرین اس کی کارکردگی اور مختلف احساسات کے دوران اس کے رد عمل کو جاننے کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں، ہمارے جسم کا یہ اہم حصہ ہماری پیدائش کے بعد سے مسلسل محنت میں مشغول ہوجاتا ہے اور جسم کے باقی تمام اعضا کی دیکھ بھال اور انھیں ہدایت دینے میں ساری زندگی بتا دیتا ہے۔
اس وقت دماغ پر کی جانے والی تحقیق کے لیے اس وقت مختلف تجربہ گاہیں قابل قدر کام کر رہی ہیں ان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق انسانی دماغ پر شکم مادر ہی سے اثرات پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، لہٰذا جو خواتین امید سے ہوتی ہیں ان کی سوچ اور طرز زندگی کے دنیا میں آنے والے بچے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر وہ مثبت سوچ رکھیں اور مصائب و آلام کو ہنسی خوشی جھیلیں تو ان کی اولاد بھی نڈر اور بہادر ہوگی جو خواتین اس دوران فی الحال جاپان کی مشہور یونیورسٹیاں پیدائشی ذہنی معذور بچوں کی شکم مادر ہی میں شناخت اور ان کے علاج کی جستجو میں مصروف ہیں۔
در اصل ہم انسان تقریباً پانچ ارب بٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہماری ڈی این اے کی دہری چکردار شکل میں معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہیں اور یہ انتہائی اہم معلومات بڑی آسان، بے حد جامع اور غیر معمولی حد تک کارگر ہوتی ہیں، اگر ان کے متعلق تمام معلومات کو لکھا جائے تو ہزاروں جلدوں پر مشتمل ایک کتب خانہ بن جائے گا، ہمارے کھربوں خلیوں میں ایک مکمل کتب خانہ موجود ہوتا ہے جس میں جسم کے ہر حصے کو تخلیق کرنے اور اس کی نشوونما کرنے کی معلومات ہوتی ہے، ہمارے جسم کا ہر خلیہ دوسرے خاص خلیے سے وجود میں آتا ہے جو حقیقتاً ہمارے والدین سے منتقل ہونے والے بیضہ حیات ہوتا ہے۔
آسان الفاظ میں جو خلیہ ہماری پیدائش کا ذمے دار ہوتا ہے، وہی مسلسل تقسیم ہوکر جسم کے ہر خلیے کو پیدا کرتا ہے جتنی مرتبہ یہ موروثی خلیہ تقسیم ہوکر ایک نیا خلیہ بنتا اتنی ہی اولین تخلیقی معلومات دوسرے خلیے میں منتقل ہوجاتی ہیں، لہٰذا آپ کے جگر کے خلیوں میں بھی آپ کی ہڈیوں کی نشوونما کی معلومات محفوظ ہیں مگر وہ کبھی استعمال نہیں ہوںگی یہی کچھ ہڈیوں کے خلیوں کے ساتھ ہوتا ہے آپ کے جینی کتب خانے میں وہ تمام معلومات ذخیرہ ہیں جن سے آپ کا کبھی کسی وقت بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔ یہ قدیم معلومات بہت بھرپور اور محتاط انداز میں آپ کے اندر موجود ہیں۔ مثلاً کس طرح ہنسنا ہے، کس طرح چھینکنا، کس طرح چلنا ہے، کس طرح رنگوں کو پہچاننا ہے، کس طرح نسل بڑھانی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہ تمام ہدایات کیمیائی زبان میں پیش کی جائیں اور صرف ایک سیب میں موجود شکر کو ہضم کرنے کی تفصیلات ظاہر کی جائیں تو وہ کئی صفحات پر مشتمل ایک طویل کیمیائی عمل ہوگا۔جس میں درجنوں پیچیدہ کیمیائی مساواتیں درج ہوںگی۔ فرض کیجیے کہ ماحول اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ آپ کی جینی کتاب جو اس سے قبل بڑی کار آمد تھی اب آپ کے لیے ناکافی ہوگئی ہے۔ اس موقع پر ہزاروں جلدوں والا جینی کتب خانہ بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرسکے گا، اس لیے تو ہمارے پاس دماغ ہے۔
دماغ کی زبان ڈی این اے کی زبان نہیں بلکہ کچھ ہمیں دماغ کے متعلق معلوم ہے وہ ان خلیوں میں محفوظ ہوتا ہے جنھیں عصبانیے (نیورونز) کہا جاتا ہے یہ نیورونز خرد بینی برقی کیمیائی (مائیکرو اسکوپک الیکٹروکیمکل) بٹن ہیں جو ایک ملی میٹر کے بھی چند سوویں حصے کے برابر ہوتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کے دماغ میں تقریباً دس کھرب نیورونز ہوتے ہیں یعنی ہماری دودھیاں کہکشاں میں ستاروں کے برابر کئی نیورونز اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہزاروں رابطے Connection رکھتے ہیں ہمارے دماغ میں خیالات کی برقی کیمیائی چنگاریاں ہمہ وقت ادھر سے ادھر سفر کرتی رہتی ہیں۔
اگر ہم دماغ کے اندر جاکر اس کا نظارہ کریں تو ہمیں ہر جانب بجلیاں سی چمکتی ہوئی دکھائی دیںگی۔ یہ ہمارے خیالات کے کوندے ہیں جو ہر وقت لپکتے رہتے ہیں نیند میں بھی دماغ انسانی کوبارمیں مشغول رہتا ہے پھڑکتا ہے، پھیلتا ہے، سکڑتا ہے اور روشن رہتا ہے، گویا خواب دیکھتا ہے، حافظے کو آواز دیتا ہے اور معاملات پر غوروفکر کرتا ہے، ہمارے تصوراتی خاکے اور خیالات ٹھوس حقیقت کے مختلف روپ ہیں۔
ہماری ایک فکر سیکڑوں برقی کیمیائی تجربات سے عبارت ہوتی ہے، اگر ہم نیورونز جتنے ہوسکتے تو بڑے پیچیدہ مفصل اور عارضی نقوش کو دیکھ سکتے۔ یہ ہمارا حافظہ ہے یہاں گلاب کی خوشبو بھی تحریر ہے اور وہ نقوش بھی جو کسی کے کھوجانے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ذہن کی مملکت میں کئی وادیاں ہیں دماغ کا اعصابی کیمیا بے حد مصروف رہتا ہے۔
دماغ کے یہ سرکٹ نہایت حیرت انگیز ہیں، کسی بھی انسانی ایجاد سے زیادہ پیچیدہ اور دل کش لیکن اس قدر پیچیدہ کیمیا کے باوجود بہ ظاہر اس مشین کی کار گزاری محض ان 10/14 بٹس رابطوں کی بہ دولت ہوتی ہے جو شعورکا نفیس جال بنتے ہیں، انسانی ذہن کی معلومات کو اگر بٹس کی صورت میں لکھیں تو یہ تعداد نیورونز کے درمیان روابط کی تعداد جتنی ہوگی یعنی 10/14 بٹس ۔ اگر ہم ان معلومات کو انگریزی میں لکھنا چاہیں تو اس سے 20 لاکھ کتابیں بھر جائیںگی یعنی اتنی کتابیں جتنی دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے میں ہوںگی۔ 20 لاکھ کتابوں کے برابر معلومات مواد انسانی دماغ میں موجود ہے۔ دماغ در اصل ایک بہت بڑی جگہ ہے۔
انسان جتنا اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی حیرتوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے جاپان میں انسٹیٹیوٹ آف فزیکل اینڈ کیمیکل ریسرچ میں انتہائی حساس اور جدید ترین الیکٹرونک آلات کی مدد سے انسانی دماغ کی گہرائیوں کا سراغ لگایا جارہاہے۔
ماہرین یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں دماغ کس طرح تشکیل پاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت کو کس طرح ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے۔ نیز پیدائش سے پہلے دماغی امراض کا کس طرح علاج کیا جاسکتا ہے۔ در اصل شکم مادر میں جب بچہ بننا شروع ہوجاتا ہے اس سے قبل اس کی صورت ایک کھوکھلے بال کی سی ہوتی ہے جو خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ان خلیوں کو ماہرین کوئی نام دینے سے قاصر ہیں پھر اس کا بال کا ایک حصہ اندرکی طرف مڑنے لگتا ہے اس تبدیلی کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندرونی تہہ کے بالائی حصے کے خلیے اعصابی خلیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اعصابی نظام تشکیل پانے لگتا ہے۔
ابتدا میں ان خلیوں کی شکل ایک ہموار سطح کی سی ہوتی ہے لیکن پھر یہ مسلسل تقسیم ہونے لگتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی تعداد بڑھنے لگتے ہیں حتیٰ کہ یہ ایک ٹیوب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں یہ ٹیوب نشوونما پاکر ریڑھ کی ہڈی بن جاتا ہے پھر ریڑھ کی ہڈی کا بالائی حصہ سوجنے لگتا ہے اور ایک ماہ بعد یہ گیند نما ابھار اس بچے کا دماغ بن جاتا ہے، جسے ابھی پانچ ماہ بعد دنیا میں جنم لینا ہے۔
(جاری ہے)