کیا آپ نے بھی قاتل کی بات کا یقین کرلیا
قاتل کے کہے گئے جھوٹ پر ایک ریٹائرڈ جرنیل اگر بولے گا تو کیا یہ پاکستان کی توہین نہیں ہوگی؟
اِس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستانی قوم مان رکھنے والی قوم ہے، لیکن بعض اوقات قوموں سے بھی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور ایسی ہی غلطی پاکستانی قوم سے بھی ہوگئی۔ پاکستان کی پہلی دفاعی لائن کی ذمہ داری سنبھالنے والے احمد شجاع پاشا کو ایک ایسے کرائے کے قاتل کے سامنے لا کھڑا کردیا کہ جس کو تنخواہ ہی جھوٹ بولنے اور لوٹ مار کرنے کی ملتی رہی ہو، اور جو آج ایک مصنف بن کر پاکستان کی معتبر ترین شخصیات میں سے ایک پر کیچڑ اچھال رہا ہے، لیکن ہمارا کمال دیکھیے کہ ہم بھی اِس پروفیشنل جھوٹے شخص کی باتوں کی وجہ سے ایک ایسے شخص سے جواب طلب کرنے لگ گئے، جس نے نہ جانے کتنے پوشیدہ ناسوروں سے پاکستان کی جان چھڑائی۔
جس ادارے کی کمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے پاس رہی وہ ویسے بھی ہر وقت پاکستان کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے ہی گمنام شہداء ایسے ہیں جنہوں نے ملکی سلامتی کی حفاظت کی خاطر اپنی جان تک قربان کردی لیکن ہم اُن کی قربانیوں کو جان بھی نہ سکے۔
سیکنڈ لیفٹینینٹ سے جنرل کے عہدے تک پہنچے والا پاکستانی آج کل اُن لوگوں کی زبان کا قصہ بھی بن چکا ہے جو گزرے کل تک اُس کا نام لیتے ہوئے بھی سو بار سوچتے تھے۔ اور مقابل بھی کون ایک قاتل، ایک کرائے کا قاتل جس کا کام ہی جھوٹ، فریب، دغا دینا ہے، کیوںکہ ایسا کرنے کے لیے اس کو خوب پیسے ملتے ہیں، اور حیرانی اُن افلاطونوں پر ہوتی ہے جو یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ کانٹریکٹر یعنی ٹھیکیدار ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ بھی اپنی کتاب میں لکھا وہ سب اُس کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس سی آئی اے کے لیے وہ کرائے کا قاتل بنا رہا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ اُس کرائے کے قاتل کو اب اتنی آزادی مل گئی ہو کہ وہ اپنی مرضی سے کتابیں لکھنا شروع کردے، اور وہ بھی ایسے حساس معاملے پر کہ جس کی وجہ سے دو ملکوں کے تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
اگر دو پاکستانی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے تو کیا ہمیں علم ہوسکتا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کون ہے اور پاکستان میں کیا کررہا ہے؟ یعنی کہ جب اُس نے قانون ہاتھ میں لیا تو ہمارے سیکیورٹی ادارے ریمنڈ ڈیوس کا سارا ریکارڈ منظرِ عام پر لے آئے۔ اب ایسی صورت میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ سی آئی اے اور اُس کے ملازم کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کیسے قبول ہوسکتے ہیں؟ یہی وہ معاملہ تھا جس کے بعد امریکا کو یہ تک بتانا پڑگیا کہ پاکستان میں اُس کے چھپے ہوئے کارندوں کی تعداد کتنی ہے؟ صرف یہی نہیں بلکہ خصوصی ویزوں کا معاملہ سامنے آیا۔
اگرچہ ریمنڈ ڈیوس بظاہر اب کانٹریکٹر کے روپ میں نہیں ہے لیکن یقینی طور پر اُس کا کردار تبدیل ہوچکا ہے اور پاکستانی تاریخ کے چند اہم ترین افراد میں سے ایک کی ذات کے بخیے ادھیڑنے کا کام اُسے دے دیا گیا ہے۔ حیرت دیکھیے کہ اُس وقت کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، اعلیٰ عدلیہ، دیت کے معاملات ترتیب دینے والے اور دیت کی رقم فراہم کرنے والے سب یکسر طور پر منظر سے غائب ہوگئے اور احمد شجاع پاشا کا نام سب کو ازبر ہوگیا۔
معاملہ یہ ہے کہ اگر اُس وقت میاں شہباز شریف ڈٹ جاتے کہ میرے صوبے میں واقعہ ہوا ہے میں کسی صورت قاتل کو نہیں چھوڑوں گا۔ آصف علی زرداری جو زیرک صدر تھے، وزیر اعظم گیلانی جو اپنا ثانی نہیں رکھتے اگر اپنے موقف پر مضبوط قائم رہتے کہ چاہے کچھ ہوجائے ریمںڈ ڈیوس کے ساتھ انصاف ہوگا، تو آپ خود بتائیے کہ ایسی صورت میں جنرل پاشا کیا کرسکتے تھے؟ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو قانونی تقاضے پورے کرنے کا تمام بندوبست سیاسی حکومت نے کیا تو قصور صرف جنرل پاشا کا ہی کیوں نظر آرہا ہے؟
یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی حکومت نے اپنا دامن چھڑانے کا رونا رویا جس کو تکمیل تک پاشا صاحب نے پہنچا دیا لیکن وفاقی اور پنجاب حکومت کی مکمل رضامندی سے ہونے والی اِس رہائی کا سارا ملبہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ کم از کم میری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہے۔ سینئر کالم نگار محترم ہارون رشید صاحب نے اپنے کالم میں لکھا کہ اِس ساری صورتحال پر اب جنرل پاشا کو بولنا چاہیئے، میں ہارون رشید کی بات کی مکمل حمایت کرتا ہوں لیکن قاتل کے کہے گئے جھوٹ پر ایک ریٹائرڈ جرنیل اگر بولے گا تو کیا یہ پاکستان کی توہین نہیں ہوگی؟ اُصولی طور پر تو دفتر خارجہ کو اِس جھوٹ کے حوالے سے سچ بولنا چاہیئے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے لیے تو لفظ 'کرائے کا قاتل' بھی مہذب سا لگتا ہے، اُسے تو 'بھاڑے کا ٹٹو' کہنا چاہیئے۔ اگر ہم سی آئی اے ایجنٹ کے لیے لفظ بھاڑے کا ٹٹو استعمال کریں تو شاید یہ قوم لیفٹینینٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا اور ریمنڈ ڈیوس میں فرق کر پائے۔ شاید ہم پاشا صاحب کی ذات پر بحث کے بجائے زیادہ وقت اِس بحث پر لگائیں کہ حقانی جیسوں کو اہم ملکوں میں سفیر کون لگاتا ہے؟ جو پاکستان میں کرائے کے فلیٹس میں رہتے ہیں اور پھر اپنا کام دکھا کر یہاں سے اُڑ جاتے ہیں۔ جب ہم اِن معاملات پر بات کریں گے تب ہی شاید ہم جان پائیں گے کہ بھاڑے کے ٹٹو کا کام ہی اپنے مالک کی بات ماننا ہوتا ہے۔ بھاڑے کے ٹٹو (ریمنڈ ڈیوس) نے اپنے مالک (سی آئی اے) کی مانی اور جب مالک نے اشارہ کیا تو اُس نے بھاڑا لے کر وار کردیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جس ادارے کی کمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے پاس رہی وہ ویسے بھی ہر وقت پاکستان کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے ہی گمنام شہداء ایسے ہیں جنہوں نے ملکی سلامتی کی حفاظت کی خاطر اپنی جان تک قربان کردی لیکن ہم اُن کی قربانیوں کو جان بھی نہ سکے۔
سیکنڈ لیفٹینینٹ سے جنرل کے عہدے تک پہنچے والا پاکستانی آج کل اُن لوگوں کی زبان کا قصہ بھی بن چکا ہے جو گزرے کل تک اُس کا نام لیتے ہوئے بھی سو بار سوچتے تھے۔ اور مقابل بھی کون ایک قاتل، ایک کرائے کا قاتل جس کا کام ہی جھوٹ، فریب، دغا دینا ہے، کیوںکہ ایسا کرنے کے لیے اس کو خوب پیسے ملتے ہیں، اور حیرانی اُن افلاطونوں پر ہوتی ہے جو یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ کانٹریکٹر یعنی ٹھیکیدار ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ بھی اپنی کتاب میں لکھا وہ سب اُس کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس سی آئی اے کے لیے وہ کرائے کا قاتل بنا رہا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ اُس کرائے کے قاتل کو اب اتنی آزادی مل گئی ہو کہ وہ اپنی مرضی سے کتابیں لکھنا شروع کردے، اور وہ بھی ایسے حساس معاملے پر کہ جس کی وجہ سے دو ملکوں کے تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
اگر دو پاکستانی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے تو کیا ہمیں علم ہوسکتا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کون ہے اور پاکستان میں کیا کررہا ہے؟ یعنی کہ جب اُس نے قانون ہاتھ میں لیا تو ہمارے سیکیورٹی ادارے ریمنڈ ڈیوس کا سارا ریکارڈ منظرِ عام پر لے آئے۔ اب ایسی صورت میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ سی آئی اے اور اُس کے ملازم کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کیسے قبول ہوسکتے ہیں؟ یہی وہ معاملہ تھا جس کے بعد امریکا کو یہ تک بتانا پڑگیا کہ پاکستان میں اُس کے چھپے ہوئے کارندوں کی تعداد کتنی ہے؟ صرف یہی نہیں بلکہ خصوصی ویزوں کا معاملہ سامنے آیا۔
اگرچہ ریمنڈ ڈیوس بظاہر اب کانٹریکٹر کے روپ میں نہیں ہے لیکن یقینی طور پر اُس کا کردار تبدیل ہوچکا ہے اور پاکستانی تاریخ کے چند اہم ترین افراد میں سے ایک کی ذات کے بخیے ادھیڑنے کا کام اُسے دے دیا گیا ہے۔ حیرت دیکھیے کہ اُس وقت کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، اعلیٰ عدلیہ، دیت کے معاملات ترتیب دینے والے اور دیت کی رقم فراہم کرنے والے سب یکسر طور پر منظر سے غائب ہوگئے اور احمد شجاع پاشا کا نام سب کو ازبر ہوگیا۔
معاملہ یہ ہے کہ اگر اُس وقت میاں شہباز شریف ڈٹ جاتے کہ میرے صوبے میں واقعہ ہوا ہے میں کسی صورت قاتل کو نہیں چھوڑوں گا۔ آصف علی زرداری جو زیرک صدر تھے، وزیر اعظم گیلانی جو اپنا ثانی نہیں رکھتے اگر اپنے موقف پر مضبوط قائم رہتے کہ چاہے کچھ ہوجائے ریمںڈ ڈیوس کے ساتھ انصاف ہوگا، تو آپ خود بتائیے کہ ایسی صورت میں جنرل پاشا کیا کرسکتے تھے؟ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو قانونی تقاضے پورے کرنے کا تمام بندوبست سیاسی حکومت نے کیا تو قصور صرف جنرل پاشا کا ہی کیوں نظر آرہا ہے؟
یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی حکومت نے اپنا دامن چھڑانے کا رونا رویا جس کو تکمیل تک پاشا صاحب نے پہنچا دیا لیکن وفاقی اور پنجاب حکومت کی مکمل رضامندی سے ہونے والی اِس رہائی کا سارا ملبہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ کم از کم میری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہے۔ سینئر کالم نگار محترم ہارون رشید صاحب نے اپنے کالم میں لکھا کہ اِس ساری صورتحال پر اب جنرل پاشا کو بولنا چاہیئے، میں ہارون رشید کی بات کی مکمل حمایت کرتا ہوں لیکن قاتل کے کہے گئے جھوٹ پر ایک ریٹائرڈ جرنیل اگر بولے گا تو کیا یہ پاکستان کی توہین نہیں ہوگی؟ اُصولی طور پر تو دفتر خارجہ کو اِس جھوٹ کے حوالے سے سچ بولنا چاہیئے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے لیے تو لفظ 'کرائے کا قاتل' بھی مہذب سا لگتا ہے، اُسے تو 'بھاڑے کا ٹٹو' کہنا چاہیئے۔ اگر ہم سی آئی اے ایجنٹ کے لیے لفظ بھاڑے کا ٹٹو استعمال کریں تو شاید یہ قوم لیفٹینینٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا اور ریمنڈ ڈیوس میں فرق کر پائے۔ شاید ہم پاشا صاحب کی ذات پر بحث کے بجائے زیادہ وقت اِس بحث پر لگائیں کہ حقانی جیسوں کو اہم ملکوں میں سفیر کون لگاتا ہے؟ جو پاکستان میں کرائے کے فلیٹس میں رہتے ہیں اور پھر اپنا کام دکھا کر یہاں سے اُڑ جاتے ہیں۔ جب ہم اِن معاملات پر بات کریں گے تب ہی شاید ہم جان پائیں گے کہ بھاڑے کے ٹٹو کا کام ہی اپنے مالک کی بات ماننا ہوتا ہے۔ بھاڑے کے ٹٹو (ریمنڈ ڈیوس) نے اپنے مالک (سی آئی اے) کی مانی اور جب مالک نے اشارہ کیا تو اُس نے بھاڑا لے کر وار کردیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس بھی۔