اختلافات کی ہوا سے بکھرتی وفاداریاں

سکھر میں جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ فنکشنل ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے الیکشن مہم کا آغاز کردیا ہے

جے یو آئی (ف) کے خالد محمود مقامی سیاسی منظر نامے میں خاصا فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ فوٹو فائل

اقتدار کا موسم گزرنے کو ہے اور نگراں سیٹ اپ سے ایک ماہ قبل سیاسی پت جھڑ اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔

طویل عرصے سے سیاسی جماعتوں میں خدمات انجام دینے والے راہ نما اپنے قائدین اور ذمہ داران سے اختلافات کی بنا پر وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں تاکہ عام انتخابات میں ٹکٹ کا حصول آسان سے آسان تر ہوسکے۔ موجودہ جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے چند ہفتے قبل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اتحاد کے قیام کے لیے بھی کوششیں تیزی سے جاری ہیں تاکہ پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں ٹف ٹائم دیا جاسکے۔ کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات، ٹارگیٹ کلنگ، دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر 5 سال تک سیاسی میدان میں ہم پیالہ و ہم نوالہ رہنے والی متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت کے درمیان بہ ظاہر دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ چند روز میں متحدہ قومی موومنٹ مطالبات پورے نہ ہونے پر اتحاد سے الگ ہوکر اپوزیشن کاکردار ادا کرے گی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین و صدر مملکت آصف علی زرداری و دیگر اکابرین کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کے ذریعے معاملات سلجھنے کی بھی توقع ہے۔ مگر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ایک پالیسی کے تحت متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ نگراں سیٹ اپ میں اپنے کارکنوں کو حکومت میں لایا جاسکے۔

اس وقت تمام سیاسی جماعتیں فعال و متحرک نظر آرہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ فنکشنل ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے الیکشن مہم کا آغاز کردیا ہے اور تمام جماعتیں سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ ، گھوٹکی، شکارپور، خیرپور و دیگر اضلاع اور شہروں میں اپنے امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دے رہی ہیں تاکہ کسی بھی اتحاد کی صورت میں اپنے اتحادیوں کو اس پر راضی کیا جاسکے۔ گذشتہ روز جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی راہ نما سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے، عبدالقیوم ہالیجوی، محمد اسلم غوری، مفتی سعود افضل ہالیجوی کے ساتھ مدرسہ منزل گاہ میں منعقدہ صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے حکم رانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے تمام مخالف پارٹیوں سے اتحاد کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جے یو آئی نے فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا، ن لیگ کے صوبائی صدر سید غوث علی شاہ، قوم پرست راہ نمائوں ڈاکٹر قادر مگسی، سید جلال محمود شاہ، رسول بخش پلیجو اور جماعت اسلامی سے سندھ کی سطح تک انتخابی اتحاد کے لیے مذاکرات کیے ہیں اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو سمیت دیگر قائدین سے جلد ملاقات کرکے انتخابی اتحاد کو آخری شکل دی جائے گی۔

جے یو آئی اور مسلم لیگ فنکشنل نے ضلع سکھر سے اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کی حتمی فہرست مرکزی قیادت کو ارسال کردی ہے اور بہت جلد اس بارے میں باضابطہ طور پر اعلان متوقع ہے۔


مہر گروپ سے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق ضلع ناظم سکھر سید ناصر حسین شاہ اور سابق تعلقہ ناظم روہڑی اسلم شیخ نے گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے مقامی راہ نمائوں کی جانب سے ریس کورس روڈ پر منعقدہ تقریب میں شرکت کی اور اپنی پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔ سید ناصر حسین شاہ سمیت مہر گروپ کے دیگر نمایندوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پارٹی میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے راہ نمائوں میں ٹکٹ کے حصول کے ضمن میں مایوسی نظر آتی ہے۔ مہر گروپ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ہونے والے معاہدے میں اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سابق ضلع ناظم سید ناصر حسین شاہ پی ایس 2 سکھر، روہڑی سے امیدوار ہوںگے، جب کہ وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ این اے 199اور پی ایس 4 پنوعاقل سے انتخابات میں حصہ لیںگے اور دونوں سیٹوں پر کام یابی کی صورت میں جو سیٹ وہ خالی کریںگے، اس پر سابق تعلقہ ناظم روہڑی محمد اسلم شیخ امیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے ذرایع نے بتایا کہ پی ایس 1سکھر سے سینیٹر اسلام الدین شیخ کے فرزند و رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کو ٹکٹ ملنے کی توقع ہے تاکہ متحدہ قومی موومنٹ کے نام زد امیدوار کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔

پیپلزپارٹی کی ڈویژنل قیادت این اے 198اور پی ایس 3 پر امیدوار کی نام زدگی پر تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ تاہم ابتدائی فہرست صوبائی قیادت کو ارسال کردی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیئر راہ نمائوں کا خیال ہے کہ پی ایس 2 سے دو مرتبہ کام یاب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی حاجی انور خان مہر کو تیسری مرتبہ بھی چانس دیا جائے، مگر بہت سے کارکن اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنے خیالات مرکزی قیادت تک بھی پہنچا دیے ہیں کہ اب متحرک نوجوانوں کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ پی ایس 1 اور 2 پر پیپلزپارٹی کی جانب سے متبادل امیدوار کے طور پر ڈاکٹر ارشد مغل، مشتاق سرہیو، اویس قادر شاہ کے نام زیر غور ہیں۔ تاہم صوبائی قیادت اور ان کے اتحادیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر ہی عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی نام زدگی کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی اور مہر گروپ کے درمیان معاہدے اور الحاق کے بعد پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے اور بعض راہ نمائوں نے تو ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں پارٹی سے کنارہ کشی یا دوسری کشتی میں سوار ہونے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

پنو عاقل کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر حاجی خان چاچڑ کے پارٹی قائدین سے اختلافات کے بعد مشیر کے عہدے سے مستعفی ہونے اور کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ حاجی خان چاچڑ کو منانے کے لیے وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ انتہائی متحرک نظر آتے ہیں۔ اگر حاجی خان چاچڑ اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو پیپلزپارٹی کو پنو عاقل سے سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ایک عرصے سے سکھر اورآس پاس کے علاقوں میں فعال کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ فنکشنل تمام سیاسی راہ نماؤں کے دَر پر دستک دے رہی ہے جو اپنے قائدین یا ذمہ داران سے اختلافات رکھتے ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کے صوبائی راہ نما و وفاقی وزیر غوث بخش خان مہر، ان کے صاحب زادے رکن صوبائی اسمبلی شہریار خان مہر، سابق ضلع ناظم شکارپور عارف خان مہر و دیگر ذمے داران کی فنکشنل لیگ میں شمولیت کے بعد پارٹی کو سکھر و لاڑکانہ ڈویژن میں خاصی تقویت ملی ہے۔ غوث بخش خان مہر کے صاحب زادے شہریار خان مہر عام انتخابات میں سکھر کے کسی حلقے سے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ اگر فنکشنل لیگ کے پلیٹ فارم سے مہر خاندان کے کسی فرزند نے حصہ لیا تو ضلع سکھر میں پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزر رہا ہے سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ناراض اراکین کو منانے اور جوڑ توڑ میں سرگرم نظر آ رہی ہیں۔
Load Next Story