حاجی کھمّوں اینڈ سنز

ایک روز میں اکیلا بیٹھا ان لوگوں کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ خیر محمد نے گلی سے گذرتے ہوئے مجھے دیکھ لیا

ISLAMABAD/KARACHI:
سندھ کے سابق وزیراعظم ( قیام پاکستان سے قبل صوبے کا چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کہلاتا تھا) میر بندہ علی خان تالپور، جب اپنے آبائی شہر ٹنڈو غلام علی میں ہوتے تو ان کا جو ملازم سائے کی طرح ہر وقت ان کے ساتھ پایا جاتا وہ حاجی کھموں قمبرانی تھا۔ کوئی نصف صدی قبل ساٹھ کے پیٹے میں رہا ہوگا، میر صاحب کے وفادار اور بااعتماد ملازموں میں شمار ہوتا تھا۔

ہائی اسکول کی طرف سے شہر میں داخل ہوں تو علی محمد شاہ کے اوتارے کے عقب میں پہلا گھر اسی کا پڑتا تھا جس کے بیرونی دروازے کی محراب کے اوپر سفید سنگ مرمرکی بڑی سائز کی تختی پرجلی حروف میں کندہ ہوتا تھا ' حاجی کھموں قمبرانی، ملازم میر بندہ علی خان تالپور۔' تنخواہ تو سستے وقتوں کی طے شدہ 30 روپے ماہانہ پاتا تھا، لیکن اس زمانے کے، میروں کی حویلیوں کو چھوڑ کر، شہر کے اچھے اور کشادہ گھروں میں سے ایک میں اپنی دو بیویوں اور بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ چھوٹا سہی، پر زمیندار بھی تھا۔ خاموش طبع شریف آدمی تھا،کبھی ننگے سر نہیں دیکھا گیا، پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن انگریزی فرفر بولتا تھا کہ میر صاحب کے ذاتی ملازم کی حیثیت سے یورپ میں بہت رہا تھا۔

میر صاحب کے ڈرائیور دادن کے بقول ایک بار میر صاحب نے کوئی ضروری فائل اس کے ہاتھ کراچی اپنے وکیل اے کے بروہی کو بھجوائی تھی، تب اس نے حاجی کھموں کو ان کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کرتے دیکھا تھا۔ میں نے قدموں میں بیٹھنے کا محاورہ تو سن رکھا تھا لیکن عملی طور پر ایسا کرتے حاجی کھموں کو دیکھا جو میر صاحب کے اپنے بنگلے میں لوگوں سے ملنے کے وقت عموماً ان کے قدموں میں بیٹھا پاؤں کی انگلیاں سہلا رہا ہوتا تھا۔ میر صاحب اسے ایسا کرنے کو نہیں کہتے تھے لیکن منع بھی نہیں کرتے تھے، کرتے بھی تو شاید یہ باز نہ آتا۔ شہر میں بہت کم دکھائی دیتا، میں نے کبھی اسے کسی سے الجھتے یا لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔ پولیس تھانے اور قاضی قادر بخش میمن کے گھر کے درمیان بائیں طرف گلی میں اس کے بھائی کا گھر تھا جس کا ایک بیٹا گونگا تھا اور کبھی ابا کے پاس دکان پر کام کرتا تھا، میں نے زمانہ طالبعلمی میں حاجی کھموں کو کئی بار وہاں آتے جاتے دیکھا تھا۔ مجھے یاد ہے جب سامنے آتا دیکھ کر میں اسے سلام کرتا تو مسکرا کر جواب دیتا اور سر پر ہاتھ پھیرتا۔ میں نے کیا کسی نے بھی اسے کبھی میر صاحب سے قربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے یا اتراتے نہیں دیکھا۔ البتہ ان کے دو بڑے بیٹوں غلام محمد اور خیر محمد نے باپ کی اس پوزیشن کو خوب کیش کرایا۔

غلام محمد جسے سانس کی تکلیف بھی تھی اور جو بعد میں مولانا سلیمان طاہر کی صحبت کے زیر اثر خاصا دیندار بن کر ایک مذہبی جماعت سے وابستہ ہو گیا تھا، جوانی میں علاقے کا بدنام ترین جرائم پیشہ رہا تھا۔ تقسیم سے قبل شہرکی آدھی سے زیادہ آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی جو تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے خوشحال بھی تھے۔ پرانے وقتوں کے لوگ بتاتے تھے کہ غلام محمد نے، جس کا کام ہی نقب لگانا اور ڈاکے ڈالنا تھا، ان کا جینا دوبھرکر رکھا تھا۔ اول توکوئی اس کے خلاف پولیس کی مدد لینے کی جرات نہیں کرتا تھا، لیکن اگر وہ بیچ میں آتی بھی تھی تو اس کا حاجی کھموں کا بیٹا ہونا اور حاجی کھموں کی میر صاحب سے قربت اسے پیچھے ہٹنے پر مجبورکردیتی تھی۔


ہندو سیٹھوں نے اس کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھانے کے بعد بالآخر اس مسئلے کا حل نکال ہی لیا۔ ان کو کسی نے بتایا تھا کہ شریف خون کو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا جرائم پیشہ کیوں نہ بن جائے، صرف شرافت کی مار سے مارا جاسکتا ہے، سو انھوں نے غلام محمد کے شر سے محفوظ رہنے کا یہ طریقہ نکالا کہ جب شہر سے باہر فیملی کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے جانا ہوتا تو بھرے پڑے گھرکی چابیاں اس کے حوالے کر جاتے۔ یہ نسخہ ایسا کارگر ثابت ہوا کہ چابیوں کا گچھا ہاتھ میں آتے ہی یہ ساری چوکڑیاں بھول جاتا اورگھر خالی پاکرکام دکھانے کے بجائے مالکان کے لوٹنے تک راتوں کو جاگ کر اس کی چوکیداری کرتا، مجال ہے ایک تنکا بھی ادھر سے اْدھر ہوجائے۔

میرے ایک کلاس فیلو دوست قیمت کے ابو جو پولیس میں محرر تھے، ایک بار کسی سے اس حوالے سے بات کررہے تھے، میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا کہ حاجی کھموں کبھی اپنے بیٹے کو چھڑانے تھانے نہیں آیا نہ ہی کبھی میر صاحب نے اس کے لیے پولیس پرکوئی دباؤ ڈالا، وہ اپنے مْوت میں خود ہی پھسلی جاتی تھی اور اس ڈر سے اس پر ہاتھ نہیں ڈالتی تھی کہ کہیں میر صاحب خفا نہ ہو جائیں۔

حاجی کھموں کا دوسرا بیٹا خیر محمد اس سے بھی بڑا نمونہ تھا۔ پرانی ڈسپینسری اور مسافر خانے کے عقب میں میر صاحب کی بنوائی ہوئی دکانوں میں سے ایک میں اس نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا، معمولی پڑھا لکھا تھا لیکن ظاہر یہ کرتا تھا جیسے آکسفورڈ یا کیمبرج کا پڑھا ہوا ہو۔ دفتر میں ہر طرف اس کی فریم شدہ تصویریں آویزاں تھیں اور دیواروں کے ساتھ کوئی درجن بھر کرسیاں رکھی ہوتی تھیں۔ میں پہلے سمجھتا تھا کہ وہ کوئی عرضی نویس ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ دفتر تو دکھاوے کے لیے تھا، اصل میں اس کے پچھلے کمرے میں جوا کھیلا جاتا تھا، خیر محمد نے اس میں بار بھی بنا رکھا تھا، ہر ایرے غیرے کو داخلے کی اجازت نہ تھی، خاص خاص لوگ ہی وہاں بیٹھ کر جوا کھیلتے اور شغل کرتے تھے۔

خیر محمد کا اس میں دہرا فائدہ ہوتا، جوا میں جیتی ہوئی رقم میں سے تو وہ اپنا حصہ لیتا ہی تھا، مفت میں پینے کو بھی مل جاتی، ہر وقت ٹن رہتا اور جیب بھی گرم ہوتی۔ حاجی کھموں کی بیویاں بھی میروں کی حویلیوں میں باندیوں کی حیثیت سے کام کرتی تھیں، تنخواہ تو وہی برائے نام ہوتی تھی لیکن تینوں وقت کا کھانا اتنا لاتی تھیں جو گھر بھر کے لیے کافی ہوتا، یوں ان کے ہاں کھانا پکانے کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی تھی اورگھر کے مرد کھانے کے لیے کمانے کی فکر سے آزاد تھے۔گھرکی باقی ضروریات بھی حاجی کھموں پوری کرتا تھا، بیٹوں سے لا تعلق رہتا تھا، میں نے کبھی اسے دونوں میں سے کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ خیر محمد ویسے تو نماز بھی نہیں پڑھتا تھا لیکن رمضان المبارک میں پابندی سے روزے رکھتا، اپنے دفتر کو تالا ڈال کر سامنے تکونے ہوٹل سے ملحق دھوبی کی دکان پر تسبیح لیے بیٹھا رہتا، مضبوط قوت ارادی کا مالک تھا، پورا مہینہ شراب نہیں پیتا تھا لیکن عید کے دن سے پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے، میں انگریزی پانچویں درجے ( آج کل کی آٹھویں کلاس ) میں پڑھتا تھا، اسکول کی چھٹیاں تھیں، ہم تین چار دوست یوں ہی وقت گذاری کے لیے رئیس میر محمد کی اوطاق میں جمع ہوکرکوٹ پیس کھیلا کرتے تھے۔

ایک روز میں اکیلا بیٹھا ان لوگوں کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ خیر محمد نے گلی سے گذرتے ہوئے مجھے دیکھ لیا، پوچھا کیوں بیٹھے ہو، میں نے کہا یوں ہی لیکن اس کی نظر میرے سامنے پڑی تاش کی گڈی پر پڑگئی، اندر آ گیا اور لگا مجھے لیکچر دینے،کہنے لگا دیکھو تمہارا باپ کتنا اچھا اور شریف آدمی ہے، اتنی محنت مشقت کرکے کماتا اور تمہیں پڑھاتا ہے تاکہ تم اچھی زندگی گذارو،کوئی گھنٹہ بھر مجھے سمجھاتا اور تاش کی نحوست اور لت کے نقصانات گنواتا رہا۔ آج اس کی باتیں یاد کرتا ہوں تو پہلے وقتوں کی اقدارکا خیال آتا ہے کہ برے لوگ بھی دوسروں کو برائی سے بچانے کی کوشش کرتے تھے۔
Load Next Story