اپنی سوچ اپنے فیصلے

فاطمہ جناح سے لے کر بے نظیر بھٹو تک، بہترین تعلیم وتربیت نے ان خواتین کو ممتاز کیا

ffarah.ffarah@gmail.com

وقت وقت کی بات ہے بے نظیر بھٹو ایک نوجوان بہادر خاتون کے روپ میں سامنے آئیں،آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ خاتون، جن کی تمام زندگی سیاسی جدوجہد میں گزری، بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ ان کی زندگی ہم سب کے سامنے ہے، ان کا لباس، ان کی بول چال، گفتگو کا طریقہ گوکہ ان کی تمام زندگی ایک مسلمان عورت حکمراں، سیاستدان، بہادر، سمجھداری کا بہترین نمونہ ہے۔

وہ نہ صرف پاکستان بلکہ انٹرنیشنل لیول کی سیاستدان مانی گئیں۔ جوان بھائیوں کے قتل کے بعد بھی ان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور وہ مسلسل جدوجہد کرتی رہیں، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں 27 دسمبر کو شہید کردی گئیں۔ سیاستدان ہونا بذات خود ایک مشکل کام ہے اور عورت کا سیاستدان ہونا ویسے ہی ہم ایشین کو ہضم نہیں ہوتا۔ سیاستدان کیا عورت کسی بھی شعبے میں جب اپنے آپ کو منوانے لگتی ہے تو سازشوں کا جال بننا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے گھر سے بھی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ تعلیم و تربیت ایسا شعبہ ہے جو پڑھے لکھے گھرانوں میں بچوں کی پیدائش سے شروع ہوجاتا ہے، انڈیا میں کیونکہ موسیقی، ڈانس، گانا، ان کے کلچر کا حصہ ہے اس لیے جو گھرانے اپنے بچوں کو ان شعبوں کی طرف آگے بڑھانا چاہتے ہیں وہ بچپن سے ہی ماحول، رجحان، شوق، لگن، جذبے پیدا کرتے ہیں۔ شروع سے ہی ان کے دل ودماغ میں ان شعبوں کی اہمیت پیدا کی جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے رجحانات ان کے شوق اور ان کی قابلیت رنگ لے آتی ہے۔

انڈیا کی بات اس لیے کر رہی ہوں کہ انڈ و پاک کی تاریخ ہے ماضی ہے، ہم نے مل کر اپنے لیے جدوجہد کی اور پاکستان معرض وجود میں آنے کے باوجود ہم ایک دوسرے سے اپنے کلچر، رکھ رکھاؤ، اپنے بزرگوں اور اپنی جدوجہد سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، گوکہ انگریزوں نے پاک و ہند پر حکومت کی، غلامانہ زندگی بھی دیکھی مگر آزادی کی نعمت حاصل کرکے دم لیا۔

آج 1947 سے 2017 تک کی آزادی، اپنے چہرے بدلتی رہی ہے کبھی تعلیم کے نام پر یا کبھی لبرل ازم کے نام پر کبھی روشن مستقبل کے نام پر۔ مگر یقین جانیے آج بھی اور آیندہ بھی جو مقام تعلیم وتربیت کو حاصل ہے اور حاصل رہے گا اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاک نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کوکہاں پیدا کرنا ہے، مگر یہ شروع کی تعلیم و تربیت اور ماحول کا ہی اثر ہوتا ہے کہ بڑے بڑے نام معرض وجود میں آجاتے ہیں۔ ہاں بہت سے ایسے بھی اللہ پاک کی طرف سے اسپیشل ہوتے ہیں جو بہت ہی اللہ پاک کی طرف سے دی گئی خوبیوں سے مال مال ہوتے ہیں۔ بہرحال تعلیم و تربیت کے بغیر معاشرہ جنگل سے بھی بری شکل اختیارکرلیتا ہے۔


ہمارا تو مذہب اتنا شاندار اور مکمل ہے کہ اگر ہم اسی کو فالوکرلیں تو بہتر انسان اور بہتر زندگی گزارسکتے ہیں، مگر جس ماڈرن دور میں ہم داخل ہوگئے ہیں جس طرح اندھا دھند ہم دوڑے جا رہے ہیں تو کیا ہم سوچ سکتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ اس دور میں بھی بہترین تعلیم و تربیت والے لوگ ہماری سوسائٹی پروڈیوس کرسکے گی جب کہ بہت حد تک گراوٹ بھی ہماری سوسائٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن دنیا کے معاملات اور دنیاوی زندگی برحق ہے جب تک اللہ پاک چاہے پوری دنیا میں اور ہمارے ملک میں خواتین نے تیزی کے ساتھ ترقی کی اور ہر شعبہ میں اپنے آپ کو منوا رہی ہیں۔ خصوصاً ہمارے ملک میں، اسپورٹس سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں نوجوان لڑکیاں اور خواتین آگے نظر آتی ہیں۔

فاطمہ جناح سے لے کر بے نظیر بھٹو تک، بہترین تعلیم وتربیت نے ان خواتین کو ممتاز کیا، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، ملیحہ لودھی، شیریں رحمن، شہلا رضا گوکہ ہر شعبہ مستفید ہے، مگر اس کے باوجود آج بھی ہمارے اس زندہ معاشرے میں جہاں، ماں بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں عورت اپنی ذمے داریاں نبھا رہی ہے بہت ساری مشکلات کے باوجود جدوجہد کے راستے پر ہے، پھر یہ کب ہوگا کہ اسی کی عزت، اس کے احترام کو ہم پہلی ترجیح دیں۔ نہ صرف معاشرتی سطح پر بلکہ قانونی سطح پر بھی۔ اس کو کمزور بناکر ڈھال کے طور پر نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس کو اس کی اپنی مضبوطی، اپنا مرتبہ اور اپنی شخصیت کا مالک بنایا جائے۔

بے نظیر بھٹو، بہادر اور تعلیم یافتہ خاتون، تن تنہا گریس کے ساتھ ہر سازش کا مقابلہ کرتی رہیں والد کی جیل، والدہ اور ان کی جیل، حکومت کے کرپشن کے معاملات، شوہر کے جیل کے دن، اسی جدوجہد میں شادی اور بچوں کی پیدائش اور ملکی غیر ملکی سیاسی معاملات ناموافق حالات میں بھی تن تنہا سازشوں کا مقابلہ کیا۔

اور آج بھی جو خواتین اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں تیار کرنا چاہتی ہیں، سیاست میں اپنا نام بنانا چاہتی ہیں، ان کو اپنی گلیمرس زندگی کے ساتھ ساتھ عقل، سادگی اور گریس کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، اپنی ذات کو مضبوط بنانا ہوگا اور وہ اس صورت میں ممکن ہے جب ایمانداری کے ساتھ جدوجہد مسلسل ہو، آج بھی جب حسینہ معین کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں شادی شدہ نہ ہونے کے باوجود مردوں کا سہارا لیے بغیر اپنی ڈگر اپنی سوچ کو لے کر چلتی رہی، ڈراموں کی دنیا کا بڑا کامیاب نام۔

اپنی سوچ، اپنے فیصلے ہونا ضروری ہے، اپنی عقل و شعور کی روشنی میں، معلومات اپنی جگہ، مگر ہم سب اگر صرف ایمانداری، عدل و انصاف کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں تو یقین جانیے، نہ خواتین کی وراثت لوٹ کر کھائی جائے، نہ ان کو تنہا و کمزور سمجھا جائے، ریاست ایک مضبوط ڈھال ہے اپنے تمام شہریوں کے لیے۔ اور خاص طور پر اگر نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو بھرپور پروٹیکشن دیا جائے ان کے لیے راستے آسان بنائے جائیں تو یقین جانیں کہ ہمارے ملک بہتر ہوگا۔حکمران طبقہ کے لیے ضروری ہے اپنے آپ کو عوام کے ساتھ کھڑا کیا جائے، محمود و ایاز بن کر ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں، مثال بننے کے لیے بہت ساری قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سارے ارمانوں کو کچلناپڑتا ہے، تخت کی بجائے تختہ پر بیٹھنے میں کوئی شرم نہیں اگر کردار مضبوط ہو۔
Load Next Story