اقتدار پاکر لوگ کیوں بدل جاتے ہیں
انسان آئندہ بھی اقتدار، طاقت اور اختیار پاکر اپنے آپ کو تبدیل کرتے رہیں گے
یہ سوال تقریباً ہر پاکستانی کے ذہن کو عرصہ دراز سے تنگ اور پریشان کررہا ہے کہ آخر ہمارے لوگ اقتدار، طاقت اور اختیار پاکر کیوں یکسر بدل جاتے ہیں وہ کیوں پھر وہ نہیں رہتے جو اقتدار، طاقت، اختیار پانے سے پہلے ہوتے ہیں وہ کیوں ان چیزوں کے ملتے ہی شر کی قوتوں کے زیر اثر چلے جاتے ہیں اور سوچ، فکر اور بصیرت سے کیوں محروم ہو جاتے ہیں، آخر انسان طاقت ، اقتدار اور اختیار پاکر سب سے پہلے اخلاقیات کو اپنے آپ سے دور کیوں پھینک دیتے ہیں اور یہ کہ اپنے آپ کو پھر باقی دوسرے انسانوں سے مختلف کیوں سمجھنے بیٹھ جاتے ہیں ، حالانکہ اس سے پہلے وہ عام انسانوں کی طرح رہتے ہیں مہذب ، باکردار، اخلاقیات سے بھر ے ہوئے پھر اچانک وہ درندے اور وحشی کیوں بن جاتے ہیں اور اپنے ہی جیسے انسانوں کا جینا کیوں حرام کر دیتے ہیں۔
آیے ! ان سوالوں کاجواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں 1961 میں فلسفی ھناہ آرینت نے ایڈولف ایچمین کے خلاف دائر مقدمے کی کارروائی دیکھی۔ ایچمین ہولوکاسٹ کے مرتکب افراد میں سے ایک تھا، اپنی کتاب ''ایچمین ان یرو شلم '' میں آرینت نے ایچمین کے ظاہری شب و روز کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا یہ شخص کسی طرح بھی عفریت قسم کی کسی چیز سے مشابہت نہیں رکھتا جس کا تصور ہم کرسکتے ہیں۔ درحقیقت وہ کسی کیفے یا گلی میں دیکھا نہیں گیا ۔ مقدمے کی کارروائی دیکھنے کے بعد آرینت اس نتیجے پر پہنچی کہ شرکسی بدباطنی یا غلط کاری کے سرور سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے وہ سمجھتی ہے کہ لوگ اس طرح کے کام اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ سوچ اور بصیرت کی ناکامیوں کے شکار ہوتے ہیں۔
استبدادی سیاسی نظام اس طرح کی ناکامیوں پہ ہمارے رحجانات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر سمجھاجاتا ہے کہ یہ ''نا قابل تصور'' ہیں وہ بھی معمول کے مطابق لگتے ہیں یہ تصورکہ شر ، پیش پا افتادہ ہے شر پر مبنی اقدامات کو ان کی دہشت و ہیبت سے پاک نہیں کرسکتا۔ اس کے بجائے دہشت گردی کرنے والے لوگوں کو عفریت سمجھنے سے انکار کرنا، ان اقدامات کو ہماری روز مرہ زندگی کے قریب لے آتا ہے یہ ہمیں چیلنج کرتے ہیں کہ غور کریں شر کوئی ایسی چیز ہے جس کی صلاحیت ہم سب میں ہے ۔ آرینت کہتی ہے کہ ہمیں اپنی سیاسی حکومت کی ناکامیوں پہ اور ہماری اپنی سوچ اور بصیرت کی ناکامیوں پر محتاط اور خبردار رہنا ہوگا 350ء میں سینٹ آگسٹائن نے لکھا تھا '' کہ شرکوئی قوت نہیں لیکن یہ خیرکی عدم موجودگی کے سبب ابھرتا ہے '' جب کہ 1200ء میں تھا مس ایکناس نے '' ڈسپیوٹڈ کویسچنز آن ایول '' میں اپنی تحقیق پیش کی کہ شرکسی چیزکی عدم موجودگی ہے بذا ت خود کوئی چیز نہیں۔
عظیم ماہر نفسیات فرائڈ اس کا جواب اس طرح دیتا ہے وہ کہتا ہے ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے خارج میں اتنی تبدیلیاں آئیں اس نے جبلتوں کو کنٹرول کرنا سیکھا تو آخرکار انھیں ختم کیوں نہیں کرسکا ؟ دراصل شہروںاور انسانی ذہن کے ارتقا میں بہت فرق ہے جب کوئی گاؤں یا چھوٹا علاقہ رفتہ رفتہ شہر میں تبدیل ہوتا ہے تو پرانی عمارتوں کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، پرانے نقوش دب جاتے ہیں اور نئے آثار ان کی جگہ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پرانی گلیوں اور محلوں کی یاد تک نئے مکینوں کے ذہن میں محو ہوجاتی ہے لیکن ذہنی ارتقا کا معاملہ اس سے الٹ ہے جب ذہن ترقی کرتا ہے تو پرانی چیزوں کی یاد نئی چیزوں کے پہلو بہ پہلو تازہ رہتی ہے۔
پرانی ذہنی حالت کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہے یہ ابتدائی ذہنی حالت ہوسکتا ہے کہ برس ہا برس اپنا اظہار نہ کرے لیکن اگر اسے موقع ملے تو یہ پوری طاقت سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ترقی کے تمام ادوار کو نیست و نابود کرکے ذہن کو قدیم ترین مقام پر واپس لے آتی ہے۔ انسانی ذہن کی یہ ایک خاص الخاص کیفیت ہے کہ اس میں تنزل کی اس قدر اہلیت ہے کہ یہ جب چاہے اپنے زمانہ جہالت و وحشت میں دوبارہ لوٹ سکتا ہے'' یہ تو طے ہے کہ آپ کسی بھی صورت انسانوں کی فطری جبلت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
انسان آئندہ بھی اقتدار، طاقت اور اختیار پاکر اپنے آپ کو تبدیل کرتے رہیں گے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کا جینا حرام کرتے رہیں گے اور انھیں تبدیل ہونے سے آپ کسی صورت نہیں روک سکیں گے اگر ہم چین ، سکون ،آرام سے جینا چاہتے ہیں اور ہر قسم کے مسائل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ تمام مہذب ، خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کے انسانوں نے کیا ہے تو پھر آئیں انسانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کے بجائے اپنے ملک کے نظام کو ہی بدل ڈالیں کیونکہ ایک شفاف ، ایماندار ، میرٹ اور مساوات پر مبنی نظام لوگوں کو تبدیل ہونے سے روکتا ہے اور ایسے ہی نظام کی وجہ سے انسان ہمیشہ اچھے بنے رہتے ہیں وہ خود ہی آرام ، سکون اور چین سے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی آرام ، سکون اور چین سے رہنے دیتے ہیں لیکن اگر آپ آرام ، سکون اور چین سے نہیں رہنا چاہتے ہیں اورآپ کی اگر ان سے دشمنی ہے تو پھر اسی موجودہ نظام کو اسی طرح سے جاری رہنے دیں اور نئے اسکندر مرزا ، غلام محمد ، ضیاالحق، اور نئے کر پٹ سیاست دانوں اور نئے مجرم ، جاگیرداروں اور ہر قسم کی خرافات میں ملوث نئے ملاؤں کے لیے ہمہ تن گو ش تیار رہیں جو مسلسل اور سلسلہ وار آپ کی زندگی مزید اجیرن کرنے کے لیے اور نئے نئے عذاب لے کر آپ کی زندگی میں آتے رہیں گے۔
آیے ! ان سوالوں کاجواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں 1961 میں فلسفی ھناہ آرینت نے ایڈولف ایچمین کے خلاف دائر مقدمے کی کارروائی دیکھی۔ ایچمین ہولوکاسٹ کے مرتکب افراد میں سے ایک تھا، اپنی کتاب ''ایچمین ان یرو شلم '' میں آرینت نے ایچمین کے ظاہری شب و روز کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا یہ شخص کسی طرح بھی عفریت قسم کی کسی چیز سے مشابہت نہیں رکھتا جس کا تصور ہم کرسکتے ہیں۔ درحقیقت وہ کسی کیفے یا گلی میں دیکھا نہیں گیا ۔ مقدمے کی کارروائی دیکھنے کے بعد آرینت اس نتیجے پر پہنچی کہ شرکسی بدباطنی یا غلط کاری کے سرور سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے وہ سمجھتی ہے کہ لوگ اس طرح کے کام اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ سوچ اور بصیرت کی ناکامیوں کے شکار ہوتے ہیں۔
استبدادی سیاسی نظام اس طرح کی ناکامیوں پہ ہمارے رحجانات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر سمجھاجاتا ہے کہ یہ ''نا قابل تصور'' ہیں وہ بھی معمول کے مطابق لگتے ہیں یہ تصورکہ شر ، پیش پا افتادہ ہے شر پر مبنی اقدامات کو ان کی دہشت و ہیبت سے پاک نہیں کرسکتا۔ اس کے بجائے دہشت گردی کرنے والے لوگوں کو عفریت سمجھنے سے انکار کرنا، ان اقدامات کو ہماری روز مرہ زندگی کے قریب لے آتا ہے یہ ہمیں چیلنج کرتے ہیں کہ غور کریں شر کوئی ایسی چیز ہے جس کی صلاحیت ہم سب میں ہے ۔ آرینت کہتی ہے کہ ہمیں اپنی سیاسی حکومت کی ناکامیوں پہ اور ہماری اپنی سوچ اور بصیرت کی ناکامیوں پر محتاط اور خبردار رہنا ہوگا 350ء میں سینٹ آگسٹائن نے لکھا تھا '' کہ شرکوئی قوت نہیں لیکن یہ خیرکی عدم موجودگی کے سبب ابھرتا ہے '' جب کہ 1200ء میں تھا مس ایکناس نے '' ڈسپیوٹڈ کویسچنز آن ایول '' میں اپنی تحقیق پیش کی کہ شرکسی چیزکی عدم موجودگی ہے بذا ت خود کوئی چیز نہیں۔
عظیم ماہر نفسیات فرائڈ اس کا جواب اس طرح دیتا ہے وہ کہتا ہے ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے خارج میں اتنی تبدیلیاں آئیں اس نے جبلتوں کو کنٹرول کرنا سیکھا تو آخرکار انھیں ختم کیوں نہیں کرسکا ؟ دراصل شہروںاور انسانی ذہن کے ارتقا میں بہت فرق ہے جب کوئی گاؤں یا چھوٹا علاقہ رفتہ رفتہ شہر میں تبدیل ہوتا ہے تو پرانی عمارتوں کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، پرانے نقوش دب جاتے ہیں اور نئے آثار ان کی جگہ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پرانی گلیوں اور محلوں کی یاد تک نئے مکینوں کے ذہن میں محو ہوجاتی ہے لیکن ذہنی ارتقا کا معاملہ اس سے الٹ ہے جب ذہن ترقی کرتا ہے تو پرانی چیزوں کی یاد نئی چیزوں کے پہلو بہ پہلو تازہ رہتی ہے۔
پرانی ذہنی حالت کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہے یہ ابتدائی ذہنی حالت ہوسکتا ہے کہ برس ہا برس اپنا اظہار نہ کرے لیکن اگر اسے موقع ملے تو یہ پوری طاقت سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ترقی کے تمام ادوار کو نیست و نابود کرکے ذہن کو قدیم ترین مقام پر واپس لے آتی ہے۔ انسانی ذہن کی یہ ایک خاص الخاص کیفیت ہے کہ اس میں تنزل کی اس قدر اہلیت ہے کہ یہ جب چاہے اپنے زمانہ جہالت و وحشت میں دوبارہ لوٹ سکتا ہے'' یہ تو طے ہے کہ آپ کسی بھی صورت انسانوں کی فطری جبلت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
انسان آئندہ بھی اقتدار، طاقت اور اختیار پاکر اپنے آپ کو تبدیل کرتے رہیں گے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کا جینا حرام کرتے رہیں گے اور انھیں تبدیل ہونے سے آپ کسی صورت نہیں روک سکیں گے اگر ہم چین ، سکون ،آرام سے جینا چاہتے ہیں اور ہر قسم کے مسائل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ تمام مہذب ، خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کے انسانوں نے کیا ہے تو پھر آئیں انسانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کے بجائے اپنے ملک کے نظام کو ہی بدل ڈالیں کیونکہ ایک شفاف ، ایماندار ، میرٹ اور مساوات پر مبنی نظام لوگوں کو تبدیل ہونے سے روکتا ہے اور ایسے ہی نظام کی وجہ سے انسان ہمیشہ اچھے بنے رہتے ہیں وہ خود ہی آرام ، سکون اور چین سے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی آرام ، سکون اور چین سے رہنے دیتے ہیں لیکن اگر آپ آرام ، سکون اور چین سے نہیں رہنا چاہتے ہیں اورآپ کی اگر ان سے دشمنی ہے تو پھر اسی موجودہ نظام کو اسی طرح سے جاری رہنے دیں اور نئے اسکندر مرزا ، غلام محمد ، ضیاالحق، اور نئے کر پٹ سیاست دانوں اور نئے مجرم ، جاگیرداروں اور ہر قسم کی خرافات میں ملوث نئے ملاؤں کے لیے ہمہ تن گو ش تیار رہیں جو مسلسل اور سلسلہ وار آپ کی زندگی مزید اجیرن کرنے کے لیے اور نئے نئے عذاب لے کر آپ کی زندگی میں آتے رہیں گے۔