داستاں در داستاں رسوائی ہے

دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور وقت کی طنابیں کھنچ گئی ہے۔

دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور وقت کی طنابیں کھنچ گئی ہے۔ فوٹو : فائل

لیجیے، ایک اور کہانی سنیے۔

ایک اور قصہ، داستان کا ایک اور باب پیشِ خدمت ہے۔ شیکسپیئر نے اِس دنیا کو ایک اسٹیج کہا تھا اور آپ کو ہمیں اِس پر آنے اور اپنا تماشا دکھا کر رخصت ہوجانے والے کردار۔ درست ہی کہا تھا۔ ویسے اگر شیکسپیئر نے ہماری داستانیں مثلاً ''طلسمِ ہوش ربا''، ''فسانۂ آزاد''، ''باغ و بہار'' وغیرہ پڑھی ہوتیں تو وہ یقیناً انسانی زندگی اور اس کے پیچ در پیچ ماجرے کے تسلسل کو ایک داستان قرار دیتا۔ ایک ایسی دل چسپ، پریشان کن، ہوش رُبا، چشم کشا اور انوکھی داستان کہ جس کے کردار، محض کردار ہی نہیں ہوتے، خود اُس کے سامع اور ناظر بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذرا حالیہ داستان کے اس نئے باب ہی کو دیکھ لیجیے۔

گزشتہ کل رُونما ہونے والے اس ماجرے میں کردار بننے والے کتنے ہی لوگ آپ کو دانتوں میں انگلیاں دبائے اور آنکھیں پھاڑے ہوئے آج اسے سنتے دکھائی دیں گے۔ آج ان کی حیثیت سامع کی ہے۔ داستان کے اس نئے باب کا عنوان ہے ''پکڑا جانا ریمنڈ ڈیوس کا مزنگ چوک سے اور رہائی پاکر جا پہنچنا سات سمندر پار''۔

کہا جاتا ہے، عوامی حافظہ بڑی ناپائیدار شے ہے۔ صداقت بھی ہوگی اس بیان میں، لیکن اسے مطلق صداقت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا، ہاں جزوی سچائی ہوگی اِس میں۔ یہ بھی سچ ہے کہ حقائق، واقعات، مسائل، حالات اور افراد عوامی حافظے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جگہ بنالیتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب مستقل طور پر فراموش بھی کردیے جاتے ہیں۔ دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں اور دونوں کے لیے الگ الگ شرائط ہوا کرتی ہیں۔ قطعِ نظر اس سے کہ ان کی نوعیت مثبت ہے یا منفی، لیکن ایسے واقعات عوامی حافظے سے محو نہیں ہوا کرتے جو کسی نہ کسی صورت اجتماعی ناموس سے جڑ جاتے ہیں۔

ہماری سیاسی و سماجی تاریخ میں ریمنڈ ڈیوس ایسے ہی ایک واقعے کا سرنامہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ لگ بھگ ساڑھے چھ برس پہلے پیش آنے والے اس واقعے کو ہمارے اجتماعی حافظے نے ان دنوں اسی طرح تازہ کیا ہے، جیسے یہ کل ہی تو ہوا تھا۔ اِس واقعے کے تازہ ہونے کا جواز وہ کتاب ہے جو ''دی کنٹریکٹر'' کے عنوان سے ڈیلاس (ٹیکساس، امریکا) کے ایک اشاعتی ادارے بین بیلا بکس نے شائع کی ہے۔ کتاب کے سرورق اور ذیلی سرورق دونوں پر کتاب کا ذیلی عنوان ''میں کیسے ایک پاکستانی جیل میں پہنچا اور سفارتی بحران کا سبب بنا'' بھی درج ہے۔ یہ ذیلی عنوان کتاب کے قارئین خصوصا پاکستانی قارئین کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔

دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور وقت کی طنابیں کھنچ گئی ہے۔ آپ خود دیکھ لیجیے، یہ کتاب ابھی منظرِ عام پر آئی ہے، یعنی جون 2017ء کے آخری ایام میں۔ اشاعت کے محض چند ہی دن بعد یہ نہ صرف ہمارے یہاں پہنچ چکی ہے، بلکہ اس کے مندرجات موضوعِ گفتگو بھی بنے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا نہ صرف اس گفتگو کے پھیلاؤ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، بلکہ اس کتاب کی ترسیل میں بھی نمایاں طور سے شامل ہے۔

اس مجلد کتاب کی قیمت تقریباً پچّیس ڈالر ہے، لیکن ایمازون بتیس فی صد رعایت کے ساتھ اسے سترہ ڈالر میں فروخت کررہا ہے۔ خوش رہیں سوشل میڈیا (واٹس ایپ) کے تیس مارخاں کہ وہ عوامی سہولت اور اس قبیل کے مطالعات کے فروغ کے لیے پوری کتاب کا پی ڈی ایف ورژن بلامعاوضہ فراہم کررہے ہیں۔ زیرِنظر معروضات کے لیے اسی فارمیٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ان سب پاکستانیوں کے لیے جنھیں اپنی تاریخ، تہذیب، سماجیات اور سیاسیات سے یک گونہ دل چسپی ہے، یہ کتاب حالاتِ حاضر کے طلسمِ ہوش رُبا کے ایک نئے باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں قدم قدم پر رونما ہوتے نئے موڑ، حیرت جگاتے نئے نئے کردار اور بل کھاتی صورتِ حال ماجرے کو دل چسپ ہی نہیں بناتی، اپنی اشرافیہ اور سیاسی و حربی مقتدرہ کے بارے میں سوالوں سے بھی دوچار کرتی ہے۔ ایسے مقامات بھی آتے ہیں جب یہ کتاب اپنے پاکستانی قارئین کو مخاطب کرکے باآوازِ بلند کہتی ہے:

سنتا جا شرماتا جا

آپ یقیناً جاننا چاہیں گے، ایسا کیوں؟

اس کا ایک فوری اور مختصر جواب تو آپ کو کتاب کے آغاز میں درج مصنف کے نوٹ کی ابتدائی دو سطروں ہی میں مل جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ''2011ء میں جو وقت میں نے پاکستان کی جیل میں گزارا، اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ افسوس، ان میں سے بیشتر باتیں جھوٹی ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اب ریکارڈ درست ہوجائے گا۔'' گویا ان واقعات اور یادداشتوں کو قلم بند کرنے کی ضرورت مصنف نے یوں محسوس کی کہ وہ اپنی زندگی کے اس ناقابلِ فراموش واقعے کے گرد بُنے گئے جھوٹے جالوں کو صاف کرنا چاہتا ہے۔ اپنے اس بیان کو پایۂ ثبوت تک پہنچانے کے لیے اُس نے اس واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ اور منظر در منظر بیان کیا ہے۔ کتاب کا بیانیہ نہایت رواں اور چست ہے اور اسلوب ایک مشاق قلم کار کا سا ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کی یہ پہلی کتاب ہے۔ اس سے پہلے لکھنے لکھانے سے اُسے کوئی واسطہ نہیں پڑا۔ ظاہر ہے، اس کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ امریکی فوج سے وابستہ رہا تھا اور لگ بھگ دس برس اس شعبے میں خدمات انجام دی تھیں۔ اس میں نصف وقت، یعنی پانچ سال اُس نے اسپیشل فورسز میں گزارے تھے۔ ایک حادثے کے نتیجے میں اسے امریکی فوج سے قبل از وقت الگ ہونا پڑا۔ اس کے بعد خصوصی تربیت اور تکنیکی مہارت کی وجہ سے اُسے پرائیویٹ سیکیورٹی کنٹریکٹر کی ملازمت کا موقع فراہم ہوگیا۔ اسی ملازمت کے تحت وہ عراق اور افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان پہنچا تھا اور مزنگ چوک والا واقعہ اُس کی زندگی میں رونما ہوا، جس نے اسے پاکستان اور امریکا ہی میں نہیں ایک عالم میں شہرت سے ہم کنار کیا۔

کتاب کے اسلوب میں ماہرانہ صحافتی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ افسانوی اجزا سے بھی کام لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ایک بار کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے تو پورے انہماک کے ساتھ اس میں محو ہوجاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس خود ادیب نہیں ہے، اس کام کے لیے اُس نے معروف قلم کار اسٹرومز ری بیک کی خدمات حاصل کیں۔ اسٹرومز ری بیک (آسٹن، ٹیکساس) میں رہتا ہے، اس کی تین کتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں، جن میں ''شپ اِٹ ہولا بلاس'' اور ''کریزیسٹ اینڈ رِچسٹ کریو'' شامل ہیں۔

150صفحات کو محیط ریمنڈ ڈیوس کا یہ ماجرا چھوٹے چھوٹے تینتیس ابواب پر مشتمل ہے۔ مصنف کا نوٹ، اختتامیہ اور حرفِ تشکر اس کے علاوہ ہیں۔ کتاب کے تقریباً وسط میں سات صفحات پر تصویریں بھی دی گئی ہیں۔ کتاب کو تقسیم تو بے شک تینتیس ابواب میں کیا گیا ہے، لیکن کئی باب ایک ہی نام سے کتاب کا حصہ بنائے گئے ہیں، جیسے ''مزنگ چوک، لاہور، پاکستان'' کے نام سے تین باب کتاب میں شامل ہیں، یا جیسے ''لاہور پولیس ٹریننگ کالج'' کے نام سے چار اور ''کوٹ لکھپت جیل'' کے نام سے دس ابواب۔ غالباً ایسا کتاب میں واقعات کے تسلسل اور محلِ وقوع کے تعلق کو واضح رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے کیس کے مختلف مراحل اور اُس کی روز بہ روز پیش رفت کی نشان دہی بھی مقصود ہوگی۔

اس داستان کا مرکزی کردار تو ظاہر ہے، ریمنڈ ڈیوس ہے۔ اس کا ماجرا بھی شروع سے آخر تک صیغہ واحد حاضر میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز براہِ راست مصنف کے بیان سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں وہ پیش آنے والے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پھر اپنی منصبی حیثیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہے۔ ان میں وہ افغانستان میں اپنے قیام کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی پیشہ وارانہ تربیت کی پیدا کردہ عادات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی شخصیت کے خدوخال واضح کرتا ہے۔ دوسرے باب میں وہ اپنی جنم بھومی اور ابتدائی زندگی کی تفصیل بیان کرتا ہے، اور اپنے خاندانی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتا ہے کہ اُس کا بچپن کس درجہ کسمپرسی کی صورتِ حال میں گزرا ہے۔


کتاب کے چوتھے باب میں اُس نے خاص شرح و بسط کے ساتھ بتایا ہے کہ ملٹری کنٹریکٹر یا امریکی افواج کے توسط سے بیرونِ ملک اپنے سفارت کاروں یا امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے اعلیٰ سطحی افراد کے لیے پرائیویٹ کنٹریکٹر کی خدمات انجام دینے والے لوگ کون ہوتے ہیں۔ یہ سب اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی ہوتے ہیں جو پہلے امریکی افواج میں اور ریٹائرمنٹ یا بوجوہ قبل از وقت سبک دوشی کے بعد فوج کے ماتحت پرائیویٹ کنٹریکٹر کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ مصنف کے بقول امریکا میں پرائیویٹ کنٹریکٹر کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود ملک ہے۔

اس ضمن میں اُس نے جارج واشنگٹن کے زمانے اور ویت نام کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات میں جنوبی ویت نام میں ایئرپورٹ، سڑکوں اور اسپتالوں کی تعمیر کے ٹھیکوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ابتدا میں ان پرائیویٹ کنٹریکٹرز کا کام اسی نوع کا تھا۔ انھیں زخمی فوجیوں کو لے جانے، کھانے پکانے، جنگ کے ایام میں عوام اور فوجی دستوں کو سامان پہنچانے اور تعمیرات وغیرہ کے ٹھیکے دیے جاتے تھے۔ بعد ازاں بدلتی ہوئی صورتِ حال کے تقاضوں اور افواج کے ریٹائرڈ افسران کے ایسے اداروں سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے۔

یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج دنیا کی ساری بڑی افواج (بشمول امریکا) نے از خود ایسے ماتحت ادارے بنالیے ہیں جن میں اُن کے سبک دوش ہونے والے افسران کام کرتے ہیں۔ اب یہ ادارے صرف جنگی یا ہنگامی حالات ہی میں خدمات فراہم نہیں کرتے، بلکہ عمومی صورتِ حال اور امن کے دنوں میں بھی فعال کاروباری اداروں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کے زیرِاثر چلنے والا کاروبار بھی اب ترسیل و تعمیرات کی حدود سے کہیں آگے تک پھیل چکا ہے۔

ہماری افواج اور اس کے اداروں کے بارے میں عائشہ صدیقہ نے ایک کتاب Military Inc. کے نام سے لکھی تھی، جس کا اردو ترجمہ ناظر محمود نے ''فوجی کاروبار'' کے نام سے کیا ہے۔ اس کتاب میں دیے گئے 2005ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایک جنرل کو ریٹائرمنٹ کے موقعے پر ہمارے یہاں اُس وقت کروڑوں روپے کی جائیداد اور نقد اثاثہ جات حاصل ہوتے تھے۔

ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب جیسا کہ بتایا گیا، مرکزی کردار کا براہِ راست بیانیہ ہے۔ تاہم اس کے چار ابواب، یعنی تین، تیرہ، چوبیس اور اکتیس مصنف کی بیوی ربیکا کے لکھے ہوئے ہیں۔ ویسے تو اب یہ دونوں میاں بیوی نہیں رہے ہیں اور ان کے درمیان علاحدگی ہوچکی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بقول جن جوڑوں میں طلاق ہوجاتی ہے، وہ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان البتہ ایسا نہیں ہوا ہے۔

ربیکا اب بھی اس کی اچھی دوست ہے۔ اس کا اظہار ان چار ابواب سے بھی ہوتا ہے جو اس نے اس کتاب کے لیے لکھے ہیں۔ یہ ابواب ریمنڈ ڈیوس کی ذاتی، جذباتی اور خاندانی زندگی کا احوال بیان کرتے ہیں۔ ان میں وہ ایک عام، سادہ، حساس، زندہ اور حقیقی انسانی جذبات والے فرد کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایک ایسے انسان کی حیثیت سے جو فلموں اور ڈراموں میں بھی اگر انسانوں کو اذیت اٹھاتے دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور وہ اپنے آنسو چھپا کر خود کو مضبوط اعصاب کا یا فولادی احساسات کا آدمی ثابت بھی نہیں کرنا چاہتا۔

ربیکا کے یہ بیانات کتاب میں دیے گئے ماجرے سے متصادم نہیں ہیں۔ انھیں مہارت اور چابک دستی کے ساتھ کتاب کے ان بیانات سے ہم آہنگ رکھا گیا جن میں ریمنڈ ڈیوس نے بتایا ہے کہ مزنگ چوک، لاہور میں اس نے جن نوجوانوں پر فائرنگ کی تھی، اس نے ان میں سے ایک کو ہاتھ میں پستول لیے ہوئے دیکھا تھا اور اُس کے حرکات و سکنات سے وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اُس پر قاتلانہ حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔

حفظِ ماتقدم کے تحت اس نے پہلے فائرنگ کردی تھی اور وہ اس بات پر دل سے خوش تھا کہ درمیان میں گاڑی کا شیشہ (ونڈ اسکرین) حائل ہونے کے باوجود اس کا نشانہ ذرا سا بھی نہیں چوکا تھا، اور اس کے ریوالور سے فائر ہونے والی دس گولیاں پانچ پانچ کرکے اس کے امکانی قاتلوں کے جسموں میں اتر گئی تھیں۔ کہیں اگر اس کا نشانہ چوک جاتا تو اور کئی بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اپنے نشانے کے ٹھیک بیٹھنے پر وہ خوش تھا اور مطمئن بھی کہ اُس نے صرف دہشت گرد حملہ آوروں کو نشانہ بنایا ہے۔

اسی ضمن میں یہ بات بھی لکھی گئی ہے کہ فوج میں دس برس گزارنے اور اس کے بعد عراق اور افغانستان میں پرائیویٹ کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے باوجود یہ پہلا موقع تھا کہ مزنگ چوک لاہور پر ریمنڈ ڈیوس کے پستول سے نکلنے والی گولیوں نے انسانی جان لی تھی۔

ربیکا کے لکھے ہوئے ان ابواب کے علاوہ کتاب میں جتنے ابواب ہیں، ان میں مصنف نے خود اس واقعے اور اس کے بعد پیش آنے والی صورتِ حال کو ہر ممکنہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ تفصیل آپ کے، ہمارے، ہم سب پاکستانیوں کے لیے دل چسپی، فکر، تردّد، رنج اور ندامت کا وافر سامان رکھتی ہے۔ مزنگ چوک پر کیا ہوا تھا، اس کی رپورٹ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بہت تفصیل سے فراہم کردی تھی، لیکن اس کے بعد کیا ہوا، مقدمہ کس طرح چلا اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کس عمل میں آئی۔

اس وقت کے صدرِ مملکت زرداری، وزیرِ اعظم گیلانی، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا، مقدمۂ قتل کے استغاثہ کے وکیل، جیل حکام، امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور دوسرے لوگوں کا ریمنڈ ڈیوس نے نام لے کر ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کے مقدمے سے بریت تک کے معاملے میں کس نے کیا رویہ اور کردار اختیار کیا۔ مقتولین کے خاندانوں کے افراد کو دیت و قصاص پر کس طرح دباؤ ڈال کر اور جیل میں بند کرکے آمادہ کیا گیا۔ کس طرح عدالت میں ان سے پوچھا گیا کہ ان پر قصاص کے لیے کوئی دباؤ تو نہیں، اور یہ سن کر کہ نہیں، کوئی دباؤ نہیں، کس طرح عدالت نے اسے بری کیا۔

عدالت سے اسے سیدھا وہاں پہنچایا گیا جہاں سیسنا جہاز اُس کا منتظر تھا۔ رہائی پانے کا عمل اتنا غیرمتوقع حد تک تیز اور غیر یقینی حد تک اس عمدگی سے طے کیا گیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کے بقول اُسے آزادی پاکر وطن لوٹتے ہوئے حلیہ درست کرنے اور کپڑے بدلنے تک کی مہلت نہیں ملی تھی، اور جہاز کی طرف جاتے ہوئے وہ قمیص کے بٹن بند کررہا تھا اور حیرت سے دوچار تھا۔

اس پورے کیس میں امریکی قونصلیٹ سے وابستہ افراد سے لے کر امریکی سفیر کیمرون منٹر اور وزیرِخارجہ ہلیری کلنٹن تک کی اس کیس میں مسلسل دل چسپی اور اس کی لمحہ بہ لمحہ پیش رفت سے باخبر رہنے والی باتیں ہمیں بالکل حیران نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ ہم جانتے ہیں، مقتدر اقوام اپنی انتظامی مشین کے ایک ایک کل پرزے اور ایک ایک کارندے کو قیمتی اثاثہ گردانتی ہیں، اور اُن کے تحفظ اور بقا کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔

ویسے ہم سب بھی عجیب لوگ ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ہمارے حکمرانوں نے کشکول ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں، ہم ان سے براک اوباما، ہیلری کلنٹن، کیمرون منٹر اور کارمیلا جیسے کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جن قوموں کے سربراہ اور رہنما امداد اور قرضوں کی بھیک مانگتے ہیں، اُن کی کمر خمیدہ، ٹانگیں مڑی ہوئی، آواز بیٹھی ہوئی اور آنکھیں نیچی ہوتی ہیں۔ وہ ریمنڈ ڈیوس اور کلبھوشن یادیو سنگھ جیسے لوگوں کو پکڑ بھی لیں تو انھیں سزا نہیں دے پاتیں۔ انھیں تو چھوڑیے، وہ اگر اپنے ہی ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے لوگوں کو جو دشمنوں کے لیے ملک کے خلاف کام کرتے ہیں، ثبوت کے ساتھ گرفتار کرلیں تو انھیں بھی کیفرِکردار تک نہیں پہنچا سکتیں۔ وہ دشمنوں سے عافیہ صدیقی جیسی بیٹیوں کو رہائی نہیں دلا سکتیں۔ فرد ہو یا قوم ایک وقت میں ایک ہی چیز پر انحصار کیا جاسکتا ہے، کشکول یا ناموس۔

حکمرانوں کا معاملہ الگ ہے، لیکن ہمارا اجتماعی اور قومی حافظہ ان سب واقعات کو یاد رکھتا ہے جن میں ہمارے ناموس کو گزند پہنچی ہو، اور ان لوگوں کو بھی جن کے عہد میں اور جن کے ہاتھوں پہنچی ہو۔
Load Next Story