قرضوں میں جکڑی ملکی معیشت

پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضہ 9473 ارب روپے سے بڑھ کر 13199 ارب روپے ہوگیا ہے۔

پاکستان کے قرضوں کے حصول کی اطلاعات کو دیکھ کر ایک مفلوج اقتصادیات کا منظر نامہ ابھرتا ہے. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

پاکستان کے ذمے واجب الاد اقرضہ 18.4فیصد اضافہ کے ساتھ 9ہزار 4 سو 73ارب روپے 9473) ارب روپے ( بڑھ کر 13ہزار1 سو 99ارب روپے 13199) ارب روپے (ہوگیا ہے، جب کہ رواں مالی سال 2012-13 کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر پانچ کھرب 32 ارب روپے 532) ارب روپے(کے قرضے حاصل کیے ہیں۔ وزارت خزانہ سے دستیاب ڈیبٹ پالیسی اسٹیٹمنٹ 2013کے مطابق30 جون 2012کو پاکستان کے ذمے مجموعی طور پر12ہزار6سو 67 ارب روپے12667) ارب روپے) کا قرضہ واجب الادا تھا جو کہ ملکی جی ڈی پی کے 61.3 فیصد کے برابرہے جو ڈیبٹ اینڈ فسکل پالیسی ریسپناسیبلٹی ایکٹ کے تحت ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کے لیے مقرر کردہ 60 فیصد کی خطرناک حد سے تجاوز کرگیا تھا۔


حقیقت میں ملکی معیشت کے داخلی و خارجی اقتصادی محاذ پر صرف پاکستان کے قرضوں کے حصول کی اطلاعات کو دیکھ کر ایک مفلوج اقتصادیات کا منظر نامہ ابھرتا ہے جب کہ ملک کے 18کروڑ عوام معاشی ثمرات اور غربت کے خاتمہ کی تمنا لیے انتخابات کی دہلیز تک آپہنچے ہیں۔ دنیا کے سارے معاشی مسیحا اور مالیاتی مبصرین اس امر پر متفق ہیں کہ جمہوری نظام کی حرکیات و ثمرات کا کسی بھی ملک کی فعال معیشت سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور سیاسی استحکام کی ایک مضبوط بنیاد اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہوتی ہے، تاہم معاشی افق کے قومی اشاریے ارباب اختیار کی توجہ کے مستحق منتظر ہیں تاکہ قوم انتخابی عمل میں مصروف رہے تو دوسری طرف ایک مستحکم اور خود انحصاری کی طرف معیشت کا سفر جاری و ساری رہے جس کے لیے حکومت قرضوں پر انحصار کم کرکے قومی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے ۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث پاکستان میں گندم کی کاشت 28 فی صد کم ہوئی ہے۔ادھر گزشتہ سات سال کے دوران زکواۃ وصولیوں میں تقریباً 1.5ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی سیکریٹری برائے پانی وبجلی نرگس سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کااقتصادیات کے ساتھ گہرا رشتہ ہے اور پن بجلی،کوئلہ،ہوا،اور شمسی توانائی جیسے متبادل ذرایع توانائی سے استفادہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو مہنگے درآمدی تیل پر عدم انحصار کا احساس ہوگیا ہے ،اسی طرح بھاری بھرکم کابینہ اپنی پانچ سالہ اننگز کے آخری مینڈیٹری اوورز میں حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی لانے کا اعلان کرکے قوم کی خوشیوں کو دوبالا کرسکتی ہے۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سرمایہ کاری پالیسی 2013 کے مسودے کو حتمی شکل دے کر جلد اس کا اعلان کیا جائے۔تاجر برادری نئی مانیٹری پالیسی کی منتظر ہے جب کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال کی بہتری بھی حکمرانوں کا ہدف ہونا چاہیے ۔ قوم خزانہ خالی ہے کا فرسودہ نعرہ سننے کے اب موڈ میں نہیں ہے ۔
Load Next Story