نرگس نرگسی کوفتے اور نرگسیت
عربی میں اسے نرجس کہا جاتا ہے، جو فارسی میں بھی مستعمل اور مروج ہے۔
آج کچھ ذکرہوجائے نرگس کا۔ ہائے نرگس....کس کس حوالے سے یادکریں...کہیے آپ کا خیال کس نرگس کی طرف گیا۔ ہمارے عزیز دوست صوفی نویدالظفرسہروردی کی طرح برصغیر کی نام ور فن کارہ نرگس کی طرف....یا ہماری فلمی اداکارہ نرگس یا کوئی اور جسے یاد کرکے وہ نغمہ لبوں پر مچلنے لگے ؎ اے نرگس مستانہ ، بس اتنی شکایت ہے...۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نرگس[Narcissus] تو ایک خوب صورت پھول کا نام ہے۔ موسم بہار میں کھِلنے والا یہ حسین پھول سفید، زرد اور نارنجی سمیت مختلف رنگوں میں دست یاب ہے۔ جَل نرگس یا آبی نرگس اور زرد نرگس تو ہر لحاظ سے منفرد ہیں۔
عربی میں اسے نرجس کہا جاتا ہے، جو فارسی میں بھی مستعمل اور مروج ہے۔ طبی لحاظ سے اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ مزاجاً گرم ہے یا معتدل۔ شکل کے لحاظ سے اسے آنکھ، خصوصاً محبوب کی آنکھ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اس معاملے میں نرگس کی وہ قسم زیادہ مشہور ہے جسے شہلا کہتے ہیں اور جس کے کٹورے میں، زردی کی بجائے سیاہی ہوتی ہے۔ شہلا کے لغوی معانی ہیں: وہ عورت جس کی آنکھیں بھِڑکی مانند ہوں، سیاہی مائل بھوری آنکھ، سرخی مائل سیاہ آنکھ، میش چشم۔ نرگس کے متعلق متعدد اچھے اشعار، دواوین اور لغات میں دست یا ب ہیں۔ اسیرؔ لکھنوی کا شعر ہے:
ع: صفت رکھتے ہیں ازل سے تِری آنکھوں کے مریض
خاک سے لے کر عصا، نرگس ِ شہلا نکلی
سابق ریاست حیدرآباد، دکن کے سابق نظام (فرماں رَوا)، نظام میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کا شعر ہے:
ع: پوچھتی ہے وہ نرگس مخمور
کس کو دعویٰ ہے پارسائی کا
نرگس مخمور سے مراد نشیلی آنکھ، متوالی آنکھ اور چشم خمار آلود بہ الفاظ دیگر ہے۔ خالص ہندوستانی نسل کے نرگس کا کٹورا عموماً زرد یا سفید ہوتا ہے، جب کہ ایرانی، کابلی یا کشمیری نرگس میں سیاہ ہوتا ہے، نیز اس کی سفیدی سے پارسائی کی نسبت فطری معلوم ہوتی ہے۔ یہاں ضمناً عرض کردوں کہ انھی نظام کا ایک دوسرا شعر اپنی تاثیر کے لحاظ سے منفرد ہے:
ع: دل میں گر تُو نہیں تو پھر کیا ہے
گُل میں گر بُو نہیں تو پھر کیا ہے
نرگس نیم خواب سے مراد وہ خوابیدہ سی آنکھ ہے جو معشوقانہ /محبوبانہ انداز میں جھکی ہوئی ہو۔ اسی کے لیے نرگس بیمار کی ترکیب بھی استعمال ہوتی رہی ہے ۔ اس کے معانی درج ہیں : چشم مست، چشم معشوق ، چشم نیم باز۔ بہادرشاہ ظفرؔ کا شعر ہے:
ع: کریں وہ کس کی دوا دیکھتے ہیں روز طبیب
تیری اس نرگس بیمار کا بیمار نیا
نرگس کا استعمال ہماری نجی زندگی میں ہو نا ہو، نرگسی کوفتے کا استعمال یقیناً ہوتا رہا ہے۔ البتہ اب گھروں میں یہ پکوان کم کم بنتا ہے اور بنتا بھی ہے تو ویسے نہیں بنتا جیسے اس کی اصل ترکیب ہے۔ ناواقفین (خصوصاً ٹیلی وژن کے پروگراموں سے کھانا پکانا سیکھنے والی لڑکیوں) کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اول تو یہ کوفتہ کافی بڑا ہوتا ہے، کرکٹ کی گیند جتنا (یا اُس سے بھی بڑا)، دُوَم یہ کہ پہلے کوفتے کا پورا مسالا تیار ہوتا ہے، پھر اُس کا گولہ یا گیند ہاتھوں سے تیار کرتے ہوئے اُس کے بیچ پورا یا آدھا (اُبلاہوا) انڈا رکھا جاتا ہے اور آخر میں اس پر اس ترکیب سے دھاگا لپیٹا جاتا ہے کہ جب کھولا جائے تو پورے کوفتے کی پھانکیں اس طرح جُداجُدا ہوجاتی ہیں کہ چشم نرگس کا نقشہ بن جاتا ہے۔
اب بتائیے کتنے گھروں میں اس نسخے پر پوری طرح عمل ہوتا ہے۔ ان دنوں تو چھوٹے چھوٹے، سادہ کوفتوں کا رواج ہے جو بِہاری کوفتوں کی طرح یا تقریباً اُتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں اور (گولی جیسے )کابلی یا افغان کوفتے سے بڑے۔ بات کی بات ہے کہ یہ آخری قسم خاکسار کی معلومات کے مطابق کابلی پلاؤ میں تو ڈالی جاتی ہے، مگر شاید اس کے علاوہ اس کا استعمال عام نہیں۔ کابلی پلاؤ کا بھی المیہ ہے کہ پشاور میں آج سے سولہ سال قبل، افغان ریستوراں سے جو کابلی پلاؤ کھایا اور اس کے اوپر ، رواج کے مطابق قہوہ پیا تھا، وہ کراچی میں کہیں نظر نہیں آیا۔کسی قاری کے علم میں ہوتو ضرور آگاہ کریں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نرگسی کوفتے میں آدھے انڈے کی وجہ سے، اس کے کھلنے پر بالکل نرگس کی طرح، سفیدی کے اندرزردی محسوس ہوتی ہے۔ (نہایت دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ ہرچند 'کوفتہ' کے لغوی معنی ہیں، کُوٹا ہوا اور یہ گول کباب ہوتے ہیں، فارسی میں آسیب رسیدہ یعنی آسیب زدہ کو بھی کوفتہ کہتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ)۔ بعض جگہ شامی کباب کی ایک قسم بھی نرگسی کباب کہلاتی ہے جس پر انڈا لگادیا جاتا ہے۔
لغات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نرگسی ایک کپڑے کا نام بھی ہے جس پر نرگس جیسے پھول کے نمونے[Design] ہوتے ہیں، جب کہ ایک اور کپڑا، اشرفی بُوٹی کا کپڑا بھی نرگسی کہلاتا ہے۔ سوسن کے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے بعض لغات میں سوسن بھی کہا گیا ہے ، جب کہ درحقیقت سوسن Irisاور Lilyکا نام ہے اور اس کی بعض اقسام کو نرگس سے مماثل ہونے کی وجہ سے نرگس ہی قرار دیا جاتا ہے۔ بقول سید احمددہلوی، صاحب فرہنگ آصفیہ، سوسن کو اکثر شعراء نے زبان سے تشبیہہ دی ہے۔ نوید الظفر نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس مشہور اداکارہ نرگس سے پہلے بھی بمبئی کی ایک اداکارہ 'نرگس بلانوش' اپنے وقت میں بہت ممتاز تھی۔ اُس نے پہلے خاموش فلموں میں اور پھر متکلم (بولتی) فلموں میں اداکاری کی اور کثرت ِ مئے نوشی کی وجہ سے 'بلانوش' کہلاتی تھی۔ یہاں ایک معلمہ خاتون کا نجی محفل میں کیا ہوا انکشاف بھی نقل کرتا چلوں کہ اُن کے سسر نے اپنی جوانی میں، نامور اداکار ہ نرگس کی ماں جَدّن بائی سے نکاح کیا تھا، مگر یہ بات ہرگز مشہور نہیں۔
آمدم بر سرمطلب! نرگس کی بات ہورہی تھی اور بقول کسے ؎ ذکر جب چھڑگیا قیامت کا ، بات پہنچی تِری جوانی تک، والا معاملہ ہے۔ نرگس ایک ایسا پھول ہے جسے مشرقی ومغربی ادب میں بہ یک وقت بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس پھول کے یونانی سے ماخوذ انگریزی نام کے پس منظر میں دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ غالباً اس کی نشیلی مہک کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا اور نشے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ Narcotic بھی اسی سے مشتق ہے۔
نرگس عوامی جمہوریہ چین کے قومی / سرکاری پھولوں میں شامل ہے، دیگر دو ہیں پیونی [Peony]اور آڑو کے پھول۔ نرگس کی قسم ڈیفوڈل، برطانیہ میں شامل جزیرہ ویلز [Wales ] کا قومی پھول ہے ، لِیک [Leek]کے ساتھ ساتھ۔ ویسے تو یہ بھی آبی یا جل نرگس ہی کہلاتا ہے۔ ڈیفوڈل کے متعلق ایک مشہور انگریزی نظم Daffodilsہمارے نصاب میں شامل رہی ہے۔
اس نظم کا دوسرا نام ہے: "I Wandered Lonely as a Cloud"اور شاعر کا نام ہے: ولیئم ورڈزورتھ[William Wordsworth]۔ یہاں تاریخی انکشاف یہ ہے کہ سن اٹھارہ سو چار میں شروع ہونے والی، اٹھارہ سو سات میں پہلی بار شائع ہونے والی اور1815ء میں (ترمیم شدہ متن کے ساتھ) مکمل ہوکر منظر عام پر آنے والی اس مقبول نظم کا پس منظر شاعر کی اپنی ہمشیرہ ڈوروتھی [Dorothy Wordsworth]کے ساتھ ، Town End,[in Grasmere in England's Lake District] کے مقام کی سیر سے متعلق ہے، جہاں اس دل کش پھولوں کی بہار نے دونوں کو اپنی طرف مائل کیا تھا۔ ابتدا میں ڈوروتھی نے اس واقعے کا ذکر The Grasmere Journal میں کیا ، یہ بات ہے پندرہ اپریل سن اٹھارہ سو بیاسی [15 April 1802]کی۔ سن دو ہزار چار میں اس نظم دو صد سالہ تقریب خواندگی میں برطانیہ کے ڈیڑھ لاکھ بچوں نے حصہ لیا اور شاعری کے اعتراف کے علاوہ، اسے سرطان کے مریضوں کی امدادی مہم کے نام کیا۔ یوں بھی یہ پھول اس ضمن میں علامتی طور پر استعمال کیا جاتاہے۔
نرگس، نباتیات کی رُو سے خاندان اے میریلی ڈے سی[Amaryllidaceae]کا رُکن ہے۔ (نوٹ: اس طرح کے انگریزی یا غیرانگریزی ناموں کے ہجے میں پاکستانی انگریز عموماً غلطی کرتے ہیں۔ جب لفظ کے آخر میں 'اے' اور 'ای' آئیں تو آواز 'ای' کی تابع ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں معیاری انگریزی میں اس پھول کے نام کا درست تلفظ ہے: نا۔سی۔ سَس، 'آر' ساکن کے ساتھ)۔ دنیا بھر میں اس بصلی پودے [Bulbous plant]کی کوئی پینتیس [35]اقسام پائی جاتی ہیں جن میں مشہور نام ہیں: نرگس، شاعر کی نرگس ([N. Poeticus=Poet's narcissus)، ڈیفوڈل [Daffodil]، ڈیفوڈاون ڈلی] [اور ژون کوئیل[Jonquil/Rush daffodil]۔ آپ بھی سوچنے لگے ہوں گے کہ یہ آخر بیٹھے بٹھائے شاعروصحافی سہیل کو کیا ہوا کہ سائنسی بقراطی شروع کردی، قصہ یہ ہے کہ ہرچند یہ بندہ سائنس میں تقریباً پیدل ہے، مگر کیا کریں کہ جب فطرت کا ذکر چھڑ جائے تو آرٹس یعنی فُنون اور سائنس ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور ناقص معلومات والا بھی اس بابت تحقیق کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ویسے یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بہت سی ایجادات کے پیچھے کسی ادیب یا شاعر کے کسی انوکھے تخیل کا دخل ہے۔ کل کی داستانوں کا اُڑَن کھٹولا اور اڑن قالین، آج کا ہوائی جہاز اور راکٹ یا خلائی جہاز ہے۔ روباٹ [Robot]کے متعلق یہ بات تو کم معلوم اور مشہور ہے کہ عہدجدید میں اس کی ایجاد سے کئی سال پہلے، چیکوسلوواکیا کے ایک ادیب کارَل چاپیک[Karel Capek]نے اس کا تصور اپنے ایک ادبی ڈرامےR.U.R. (Rossum's Universal Robots) میں پیش کیا تھا، یہ سن انیس سو بیس کا واقعہ ہے، مگر حقیقت میں معاملہ اس سے بھی صدیوں پرانا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ، خود اُس نے نہیں، بلکہ اُس کے مصور بھائی ژوزیف چاپیک[Josef Capek]نے ایجادکیا تھا۔
(۱۔ درست تلفظ یہی ہے نہ کہ روبوٹ۔۲۔یہ ملک ایک طویل مدت تک دو ملکوں کے اتحاد کی بنیاد پر اس نام سے موسوم رہا، پھریکم جنوری1993ء کو اِس کی دوبارہ تقسیم ہوئی اور دو الگ ملک، جمہوریہ چیک [Czech Republic] اور جمہوریہ سلوواک[Slovak Republic] یا سلوواکیا [Slovakia]معرض وجودمیں آئے)۔ روباٹ کی تاریخ میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایسے عجائبات موجود تھے جو کسی نہ کسی طرح، سائنسی لحاظ سے خودکار [Automatic]اور روباٹ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
یہ بات ہے نویں صدی عیسوی کی یعنی جدید روباٹ کی ایجاد سے بھی ایک ہزار ایک سوسال قبل کی۔ پھر کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف بھی انٹرنیٹ اور وہاٹس ایپ کے ذریعے ہم تک پہنچا کہ یہ جدید شکل والے روباٹ بھی خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں، گویا انیسویں صدی میں کسی عثمانی خلیفہ (سلطان) کے عہد میں ایجاد ہوکر یورپ تک پہنچے تھے۔ خودکار گھڑیوں سمیت دیگر ایجادات کی تفصیل بھی ذرا سی کوشش سے معلوم کی جائے تو معترضین کو پتا چلے گا کہ مسلمانوں نے تو ظہوراسلام کے دو تین سو سال میں ہی سائنس سمیت مختلف شعبوں میں بہ سُرعت تمام ترقی کرلی تھی جس کا تسلسل خلافت عثمانیہ کے وسط یا اواخر تک کسی ناکسی حد تک دیکھنے میں آیا اور آج کی بے شمار ایجادات سمیت بیش بہا سائنسی کمالات، فقط مسلمانوں کی ہی دی ہوئی یا گم کی ہوئی میراث ہے اور اس پر افسوس کا مقام ہے کہ بہ زَعم خویش، نام نہاد دانشور ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھ کر ہماری نئی نسل کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے تو پچھلے ہزار سال سے سوائے عیاشی، غلط کاری اور اظہار جہل کے کچھ نہیں کیا۔
یونانی اساطیر (دیومالا Mythology=) میں ایک انتہائی خود پسند (گویا خودپرست) شخص کا نام Narcissus/Narkissosملتا ہے جو پانی میں اپنا ہی عکس دیکھ کر خود پر فدا ہوگیا تھا۔ یہ پیشے کے لحاظ سے شکاری تھا اور دیومالا کے مطابق کسی (جھوٹے ) خدا اور ایک پری یا اَپسرا کی اولاد تھا۔ یوں اپنے آپ کو اس قدر چاہنے اور خود پر مرمٹنے والی کیفیت کو علم نفسیات میں نرگسیت [Narcissism]اور ایسے شخص کو نرگسیت زدہ [Narcissist or Narcissistic]کا نام دیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نرگسیت زدگان ہر شعبہ زندگی میں مل جاتے ہیں، دیگر معاشروں میں شاید یہ مرض اتنا عام نہیں!
عربی میں اسے نرجس کہا جاتا ہے، جو فارسی میں بھی مستعمل اور مروج ہے۔ طبی لحاظ سے اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ مزاجاً گرم ہے یا معتدل۔ شکل کے لحاظ سے اسے آنکھ، خصوصاً محبوب کی آنکھ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اس معاملے میں نرگس کی وہ قسم زیادہ مشہور ہے جسے شہلا کہتے ہیں اور جس کے کٹورے میں، زردی کی بجائے سیاہی ہوتی ہے۔ شہلا کے لغوی معانی ہیں: وہ عورت جس کی آنکھیں بھِڑکی مانند ہوں، سیاہی مائل بھوری آنکھ، سرخی مائل سیاہ آنکھ، میش چشم۔ نرگس کے متعلق متعدد اچھے اشعار، دواوین اور لغات میں دست یا ب ہیں۔ اسیرؔ لکھنوی کا شعر ہے:
ع: صفت رکھتے ہیں ازل سے تِری آنکھوں کے مریض
خاک سے لے کر عصا، نرگس ِ شہلا نکلی
سابق ریاست حیدرآباد، دکن کے سابق نظام (فرماں رَوا)، نظام میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کا شعر ہے:
ع: پوچھتی ہے وہ نرگس مخمور
کس کو دعویٰ ہے پارسائی کا
نرگس مخمور سے مراد نشیلی آنکھ، متوالی آنکھ اور چشم خمار آلود بہ الفاظ دیگر ہے۔ خالص ہندوستانی نسل کے نرگس کا کٹورا عموماً زرد یا سفید ہوتا ہے، جب کہ ایرانی، کابلی یا کشمیری نرگس میں سیاہ ہوتا ہے، نیز اس کی سفیدی سے پارسائی کی نسبت فطری معلوم ہوتی ہے۔ یہاں ضمناً عرض کردوں کہ انھی نظام کا ایک دوسرا شعر اپنی تاثیر کے لحاظ سے منفرد ہے:
ع: دل میں گر تُو نہیں تو پھر کیا ہے
گُل میں گر بُو نہیں تو پھر کیا ہے
نرگس نیم خواب سے مراد وہ خوابیدہ سی آنکھ ہے جو معشوقانہ /محبوبانہ انداز میں جھکی ہوئی ہو۔ اسی کے لیے نرگس بیمار کی ترکیب بھی استعمال ہوتی رہی ہے ۔ اس کے معانی درج ہیں : چشم مست، چشم معشوق ، چشم نیم باز۔ بہادرشاہ ظفرؔ کا شعر ہے:
ع: کریں وہ کس کی دوا دیکھتے ہیں روز طبیب
تیری اس نرگس بیمار کا بیمار نیا
نرگس کا استعمال ہماری نجی زندگی میں ہو نا ہو، نرگسی کوفتے کا استعمال یقیناً ہوتا رہا ہے۔ البتہ اب گھروں میں یہ پکوان کم کم بنتا ہے اور بنتا بھی ہے تو ویسے نہیں بنتا جیسے اس کی اصل ترکیب ہے۔ ناواقفین (خصوصاً ٹیلی وژن کے پروگراموں سے کھانا پکانا سیکھنے والی لڑکیوں) کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اول تو یہ کوفتہ کافی بڑا ہوتا ہے، کرکٹ کی گیند جتنا (یا اُس سے بھی بڑا)، دُوَم یہ کہ پہلے کوفتے کا پورا مسالا تیار ہوتا ہے، پھر اُس کا گولہ یا گیند ہاتھوں سے تیار کرتے ہوئے اُس کے بیچ پورا یا آدھا (اُبلاہوا) انڈا رکھا جاتا ہے اور آخر میں اس پر اس ترکیب سے دھاگا لپیٹا جاتا ہے کہ جب کھولا جائے تو پورے کوفتے کی پھانکیں اس طرح جُداجُدا ہوجاتی ہیں کہ چشم نرگس کا نقشہ بن جاتا ہے۔
اب بتائیے کتنے گھروں میں اس نسخے پر پوری طرح عمل ہوتا ہے۔ ان دنوں تو چھوٹے چھوٹے، سادہ کوفتوں کا رواج ہے جو بِہاری کوفتوں کی طرح یا تقریباً اُتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں اور (گولی جیسے )کابلی یا افغان کوفتے سے بڑے۔ بات کی بات ہے کہ یہ آخری قسم خاکسار کی معلومات کے مطابق کابلی پلاؤ میں تو ڈالی جاتی ہے، مگر شاید اس کے علاوہ اس کا استعمال عام نہیں۔ کابلی پلاؤ کا بھی المیہ ہے کہ پشاور میں آج سے سولہ سال قبل، افغان ریستوراں سے جو کابلی پلاؤ کھایا اور اس کے اوپر ، رواج کے مطابق قہوہ پیا تھا، وہ کراچی میں کہیں نظر نہیں آیا۔کسی قاری کے علم میں ہوتو ضرور آگاہ کریں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نرگسی کوفتے میں آدھے انڈے کی وجہ سے، اس کے کھلنے پر بالکل نرگس کی طرح، سفیدی کے اندرزردی محسوس ہوتی ہے۔ (نہایت دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ ہرچند 'کوفتہ' کے لغوی معنی ہیں، کُوٹا ہوا اور یہ گول کباب ہوتے ہیں، فارسی میں آسیب رسیدہ یعنی آسیب زدہ کو بھی کوفتہ کہتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ)۔ بعض جگہ شامی کباب کی ایک قسم بھی نرگسی کباب کہلاتی ہے جس پر انڈا لگادیا جاتا ہے۔
لغات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نرگسی ایک کپڑے کا نام بھی ہے جس پر نرگس جیسے پھول کے نمونے[Design] ہوتے ہیں، جب کہ ایک اور کپڑا، اشرفی بُوٹی کا کپڑا بھی نرگسی کہلاتا ہے۔ سوسن کے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے بعض لغات میں سوسن بھی کہا گیا ہے ، جب کہ درحقیقت سوسن Irisاور Lilyکا نام ہے اور اس کی بعض اقسام کو نرگس سے مماثل ہونے کی وجہ سے نرگس ہی قرار دیا جاتا ہے۔ بقول سید احمددہلوی، صاحب فرہنگ آصفیہ، سوسن کو اکثر شعراء نے زبان سے تشبیہہ دی ہے۔ نوید الظفر نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس مشہور اداکارہ نرگس سے پہلے بھی بمبئی کی ایک اداکارہ 'نرگس بلانوش' اپنے وقت میں بہت ممتاز تھی۔ اُس نے پہلے خاموش فلموں میں اور پھر متکلم (بولتی) فلموں میں اداکاری کی اور کثرت ِ مئے نوشی کی وجہ سے 'بلانوش' کہلاتی تھی۔ یہاں ایک معلمہ خاتون کا نجی محفل میں کیا ہوا انکشاف بھی نقل کرتا چلوں کہ اُن کے سسر نے اپنی جوانی میں، نامور اداکار ہ نرگس کی ماں جَدّن بائی سے نکاح کیا تھا، مگر یہ بات ہرگز مشہور نہیں۔
آمدم بر سرمطلب! نرگس کی بات ہورہی تھی اور بقول کسے ؎ ذکر جب چھڑگیا قیامت کا ، بات پہنچی تِری جوانی تک، والا معاملہ ہے۔ نرگس ایک ایسا پھول ہے جسے مشرقی ومغربی ادب میں بہ یک وقت بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس پھول کے یونانی سے ماخوذ انگریزی نام کے پس منظر میں دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ غالباً اس کی نشیلی مہک کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا اور نشے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ Narcotic بھی اسی سے مشتق ہے۔
نرگس عوامی جمہوریہ چین کے قومی / سرکاری پھولوں میں شامل ہے، دیگر دو ہیں پیونی [Peony]اور آڑو کے پھول۔ نرگس کی قسم ڈیفوڈل، برطانیہ میں شامل جزیرہ ویلز [Wales ] کا قومی پھول ہے ، لِیک [Leek]کے ساتھ ساتھ۔ ویسے تو یہ بھی آبی یا جل نرگس ہی کہلاتا ہے۔ ڈیفوڈل کے متعلق ایک مشہور انگریزی نظم Daffodilsہمارے نصاب میں شامل رہی ہے۔
اس نظم کا دوسرا نام ہے: "I Wandered Lonely as a Cloud"اور شاعر کا نام ہے: ولیئم ورڈزورتھ[William Wordsworth]۔ یہاں تاریخی انکشاف یہ ہے کہ سن اٹھارہ سو چار میں شروع ہونے والی، اٹھارہ سو سات میں پہلی بار شائع ہونے والی اور1815ء میں (ترمیم شدہ متن کے ساتھ) مکمل ہوکر منظر عام پر آنے والی اس مقبول نظم کا پس منظر شاعر کی اپنی ہمشیرہ ڈوروتھی [Dorothy Wordsworth]کے ساتھ ، Town End,[in Grasmere in England's Lake District] کے مقام کی سیر سے متعلق ہے، جہاں اس دل کش پھولوں کی بہار نے دونوں کو اپنی طرف مائل کیا تھا۔ ابتدا میں ڈوروتھی نے اس واقعے کا ذکر The Grasmere Journal میں کیا ، یہ بات ہے پندرہ اپریل سن اٹھارہ سو بیاسی [15 April 1802]کی۔ سن دو ہزار چار میں اس نظم دو صد سالہ تقریب خواندگی میں برطانیہ کے ڈیڑھ لاکھ بچوں نے حصہ لیا اور شاعری کے اعتراف کے علاوہ، اسے سرطان کے مریضوں کی امدادی مہم کے نام کیا۔ یوں بھی یہ پھول اس ضمن میں علامتی طور پر استعمال کیا جاتاہے۔
نرگس، نباتیات کی رُو سے خاندان اے میریلی ڈے سی[Amaryllidaceae]کا رُکن ہے۔ (نوٹ: اس طرح کے انگریزی یا غیرانگریزی ناموں کے ہجے میں پاکستانی انگریز عموماً غلطی کرتے ہیں۔ جب لفظ کے آخر میں 'اے' اور 'ای' آئیں تو آواز 'ای' کی تابع ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں معیاری انگریزی میں اس پھول کے نام کا درست تلفظ ہے: نا۔سی۔ سَس، 'آر' ساکن کے ساتھ)۔ دنیا بھر میں اس بصلی پودے [Bulbous plant]کی کوئی پینتیس [35]اقسام پائی جاتی ہیں جن میں مشہور نام ہیں: نرگس، شاعر کی نرگس ([N. Poeticus=Poet's narcissus)، ڈیفوڈل [Daffodil]، ڈیفوڈاون ڈلی] [اور ژون کوئیل[Jonquil/Rush daffodil]۔ آپ بھی سوچنے لگے ہوں گے کہ یہ آخر بیٹھے بٹھائے شاعروصحافی سہیل کو کیا ہوا کہ سائنسی بقراطی شروع کردی، قصہ یہ ہے کہ ہرچند یہ بندہ سائنس میں تقریباً پیدل ہے، مگر کیا کریں کہ جب فطرت کا ذکر چھڑ جائے تو آرٹس یعنی فُنون اور سائنس ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور ناقص معلومات والا بھی اس بابت تحقیق کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ویسے یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بہت سی ایجادات کے پیچھے کسی ادیب یا شاعر کے کسی انوکھے تخیل کا دخل ہے۔ کل کی داستانوں کا اُڑَن کھٹولا اور اڑن قالین، آج کا ہوائی جہاز اور راکٹ یا خلائی جہاز ہے۔ روباٹ [Robot]کے متعلق یہ بات تو کم معلوم اور مشہور ہے کہ عہدجدید میں اس کی ایجاد سے کئی سال پہلے، چیکوسلوواکیا کے ایک ادیب کارَل چاپیک[Karel Capek]نے اس کا تصور اپنے ایک ادبی ڈرامےR.U.R. (Rossum's Universal Robots) میں پیش کیا تھا، یہ سن انیس سو بیس کا واقعہ ہے، مگر حقیقت میں معاملہ اس سے بھی صدیوں پرانا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ، خود اُس نے نہیں، بلکہ اُس کے مصور بھائی ژوزیف چاپیک[Josef Capek]نے ایجادکیا تھا۔
(۱۔ درست تلفظ یہی ہے نہ کہ روبوٹ۔۲۔یہ ملک ایک طویل مدت تک دو ملکوں کے اتحاد کی بنیاد پر اس نام سے موسوم رہا، پھریکم جنوری1993ء کو اِس کی دوبارہ تقسیم ہوئی اور دو الگ ملک، جمہوریہ چیک [Czech Republic] اور جمہوریہ سلوواک[Slovak Republic] یا سلوواکیا [Slovakia]معرض وجودمیں آئے)۔ روباٹ کی تاریخ میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایسے عجائبات موجود تھے جو کسی نہ کسی طرح، سائنسی لحاظ سے خودکار [Automatic]اور روباٹ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
یہ بات ہے نویں صدی عیسوی کی یعنی جدید روباٹ کی ایجاد سے بھی ایک ہزار ایک سوسال قبل کی۔ پھر کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف بھی انٹرنیٹ اور وہاٹس ایپ کے ذریعے ہم تک پہنچا کہ یہ جدید شکل والے روباٹ بھی خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں، گویا انیسویں صدی میں کسی عثمانی خلیفہ (سلطان) کے عہد میں ایجاد ہوکر یورپ تک پہنچے تھے۔ خودکار گھڑیوں سمیت دیگر ایجادات کی تفصیل بھی ذرا سی کوشش سے معلوم کی جائے تو معترضین کو پتا چلے گا کہ مسلمانوں نے تو ظہوراسلام کے دو تین سو سال میں ہی سائنس سمیت مختلف شعبوں میں بہ سُرعت تمام ترقی کرلی تھی جس کا تسلسل خلافت عثمانیہ کے وسط یا اواخر تک کسی ناکسی حد تک دیکھنے میں آیا اور آج کی بے شمار ایجادات سمیت بیش بہا سائنسی کمالات، فقط مسلمانوں کی ہی دی ہوئی یا گم کی ہوئی میراث ہے اور اس پر افسوس کا مقام ہے کہ بہ زَعم خویش، نام نہاد دانشور ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھ کر ہماری نئی نسل کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے تو پچھلے ہزار سال سے سوائے عیاشی، غلط کاری اور اظہار جہل کے کچھ نہیں کیا۔
یونانی اساطیر (دیومالا Mythology=) میں ایک انتہائی خود پسند (گویا خودپرست) شخص کا نام Narcissus/Narkissosملتا ہے جو پانی میں اپنا ہی عکس دیکھ کر خود پر فدا ہوگیا تھا۔ یہ پیشے کے لحاظ سے شکاری تھا اور دیومالا کے مطابق کسی (جھوٹے ) خدا اور ایک پری یا اَپسرا کی اولاد تھا۔ یوں اپنے آپ کو اس قدر چاہنے اور خود پر مرمٹنے والی کیفیت کو علم نفسیات میں نرگسیت [Narcissism]اور ایسے شخص کو نرگسیت زدہ [Narcissist or Narcissistic]کا نام دیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نرگسیت زدگان ہر شعبہ زندگی میں مل جاتے ہیں، دیگر معاشروں میں شاید یہ مرض اتنا عام نہیں!