محبت مجھے اِن جوانوں سے ہے
زتِ نفس اور غیرت و حمیت کے احساسات سے عاری افراد کسی بڑی تبدیلی اور انقلاب کے خواہشمند اور امین نہیں ہوا کرتے
طبلے کی تھاپ پر دوسروں کے لیے سر دُھننے اور ناچنے والی اِس انبوہ بے منزل نے گزشتہ 65 سالوں میں کیسے کیسے لائق نوجوان پیدا کیے، کیسے کیسے بہادر اور نڈر جیالے ہنرمند پیدا کیے کہ جنھیں دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے اور ذہن بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ مفکرِ قوم اورشاعرِ مشرق علامہ اقبال نے شاید انھی نوجوانوں کے لیے بالکل درست اور صحیح فرمایا تھا کہ ۔ محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ۔ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند۔ آسمانوں پر بڑی بڑی کمند ڈالنے والے توقیر صادق، راؤ شکیل، عدنان خواجہ ،زین سکھیرا ،خرم رسول اور نجانے ایسے کتنے باصلاحیت اور باکمال ہنر مند افراد ہم نے اِس مختصر جمہوری عرصے میں دنیا سے متعارف کر وائے ہیں جن کی کرم نوازیوں اور مہربانیوں کی بدولت دنیا کے بڑے بڑے چوروں، لٹیروں،راہزنوں اور قزاقوں کو بھی اپنی حر کتوںپرشرمندگی ہونے لگی ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک بہترین نظامِ حکومت ہے۔
اِس ملکِ پاکستان میںجمہوریت کے ثمرات و لوازمات سے اگر کوئی صحیح معنوں میں بہرامند ہوا ہے تو ایسے ہی لاتعداد لائق ،ذہین اور قابلِ ستائش افراد بہرہ مند ہوئے ہیں جنھیں کوئی اپنا جیل کاساتھی اور دوست قرار دیکر انتہائی لاڈ و پیار سے اہم عہدے اور منصب بٹھا تا ہے توکوئی جنھیں مارشل لاء کے زمانے کا مظلوم، معصوم اور بے گناہ ستم رسیدہ مان کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ موجودہ جمہوری دور میں چن چن کر نا اہل اور بد کردار لوگوں کو ایک مخصوص مقاصد اور ٹارگٹ کے ساتھ بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا گیا، اورجنہوں نے اپنا کام مطلوبہ توقعات کے عین مطابق بخوبی سر انجام بھی دیااور بعدا زاں جنھیں سرکاری حفاظت اور سرپرستی میںمحفوظ مقام پر پہنچا بھی دیا گیا۔ اب ہماری عدلیہ کو ایک چیلنج کا سامنا ہے کہ ملک میں ہونے والی تاریخی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے کیسوں کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے لائے۔سارے کیس یونہی زیرِ التوا رہیں اور نہ تمام ملزم لاپتہ اور مفرور قرار پائیں ۔ کرپشن کے سارے شجر ِسایہ دار تن سے کاٹنے پڑیں گے۔
ہمارے بچے اور ہماری نسلیںہمارے اِس اندازِ حکمرانی سے کیا سبق حاصل کر رہے ہیں۔یہاں قانون کی کتنی تکریم، آئین کی کتنی توقیر اور عدل و انصاف کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔ جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کے مصداق یہاں کاسارا نظام چل رہا ہے۔ جو جتنا بڑا طاقت ور اور جاہ و جلال کا مالک ہوتا ہے موسم اُسی کے اشارہِ ابرو پر رقص کر تے ہیں،قانون نافذکرنے والے ادارے اُسی کی ایماء پر مجرموں اور سیاہ کاروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔قومی خزانوں پر نقب زنی کرنے والے ، جرائم کی آغوش میں پرورش پانے والے اور اُن کے کرتا دھرتا اپناکام بناء کسی خوف و خطر کے مسلسل کیے جاتے ہیں اور قانون کی کوئی گرفت اُن کے گریبانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔کبھی وہ خود براہِ راست اِن سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور کبھی اپنے زرخرید ایجنٹوں سے یہ کام کروا تے ہیں۔
راؤ شکیل کون تھا اور کس کا دوست اور ساتھی تھا۔ یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ زین سکھیرا اور خرم رسول کس کے ہمنوا اور ہم راز تھے۔ اُنہیں کس نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ عدنان خواجہ کو کس نے OGCDLکا چیئر مین بنایااور کون اُس کے کارناموں کی سرپرستی کرتا رہا۔اور توقیر صادق کو کس نے اوگرا میں 82ارب روپے کی کرپشن کی اجازت دی اور بعد ازاں مکمل تحفظ دیکر اِس ملک سے فرار کروایا۔ اور اب کون اُس کی گرفتاری میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ عدل و انصاف کی خاطر اپنی ساری توانائی اِن عناصر کی بیخ کنی پر خرچ کر رہی ہے اور حکمرانوں کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔نیب اور ایف آئی اے عدلیہ کے معاون اور مددگار بننے کی بجائے کرپٹ عناصر کو تحفظ دینے اور ضمانت فراہم کر نے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
ہم صبح و شام اپنے وطن کو لُٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، ہر ادارے کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں ،وطنِ عزیز مالی ، اقتصادی اور اخلاقی پستی کی افسوسناک تصویر بن چکا ہے۔ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، نااُمیدی اور مایوسیوں کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں اور جمہوریت ایک بہترین انتقام کا روپ دھار کر ہماری دہلیز پر کھڑی مسکرا رہی ہے۔ یہ انتقام کسی دشمن یا فرد سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ یہ انتقام صرف اپنے بھولے بھالے عوام سے لیا جا رہا ہے۔ جذباتی نعروں اور خوابوں کی دنیا میں مگن ہمارے لوگوں کو اب بھی اپنے دوست اور دشمن میں فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنے خیر خواہ اوربد خواہ میں کوئی امتیاز سجھائی نہیں دے رہا۔ اعلیٰ عدلیہ جسے جعلی تعلیمی اسناد کے جرم میں قومی اسمبلی سے باہر کر دیتی ہے ہمارے لوگ اُسے پہلے سے زائد بھر پور مینڈیٹ کے ساتھ پھر اسمبلی میں پہنچا دیتے ہیں۔
کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی لمبی فہرست والوں کو ، اوگرا اور حج کرپشن کے ملزمان کی سرپرستی کرنے والوں کو ، ایفیڈرن کا کوٹہ غیر قانونی طور پر الاٹ کرنے والوں کو ہم بڑی ڈھٹائی سے اپنا رہبرو رہنمامان کر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی ہنسی اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ہم جیتے جاگتے اپنے مکمل ہوش وہواس کے ساتھ یہ عمل ہر بار دہراتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایسے ہی لوگ عزیز ہیں،اِنہی سے ہمیں بے پناہ محبت ہے۔ ہمیں نیک ، صالح ،باکردار اور مخلص لوگ قطعی ناپسند ہیں ۔ جمہوریت کا تسلسل بھی ہماری تربیت کا ذریعہ نہ بن سکا۔ ہمارے سروں پر بد کردار، بدعنوان اور نااہل افراد کا ٹولہ اگر مسلط ہے تو اِس کے ذمے دار بھی ہم خود ہیں۔ہم ہی نے اُنہیں حقِ حکمرانی عطا کی ہے۔ جب تک ہم خود اپنے حالات کی بہتری کا ارادہ اور تہیہ نہیں کر لیتے ہمارا نظام یونہی چلتا رہے گا۔
بہت جلدہم کرپشن کی دنیا میں سرِ فہرست قرار پائیں گے، قرض کی مہ پی پی کر ہم میں اپنی انا، خودی اور عزتِ نفس کا فقدان انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ غلامی کا طوق گلے میں لٹکائے ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جھڑکیاںسنتے سنتے بے حس و بے پرواہ ہو چکے ہیں۔فاقہ مستی میں مگن ساری قوم کو اب اپنی ذلت و رسوائی اورجگ ہنسائی کی کوئی پرواہ نہیں۔ جس قوم کے شب وروز کا ہر لمحہ اِسی طرح کی رسوائیوں اور بدنامیوں سے بندھا ہوا ہو اُس سے کسی معجزے کی کوئی توقع اور اُمید نہیںہواکر تی۔ انقلاب صرف غیرت مند قوموں کامقدر ہوا کر تا ہے۔ عزتِ نفس اور غیرت و حمیت اور خودی و انا کے احساسات سے عاری افراد کسی بڑی تبدیلی اور انقلاب کے خواہشمند اور امین نہیں ہوا کرتے۔ وہ اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور لغزشوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اُنہیں مسلسل دہرانے کے عمل ہی میں مگن اور مشغول رہتے ہیں۔اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اِس ملکِ پاکستان میںجمہوریت کے ثمرات و لوازمات سے اگر کوئی صحیح معنوں میں بہرامند ہوا ہے تو ایسے ہی لاتعداد لائق ،ذہین اور قابلِ ستائش افراد بہرہ مند ہوئے ہیں جنھیں کوئی اپنا جیل کاساتھی اور دوست قرار دیکر انتہائی لاڈ و پیار سے اہم عہدے اور منصب بٹھا تا ہے توکوئی جنھیں مارشل لاء کے زمانے کا مظلوم، معصوم اور بے گناہ ستم رسیدہ مان کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ موجودہ جمہوری دور میں چن چن کر نا اہل اور بد کردار لوگوں کو ایک مخصوص مقاصد اور ٹارگٹ کے ساتھ بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا گیا، اورجنہوں نے اپنا کام مطلوبہ توقعات کے عین مطابق بخوبی سر انجام بھی دیااور بعدا زاں جنھیں سرکاری حفاظت اور سرپرستی میںمحفوظ مقام پر پہنچا بھی دیا گیا۔ اب ہماری عدلیہ کو ایک چیلنج کا سامنا ہے کہ ملک میں ہونے والی تاریخی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے کیسوں کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے لائے۔سارے کیس یونہی زیرِ التوا رہیں اور نہ تمام ملزم لاپتہ اور مفرور قرار پائیں ۔ کرپشن کے سارے شجر ِسایہ دار تن سے کاٹنے پڑیں گے۔
ہمارے بچے اور ہماری نسلیںہمارے اِس اندازِ حکمرانی سے کیا سبق حاصل کر رہے ہیں۔یہاں قانون کی کتنی تکریم، آئین کی کتنی توقیر اور عدل و انصاف کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔ جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کے مصداق یہاں کاسارا نظام چل رہا ہے۔ جو جتنا بڑا طاقت ور اور جاہ و جلال کا مالک ہوتا ہے موسم اُسی کے اشارہِ ابرو پر رقص کر تے ہیں،قانون نافذکرنے والے ادارے اُسی کی ایماء پر مجرموں اور سیاہ کاروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔قومی خزانوں پر نقب زنی کرنے والے ، جرائم کی آغوش میں پرورش پانے والے اور اُن کے کرتا دھرتا اپناکام بناء کسی خوف و خطر کے مسلسل کیے جاتے ہیں اور قانون کی کوئی گرفت اُن کے گریبانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔کبھی وہ خود براہِ راست اِن سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور کبھی اپنے زرخرید ایجنٹوں سے یہ کام کروا تے ہیں۔
راؤ شکیل کون تھا اور کس کا دوست اور ساتھی تھا۔ یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ زین سکھیرا اور خرم رسول کس کے ہمنوا اور ہم راز تھے۔ اُنہیں کس نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ عدنان خواجہ کو کس نے OGCDLکا چیئر مین بنایااور کون اُس کے کارناموں کی سرپرستی کرتا رہا۔اور توقیر صادق کو کس نے اوگرا میں 82ارب روپے کی کرپشن کی اجازت دی اور بعد ازاں مکمل تحفظ دیکر اِس ملک سے فرار کروایا۔ اور اب کون اُس کی گرفتاری میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ عدل و انصاف کی خاطر اپنی ساری توانائی اِن عناصر کی بیخ کنی پر خرچ کر رہی ہے اور حکمرانوں کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔نیب اور ایف آئی اے عدلیہ کے معاون اور مددگار بننے کی بجائے کرپٹ عناصر کو تحفظ دینے اور ضمانت فراہم کر نے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
ہم صبح و شام اپنے وطن کو لُٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، ہر ادارے کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں ،وطنِ عزیز مالی ، اقتصادی اور اخلاقی پستی کی افسوسناک تصویر بن چکا ہے۔ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، نااُمیدی اور مایوسیوں کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں اور جمہوریت ایک بہترین انتقام کا روپ دھار کر ہماری دہلیز پر کھڑی مسکرا رہی ہے۔ یہ انتقام کسی دشمن یا فرد سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ یہ انتقام صرف اپنے بھولے بھالے عوام سے لیا جا رہا ہے۔ جذباتی نعروں اور خوابوں کی دنیا میں مگن ہمارے لوگوں کو اب بھی اپنے دوست اور دشمن میں فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنے خیر خواہ اوربد خواہ میں کوئی امتیاز سجھائی نہیں دے رہا۔ اعلیٰ عدلیہ جسے جعلی تعلیمی اسناد کے جرم میں قومی اسمبلی سے باہر کر دیتی ہے ہمارے لوگ اُسے پہلے سے زائد بھر پور مینڈیٹ کے ساتھ پھر اسمبلی میں پہنچا دیتے ہیں۔
کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی لمبی فہرست والوں کو ، اوگرا اور حج کرپشن کے ملزمان کی سرپرستی کرنے والوں کو ، ایفیڈرن کا کوٹہ غیر قانونی طور پر الاٹ کرنے والوں کو ہم بڑی ڈھٹائی سے اپنا رہبرو رہنمامان کر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی ہنسی اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ہم جیتے جاگتے اپنے مکمل ہوش وہواس کے ساتھ یہ عمل ہر بار دہراتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایسے ہی لوگ عزیز ہیں،اِنہی سے ہمیں بے پناہ محبت ہے۔ ہمیں نیک ، صالح ،باکردار اور مخلص لوگ قطعی ناپسند ہیں ۔ جمہوریت کا تسلسل بھی ہماری تربیت کا ذریعہ نہ بن سکا۔ ہمارے سروں پر بد کردار، بدعنوان اور نااہل افراد کا ٹولہ اگر مسلط ہے تو اِس کے ذمے دار بھی ہم خود ہیں۔ہم ہی نے اُنہیں حقِ حکمرانی عطا کی ہے۔ جب تک ہم خود اپنے حالات کی بہتری کا ارادہ اور تہیہ نہیں کر لیتے ہمارا نظام یونہی چلتا رہے گا۔
بہت جلدہم کرپشن کی دنیا میں سرِ فہرست قرار پائیں گے، قرض کی مہ پی پی کر ہم میں اپنی انا، خودی اور عزتِ نفس کا فقدان انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ غلامی کا طوق گلے میں لٹکائے ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جھڑکیاںسنتے سنتے بے حس و بے پرواہ ہو چکے ہیں۔فاقہ مستی میں مگن ساری قوم کو اب اپنی ذلت و رسوائی اورجگ ہنسائی کی کوئی پرواہ نہیں۔ جس قوم کے شب وروز کا ہر لمحہ اِسی طرح کی رسوائیوں اور بدنامیوں سے بندھا ہوا ہو اُس سے کسی معجزے کی کوئی توقع اور اُمید نہیںہواکر تی۔ انقلاب صرف غیرت مند قوموں کامقدر ہوا کر تا ہے۔ عزتِ نفس اور غیرت و حمیت اور خودی و انا کے احساسات سے عاری افراد کسی بڑی تبدیلی اور انقلاب کے خواہشمند اور امین نہیں ہوا کرتے۔ وہ اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور لغزشوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اُنہیں مسلسل دہرانے کے عمل ہی میں مگن اور مشغول رہتے ہیں۔اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔