کچھ ملتی جلتی صورت حال
2012 کے 14 نومبر کو یورپ گیر عام ہڑتال کی کوشش کی گئی جو محنت کشوں کے بڑھتے انقلابی شعور کی علامت ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں ترکی، اردن اور پاکستان کی کچھ ملتی جلتی سیاسی صورت حال نظر آئی۔ بعض حلقے ترکی کی حالیہ حکومت کو سامراج مخالف حکومت سمجھنے لگے تھے۔ 22 جنوری منگل کے واقعے سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اس وقت نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔ ترکی میں نیٹو میزائل تعیناتی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین نے جرمن فوجیوں پر ہلہ بول دیا۔ سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور 14 افراد گرفتار کرلیے گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ترک یوتھ یونین کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ساحلی شہر اسکندروم میں عوام کی بڑی تعداد نے ملک میں نیٹو میزائل تعیناتی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران مشتعل مظاہرین نے ساحلی شہر میں تعینات جرمن فوجیوں پر اچانک ہلہ بول دیا، جس کے بعد مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپ شروع ہوگئی۔ فورسز نے چودہ مظاہرین کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جب کہ دیگر درجنوں افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ مظاہرین نے امریکی پرچم بھی نذرآتش کردیے۔ 23 جنوری کو پر تشدد مظاہروں کے سائے میں اردن کے پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی، سخت سیکیورٹی اقدامات میں گنے چنے لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ ووٹنگ کا عمل صبح 7 سے شام 7 تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔
اس موقعے پر ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا جب کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابی نتائج کا اعلان کل تک متوقع ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بدھ کو اردن میں بائیکاٹ کی اپیلوں، کرپشن کے الزامات اور مظاہروں کے سائے میں انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ انتخابات میں 21 لاکھ 82 ہزار عوام حق رائے دہی کا استعمال کرسکتے تھے۔ اردن کی کل آبادی تقریباً 70 لاکھ کی ہے۔ جس میں تقریباً 30 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، لیکن تمام افراد نے ووٹ رجسٹریشن نہیں کرائے جب کہ مجلس قانون ساز کے لیے اردن میں ہونے والے انتخابات میں 1425 امیدواروں نے قسمت آزمائی کی، ان میں 191 خواتین بھی شامل تھیں، فلسطینی نژاد عرب قوم پرستوں اور روایتی طور پر بادشاہ کے وفادار قبائل نے بھی انتخابی قوانین کو غیرمنصفانہ قرار دیا۔ اسی طرح کے کچھ واقعات پاکستان میں بھی ہوئے ۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کنٹینر ملاقات، جس میں عوامی تحریک کے ساتھ ایم کیو ایم، پی پی پی اور مسلم لیگ(ق) کے مذاکرات (ایسا لگتا تھا کہ پہلے سے طے شدہ تھا) ہوئے۔ پھر کوئٹہ میں 115 شیعہ ہزارہ کے افراد کے قتل پر ملک بھر میں مظاہرے اور شاید بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اب تک کوئی قاتل گرفتار ہوا اور نہ سزا ہوئی۔ اسی دوران خیبر ایجنسی باڑہ میں 18 افراد کی ہلاکت، پھر دھرنے اور مذاکرات، اس ہلاکت پر بھی کوئی قاتل گرفتار ہوا اور نہ سزا ہوئی۔ ہاں چند دنوں بعد یہ ضرور ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی ساتھ 300 مزدور کہیں بھی جل کر نہیں مرے۔
اس کے قصوروار کے طور پر حکومت نے جو مقدمہ درج کیا تھا اب اسے بھی واپس لے کر مزدور دشمنی کا بین ثبوت دے دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی صورت حال سے زیادہ بدتر حالت معاشی ہے۔ بعض شوگر ملیں کسانوں کو گنے کے واجبات ادا نہیں کر رہی ہیں۔ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے کہا ہے کہ پاکستان پر ملکی اور غیرملکی قرضے 15 ہزار ارب روپے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
2008 میں غیرملکی قرضوں کی مجموعی مالیت 45.792 ارب ڈالر تھی جو ستمبر 2012 تک بڑھ کر 66.243 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ مارچ2008 میں ہر پاکستانی فرد 26,700 روپے کے غیرملکی قرض تلے دبا ہوا تھا اور اب 2012 تک اس میں 11,900 روپے بڑھ کر 5 سال میں پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 38,600 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضوں کی مالیت 1.414 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا رواں سال 2012 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا جی ڈی پی میں تناسب 2.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان سے حاصل کردہ 47 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع سرمایہ داروں نے اپنے ملکوں کو منتقل کیا ہے۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 53 کروڑ 11 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ غیرملکی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا 38 کروڑ87 لاکھ ڈالر اور غیرملکی نجی سرمایہ کاری سے حاصل کردہ 12 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا۔
ایک جانب پاکستان کا ملکی اور غیرملکی قرضوں کا حجم 15 ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، فی فرد 38,600 روپے کا مقروض ہے اور دوسری جانب رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان سے 47 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع غیرملکی سرمایہ داروں نے اپنے ملکوں کو منتقل کیا ہے۔ پاکستان سے جتنی رقم سرمایہ کار اپنے ممالک میں منافعے کے طور پر منتقل کرتے ہیں اگر ایسا ہو تو ہم قرضوں سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ قرض لینے کا جواز معیشت کو مستحکم اور سماجی ترقی بتائی جاتی ہے جب کہ ہماری معیشت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور ترقی صرف صاحب جائیداد طبقات کی ہورہی ہے۔
2012 میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کی زد میں رہا اور اب پہلے سے زیادہ گہری عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یورپ، جاپان اور امریکا میں شروع ہونے والا معاشی بحران برآمدات کی طلب میں کئی سرمائے کے بہاؤ اور اجناس کی قیمتوں میں بڑھتی بے یقینی کی صورت میں ترقی پذیر ممالک پر اثرانداز ہونا شروع ہوگیا ہے۔ دنیا کے چند ایک پاکستان جیسے ممالک ہیں جن پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یورو کے بحران میں شدت امریکا میں مالیاتی انحطاط پذیری اور چینی معیشت کی تیز گراوٹ عالمی کساد بازاری کو جنم دے رہی ہے۔
یورپ میں محنت کش اور نوجوانوں کی جدوجہد جاری ہے جس سے 2012 میں ریاستیں کانپتی رہیں۔ 2012 کے 14 نومبر کو یورپ گیر عام ہڑتال کی کوشش کی گئی جو محنت کشوں کے بڑھتے انقلابی شعور کی علامت ہے۔ یورپی سرمایہ دار ان تحریکوں کو نہ تو براہ راست آمرانہ حکومت کے ذریعے کچل سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ وقت میں فسطائیت نافذ کرسکتی ہے۔ محنت کشوں کی جانب سے ان کی زندگیوں کو برباد کرنے والے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں اصل رکاوٹ سوشل ڈیموکریسی اور روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں۔ امریکا میں اوباما کی فتح سے امریکی محنت کش اکتا گئے ہیں اور خوش فہمیاں دم توڑ چکی ہیں۔ اس لیے اب پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی خطہ سرمایہ داری کے سماجی اور معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکتا۔ حکمران اشرافیہ اربوں ڈالر جمع کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب اربوں انسان خوفناک اذیت اور بھیانک ذلت میں ڈوبے جارہے ہیں۔ ایسا نظام نہ تو جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کا کوئی حق ہے۔ اسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ کسی ایک بھی بڑے ملک میں محنت کشوں کی انقلابی فتح کی صورت میں باقی دنیا کے عوام گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر انقلاب دیکھنے تک محدود نہیں رہیں گے۔ ایک انقلابی فتح انھیں سڑکوں پر لے آئے گی جہاں وہ ا س انقلابی تحریک میں شامل ہوکر نسل انسانی کے لیے امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم کریں گے۔
اس موقعے پر ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا جب کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابی نتائج کا اعلان کل تک متوقع ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بدھ کو اردن میں بائیکاٹ کی اپیلوں، کرپشن کے الزامات اور مظاہروں کے سائے میں انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ انتخابات میں 21 لاکھ 82 ہزار عوام حق رائے دہی کا استعمال کرسکتے تھے۔ اردن کی کل آبادی تقریباً 70 لاکھ کی ہے۔ جس میں تقریباً 30 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، لیکن تمام افراد نے ووٹ رجسٹریشن نہیں کرائے جب کہ مجلس قانون ساز کے لیے اردن میں ہونے والے انتخابات میں 1425 امیدواروں نے قسمت آزمائی کی، ان میں 191 خواتین بھی شامل تھیں، فلسطینی نژاد عرب قوم پرستوں اور روایتی طور پر بادشاہ کے وفادار قبائل نے بھی انتخابی قوانین کو غیرمنصفانہ قرار دیا۔ اسی طرح کے کچھ واقعات پاکستان میں بھی ہوئے ۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کنٹینر ملاقات، جس میں عوامی تحریک کے ساتھ ایم کیو ایم، پی پی پی اور مسلم لیگ(ق) کے مذاکرات (ایسا لگتا تھا کہ پہلے سے طے شدہ تھا) ہوئے۔ پھر کوئٹہ میں 115 شیعہ ہزارہ کے افراد کے قتل پر ملک بھر میں مظاہرے اور شاید بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اب تک کوئی قاتل گرفتار ہوا اور نہ سزا ہوئی۔ اسی دوران خیبر ایجنسی باڑہ میں 18 افراد کی ہلاکت، پھر دھرنے اور مذاکرات، اس ہلاکت پر بھی کوئی قاتل گرفتار ہوا اور نہ سزا ہوئی۔ ہاں چند دنوں بعد یہ ضرور ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی ساتھ 300 مزدور کہیں بھی جل کر نہیں مرے۔
اس کے قصوروار کے طور پر حکومت نے جو مقدمہ درج کیا تھا اب اسے بھی واپس لے کر مزدور دشمنی کا بین ثبوت دے دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی صورت حال سے زیادہ بدتر حالت معاشی ہے۔ بعض شوگر ملیں کسانوں کو گنے کے واجبات ادا نہیں کر رہی ہیں۔ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے کہا ہے کہ پاکستان پر ملکی اور غیرملکی قرضے 15 ہزار ارب روپے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
2008 میں غیرملکی قرضوں کی مجموعی مالیت 45.792 ارب ڈالر تھی جو ستمبر 2012 تک بڑھ کر 66.243 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ مارچ2008 میں ہر پاکستانی فرد 26,700 روپے کے غیرملکی قرض تلے دبا ہوا تھا اور اب 2012 تک اس میں 11,900 روپے بڑھ کر 5 سال میں پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 38,600 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضوں کی مالیت 1.414 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا رواں سال 2012 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا جی ڈی پی میں تناسب 2.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان سے حاصل کردہ 47 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع سرمایہ داروں نے اپنے ملکوں کو منتقل کیا ہے۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 53 کروڑ 11 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ غیرملکی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا 38 کروڑ87 لاکھ ڈالر اور غیرملکی نجی سرمایہ کاری سے حاصل کردہ 12 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا۔
ایک جانب پاکستان کا ملکی اور غیرملکی قرضوں کا حجم 15 ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، فی فرد 38,600 روپے کا مقروض ہے اور دوسری جانب رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان سے 47 کروڑ 49 لاکھ ڈالر کا منافع غیرملکی سرمایہ داروں نے اپنے ملکوں کو منتقل کیا ہے۔ پاکستان سے جتنی رقم سرمایہ کار اپنے ممالک میں منافعے کے طور پر منتقل کرتے ہیں اگر ایسا ہو تو ہم قرضوں سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ قرض لینے کا جواز معیشت کو مستحکم اور سماجی ترقی بتائی جاتی ہے جب کہ ہماری معیشت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور ترقی صرف صاحب جائیداد طبقات کی ہورہی ہے۔
2012 میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کی زد میں رہا اور اب پہلے سے زیادہ گہری عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یورپ، جاپان اور امریکا میں شروع ہونے والا معاشی بحران برآمدات کی طلب میں کئی سرمائے کے بہاؤ اور اجناس کی قیمتوں میں بڑھتی بے یقینی کی صورت میں ترقی پذیر ممالک پر اثرانداز ہونا شروع ہوگیا ہے۔ دنیا کے چند ایک پاکستان جیسے ممالک ہیں جن پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یورو کے بحران میں شدت امریکا میں مالیاتی انحطاط پذیری اور چینی معیشت کی تیز گراوٹ عالمی کساد بازاری کو جنم دے رہی ہے۔
یورپ میں محنت کش اور نوجوانوں کی جدوجہد جاری ہے جس سے 2012 میں ریاستیں کانپتی رہیں۔ 2012 کے 14 نومبر کو یورپ گیر عام ہڑتال کی کوشش کی گئی جو محنت کشوں کے بڑھتے انقلابی شعور کی علامت ہے۔ یورپی سرمایہ دار ان تحریکوں کو نہ تو براہ راست آمرانہ حکومت کے ذریعے کچل سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ وقت میں فسطائیت نافذ کرسکتی ہے۔ محنت کشوں کی جانب سے ان کی زندگیوں کو برباد کرنے والے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں اصل رکاوٹ سوشل ڈیموکریسی اور روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں۔ امریکا میں اوباما کی فتح سے امریکی محنت کش اکتا گئے ہیں اور خوش فہمیاں دم توڑ چکی ہیں۔ اس لیے اب پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی خطہ سرمایہ داری کے سماجی اور معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکتا۔ حکمران اشرافیہ اربوں ڈالر جمع کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب اربوں انسان خوفناک اذیت اور بھیانک ذلت میں ڈوبے جارہے ہیں۔ ایسا نظام نہ تو جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کا کوئی حق ہے۔ اسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ کسی ایک بھی بڑے ملک میں محنت کشوں کی انقلابی فتح کی صورت میں باقی دنیا کے عوام گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر انقلاب دیکھنے تک محدود نہیں رہیں گے۔ ایک انقلابی فتح انھیں سڑکوں پر لے آئے گی جہاں وہ ا س انقلابی تحریک میں شامل ہوکر نسل انسانی کے لیے امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم کریں گے۔