قطری شہزادے کو تفتیش کا حصہ بنائے بغیر جے آئی ٹی رپورٹ قبول نہیں خواجہ آصف
پاناما کیس میں ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا، وفاقی وزرا کی جے آئی ٹی پر ایک بار پھر تنقید
وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قطری شہزادے کی رپورٹ کو جے آئی ٹی کا حصہ نہ بنایا گیا تو اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا طریقہ کار، تشکیل اور ارکان کا انتخاب روز اول سے ہی متنازع رہا، جے آئی ٹی مان گئی کہ تصویر ان سے لیک ہوئی لیکن ذمہ دار کا نام نہیں بتایا گیا جب کہ جے آئی ٹی میں لوگوں پر بیان بدلنے کے لیے دباو ڈالا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قطری شہزادے کا جے آئی ٹی کا دائرہ اختیارتسلیم کرنے سے انکار
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا گیا تھا ایف آئی اے جے آئی ٹی کی سربراہی کرے گی لیکن اب تو خبر آگئی ہے کہ حساس ادارے کے پاس جے آئی ٹی کا کنٹرول ہے جبکہ اب تک حساس ادارے کی جانب سے اس کی تردید نہیں آئی، خبر کے مطابق کنٹرول عدالتی حکم کے تحت دیا گیا اور اس کیس میں ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں عامر عزیز کا نام سامنے آنے سے مسائل پیدا ہوئے جب کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے ساتھ برا رویہ اپنایا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ میری جے آئی ٹی میں پیشی پروالد کی آنکھوں میں تشویش دیکھی، مریم نواز
وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 1999 میں وزیراعظم نواز شریف کا احتساب کیا گیا لیکن احتساب کے باوجود وزیراعظم کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہوئی جب کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے تفتیش میں پیش ہونے کی روایت نہیں، اس کے باوجود مریم نواز نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گھبرانے والے نہیں، عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن فیصلہ صرف انصاف پر مبنی ہی قبول کیا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی کو 10 جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی تمام آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کو ٹیلی ویژن پر دکھایا جائے جس کا خرچا ہم برداشت کریں گے، عوام کو بتایا جائے کہ وزیراعظم اور دیگر افراد سے کیا سوالات ہوئے اور ان کے کیا جوابات دیے گئے، پاکستان کے 20 کروڑ عوام سب سے بڑی جے آئی ٹی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ قطری خط کی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی دوحا کیوں نہیں جاتی، قطری خط کی تصدیق نہ کرنا ناانصافی ہوگی جب کہ ماضی میں بے نظیر قتل کیس میں مارک سیگل سے امریکا میں بیان ریکارڈ کیا گیا، اس کے علاوہ پرویز مشرف سمیت کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بیرون ملک ٹیمیں گئیں، اگر قطری شہزادے کی شہادت نہ لی گئی تو جے آئی ٹی رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ وزیراعظم کے ایما پرجے آئی ٹی اورعدلیہ کوبلیک میل کیا جارہا ہے، تحریک انصاف
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ انتخابات کے ذریعے عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوا تو انہوں نے عدالتی کندھا استعمال کرنا شروع کر دیا، پاکستان کی ترقی کو سیاسی بے یقینی میں تبدیل کر کے روکنا مجرمانہ حرکت ہے لیکن چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کا وقت گزر چکا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ملک میں کرپشن ہوتی تو ہماری اسٹاک مارکیٹ ترقی نہ کرتی، لوڈشیڈنگ 20 گھنٹوں سے کم ہو کر 10 سے 12 گھنٹے تک نہ آتی، بیرون ملک سے سرمایہ کاری نہ آتی، ہماری ترقی کی شرخ 5 اعشاریہ 3 تک نہ جاتی اور پوری دنیا ہماری معیشت میں بہتری کا اعتراف نہ کرتی، دھرنوں اور منفی سیاست کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی نے اسٹاک مارکیٹ کو 50 ہزار سے 46 ہزار تک پہچا دیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا سرمایہ ڈوب گیا۔
MAil.express
اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا طریقہ کار، تشکیل اور ارکان کا انتخاب روز اول سے ہی متنازع رہا، جے آئی ٹی مان گئی کہ تصویر ان سے لیک ہوئی لیکن ذمہ دار کا نام نہیں بتایا گیا جب کہ جے آئی ٹی میں لوگوں پر بیان بدلنے کے لیے دباو ڈالا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قطری شہزادے کا جے آئی ٹی کا دائرہ اختیارتسلیم کرنے سے انکار
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا گیا تھا ایف آئی اے جے آئی ٹی کی سربراہی کرے گی لیکن اب تو خبر آگئی ہے کہ حساس ادارے کے پاس جے آئی ٹی کا کنٹرول ہے جبکہ اب تک حساس ادارے کی جانب سے اس کی تردید نہیں آئی، خبر کے مطابق کنٹرول عدالتی حکم کے تحت دیا گیا اور اس کیس میں ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں عامر عزیز کا نام سامنے آنے سے مسائل پیدا ہوئے جب کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے ساتھ برا رویہ اپنایا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ میری جے آئی ٹی میں پیشی پروالد کی آنکھوں میں تشویش دیکھی، مریم نواز
وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 1999 میں وزیراعظم نواز شریف کا احتساب کیا گیا لیکن احتساب کے باوجود وزیراعظم کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہوئی جب کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے تفتیش میں پیش ہونے کی روایت نہیں، اس کے باوجود مریم نواز نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گھبرانے والے نہیں، عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن فیصلہ صرف انصاف پر مبنی ہی قبول کیا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی کو 10 جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی تمام آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کو ٹیلی ویژن پر دکھایا جائے جس کا خرچا ہم برداشت کریں گے، عوام کو بتایا جائے کہ وزیراعظم اور دیگر افراد سے کیا سوالات ہوئے اور ان کے کیا جوابات دیے گئے، پاکستان کے 20 کروڑ عوام سب سے بڑی جے آئی ٹی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ قطری خط کی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی دوحا کیوں نہیں جاتی، قطری خط کی تصدیق نہ کرنا ناانصافی ہوگی جب کہ ماضی میں بے نظیر قتل کیس میں مارک سیگل سے امریکا میں بیان ریکارڈ کیا گیا، اس کے علاوہ پرویز مشرف سمیت کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بیرون ملک ٹیمیں گئیں، اگر قطری شہزادے کی شہادت نہ لی گئی تو جے آئی ٹی رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ وزیراعظم کے ایما پرجے آئی ٹی اورعدلیہ کوبلیک میل کیا جارہا ہے، تحریک انصاف
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ انتخابات کے ذریعے عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوا تو انہوں نے عدالتی کندھا استعمال کرنا شروع کر دیا، پاکستان کی ترقی کو سیاسی بے یقینی میں تبدیل کر کے روکنا مجرمانہ حرکت ہے لیکن چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کا وقت گزر چکا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ملک میں کرپشن ہوتی تو ہماری اسٹاک مارکیٹ ترقی نہ کرتی، لوڈشیڈنگ 20 گھنٹوں سے کم ہو کر 10 سے 12 گھنٹے تک نہ آتی، بیرون ملک سے سرمایہ کاری نہ آتی، ہماری ترقی کی شرخ 5 اعشاریہ 3 تک نہ جاتی اور پوری دنیا ہماری معیشت میں بہتری کا اعتراف نہ کرتی، دھرنوں اور منفی سیاست کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی نے اسٹاک مارکیٹ کو 50 ہزار سے 46 ہزار تک پہچا دیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا سرمایہ ڈوب گیا۔
MAil.express