علاقائی امن اور قومی سلامتی ایشو
قومی سلامتی کو ہر سطح پر مقدم رکھا جائے گا
خطے کی مجموعی صورتحال اور پاک افغان تعلقات سمیت ٹرمپ انتظامیہ کی مجوزہ نئی افغان پالیسی کے تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی نے بعض اہم فیصلے کیے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سلامتی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور قومی سلامتی کو ہر سطح پر مقدم رکھا جائے گا، کمیٹی نے یہ بھی اعادہ کیا ہے کہ علاقائی امن و ترقی جموں و کشمیر کے بنیادی تنازعہ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل سے براہ راست منسلک ہے اور پاکستان نے بے مثال قربانیوں اور کامیابیوں کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف عالمی کاوشوں میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کیا ہے۔
قومی سلامتی کا اجلاس جمعہ کو یہاں وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان، مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اﷲ، چیف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل سہیل امان، قومی سلامتی مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم نوازشریف کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی جس میں قومی سلامتی سمیت علاقائی معاملات اور خارجہ پالیسی کے امور زیر غور آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگی کارروائیوں کے تشنۂ تکمیل نتائج پر امریکی عسکری و سیاسی حلقوں میں نئی پالیسی تشکیل دیے جانے کی اطلاعات آرہی ہیں، پاک افغان تعلقات ، سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی ، حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کے خاتمہ کی امریکی ہدایات سمیت بھارتی جنگجویانہ عزائم ، مقبوضہ کشمیر و کنٹرول لائن کی مخدوش صورتحال نے خطے کو دھماکا خیز بنادیا ہے جس میں امریکی سنیٹر جان مکین کے کابل میں دیے جانے والے حالیہ بیان نے مزید ارتعاش پیدا کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان نے رویہ نہ بدلا تو امریکی قوم اپنا رویہ بدل دے گی۔
ایک معاصر انگریزی روزنامہ نے امریکا کے ایک فورم کے حوالہ سے اپنی تفصیلی رپورٹ میں پاک امریکا تعلقات کا افغانستان کے بدلتے اور معنی خیز تزویراتی سیاق و سباق میں جائزہ لیا ہے ، رپورٹ کے مطابق امریکا کے سیاسی مبصرین ، تھنک ٹینک ماہرین اور اسکالرز نے پاک افغان تعلقات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کئی پہلوؤں سے خطے میں پاکستان کے موجودہ اور آئندہ کردار پر بحث کی ہے، بعض نے پاکستان پر کڑی تنقید کی ہے اور افغانستان میں امریکی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جب کہ کچھ نے اصرار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کی جائز تشویش ، تحفظات، خطے کے زمینی تقاضوں سے مربوط مجبوریوں اور اپنی بقا کے اضطراب کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
مبصرین نے پاکستان کے کلیدی کردار کی حمایت بھی کی جب کہ حسین حقانی کا خبث باطن پھر سے سامنے آیا، ان کہ کہنا تھا کہ اگر امریکا افغانستان میں فاتح بننا چاہتا ہے تو وہ پاکستان پر اپنا شدید دباؤ جاری رکھے، اسی طرح بعض مقررین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو اپنی نئی پالیسی میں پاکستان کے خلاف اس انتہائی حد تک نہیں جانا چاہیے جہاں پاکستان چین کے مزید قریب جانے پر مجبور ہوجائے۔
امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے بحث میں مدلل طریقے سے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈہ کو مسترد اور قابل قدر موقف اختیار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی تادیبی اقدام صورتحال کی بہتری میں ممد ومعاون ثابت نہیں ہوگا۔ انھوں نے پاکستانی دفتر خارجہ کے پہلے سے دیے گئے جواب کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں ہے ، وہیں سے آپریٹ کرتا ہے۔
دریں اثنا قومی سلامتی کمیٹی کے شرکاء نے اس امر کا بجا طور پر اعادہ کیا کہ علاقائی امن و ترقی کشمیر کے بنیادی مسئلہ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل سے براہ راست جڑی ہوئی ہے، پاکستان علاقائی اور عالمی شراکت داروں کی مدد سے افغان قیادت اور افغان عوام پر مشتمل امن کے عمل کے ذریعے افغانستان میں امن و ترقی کے لیے کام کرتا رہے گا اور وہاں جلد از جلد حالات معمول پر لانے کے لیے کوشاں رہے گا تاہم اس کے لیے افغان حکومت کی جانب سے اپنے علاقہ پر مؤثر کنٹرول کی بحالی کے لیے ایک ساتھ کوششیں درکار ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک امریکا اعتماد سازی کے عمل میں پاکستان سفارت کاری کے محاذ پر اپنے موقف پر ڈٹا رہے ، بلاشبہ امریکی عوام اور حکام افغان صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے حقیقی اور تعمیری کردار سے غافل نہیں، امریکی سوچ تقسیم ہے ، ٹرمپ پالیسیاں 'بل ان دی چائنا شاپ' کے مصداق ہیں، اب یہ ہمارے مشیران باتدبیر کے وجدان، سفارتی مہارت اور معاملہ فہمی کا امتحان ہے کہ ٹرمپ حکومت خطے میں امن و استحکام کی توقع مفاداتی اور تاجرانہ ذہنیت کی حامل ان اتحادی قوتوں سے نہ رکھے جنھوں نے خطے کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
امرجیہ کو بتایا جائے کہ افغانستان میں امن پروسس کے دشمن وہی عناصر ہیں جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ بناتے ہیں اور ان امن دشمنوں کا خاتمہ کسی راکٹ سائنس کی محتاج نہیں ۔لازم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاک امریکا تعلقات پر مثبت انداز میں نظر ثانی کرے کیونکہ امریکا خطے کا رازداں ہے جب کہ افغان دلدل میں اسے پاکستان نے نہیں پھنسایا۔ یہی راز کی بات ٹرمپ کے کان میں کسی کو کہنی چاہیے۔
قومی سلامتی کا اجلاس جمعہ کو یہاں وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان، مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اﷲ، چیف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل سہیل امان، قومی سلامتی مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم نوازشریف کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی جس میں قومی سلامتی سمیت علاقائی معاملات اور خارجہ پالیسی کے امور زیر غور آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگی کارروائیوں کے تشنۂ تکمیل نتائج پر امریکی عسکری و سیاسی حلقوں میں نئی پالیسی تشکیل دیے جانے کی اطلاعات آرہی ہیں، پاک افغان تعلقات ، سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی ، حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کے خاتمہ کی امریکی ہدایات سمیت بھارتی جنگجویانہ عزائم ، مقبوضہ کشمیر و کنٹرول لائن کی مخدوش صورتحال نے خطے کو دھماکا خیز بنادیا ہے جس میں امریکی سنیٹر جان مکین کے کابل میں دیے جانے والے حالیہ بیان نے مزید ارتعاش پیدا کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان نے رویہ نہ بدلا تو امریکی قوم اپنا رویہ بدل دے گی۔
ایک معاصر انگریزی روزنامہ نے امریکا کے ایک فورم کے حوالہ سے اپنی تفصیلی رپورٹ میں پاک امریکا تعلقات کا افغانستان کے بدلتے اور معنی خیز تزویراتی سیاق و سباق میں جائزہ لیا ہے ، رپورٹ کے مطابق امریکا کے سیاسی مبصرین ، تھنک ٹینک ماہرین اور اسکالرز نے پاک افغان تعلقات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کئی پہلوؤں سے خطے میں پاکستان کے موجودہ اور آئندہ کردار پر بحث کی ہے، بعض نے پاکستان پر کڑی تنقید کی ہے اور افغانستان میں امریکی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جب کہ کچھ نے اصرار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کی جائز تشویش ، تحفظات، خطے کے زمینی تقاضوں سے مربوط مجبوریوں اور اپنی بقا کے اضطراب کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
مبصرین نے پاکستان کے کلیدی کردار کی حمایت بھی کی جب کہ حسین حقانی کا خبث باطن پھر سے سامنے آیا، ان کہ کہنا تھا کہ اگر امریکا افغانستان میں فاتح بننا چاہتا ہے تو وہ پاکستان پر اپنا شدید دباؤ جاری رکھے، اسی طرح بعض مقررین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو اپنی نئی پالیسی میں پاکستان کے خلاف اس انتہائی حد تک نہیں جانا چاہیے جہاں پاکستان چین کے مزید قریب جانے پر مجبور ہوجائے۔
امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے بحث میں مدلل طریقے سے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈہ کو مسترد اور قابل قدر موقف اختیار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی تادیبی اقدام صورتحال کی بہتری میں ممد ومعاون ثابت نہیں ہوگا۔ انھوں نے پاکستانی دفتر خارجہ کے پہلے سے دیے گئے جواب کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں ہے ، وہیں سے آپریٹ کرتا ہے۔
دریں اثنا قومی سلامتی کمیٹی کے شرکاء نے اس امر کا بجا طور پر اعادہ کیا کہ علاقائی امن و ترقی کشمیر کے بنیادی مسئلہ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل سے براہ راست جڑی ہوئی ہے، پاکستان علاقائی اور عالمی شراکت داروں کی مدد سے افغان قیادت اور افغان عوام پر مشتمل امن کے عمل کے ذریعے افغانستان میں امن و ترقی کے لیے کام کرتا رہے گا اور وہاں جلد از جلد حالات معمول پر لانے کے لیے کوشاں رہے گا تاہم اس کے لیے افغان حکومت کی جانب سے اپنے علاقہ پر مؤثر کنٹرول کی بحالی کے لیے ایک ساتھ کوششیں درکار ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک امریکا اعتماد سازی کے عمل میں پاکستان سفارت کاری کے محاذ پر اپنے موقف پر ڈٹا رہے ، بلاشبہ امریکی عوام اور حکام افغان صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے حقیقی اور تعمیری کردار سے غافل نہیں، امریکی سوچ تقسیم ہے ، ٹرمپ پالیسیاں 'بل ان دی چائنا شاپ' کے مصداق ہیں، اب یہ ہمارے مشیران باتدبیر کے وجدان، سفارتی مہارت اور معاملہ فہمی کا امتحان ہے کہ ٹرمپ حکومت خطے میں امن و استحکام کی توقع مفاداتی اور تاجرانہ ذہنیت کی حامل ان اتحادی قوتوں سے نہ رکھے جنھوں نے خطے کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
امرجیہ کو بتایا جائے کہ افغانستان میں امن پروسس کے دشمن وہی عناصر ہیں جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ بناتے ہیں اور ان امن دشمنوں کا خاتمہ کسی راکٹ سائنس کی محتاج نہیں ۔لازم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاک امریکا تعلقات پر مثبت انداز میں نظر ثانی کرے کیونکہ امریکا خطے کا رازداں ہے جب کہ افغان دلدل میں اسے پاکستان نے نہیں پھنسایا۔ یہی راز کی بات ٹرمپ کے کان میں کسی کو کہنی چاہیے۔