ڈاکٹر بلقیس ملک کو کیا ملا

ڈاکٹر بلقیس کے اندر انسانیت کا جذبہ کچھ زیادہ ہی تھا اس لیے انھوں نے یہ آفر جلدی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرلی

میں ایک ایسی عورت کی سچی کہانی آپ کو سنا رہا ہوں جو پیشے کے لحاظ سے لیڈی ڈاکٹر تھیں، جنھوں نے اپنی پوری زندگی غریب مریضہ عورتوں کے لیے وقف کردی تھی ، وہ انسانی خدمت کرتے کرتے اتنی کھوگئی تھیں کہ اپنی شادی کرنے کا بھی خیال بھول گئیں اور رشتے داروں کو چھوڑ کر مریضوں سے ناتا جوڑ لیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ انھیں لاڑکانہ لائے تھے وہ تو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر ان کے قریبی عزیز، رشتہ دار اور شہر والے بھی اسے بھلا بیٹھے ہیں ۔ ان کی عمر آرام کی ہے مگر وہ 86 برس کی عمر میں بھی کام کررہی ہیں اور اب بھی چاہتی ہیں کہ وہ ایک ایسا فلاحی اسپتال بنائیں جہاں غریب عورتوں کا مفت علاج ہوسکے۔ ان کے اس نیک ارادے کو لاڑکانہ کی قبضہ مافیا نے ان کے ذاتی پلاٹ پر قبضہ کر کے ان سے نیکی کرنے کا حق ختم کردیا ہے۔ وہ پی پی پی کے کرتا دھرتاؤں جس میں وہاں کے وزرا بھی شامل ہیں ان کے دروازے کھٹکھٹا کر مایوس ہوکر بیٹھ گئی ہیں۔

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر بلقیس نے بتایا تھا کہ جب ان کی ملاقات سابق ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی سے قومی اسمبلی میں ہوئی تھی تو انھوں نے اسے لاڑکانہ آنے کی دعوت دی اورکہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے شہر کے لیے ایسی ڈاکٹر کی تلاش میں ہیں جو اپنا وقت، ٹیلنٹ اور زندگی غریب عورتوں کے علاج کے لیے ایک اچھے جذبے کے ساتھ وقف کردے۔

ڈاکٹر بلقیس کے اندر انسانیت کا جذبہ کچھ زیادہ ہی تھا اس لیے انھوں نے یہ آفر جلدی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرلی اور لاڑکانہ پہنچ کر چانڈکا میڈیکل اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی پوسٹ جوائن کرلی۔ وہاں پر اس وقت کوئی لیڈی ڈاکٹر عورتوں کے شعبوں میں نہیں تھیں اور انھیں اسپتال کے سٹی بلاک میں ایک کمرہ دیا گیا جہاں پر صرف چار بیڈ موجود تھے جن کے درمیان وہ اپنی ٹیبل اور کرسی رکھ کر کام کرتی تھیں اور کام کرتے کرتے اسی ٹیبل پر سو جاتی تھیں۔

لاڑکانہ جانے کے حق میں ان کے قریبی رشتے دار بالکل نہیں تھے اور انھیں ڈراتے تھے کہ انھیں اغوا کیا جائے گا اور پھر ان کی لاش ایسی جگہ پھینک دی جائے گی جہاں سے وہ اسے تلاش بھی نہیں کرسکیں گے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود انھوں نے آکر کام شروع کیا۔ اس زمانے میں سیکریٹری ہیلتھ احمد علی انصاری تھے اور ایم ایس تھے ڈاکٹر محمد سجن میمن۔ وہ اپنے ساتھ ایک زمرد نام کی لڑکی کو ساتھ لائی تھیں جو ان کا ہر کام پروفیشنل ہو یا ذاتی کرتی تھیں۔

اس وقت جب انھیں بھٹو صاحب نے کہا کہ وہ لاڑکانہ میں عورتوں کے لیے ایک اچھا جدید طرز کا اسپتال بنانا چاہتے ہیں تو بلقیس ان کے ساتھ موجودہ اسپتال بنانے کی جگہ دیکھنے ساتھ چلی گئیں جہاں پر انھوں نے بھٹو کو بلڈنگ اور ضروریات کے بارے میں بریفنگ دی ، آپریشن تھیٹر، لیبر روم، لیبارٹری، او پی ڈی، سیمینار روم وغیرہ کے بارے میں تفصیل بتائی۔ اسپتال بنانے کے لیے وہاں پر موجود رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو دوسری جگہ شفٹ کرکے کام شروع کردیا جہاں پر وہ اپنی پروفیشنل ذمے داریاں 1974 سے 1994 تک gynacologist کی پروفیسر اور ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کے طور پر ادا کرتی رہیں۔


میں اکثر ان کے سیمینار میں جایا کرتا تھا جس میں ماں کے دودھ کی اہمیت، حاملہ عورتوں کی خوراک اور صحت کے بارے میں بین الاقوامی اور قومی سطح کے ڈاکٹر آکر لیکچر دیا کرتے تھے جنھیں میں پرنٹ میڈیا پر انگریزی، اردو اور سندھی اخبارات میں خبروں کے ساتھ ساتھ آرٹیکل بھی لکھا کرتا تھا اور مزید عورتوں اور ان کی فیملی کی جانکاری کے لیے ریڈیو اور پی ٹی وی پر پروگرام ارینج کرواتا تھا جس کی وجہ بلقیس صاحبہ کا جذبہ اور محنت میرے سامنے گردش کرتی نظر آتی تھی۔

ایک مرتبہ دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ جب پہلی مرتبہ لاڑکانہ میں ، میں نے مریض عورتوں کا معائنہ کیا تو حیران رہ گئی کہ غذا کی کمی اور مردوں کے صحیح طریقے سے حاملہ عورتوں کی طرف توجہ نہ دینے سے زچہ اور بچہ کتنے کمزور ہوتے تھے۔ وہ کئی مرتبہ رو پڑتی تھیں اورکبھی کبھی مریضہ کی حالت سیریس ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کپڑے، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ، کنگھی، کریم اور دوسری ضروری اشیاء اپنے ساتھ لا کر وارڈ میں رکھتی تھیں کہیں ایمرجنسی میں صبح اسے آپریشن نہ کرنا پڑ جائے۔ وہ ہمیشہ شوہروں کو اپنی بیویوں کی صحت کے بارے میں سمجھاتیں اور انہیں بزرگوں کی طرح اکثر ڈانٹتی بھی رہتی تھیں۔

عورتیں خاص طور پر جو گاؤں سے یا پھر بلوچستان کے علاقوں سے آتی تھیں ان میں خون کی کمی بہت ہوتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر ممکن کوشش کرکے نارمل ڈلیوری کروائی جاتی تھی جس کے لیے لیڈی ڈاکٹر کو ہدایت دی جاتی تھی کہ وہ 24 گھنٹے بھی انتظار کریں اور زچہ کو watch کریں۔ اب تو افسوس ہوتا ہے کہ بچہ لازماً آپریشن کے ذریعے پیدا کروانا ہے جس سے غریب لوگوں کا خرچہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ سرکاری اسپتال کا حال بھی قابل رحم ہے اور ہر طرف پرائیویٹ اسپتال کھلے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر حضرات پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں۔ قابل تحسین مسیحا خال خال نظر آتے ہیں، انسانیت ڈھونڈھے سے نہیں ملتی۔

ڈاکٹر بلقیس کہتی ہیں کہ وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہیں کہ لاڑکانہ میں غریب عورتوں کی خدمت کے لیے ان کا انتخاب ہوا، وہ ہمیشہ غریب عورتوں کو سرکاری اسپتال میں آنے کو کہتی تھیں۔ اس نے اپنی جوانی غریب عورتوں کے لیے قربان کردی۔ اس نے کچھ حصہ میڈیکل تعلیم پر صرف کیا اور باقی حصہ خدمت میں گزار دیا۔

جب سے بھٹو نے شیخ زید وومن اسپتال لاڑکانہ بنوایا اور اسے اس کی ذمے داری سونپی، اسی دن سے انھوں نے لاڑکانہ کو اپنا گھر سمجھا اور یہ طے کیا کہ اب وہ یہاں مریں گی، دفن ہوں گی اور جب تک سانس چلتی رہے گی لوگوں کی، شہر کی اور انسانیت کی خدمت بے لوث ہوکر کرتی رہیں گی۔

ڈاکٹر بلقیس کا جنم 1929 میں کراچی میں ہوا، اس نے ایم بی بی ایس کا امتحان 1958 میں پاس کیا۔ ایف آر سی ایس کا امتحان 1968 میں رائل میڈیکل کالج لندن سے پاس کیا۔ وہ ایک سال ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں اور لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں کام کرتی رہیں۔ اس کے بعد وہ ایک ریسرچ کرنے کے لیے امریکا نکل گئیں جہاں پر انھوں نے Leproscopy اور دوسرے عورتوں کی صحت، بیماری اور علاج کے بارے میں تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے پشاور میں ایک کانفرنس میں اس تربیت کا فائدہ دیتے ہوئے وہاں پر موجود ڈاکٹروں کو لیکچر اور تربیت دی اور معلوماتی پیپر پڑھا اور چارٹوں اور تصویروں کی مدد سے لیڈی ڈاکٹرز کو سمجھایا۔

ڈاکٹر بلقیس سندھ کی بیٹی ہے ۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئی، اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان بھی کراچی سے پاس کیا۔ افسوس جس نے ساری عمر سندھ کے بڑے سیاسی شہر لاڑکانہ میں زندگی گزار دی اس کا صلہ انہیں اچھا نہیں ملا۔ وہ ایثار نفس خاتون ہیں، دکھی انسانیت کو کچھ دینا چاہتی ہیں، بھٹو اسے لاڑکانہ لائے تھے اس لیے اب یہ ذمے داری پی پی پی کی اس بھٹو خاندان سے منسلک لوگوں کی ہے کہ وہ اس کے پلاٹ جو سچل کالونی میں ہے اس سے قبضہ خالی کروا کر اسے ڈاکٹر بلقیس کے حوالے کروائیں ورنہ ہم پر کوئی بھی بھروسہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ سندھ کی روایت نہیں ہے۔
Load Next Story