اپنی اپنی قسمت…
حیرت ہے کہ اس گھر میں اتنے عرصے تک ایسے انتظامات کے بارے میں کسی نے سوال نہیں کیا۔
ABBOTABAD:
'' ایک تو یہ تمہارے گھر کے دھویں کی وارننگ دینے والے الارم کے ساتھ بڑا مسئلہ ہے '' بیٹی نے دفتر سے کال کی تو میں نے اس سے شکایت کی ، ''کوئی تک ہے بھلا کہ میں دال کو تڑکا بھی لگاؤں تو بج اٹھتا ہے!!'' نہ صرف یہ الارم بجنے کے بعد اسے خبردار کرتا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو بلکہ ایک معینہ وقت تک متواتر بجتا رہے اور بند نہ ہو تو اس سے اگلی کال مجھے بیٹی کے بجائے پولیس کی آتی اور ساتھ ہی اس الارم والی کمپنی کی۔ حالانکہ میں نے فوراً کھڑکیاں دروازے کھول دیے مگر سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اسے بند کیسے کروں۔
'' اچھا ہے نا کہ اس سے وارننگ مل جاتی ہے اور کوئی حادثہ رونما ہونے سے بچ جاتا ہے، چند ماہ پہلے ہی تو ہمارے نزدیک ایک ایسا بھیانک حادثہ ہوا ، تین لوگ اس میںاپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کی نوبت اسی لیے آئی کہ اس گھر میں دھواں پھیلنے کی اطلاع دینے والا الارم نصب ہی نہ تھا '' بیٹی نے اتنا بتایا اور تفصیل بعد میں بتانے کاکہہ کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا ۔
' لو بھئی ہمارے ہاں تو زیادہ تر آبادی کو یہ علم بھی نہ ہو گا کہ دنیا میں کسی ملک میں گھروں میں ایسے الارم بھی ہوتے ہیں جن سے گھر میں آگ لگ جانے کی صورت میں یا مقدار سے زائد دھواں پھیل جانے کی صورت میں پولیس یا فائر بریگیڈ کو خود بخود اطلاع بھی ہو جاتی ہے۔ جس سے آگ لگ جانے کی صورت میں زیادہ متاثر ہونے سے بچت بھی ہو سکتی ہے اور اگر نصیب میں زندگی لکھی ہو تو انسان کم سے کم جسمانی نقصان کا سامنا کرتا ہے' اپارٹمنٹ میں دال کی پھیل جانے والی خوشبو کو نتھنوں کے ذریعے اپنے اندر اتار کر میں نے smoke alarm کا کوڈ دبایا تاکہ اس کی''ٹاں ٹاں'' تو بند ہو۔
'' جیوتی کپاڈیہ '' راجرز '' میں کام کرتی تھی، وہی کمپنی جس میں میں ہوں! '' بیٹی نے تفصیل بتانا شروع کی۔'' چودہ فروری، 2017... جس روز دنیا بھر میں کم اور پاکستان میں سب سے زیادہ ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہوتا ہے، ہمارے نزدیک ہی واقع، میڈی سن روڈ پر، 78 نمبر کا وہ بد قسمت گھرہے جس میں تینوں فلورز پر تین مختلف خاندان کرائے پر رہ رہے تھے۔ اوپر کے فلور پر چار لوگوں کا خاندان، بیس منٹ میں تین کی فیملی اور گراؤنڈ فلور پرپینتالیس سالہ جیوتی، اڑتالیس برس کا اس کا شوہر افتخار کپاڈیہ، انیس سال کی بیٹی امینہ کپاڈیہ اور نو برس کی زویا کپاڈیہ۔ امینہ نے اسی سال University of Grulph- Humber سے اپنی اعلی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔
رات تین بجے ان کے گھر میں آگ بھڑک اٹھی اور اتنی تیزی سے پھیلی کہ بیس منٹ میںچیخوں کی آوازیں پہنچتے ہی جب کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ ہوا کیا ہے تو اس وقت تک آگ اور دھواں انتہائی حد تک پھیل چکے تھے۔آگ کے دباؤ کی وجہ سے جب گھر کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے تو نیچے سونے والوں کو اوپر والوں کی چیخوں نے جگا دیا، وہاں سوئے ہوئے ایک لڑکے نے اوپر جاکر نو سالہ زویا کو آگ اور دھویں کے سمندر سے زندہ مگر تیسرے درجے ( third degree burns)کے جل جانے کے ساتھ نکالا- کسی نے اطلاع کی تو پولیس اور فائر بریگیڈ بھی چند منٹ میں پہنچ گئے اور دس منٹ میں آگ پر مکمل قابو تو پا لیا گیا مگر اندر تین نفوس اپنے اپنے کمروں میں دھویں کی زیادتی سے ، دم گھٹ جانے کے باعث اپنی جانوں کی بازی ہار چکے تھے۔ فوراً اس علاقے کو پولیس نے سیل کر دیا۔کسی کو اس گھر میں تو کجا اس سڑک پر بھی جانے کی اجازت نہ تھی ماسوا ان لوگوں کے کہ جن کے وہاں گھر تھے۔ چھوٹی بیٹی کو اسی وقت اسپتال کے لیے روانہ کر دیا گیا، اب اس بچی کی حالت تو خطرے سے باہر ہے مگر اسے مکمل صحت یاب ہونے میں وقت لگے گا۔
فوری تحقیقات شروع کردی گئیں، معلوم ہوا کہ اس گھر میں رہ تو تین مختلف خاندان رہے تھے مگر ہر فلور پر دھویں کا الارم نہ تھا۔جیوتی اور اس کا خاندان پانچ سال سے اس گھر میں رہ رہا تھا اور جانے اس سے قبل انھیں اس کا احساس کیوں نہ ہوا تھا کہ اس کی ضرورت ہے۔ اصولاً جب یہاں کوئی اپنے گھر کو یوں مختلف فلور میں تقسیم کر کے مختلف خاندانوں کو کرائے پر دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہر فلور والوں کو بنیادی سہولیات علیحدہ علیحدہ فراہم کرے۔ ہر فلور کا اپنا داخلی دروازہ ہو، کچن اور لانڈری ہو، کوڑے کے ڈسپوزل کا بندوبست، گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام، آگ اور دھویں کا الارم اور دیگر ایسی سہولیات۔
حیرت ہے کہ اس گھر میں اتنے عرصے تک ایسے انتظامات کے بارے میں کسی نے سوال نہیں کیا۔جس روز یہ حادثہ ہوا ، پورے ملک میں غم کی لہر پھیل گئی تھی، امینہ کو اس یونیورسٹی میں ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے مگر اس کی یوں حادثاتی وفات پر اس کے اعزاز میں یونیورسٹی کا پرچم ایک دن کے لیے سرنگوں کیا گیا تھا اور اس کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا تھا۔
گھر میں رات کے اس پہر میں آگ کس وجہ سے لگی، یہ بات ابھی تک سوال ہے اور اس پر تحقیقات ہو رہی ہے مگر اس کے بعد سے لوگوں میں اس قدر خوف بیٹھ گیا ہے کہ لوگو ں نے فوری طور پر اپنے گھروں میں تمام الارم چیک کیے، متعلقہ محکموں کے کارکنان کو بلا کر اپنے گھروں کے سسٹم چیک کروائے اور پبلک سیفٹی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کیا'' میں نے کان اور منہ کھول کر اس کی پوری بات سنی۔
حیرت ہے کہ اتنے بڑے واقعے پر ہماری نظر سے کوئی موبائل فون کی وڈیو گزری نہ ہی قیافے اور اندازے۔ ورنہ ہمارے ہاں ایسا ہوتا تو سوختہ میتوں کی اور جلی ہوئی مگر زندہ بچ جانے والی بچی کی تصاویر اور وڈیوزبھی دنیا بھر میں جاری ہو جاتیں۔ ایسا صرف کینیڈا اور اس جیسے ملکوں میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ ہیں ممالک، یہ ہیں ان کے عوام، یہ ہیں ان کے اصول اور یہ ہے کسی کے نزدیک انسانی جان کی قدر و قیمت۔ تین... صرف تین لوگوں کی وفات اس ملک میں اتنا بڑا سانحہ سمجھی گئی کہ پورے ملک میں سوگواریت سی پھیلی رہی اور ایک ہم ہیں۔
ہر روز حادثات ہوتے ہیں، ہر روز لوگ جل جل کر مرتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فقط پندرہ دن پہلے، ایک آئل ٹینکر کے الٹ جانے کے نتیجے میں جو حادثہ ہوا، اس میں ہونے والی اموات کی تعداد ذرایع کے مطابق 218 تک پہنچ چکی ہے مگر ہماری سوگواریت کتنی زائل ہو چکی ہے کیونکہ اتنے دنوں میں کتنا کچھ اور ہو چکا ہے۔ ہر نیا ہونے والا حادثہ پرانے حادثے کی یاد کو مٹا دیتا ہے کیونکہ ہماری یادداشت بہت کمزور ہے۔
ہمارے ہاں میڈیا صرف تازہ خبریں دیتا ہے، چاہے وہ تازہ خبر جے ٹی آئی کی تازہ کارروائی کی ہو یا اچانک ڈالر کا ریٹ بڑھ جانے کی۔ ' واہ ری قدرت... اپنی اپنی قسمت ہے نا، کوئی کہیں پیدا ہوتا ہے اور کسی طرح رہتا ہے، کوئی کہیں۔ کسی کے نصیب میں مر مر کر جینا ہوتا ہے، کوئی مر کر امر ہو جاتا ہے توکوئی جیتے جی مر جاتا ہے ۔کوئی ایک واقعے کو اپنے لیے نشان عبرت بنا لیتا ہے تو کوئی باربار کی ٹھوکروں سے بھی نہیں سنبھلتا۔ کوئی ایسی موت مرتا ہے کہ لوگ اپنے مر جانے تک اسے نہیں بھولتے اور کوئی یوں مر کر چلا جاتا ہے کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کبھی تھا بھی کہ نہیں۔
ہمارے لیے کوئی بڑے سے بڑا واقعہ یا سانحہ بھی نشان عبرت نہیں بنتا کیونکہ ہم نے سوچ رکھا ہے کہ جسے مرنا ہے اسے بہرحال مرنا ہے اور جس طرح مرنا ہے وہ بھی ایک طے شدہ طریقہ ہے جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی متعین کر دیا گیا تھا، اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہم اسی لیے لوگوں کی جانوں کو بچانے کی زیادہ پروا نہیں کرتے کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب کسی کا بلاوا آنا ہے تو اسے کوئی حفاظتی تدبیر نہیں روک سکتی۔
صرف ہمارے حکمرانوں کو اس میں شبہ رہتا ہے اس لیے پورے ملک کے عوام کی خوراک کے بجٹ سے بڑھ کر ان سب لوگوں کی سیکیورٹی کے انتظامات کا بجٹ ہوتا ہے۔ عام آدمی اپنی زندگی اور اس کی حفاظت سے کس قدر ناآشنا اور اس کے بارے میں کس قدر لاپروا اور بے غرض ہے،اس کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو آج کسی بھی شاہراہ پر ایک اور آئل ٹینکر الٹا کر دیکھ لیں !!!
'' ایک تو یہ تمہارے گھر کے دھویں کی وارننگ دینے والے الارم کے ساتھ بڑا مسئلہ ہے '' بیٹی نے دفتر سے کال کی تو میں نے اس سے شکایت کی ، ''کوئی تک ہے بھلا کہ میں دال کو تڑکا بھی لگاؤں تو بج اٹھتا ہے!!'' نہ صرف یہ الارم بجنے کے بعد اسے خبردار کرتا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو بلکہ ایک معینہ وقت تک متواتر بجتا رہے اور بند نہ ہو تو اس سے اگلی کال مجھے بیٹی کے بجائے پولیس کی آتی اور ساتھ ہی اس الارم والی کمپنی کی۔ حالانکہ میں نے فوراً کھڑکیاں دروازے کھول دیے مگر سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اسے بند کیسے کروں۔
'' اچھا ہے نا کہ اس سے وارننگ مل جاتی ہے اور کوئی حادثہ رونما ہونے سے بچ جاتا ہے، چند ماہ پہلے ہی تو ہمارے نزدیک ایک ایسا بھیانک حادثہ ہوا ، تین لوگ اس میںاپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کی نوبت اسی لیے آئی کہ اس گھر میں دھواں پھیلنے کی اطلاع دینے والا الارم نصب ہی نہ تھا '' بیٹی نے اتنا بتایا اور تفصیل بعد میں بتانے کاکہہ کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا ۔
' لو بھئی ہمارے ہاں تو زیادہ تر آبادی کو یہ علم بھی نہ ہو گا کہ دنیا میں کسی ملک میں گھروں میں ایسے الارم بھی ہوتے ہیں جن سے گھر میں آگ لگ جانے کی صورت میں یا مقدار سے زائد دھواں پھیل جانے کی صورت میں پولیس یا فائر بریگیڈ کو خود بخود اطلاع بھی ہو جاتی ہے۔ جس سے آگ لگ جانے کی صورت میں زیادہ متاثر ہونے سے بچت بھی ہو سکتی ہے اور اگر نصیب میں زندگی لکھی ہو تو انسان کم سے کم جسمانی نقصان کا سامنا کرتا ہے' اپارٹمنٹ میں دال کی پھیل جانے والی خوشبو کو نتھنوں کے ذریعے اپنے اندر اتار کر میں نے smoke alarm کا کوڈ دبایا تاکہ اس کی''ٹاں ٹاں'' تو بند ہو۔
'' جیوتی کپاڈیہ '' راجرز '' میں کام کرتی تھی، وہی کمپنی جس میں میں ہوں! '' بیٹی نے تفصیل بتانا شروع کی۔'' چودہ فروری، 2017... جس روز دنیا بھر میں کم اور پاکستان میں سب سے زیادہ ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہوتا ہے، ہمارے نزدیک ہی واقع، میڈی سن روڈ پر، 78 نمبر کا وہ بد قسمت گھرہے جس میں تینوں فلورز پر تین مختلف خاندان کرائے پر رہ رہے تھے۔ اوپر کے فلور پر چار لوگوں کا خاندان، بیس منٹ میں تین کی فیملی اور گراؤنڈ فلور پرپینتالیس سالہ جیوتی، اڑتالیس برس کا اس کا شوہر افتخار کپاڈیہ، انیس سال کی بیٹی امینہ کپاڈیہ اور نو برس کی زویا کپاڈیہ۔ امینہ نے اسی سال University of Grulph- Humber سے اپنی اعلی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔
رات تین بجے ان کے گھر میں آگ بھڑک اٹھی اور اتنی تیزی سے پھیلی کہ بیس منٹ میںچیخوں کی آوازیں پہنچتے ہی جب کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ ہوا کیا ہے تو اس وقت تک آگ اور دھواں انتہائی حد تک پھیل چکے تھے۔آگ کے دباؤ کی وجہ سے جب گھر کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے تو نیچے سونے والوں کو اوپر والوں کی چیخوں نے جگا دیا، وہاں سوئے ہوئے ایک لڑکے نے اوپر جاکر نو سالہ زویا کو آگ اور دھویں کے سمندر سے زندہ مگر تیسرے درجے ( third degree burns)کے جل جانے کے ساتھ نکالا- کسی نے اطلاع کی تو پولیس اور فائر بریگیڈ بھی چند منٹ میں پہنچ گئے اور دس منٹ میں آگ پر مکمل قابو تو پا لیا گیا مگر اندر تین نفوس اپنے اپنے کمروں میں دھویں کی زیادتی سے ، دم گھٹ جانے کے باعث اپنی جانوں کی بازی ہار چکے تھے۔ فوراً اس علاقے کو پولیس نے سیل کر دیا۔کسی کو اس گھر میں تو کجا اس سڑک پر بھی جانے کی اجازت نہ تھی ماسوا ان لوگوں کے کہ جن کے وہاں گھر تھے۔ چھوٹی بیٹی کو اسی وقت اسپتال کے لیے روانہ کر دیا گیا، اب اس بچی کی حالت تو خطرے سے باہر ہے مگر اسے مکمل صحت یاب ہونے میں وقت لگے گا۔
فوری تحقیقات شروع کردی گئیں، معلوم ہوا کہ اس گھر میں رہ تو تین مختلف خاندان رہے تھے مگر ہر فلور پر دھویں کا الارم نہ تھا۔جیوتی اور اس کا خاندان پانچ سال سے اس گھر میں رہ رہا تھا اور جانے اس سے قبل انھیں اس کا احساس کیوں نہ ہوا تھا کہ اس کی ضرورت ہے۔ اصولاً جب یہاں کوئی اپنے گھر کو یوں مختلف فلور میں تقسیم کر کے مختلف خاندانوں کو کرائے پر دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہر فلور والوں کو بنیادی سہولیات علیحدہ علیحدہ فراہم کرے۔ ہر فلور کا اپنا داخلی دروازہ ہو، کچن اور لانڈری ہو، کوڑے کے ڈسپوزل کا بندوبست، گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام، آگ اور دھویں کا الارم اور دیگر ایسی سہولیات۔
حیرت ہے کہ اس گھر میں اتنے عرصے تک ایسے انتظامات کے بارے میں کسی نے سوال نہیں کیا۔جس روز یہ حادثہ ہوا ، پورے ملک میں غم کی لہر پھیل گئی تھی، امینہ کو اس یونیورسٹی میں ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے مگر اس کی یوں حادثاتی وفات پر اس کے اعزاز میں یونیورسٹی کا پرچم ایک دن کے لیے سرنگوں کیا گیا تھا اور اس کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا تھا۔
گھر میں رات کے اس پہر میں آگ کس وجہ سے لگی، یہ بات ابھی تک سوال ہے اور اس پر تحقیقات ہو رہی ہے مگر اس کے بعد سے لوگوں میں اس قدر خوف بیٹھ گیا ہے کہ لوگو ں نے فوری طور پر اپنے گھروں میں تمام الارم چیک کیے، متعلقہ محکموں کے کارکنان کو بلا کر اپنے گھروں کے سسٹم چیک کروائے اور پبلک سیفٹی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کیا'' میں نے کان اور منہ کھول کر اس کی پوری بات سنی۔
حیرت ہے کہ اتنے بڑے واقعے پر ہماری نظر سے کوئی موبائل فون کی وڈیو گزری نہ ہی قیافے اور اندازے۔ ورنہ ہمارے ہاں ایسا ہوتا تو سوختہ میتوں کی اور جلی ہوئی مگر زندہ بچ جانے والی بچی کی تصاویر اور وڈیوزبھی دنیا بھر میں جاری ہو جاتیں۔ ایسا صرف کینیڈا اور اس جیسے ملکوں میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ ہیں ممالک، یہ ہیں ان کے عوام، یہ ہیں ان کے اصول اور یہ ہے کسی کے نزدیک انسانی جان کی قدر و قیمت۔ تین... صرف تین لوگوں کی وفات اس ملک میں اتنا بڑا سانحہ سمجھی گئی کہ پورے ملک میں سوگواریت سی پھیلی رہی اور ایک ہم ہیں۔
ہر روز حادثات ہوتے ہیں، ہر روز لوگ جل جل کر مرتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فقط پندرہ دن پہلے، ایک آئل ٹینکر کے الٹ جانے کے نتیجے میں جو حادثہ ہوا، اس میں ہونے والی اموات کی تعداد ذرایع کے مطابق 218 تک پہنچ چکی ہے مگر ہماری سوگواریت کتنی زائل ہو چکی ہے کیونکہ اتنے دنوں میں کتنا کچھ اور ہو چکا ہے۔ ہر نیا ہونے والا حادثہ پرانے حادثے کی یاد کو مٹا دیتا ہے کیونکہ ہماری یادداشت بہت کمزور ہے۔
ہمارے ہاں میڈیا صرف تازہ خبریں دیتا ہے، چاہے وہ تازہ خبر جے ٹی آئی کی تازہ کارروائی کی ہو یا اچانک ڈالر کا ریٹ بڑھ جانے کی۔ ' واہ ری قدرت... اپنی اپنی قسمت ہے نا، کوئی کہیں پیدا ہوتا ہے اور کسی طرح رہتا ہے، کوئی کہیں۔ کسی کے نصیب میں مر مر کر جینا ہوتا ہے، کوئی مر کر امر ہو جاتا ہے توکوئی جیتے جی مر جاتا ہے ۔کوئی ایک واقعے کو اپنے لیے نشان عبرت بنا لیتا ہے تو کوئی باربار کی ٹھوکروں سے بھی نہیں سنبھلتا۔ کوئی ایسی موت مرتا ہے کہ لوگ اپنے مر جانے تک اسے نہیں بھولتے اور کوئی یوں مر کر چلا جاتا ہے کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کبھی تھا بھی کہ نہیں۔
ہمارے لیے کوئی بڑے سے بڑا واقعہ یا سانحہ بھی نشان عبرت نہیں بنتا کیونکہ ہم نے سوچ رکھا ہے کہ جسے مرنا ہے اسے بہرحال مرنا ہے اور جس طرح مرنا ہے وہ بھی ایک طے شدہ طریقہ ہے جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی متعین کر دیا گیا تھا، اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہم اسی لیے لوگوں کی جانوں کو بچانے کی زیادہ پروا نہیں کرتے کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب کسی کا بلاوا آنا ہے تو اسے کوئی حفاظتی تدبیر نہیں روک سکتی۔
صرف ہمارے حکمرانوں کو اس میں شبہ رہتا ہے اس لیے پورے ملک کے عوام کی خوراک کے بجٹ سے بڑھ کر ان سب لوگوں کی سیکیورٹی کے انتظامات کا بجٹ ہوتا ہے۔ عام آدمی اپنی زندگی اور اس کی حفاظت سے کس قدر ناآشنا اور اس کے بارے میں کس قدر لاپروا اور بے غرض ہے،اس کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو آج کسی بھی شاہراہ پر ایک اور آئل ٹینکر الٹا کر دیکھ لیں !!!