پروفیسر وارث میر… قلم قبیلے کا بے بدل سپاہی

انسانی آزادیوں کی جدوجہد کی اس راہ میں انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

latifch910@yahoo.com

جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، جمہوری اور انسان دوست قوتیں آمریت کے زیرعتاب تھیں، جو بھی حق سچ کی بات کرتا، اس کا مقدر جیل، کوڑے یا پھانسی تھی۔ معاشرے پر ایک مخصوص سوچ اور فکر کو پروان چڑھانے کی منصوبہ بند کوشش کی جا رہی تھی۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی عائد تھی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جا چکی تھی۔

ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور حق کی بات کرنے والے اہل علم اور صحافیوں کے لیے زندگی عذاب بنا دی گئی تھی، صحافت پر رجعت پسندوں کا غلبہ ہو چکا تھا لیکن ایسے حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں بھی چند صحافی اور اہل قلم اپنی پرمغز اور باغیانہ تحریروں سے معاشرے کو آکسیجن فراہم کرتے رہے جس کی بدولت قلم کی حرمت قائم رہی، یوں معاشرہ زندہ رہا، ان اہل قلم میں پروفیسر وارث میر بھی شامل تھے جو ظلم وجبر کی سیاہ رات میں چراغ بن کر جمہوریت پسندوں اور آزادی اظہار کے علمبرداروں کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہے۔

پروفیسر وارث میر ایک استاد، صحافی اور دانشور تھے۔ انھوں نے قلم کے ذریعے جمہوریت اور آزادی اظہار کے لیے جدوجہد کی اور یہی جدوجہد ان کی شناخت بن گئی۔ انھیں ان کے ہم عصروں نے حریت فکر کا مجاہد جیسے خطاب سے نوازا۔ انھوں نے آمریت کے خلاف قلمی جہاد آج کی قدرے آزاد فضا میں نہیں بلکہ ضیاء الحق کے اس سیاہ دور میں کیا، جب حق اور سچ کی بات کہنا یا لکھنا دہکتے انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔ جن لوگوں نے ضیاء الحق کا دور دیکھا ہے انھیں اس ظلم کا بخوبی علم ہے۔

انسانی آزادیوں کی جدوجہد کی اس راہ میں انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں دھمکایا گیا، لالچ دیا گیا لیکن وہ ڈرے نہ فارم ہاؤسز اور محلات کے لالچ میں آئے۔ انھوں نے سچ کہا، سچ لکھا اور اس پر جرأت مندی سے تادم مرگ قائم رہے۔ وہ اہل علم وقلم کے اس قابل فخر قبیلے کے رکن تھے جو بادشاہوں اور حکمرانوں کے دربار تک رسائی کے تمنائی نہیں ہوتے بلکہ وہ ان کے ظلم کے خلاف لڑنے والوں کے مددگار ومعاون بنتے ہیں۔

کانٹوں بھرے اس راستے کا انتخاب انھوں نے اپنی مرضی سے اور سوچ سمجھ کر کیا ورنہ ضیاء الحق کی عنایات سے دوسروں کی طرح وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے اور آج ان کی اولاد بھی اپنے میڈیا ہاؤسز اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی مالک ہوتی اور ان کا شمار بھی پاکستان کے امراء میں ہوتا لیکن ان درباری عنایات کی قیمت ادا کرنا کسی صاحب ضمیر کے بس سے باہر ہے۔ پروفیسر وارث میر نے بھی دربار کو ٹھوکر ماری اور اس راستے کا انتخاب کیا جو اہل علم کے لیے مخصوص ہوتا ہے یعنی حالات خواہ کیسے بھی ہوں، سچ بولا اور لکھا جائے۔

ضیاء الحق نے اس دور کے اہل علم اور اہل صحافت سے عنایات کے بدلے جو قیمت وصول کی، یہ ڈھکا چھپا راز نہیں ہے۔ وہ چہرے آج بھی ہمارے سامنے ہیں جو ضیاء الحق کے اقتدار کو طول دینے کے لیے عوام کو گمراہ کرتے رہے۔ ضیاء الحق اپنے ظلم وجبر کو علم ودلیل کا لبادہ پہنا کر جائز وبرحق قرار دینا چاہتا تھا۔ عوام کی آواز کو شرپسندی اور اسلام دشمنی سے تعبیر کرا کے اسے دبانا چاہتا تھا لیکن حق کے راستے پر چلنے والوں نے ضیاء الحق کے ان عوام دشمن اقدامات کی مخالفت کی اور ظلم کو ظلم قراردیا۔


پروفیسر وارث میر نے اپنے عہد کے ایسے خوشامدی سیاست دانوں، صحافیوں اور ادیبوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے سامنے بے نقاب کیا جنھوں نے دنیاوی عہدوں اور آسائشوں کے حصول کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ماضی کے ان باضمیر اور باکردار دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جو حریت فکر کے مجاہد ٹھہرے اور لالچ، دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے رہے۔

میرے سامنے اس وقت ان کی تحریروں پر مبنی کتاب ''فلسفۂ خوشامد، پاکستان کی درباری سیاست وصحافت'' موجود ہے، اس کتاب میں انھوں نے درباری صحافیوں اور سیاست دانوں کا بڑی بے رحمی سے پوسٹمارٹم کیا ہے۔ ان تحریروں کو کتابی شکل میں یکجا کرنے کا سہرا ان کے صاحبزادے عامر میر کے سر ہے جو خود بھی قلم قبیلے کے رکن ہیں۔

اس کتاب میں پروفیسر وارث کی وہ تحریریں شامل ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی دور میں قلمبند کی گئیں۔ اس کتاب میں 3 نومبر 1984ء کو روزنامہ نوائے وقت میں لکھا گیا ایک کالم ''درباری صحافیوں کو پالنے کا عمل'' پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں اہل صحافت اور ضیاء الحق کے تعلق کو بڑی بے باکی سے بیان کیا گیا ہے، اس سے ایک اقتباس آپ بھی پڑھئے:

''ملک کے سربراہ کا صحافیوں کے ساتھ تعلق خصوصی کبھی کوئی راز نہیں رہا البتہ پاکستان کے موجودہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے حسب معمول یہ انوکھی ''جرأت'' ضرور دکھائی ہے کہ انھوں نے اس تعلق خصوصی کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اور ساتھ ہی اس اعلان کو مبہم اور نامکمل رکھنے کی ''ناکام'' کوشش بھی ہے یعنی ان خوش قسمت صحافیوں کے نام نہیں بتائے جو ان کے زیرکفالت ہیں اور جنھیں گزشتہ کئی سال سے وہ ماں کی طرح پال پوس رہے ہیں۔ صدر صاحب صحافیوں کو پالنے پوسنے والی سخت بات بھی ماں بن کر اپنے روایتی نرم لہجے اور قابل برداشت الفاظ میں کہہ گئے ورنہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ سب لوگ گزشتہ سال سے میرے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور اگر انھوں نے جھوٹی خبروں کی اشاعت کا سلسلہ بند نہ کیا تو انھیں چوہے کی طرح دم سے پکڑ کر باہر گلی میں لٹکا دوں گا۔ شکر ہے خدا کا اور آفرین ہے ان کی حوصلہ مندی اور متانت بیان پر کہ جھوٹے اور کاذب صحافیوں کو صرف چھوٹی انگلی سے باندھنے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے اس اعلان میں ان تمام ''پہلوانوں'' اور ''خلیفوں'' کے لیے بھی انتباہ پوشیدہ ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں، قربت مہر نیمروز کی بدولت منور بھی ہیں اور آتش بجاں بھی اور اپنی اپنی دم پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر دبکی یا گھات میں بیٹھی بلیوں کو للکارتے رہتے ہیں۔''

قارئین ذرا سوچئے ضیاء الحق کے دور میں ایسی حقیقت بیان کرنا کتنا مشکل کام تھا، آج کل کی پود کو اس کا احساس نہیں ہو سکتا یعنی پاکستان کی صحافت کو گندا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ضیاء الحق کے دور کا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں آزادی صحافت پر حملہ ضرور ہوا تھا لیکن اہل قلم روپے پیسے کی بارش نہیں کی گئی بلکہ قوانین کے ذریعے صحافت اورصحافیوں کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ضیاء الحق کے دور میں صحافیوں کو نوازنے کا آغاز ہوا۔

پروفیسر وارث میر نے اپنے کالم میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے چیئرمین رہے اور انھوں نے 25 برس درس وتدریس میں گزارے اور اس دوران میں انھوں نے ملک کے ممتاز اخبارات میں مضامین اور کالم لکھے۔ انھوں نے ان انتہائی حساس اور نازک موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جس پر رائے دیتے ہوئے بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی ایک اور کتاب ''کیا عورت آدھی ہے؟'' سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں پروفیسر صاحب کے وہ مضامین شامل ہیں جن میں انھوں نے اسلامی تعلیمات، قرآن مجید اور احادیث کے حوالے دے کر یہ ثابت کیا کہ مرد کے مقابلے میں کسی طور پر بھی عورت آدھی حیثیت نہیں رکھتی۔

پروفیسر وارث میر 9 جولائی 1987ء کو وفات پا گئے۔ ان کی وفات کو 30 برس کا عرصہ گزر چکا لیکن ان کی تحریریں پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ہمارے لیے ہی لکھا گیا ہے۔ بلاشبہ وہی معاشرے زندہ رہتے ہیں جن میں وارث میر جیسے سچ کہنے والے موجود رہیں۔ آج کی نوجوان نسل کو ان کی تحریریں پڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں اور انھیں آگہی مل سکے کہ جبر خواہ کتنا بھی بڑھ جائے، حق بات کہنے والے ڈرتے نہیں ہیں۔
Load Next Story