دیتے ہیں دھوکا
انٹرنیٹ پر فیس بک کی دوستی اور پھر بلیک میلنگ کے معاملے میں لڑکیاں زیادہ قصور وار ہیں۔
''میرا نام فلاں ہے اور میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں'' ایک آواز فون پر کانوں سے ٹکرائی۔ ''آپ کو میرا نمبر کس نے دیا'' میں نے پوچھا۔ بولی''کافی عرصہ پہلے ایکسپریس سے لیا تھا اور ایک بار آپ سے پہلے بھی بات کرچکی ہوں۔'' ٹھیک ہے بتایئے کیا بات کرنا چاہتی ہیں'' میں نے کہا۔ اور جواب میں تفصیل سے اس نے مجھے جن ہولناک حقائق سے آگاہ کیا انھیں سن کر میں بالکل بھی حیران نہیں ہوئی، کیونکہ ایسے واقعات میں کافی لوگوں کی زبانی سن چکی ہوں۔ لیکن کرن کے فون سے کچھ اور بھی پتا چلا کہ غربت، بے روزگاری اور پیسے کی ہوس کس طرح لڑکیوں کو برباد کررہی ہے اور عیار لوگ گھات لگاکر کن کن طریقوں سے معصوم لڑکیوں کا شکارکررہے ہیں۔
اس لڑکی نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی اس میں سب سے پہلی یہ تھی کہ وہ تین سطری اشتہار جن میں نوکری کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ماڈلنگ کے لیے جن میں 20 سے 25 سال تک لڑکے لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں اکثر فراڈ ہوتے ہیں۔ لڑکوں کا نام تو یونہی ڈال دیا جاتا ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو، اصل شکار لڑکیاں ہوتی ہیں۔ بطور خاص ماڈلنگ کے اشتہار زیادہ پرکشش ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ صحیح بھی ہوتے ہوں، اور جو صحیح ہوتے ہیں وہ اشتہار میں اپنے ادارے کا نام دیتے ہیں اور وہ تین سطروں پر مشتمل نہیں ہوتے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ یہ اشتہارات دیکھ کر جب لڑکیاں دیے گئے نمبر پہ رابطہ کرتی ہیں تو جواب میں انھیں ایک بلڈنگ میں واقع دفتر کا پتہ بتادیا جاتا ہے جب یہ لڑکیاں دیے گئے پتے پر پہنچتی ہیں تو جو سچ ان پر آشکارا ہوتا ہے وہ بہت خوفناک ہوتا ہے۔ بعض واقعات یہ بھی سننے میں آئے ہیں کہ ملازمت کی تلاش یا ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کی شوقین لڑکیاں بعض اوقات گھر والوں سے چھپ کر آتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں ان لڑکیوں کا اسکرین ٹیسٹ اور مکالموں کی ادائیگی کا انداز، تلفظ وغیرہ دیکھا جاتا ہے، تاکہ انھیں یقین آجائے لیکن انھیں ان خفیہ کیمروں کا پتا نہیں ہوتا جو اصل مقصد کے لیے لگائے جاتے ہیں۔
شہرت کی ہوس میں یہ نادان لڑکیاں غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں، جو بعد میں ان کے ساتھ زور زبردستی کرتے ہیں اور نازیبا حرکات کو موبائل کیمرے میں محفوظ کرکے انھیں بعد میں بلیک میل کرتے ہیں۔ زیادہ تر ناسمجھ لڑکیاں بدنامی کے ڈر اور والدین کے خوف سے مسلسل بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن کچھ باہمت بھی ہوتی ہیں۔ مجھے فون کرنے والی لڑکی کی طرح جس نے مجھے بہت سے حقائق بتائے اور سب سے اچھا کام یہ کیا کہ اس کے ساتھ جو ہوا تھا اس نے اپنی والدہ کو بتادیا۔ اس لیے کہ وہ باہمت تھی اور دو دن میں سمجھ گئی تھی کہ ملازمت کا جھانسا دے کر کس مقصد سے لڑکیوں کو بلایا جاتا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے پیارے وطن میں عورتوں کو چارہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کی ہمتیں اس لیے بڑھ گئی ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے خواہ اغوا ہو، گینگ ریپ ہو یا کسی اور طریقے کی بلیک میلنگ ہو، ایک جاہل مرد بھی یہ جانتا ہے کہ ''ان عورتوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو یہ شکایت کرنے والی نہیں ہیں اور اگر کسی نے ہمت کی تو اس کے گھر والے ایسا نہیں کرنے دیںگے۔''
اس لیے آپ دیکھیے کہ تواتر سے زیادتیوں کے اور گینگ ریپ کے واقعات چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہورہے ہیں۔کوئی پرسان حال نہیں یہ جو اسمبلی میں خواتین بیٹھی ہیں انھیں سوائے اپنی ذاتی نمائش کے کچھ نہیں آتا۔ کوئی معلومات نہیں، آئین پاکستان کا مطالعہ تو در کنار انھوں نے نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ انھیں ان خرافات میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ سب ریزرو سیٹوں پر آتی ہیں ان سے پاکستان کی تاریخ کے بارے میں چند سوال کیجیے سارا کچا چھٹا کھل جائے گا۔
قرارداد پاکستان کب اور کہاں پاس ہوئی، 23 مارچ کی کیا اہمیت ہے، ان کا اصل کام صرف ڈیسک بجانا اور اپنے اپنے ممدوحین کی قصیدہ خوانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پروفیسرزکی طرح اسمبلی کی خواتین کی خواتین کو سادہ لباس زیب دیتا ہے، لیکن یہاں تو ولیمے کی تقریبات کے جوڑوں، بیوٹی پارلر کے میک اپ اور جگمگاتی جیولری کی نمائش ہوتی ہے۔ ان کا کیا واسطہ کہ اسمبلی میں بل پاس کرائیں کہ ریپ کے ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو پہلے کوڑوں کی سزا دے کر پھر پھانسی دی جائے۔
اسمبلی کی نام نہاد خواتین کی لڑائیاں، سجنا بننا سنورنا اور کسی بھی سنگین مسئلے کا ادراک نہ ہونا ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ابا میاں، چچا جان، بھائی جان اور شوہر نامدار جو کہیں گے وہی یہ کریںگی۔ ان کی بلا سے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہو، نابالغ اور معصوم بچیوں کا گینگ ریپ ہو جو ننھی ننھی کلیاں ابھی پوری طرح کھلی بھی نہیں ہیں۔ انھیں مملکت خداداد پاکستان یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہڑتالیں اور ملین مارچ کرانے والے علمائے کرام اور سیاست دانوں نے کبھی ان خطرناک مجرموں کو سزا دینے کے بارے میں کوئی بل پاس نہیں کرایا۔ اسمبلی کی خواتین نے شور تو بہت مچایا لیکن نتیجہ اس لیے برآمد نہیں ہوا کہ وہ شور صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے تھا۔
البتہ انٹرنیٹ پر فیس بک کی دوستی اور پھر بلیک میلنگ کے معاملے میں لڑکیاں زیادہ قصور وار ہیں۔ روزانہ اپنی نئی سی نئی تصاویر ڈالنا پھر اس پر کتنے LIKE آئے انھیں گن کر خوش ہونا پھر INBOX پر MSGکا سلسلہ شروع ہونا۔ کوئی ملنے کی خواہش کر رہا ہے، کوئی کمرشل دلوانے کا وعدہ کر رہا ہے، کوئی ڈراموں میں کام دلوانے کا خواب دکھا رہا ہے، کوئی ملازمت کی پیشکش کے بہانے ذاتی ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اور لڑکیاں بغیر کسی جھجک کے ماں باپ کو بتائے بغیر آگ میں کود رہی ہیں۔ جب بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں قصور کس کا ہے۔؟
اس لڑکی نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی اس میں سب سے پہلی یہ تھی کہ وہ تین سطری اشتہار جن میں نوکری کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ماڈلنگ کے لیے جن میں 20 سے 25 سال تک لڑکے لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں اکثر فراڈ ہوتے ہیں۔ لڑکوں کا نام تو یونہی ڈال دیا جاتا ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو، اصل شکار لڑکیاں ہوتی ہیں۔ بطور خاص ماڈلنگ کے اشتہار زیادہ پرکشش ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ صحیح بھی ہوتے ہوں، اور جو صحیح ہوتے ہیں وہ اشتہار میں اپنے ادارے کا نام دیتے ہیں اور وہ تین سطروں پر مشتمل نہیں ہوتے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ یہ اشتہارات دیکھ کر جب لڑکیاں دیے گئے نمبر پہ رابطہ کرتی ہیں تو جواب میں انھیں ایک بلڈنگ میں واقع دفتر کا پتہ بتادیا جاتا ہے جب یہ لڑکیاں دیے گئے پتے پر پہنچتی ہیں تو جو سچ ان پر آشکارا ہوتا ہے وہ بہت خوفناک ہوتا ہے۔ بعض واقعات یہ بھی سننے میں آئے ہیں کہ ملازمت کی تلاش یا ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کی شوقین لڑکیاں بعض اوقات گھر والوں سے چھپ کر آتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں ان لڑکیوں کا اسکرین ٹیسٹ اور مکالموں کی ادائیگی کا انداز، تلفظ وغیرہ دیکھا جاتا ہے، تاکہ انھیں یقین آجائے لیکن انھیں ان خفیہ کیمروں کا پتا نہیں ہوتا جو اصل مقصد کے لیے لگائے جاتے ہیں۔
شہرت کی ہوس میں یہ نادان لڑکیاں غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں، جو بعد میں ان کے ساتھ زور زبردستی کرتے ہیں اور نازیبا حرکات کو موبائل کیمرے میں محفوظ کرکے انھیں بعد میں بلیک میل کرتے ہیں۔ زیادہ تر ناسمجھ لڑکیاں بدنامی کے ڈر اور والدین کے خوف سے مسلسل بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن کچھ باہمت بھی ہوتی ہیں۔ مجھے فون کرنے والی لڑکی کی طرح جس نے مجھے بہت سے حقائق بتائے اور سب سے اچھا کام یہ کیا کہ اس کے ساتھ جو ہوا تھا اس نے اپنی والدہ کو بتادیا۔ اس لیے کہ وہ باہمت تھی اور دو دن میں سمجھ گئی تھی کہ ملازمت کا جھانسا دے کر کس مقصد سے لڑکیوں کو بلایا جاتا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے پیارے وطن میں عورتوں کو چارہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کی ہمتیں اس لیے بڑھ گئی ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے خواہ اغوا ہو، گینگ ریپ ہو یا کسی اور طریقے کی بلیک میلنگ ہو، ایک جاہل مرد بھی یہ جانتا ہے کہ ''ان عورتوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو یہ شکایت کرنے والی نہیں ہیں اور اگر کسی نے ہمت کی تو اس کے گھر والے ایسا نہیں کرنے دیںگے۔''
اس لیے آپ دیکھیے کہ تواتر سے زیادتیوں کے اور گینگ ریپ کے واقعات چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہورہے ہیں۔کوئی پرسان حال نہیں یہ جو اسمبلی میں خواتین بیٹھی ہیں انھیں سوائے اپنی ذاتی نمائش کے کچھ نہیں آتا۔ کوئی معلومات نہیں، آئین پاکستان کا مطالعہ تو در کنار انھوں نے نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ انھیں ان خرافات میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ سب ریزرو سیٹوں پر آتی ہیں ان سے پاکستان کی تاریخ کے بارے میں چند سوال کیجیے سارا کچا چھٹا کھل جائے گا۔
قرارداد پاکستان کب اور کہاں پاس ہوئی، 23 مارچ کی کیا اہمیت ہے، ان کا اصل کام صرف ڈیسک بجانا اور اپنے اپنے ممدوحین کی قصیدہ خوانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پروفیسرزکی طرح اسمبلی کی خواتین کی خواتین کو سادہ لباس زیب دیتا ہے، لیکن یہاں تو ولیمے کی تقریبات کے جوڑوں، بیوٹی پارلر کے میک اپ اور جگمگاتی جیولری کی نمائش ہوتی ہے۔ ان کا کیا واسطہ کہ اسمبلی میں بل پاس کرائیں کہ ریپ کے ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو پہلے کوڑوں کی سزا دے کر پھر پھانسی دی جائے۔
اسمبلی کی نام نہاد خواتین کی لڑائیاں، سجنا بننا سنورنا اور کسی بھی سنگین مسئلے کا ادراک نہ ہونا ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ابا میاں، چچا جان، بھائی جان اور شوہر نامدار جو کہیں گے وہی یہ کریںگی۔ ان کی بلا سے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہو، نابالغ اور معصوم بچیوں کا گینگ ریپ ہو جو ننھی ننھی کلیاں ابھی پوری طرح کھلی بھی نہیں ہیں۔ انھیں مملکت خداداد پاکستان یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہڑتالیں اور ملین مارچ کرانے والے علمائے کرام اور سیاست دانوں نے کبھی ان خطرناک مجرموں کو سزا دینے کے بارے میں کوئی بل پاس نہیں کرایا۔ اسمبلی کی خواتین نے شور تو بہت مچایا لیکن نتیجہ اس لیے برآمد نہیں ہوا کہ وہ شور صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے تھا۔
البتہ انٹرنیٹ پر فیس بک کی دوستی اور پھر بلیک میلنگ کے معاملے میں لڑکیاں زیادہ قصور وار ہیں۔ روزانہ اپنی نئی سی نئی تصاویر ڈالنا پھر اس پر کتنے LIKE آئے انھیں گن کر خوش ہونا پھر INBOX پر MSGکا سلسلہ شروع ہونا۔ کوئی ملنے کی خواہش کر رہا ہے، کوئی کمرشل دلوانے کا وعدہ کر رہا ہے، کوئی ڈراموں میں کام دلوانے کا خواب دکھا رہا ہے، کوئی ملازمت کی پیشکش کے بہانے ذاتی ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اور لڑکیاں بغیر کسی جھجک کے ماں باپ کو بتائے بغیر آگ میں کود رہی ہیں۔ جب بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں قصور کس کا ہے۔؟