ایک خوشگوار حیرت
ماضی قریب کے کئی سیلاب اور ان کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اسی ظالمانہ اور انسان دشمنی کے رویے سے پیوست ہے۔
شہر اور ملک کے دوسرے علاقوں کے بارے میں تو مصدقہ طور پر لوڈشیڈنگ کی صورت حال کے بارے میں کوئی بیان دینا مشکل ہے مگر اپنے رہائشی علاقے یعنی ڈیفنس لاہور کے بارے میںضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہاں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے اور فی الوقت یہ 24 گھنٹے میں تقریباً چار گھنٹے تک محدود ہو گیا ہے۔
دوپہر میں یہ وقفہ سوا ایک بجے سے سوا دو بجے تک ہوتا ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق جمعے کی نماز کے دوران بھی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نمازیوں کو بہت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ جون جولائی کی شدید گرمی میں جب بعض اوقات یو پی ایس پر چلنے والے محدود پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں تو پسینہ پیروں میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے جب کہ تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ہوؤں کو خطیب صاحب کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور یوں معاملہ اور زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔
اگر کرکٹ میچ یا کسی تہوار کے دوران لوڈشیڈنگ کئی کئی گھنٹے معطل کی جا سکتی ہے تو نمازِ جمعہ کے اوقات میں اس کا جاری رکھنا سمجھ سے باہر ہے۔ مناسب ہو گا اگر پورے ملک میں جمعہ کے روز دوپہر بارہ بجے سے تین بجے سہ پہر تک لوڈشیڈنگ سے متعلق اداروں کو باقاعدہ حکم نامے کے ذریعے اس امر کا پابند کر دیا جائے۔
حرفِ شکایت کا معاملہ بس یہیں تک تھا کہ اس کے بعد مجھے اس خوشگوار حیرت کا ذکر کرنا ہے جس نے گزشتہ جمعہ کی نماز کے دوران لوڈشیڈنگ اور مسجد کے خراب یو پی ایس کے باوجود دل ودماغ کو شاد کر دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ اس روز مولوی صاحب کا سارا وعظ دین کے ان چند معاشرتی مسائل سے متعلق تھا جن پر مسجد کے منبر سے بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔
میرے علم میں نہیں کہ اس کی ہدایت انھیں انتظامیہ کی طرف سے دی گئی تھی یا خود انھوں نے اس موضوع کا انتخاب کیا بہرحال بات ہر صورت میں قابل داد وتحسین ہے کہ لوگوں کو دینی مسائل اور مباحث کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کے ایسے مسائل سے بھی آگاہ کیا جائے جن کا تعلق بہتر اور صحت مند ماحول اور ان اعلیٰ انسانی اقدار سے ہے جن سے معاشرے میں معیاری سطح پر تبدیلی اور ترقی کے راستے کھلتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ہماری زندگیوں، ماحول اور اردگرد کی فضا میں درختوں کا ہونا اور ان کی دیکھ بھال یا شجرکاری کی اہمیت ہے یا قدرت کی طرف سے بنائے گئے پانی کے نظام کو سمجھنا، اس کی حفاظت کرنا اور اس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچانا ہے یا جیو اور جینے دو کے اصول کی وہ تشریح ہے جس میں ہمارا دین ہمیں راستے میں پڑے پتھر کو ہٹا کر اپنے اور دوسروں کے لیے راستہ صاف کرنے کی اہمیت اور فلسفہ سمجھتا ہے اور اس طرح کے ہر عمل کو نیکی کا درجہ دیتا ہے جس سے کسی دوسر کی مشکل کم یا آسان ہو۔
وطن عزیز میں درختوں کو جس بے دردی سے کاٹا اور قدرتی جنگلوں کو برباد کر کے فطرت کو ناراض کیا گیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ماضی قریب کے کئی سیلاب اور ان کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اسی ظالمانہ اور انسان دشمنی کے رویے سے پیوست ہے۔ مہذب ممالک میں آپ اپنے گھر میں موجود درخت کو بھی متعلقہ سرکاری محکمے کی باقاعدہ اجازت کے بغیر ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے اور اسے کاٹنے کی شکل میں آپ کو اس کا متبادل درخت لگانا پڑتا ہے۔
اسی طرح جنگلات کے رقبے کو قائم رکھنا او راس میں اضافہ کرنا بھی بارشوں کے نظام کی بہتری او رسیلابوں کی روک تھام میں بے حد ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے کہ یہ درخت سایہ اور پھیل دینے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہمیں سانس لینے کے لیے تازہ، بہتر اور مصفی ہوا بھی دیتے ہیں۔ قدرت کے بنائے ہوئے مکمل اور انسان دوست نظام کو جب ذاتی اور گھٹیا مفادات کے لیے خراب یا تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کی سزا ان بے شمار بے گناہ لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتی ہے جن کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔
پینے کے صاف اور میٹھے پانی اور سمندروں کے کھارے اور نمکین پانی کے حوالے سے بھی بڑے عام فہم، سادہ اور منطقی انداز میں یہ بتایا گیا کہ یہ کھارا پانی اصل میں اس مرنے والی سمندری مخلوق کے مردہ اجسام کو تعفن اور بیماری سے محفوظ کرتے ہوئے ٹھکانے لگانے کا کام کرتا ہے جس کے بغیر سمندر اور اس کے اندر موجودہ حیاتیاتی نظام قائم ہی نہیں رہ سکتا یعنی جدید سائنس کے انکشافات بھی اصل میں ہمیں کوئی نیا نظام نہیں دیتے بلکہ ان حقائق سے آگاہ کرتے ہیں جن کا اہتمام قدرت نے پہلے سے کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول کو دیکھ لیجیے جو اس وقت دنیا میں توانائی کے حوالے سے سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
پوری انسانی تاریخ میں آج سے ایک سو برس پہلے تک یہ خراب اور ناقابل استعمال، گندا اور بدبودار پانی سمجھا جاتا تھا جس کا کوئی بھی ممکنہ مصرف کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ آبی حیات اور پہاڑوں پر جمنے اور پگھلنے والی برف سے بننے والے چشمے اور دریا دوبارہ سمندر کا حصہ بننے سے پہلے کس طرح نسل انسانی کی بقا کے ضامن بنتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس نے اس کرۂ ارض کو ان بعیداز قیاس وسعتوں اور کہکشاؤں کے درمیان ایک ایسا درجہ دے دیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال فی الوقت ہمارے علم میں نہیں۔
راستے میں پڑے کسی پتھر کو ایک طرف کر دینا یا اللہ کے کسی بندے کو بنا کسی تعارف یا رشتے کے صرف مسکرا کر دیکھ لینا کیسے نیک اعمال کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اس کا سبق تو ہمیں ہمارے دین نے دیا ہے لیکن اس رویے کا انسانی معاشرت سے جو گہرا اور گوناگوں تعلق ہے اس کی مکمل وسعت شاید ابھی تک کسی بھی مروجہ علم کی دسترس میں نہیں۔ ان تینوں باتوں کا تعلق ہماری زندگی سے بہت گہرا ہے مگر بوجوہ ہم نے انھیں صرف دنیا کے خانے میں ڈال رکھا تھا جب کہ دین کے احاطے میں دنیا سمیت سب کچھ شامل ہے۔
میری دعا ہے کہ یہ خوشگوار حیرت قائم رہے اور ہمارے دینی حوالوں سے نمائندہ اور ماہر لوگ اسی طرح زندگی کے ان پہلوؤں پر بھی سائنس اور دیگر علوم کے حوالے سے ایسی باتوں پر سوچیں اور انھیں اس خلق خدا تک پہنچائیں جو اپنے ہی کچھ ظالم اورمفاد پرست طبقوں کی وجہ سے اپنے رب کی کئی ایسی نعمتوں سے محروم ہیں جو ان کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہیں۔
دوپہر میں یہ وقفہ سوا ایک بجے سے سوا دو بجے تک ہوتا ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق جمعے کی نماز کے دوران بھی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نمازیوں کو بہت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ جون جولائی کی شدید گرمی میں جب بعض اوقات یو پی ایس پر چلنے والے محدود پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں تو پسینہ پیروں میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے جب کہ تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ہوؤں کو خطیب صاحب کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور یوں معاملہ اور زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔
اگر کرکٹ میچ یا کسی تہوار کے دوران لوڈشیڈنگ کئی کئی گھنٹے معطل کی جا سکتی ہے تو نمازِ جمعہ کے اوقات میں اس کا جاری رکھنا سمجھ سے باہر ہے۔ مناسب ہو گا اگر پورے ملک میں جمعہ کے روز دوپہر بارہ بجے سے تین بجے سہ پہر تک لوڈشیڈنگ سے متعلق اداروں کو باقاعدہ حکم نامے کے ذریعے اس امر کا پابند کر دیا جائے۔
حرفِ شکایت کا معاملہ بس یہیں تک تھا کہ اس کے بعد مجھے اس خوشگوار حیرت کا ذکر کرنا ہے جس نے گزشتہ جمعہ کی نماز کے دوران لوڈشیڈنگ اور مسجد کے خراب یو پی ایس کے باوجود دل ودماغ کو شاد کر دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ اس روز مولوی صاحب کا سارا وعظ دین کے ان چند معاشرتی مسائل سے متعلق تھا جن پر مسجد کے منبر سے بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔
میرے علم میں نہیں کہ اس کی ہدایت انھیں انتظامیہ کی طرف سے دی گئی تھی یا خود انھوں نے اس موضوع کا انتخاب کیا بہرحال بات ہر صورت میں قابل داد وتحسین ہے کہ لوگوں کو دینی مسائل اور مباحث کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کے ایسے مسائل سے بھی آگاہ کیا جائے جن کا تعلق بہتر اور صحت مند ماحول اور ان اعلیٰ انسانی اقدار سے ہے جن سے معاشرے میں معیاری سطح پر تبدیلی اور ترقی کے راستے کھلتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ہماری زندگیوں، ماحول اور اردگرد کی فضا میں درختوں کا ہونا اور ان کی دیکھ بھال یا شجرکاری کی اہمیت ہے یا قدرت کی طرف سے بنائے گئے پانی کے نظام کو سمجھنا، اس کی حفاظت کرنا اور اس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچانا ہے یا جیو اور جینے دو کے اصول کی وہ تشریح ہے جس میں ہمارا دین ہمیں راستے میں پڑے پتھر کو ہٹا کر اپنے اور دوسروں کے لیے راستہ صاف کرنے کی اہمیت اور فلسفہ سمجھتا ہے اور اس طرح کے ہر عمل کو نیکی کا درجہ دیتا ہے جس سے کسی دوسر کی مشکل کم یا آسان ہو۔
وطن عزیز میں درختوں کو جس بے دردی سے کاٹا اور قدرتی جنگلوں کو برباد کر کے فطرت کو ناراض کیا گیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ماضی قریب کے کئی سیلاب اور ان کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اسی ظالمانہ اور انسان دشمنی کے رویے سے پیوست ہے۔ مہذب ممالک میں آپ اپنے گھر میں موجود درخت کو بھی متعلقہ سرکاری محکمے کی باقاعدہ اجازت کے بغیر ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے اور اسے کاٹنے کی شکل میں آپ کو اس کا متبادل درخت لگانا پڑتا ہے۔
اسی طرح جنگلات کے رقبے کو قائم رکھنا او راس میں اضافہ کرنا بھی بارشوں کے نظام کی بہتری او رسیلابوں کی روک تھام میں بے حد ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے کہ یہ درخت سایہ اور پھیل دینے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہمیں سانس لینے کے لیے تازہ، بہتر اور مصفی ہوا بھی دیتے ہیں۔ قدرت کے بنائے ہوئے مکمل اور انسان دوست نظام کو جب ذاتی اور گھٹیا مفادات کے لیے خراب یا تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کی سزا ان بے شمار بے گناہ لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتی ہے جن کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔
پینے کے صاف اور میٹھے پانی اور سمندروں کے کھارے اور نمکین پانی کے حوالے سے بھی بڑے عام فہم، سادہ اور منطقی انداز میں یہ بتایا گیا کہ یہ کھارا پانی اصل میں اس مرنے والی سمندری مخلوق کے مردہ اجسام کو تعفن اور بیماری سے محفوظ کرتے ہوئے ٹھکانے لگانے کا کام کرتا ہے جس کے بغیر سمندر اور اس کے اندر موجودہ حیاتیاتی نظام قائم ہی نہیں رہ سکتا یعنی جدید سائنس کے انکشافات بھی اصل میں ہمیں کوئی نیا نظام نہیں دیتے بلکہ ان حقائق سے آگاہ کرتے ہیں جن کا اہتمام قدرت نے پہلے سے کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول کو دیکھ لیجیے جو اس وقت دنیا میں توانائی کے حوالے سے سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
پوری انسانی تاریخ میں آج سے ایک سو برس پہلے تک یہ خراب اور ناقابل استعمال، گندا اور بدبودار پانی سمجھا جاتا تھا جس کا کوئی بھی ممکنہ مصرف کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ آبی حیات اور پہاڑوں پر جمنے اور پگھلنے والی برف سے بننے والے چشمے اور دریا دوبارہ سمندر کا حصہ بننے سے پہلے کس طرح نسل انسانی کی بقا کے ضامن بنتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس نے اس کرۂ ارض کو ان بعیداز قیاس وسعتوں اور کہکشاؤں کے درمیان ایک ایسا درجہ دے دیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال فی الوقت ہمارے علم میں نہیں۔
راستے میں پڑے کسی پتھر کو ایک طرف کر دینا یا اللہ کے کسی بندے کو بنا کسی تعارف یا رشتے کے صرف مسکرا کر دیکھ لینا کیسے نیک اعمال کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اس کا سبق تو ہمیں ہمارے دین نے دیا ہے لیکن اس رویے کا انسانی معاشرت سے جو گہرا اور گوناگوں تعلق ہے اس کی مکمل وسعت شاید ابھی تک کسی بھی مروجہ علم کی دسترس میں نہیں۔ ان تینوں باتوں کا تعلق ہماری زندگی سے بہت گہرا ہے مگر بوجوہ ہم نے انھیں صرف دنیا کے خانے میں ڈال رکھا تھا جب کہ دین کے احاطے میں دنیا سمیت سب کچھ شامل ہے۔
میری دعا ہے کہ یہ خوشگوار حیرت قائم رہے اور ہمارے دینی حوالوں سے نمائندہ اور ماہر لوگ اسی طرح زندگی کے ان پہلوؤں پر بھی سائنس اور دیگر علوم کے حوالے سے ایسی باتوں پر سوچیں اور انھیں اس خلق خدا تک پہنچائیں جو اپنے ہی کچھ ظالم اورمفاد پرست طبقوں کی وجہ سے اپنے رب کی کئی ایسی نعمتوں سے محروم ہیں جو ان کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہیں۔