سرفراز احمد بطور ٹیسٹ کپتان مشکل امتحان کے لیے تیار
انعامات کی بندر بانٹ سے پی سی بی کی ساکھ خراب ہوئی۔
لاہور:
فتح ایک ایسی حسینہ ہے کہ اس کو ہر کوئی اپنانے کو تیار ہوجاتا ہے جبکہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ شکست کے بدنماداغ سے دامن چھڑا کر گزر جائے، چیمپئنز ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں قومی کرکٹ ٹیم کی ناکامی پر تنقید کرنے والوں کے نشتر تیز تھے تو دوسری طرف پی سی بی کے عہدیداروں کو بھی سانپ سونگھ گیا۔
رمضان المبارک میں عوام کی دعائیں رنگ لے آئیں، کرکٹرز مشکل ترین صورتحال سے ابھر کر اعتماد کی بحالی کے سفر پر چلے، مینجمنٹ اور کپتان نے جرأت مندانہ فیصلے کئے تو بہادری سے لڑنے والوں کا قسمت نے بھی بھرپور ساتھ دیا،گرین شرٹس نے بارش کی معاونت سے عالمی نمبر ون جنوبی افریقہ کی امیدوں پر پانی پھیرا۔
کپتان سرفراز احمد، محمد عامر اور ڈراپ کیچز سے ملنے والے مواقع کے بدولت سری لنکا کو بھی زیر کیا تو اتنا حوصلہ پیدا ہوگیا کہ سیمی فائنل میں ایونٹ کی ناقابل شکست ٹیم انگلینڈ کو بھی مات دینے کی امیدیں روشن ہوگئیں، بھارت کے خلاف فائنل میں فتح کی بدولت تاریخ رقم ہوئی تو اس کامیابی کا کریڈٹ لینے والوں کی لائن لگ گئی، کوچنگ سٹاف سے زیادہ بورڈ عہدیدارپیش پیش تھے، سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں کا بھی خوب چرچا ہوا۔
حقائق پر نظر ڈالی جائے تو فخرزمان دورۂ ویسٹ انڈیز میں بھی سکواڈ کے ہمراہ تھے لیکن فخرزمان کے ناکام تجربے کو ترجیح دی گئی،اظہر علی نے ون ڈے ٹیم کی قیادت چھوڑی تو ان کو ڈراپ ہی کردیا گیا جبکہ احمد شہزاد کریبیئنز کے خلاف تینوں فارمیٹ میں آزمائے گئے، آصف ذاکر،محمد اصغر بھی سکواڈ کے ہمراہ تھے لیکن سیر کرکے واپس آگئے،ان کھلاڑیوں کو ایک آسان سیریز میں ہی مواقع دیئے جاتے تو پاکستان چیمپئنز ٹرافی میں 3کھلاڑیوں کو ڈیبیو کرانے والے واحد ٹیم نہ بنتا۔
دراصل بھارت کے خلاف ناقص کارکردگی کے دوران ہی وہاب ریاض ان فٹ ہوئے تو انگلش کنڈیشنز کے لیے موزوں جیند خان کی جگہ بن گئی،احمد شہزاد پہلے ہی میچ میں ٹیم سے زیادہ اپنے لئے کھیلتے نظر آئے،ٹیسٹ میچ کھیلنے کے باوجود کریز پر قیام طویل نہ کرسکے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کسی اور موقع دیا جائے، شاداب خان کو کنڈیشنز کے مطابق پلیئنگ الیون میں شامل کرنے کے فیصلے بھی درست ثابت ہوئے،نوجوان بابر اعظم کے ساتھ سینئرز شعیب ملک، محمد حفیظ کی کاکردگی ایک آدھ میچ میں ہی نظر آئی،عماد وسیم کا بیٹ بھی خاموش رہا۔
بولرز خاص طور پر حسن علی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کرتے ہوئے مینجمنٹ اور کپتان کے مشکل فیصلے درست ثابت کئے،سب سے اہم بات یہ تھی کہ کرکٹر کی بطور ٹیم اپنی صلاحیتوں پر یقین کی دولت واپس لوٹ آئی،بہرحال پہلے میچ میں بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد پلیئرز کا مورال بلند رکھنے کا کریڈٹ کپتان اور کوچنگ سٹاف کو جاتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے فاتح سکواڈ کے لیے انعامات کا اعلان ہوا تو حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی پہلی فہرست میں کرکٹرز کے لیے ایک ایک کروڑ، ہیڈ کوچ مکی آرتھر، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور، بولنگ کوچ اظہر محمود، فیلڈنگ کوچ سٹیورکسن کے ساتھ ٹیم منیجر طلعت علی، میڈیا منیجر رضا راشد، سوشل میڈیا منیجر عون زیدی، انچارج ٹور آپریشنز شاہد اسلم،کرکٹ انالسٹ محمد طلحہ، سکیورٹی منیجر اظہر عارف، فزیوتھراپسٹ شین ہیز اور مساجرڈونلڈ ڈیو البرٹ کوبھی50،50 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
کسی سیانے نے بتایا کہ مساجر اور ہیڈ کوچ کو ایک ہی کھاتے میں ڈالنا درست نہیں، بعد ازاں ترمیم شدہ نئے نوٹیفکیشن میں کوچز کے علاوہ معاون سٹاف کی رقم 25،25 لاکھ کردی گئی،صرف ایک میچ کھیل کے تنقیدی تیروں کی بوچھاڑ میں وطن واپس لوٹ آنے والے وہاب ریاض کو بھی 16ویں کھلاڑی کے طور شامل کرلیا گیا۔
ذرائع کے مطابق یہ سیانا بورڈ کی ایک ایک اعلیٰ عہدیدار تھا جس نے یہ تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ بچنے والی سے رقم منظور نظر افراد کو نوازنے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے، وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب کے دوران چیف سلیکٹر انضمام الحق کو ایک کروڑ، سلیکشن کمیٹی کے دیگر ارکان وسیم حیدر،توصیف احمد اور وجاہت اﷲ واسطی کو 10،10لاکھ دینے کے ساتھ ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی اور جی ایم انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو بھی اتنی ہی رقم انعام میں دی گئی تو کرکٹ حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا میں اس فیصلے کا خوب مذاق اڑیا گیا، ماہانہ12 لاکھ روپے تنخواہ پانے والے انضمام الحق کو گھر بیٹھے ہی ایک کروڑ روپے انعام دیئے جانے پر انگلیاں اٹھانے والوں میں کئی سابق کرکٹرز بھی شامل ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیڈکوچ مکی آرتھر کو چیف سلیکٹر سے آدھی رقم دینا ناانصافی ہے،جولوگ ٹور میں قومی سکواڈ کے ہمراہ ہی نہیں تھے، ان کا جیت کے سفر میں کوئی کردار ہی نہیں بنتا تو پھر انعامات کیوں دیئے گئے۔
ان فیصلوں پر پی سی بی کے دیگر ملازمین میں بھی تشویش کی لہر پائی جاتی ہے،ان کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی سکواڈ کے ہمراہ کوچز اور آفیشلز کو انعامات دینے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بعد ازاں فہرست میں شامل کرکے نوازے جانے والوں نے ان کی حق تلفی بھی کی ہے،بہتر یہی تھا کہ ٹیم کے جیتنے کی خوشی میں یہ رقم تمام ملازمین میں تنخواہوں کے حساب سے فارمولا وضع کرکے بونس کی شکل میں تقسیم کردی جاتی، چوردروازے کے منظور نظر افراد کو نوازے جانے سے بورڈ کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔
انعامات کی برسات میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے وزیر اعظم اور حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اس دوران کی جانے والی فضول باتوں سے شائقین کرکٹ تو کوئی دلچسپی نہیں تھی،تاہم شہریار خان جاتے جاتے ایک کام کی بات بھی کرگئے،انہوں نے سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کا بھی کپتان بنائے جانے کی خوشخبری سنادی،بلاشبہ وکٹ کیپر بیٹسمین کی فائٹنگ سپرٹ نے محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان ٹیم کو نئی جہت دی ہے،ون ڈے اور ٹوئنٹی20فارمیٹس کے لیے دستیاب کھلاڑیوں میں وہی بہتر انتخاب تھے،اچھی پرفارمنس دینے والے بیشتر کھلاڑی انٹرنیشنل میں نووارد ہیں۔
سینئرز میں سے زیادہ تر ڈھلتے سورج نظر آرہے ہیں، ان میں سے کئی ورلڈکپ 2019ء کے پلان میں فٹ نہیں ہوتے لیکن ٹیسٹ کرکٹ قطعی مختلف فارمیٹ ہے،اس کے لیے سرفراز احمد کو بھی اپنے مزاج میں ٹھہراؤ لانا ہوگا،برسوں تک ایک مستحکم یونٹ کے طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے یونس خان اور مصباح الحق بھی ریٹائر ہوچکے،ون ڈے سکواڈ میں نئے کھلاڑیوں نے اپنی جگہ بنائی،ٹیسٹ کرکٹ میں بھی سینئرز کی متبادل تیار کرنا سلیکٹرز، کوچنگ سٹاف اور کپتان سب کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہوگا۔
فتح ایک ایسی حسینہ ہے کہ اس کو ہر کوئی اپنانے کو تیار ہوجاتا ہے جبکہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ شکست کے بدنماداغ سے دامن چھڑا کر گزر جائے، چیمپئنز ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں قومی کرکٹ ٹیم کی ناکامی پر تنقید کرنے والوں کے نشتر تیز تھے تو دوسری طرف پی سی بی کے عہدیداروں کو بھی سانپ سونگھ گیا۔
رمضان المبارک میں عوام کی دعائیں رنگ لے آئیں، کرکٹرز مشکل ترین صورتحال سے ابھر کر اعتماد کی بحالی کے سفر پر چلے، مینجمنٹ اور کپتان نے جرأت مندانہ فیصلے کئے تو بہادری سے لڑنے والوں کا قسمت نے بھی بھرپور ساتھ دیا،گرین شرٹس نے بارش کی معاونت سے عالمی نمبر ون جنوبی افریقہ کی امیدوں پر پانی پھیرا۔
کپتان سرفراز احمد، محمد عامر اور ڈراپ کیچز سے ملنے والے مواقع کے بدولت سری لنکا کو بھی زیر کیا تو اتنا حوصلہ پیدا ہوگیا کہ سیمی فائنل میں ایونٹ کی ناقابل شکست ٹیم انگلینڈ کو بھی مات دینے کی امیدیں روشن ہوگئیں، بھارت کے خلاف فائنل میں فتح کی بدولت تاریخ رقم ہوئی تو اس کامیابی کا کریڈٹ لینے والوں کی لائن لگ گئی، کوچنگ سٹاف سے زیادہ بورڈ عہدیدارپیش پیش تھے، سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں کا بھی خوب چرچا ہوا۔
حقائق پر نظر ڈالی جائے تو فخرزمان دورۂ ویسٹ انڈیز میں بھی سکواڈ کے ہمراہ تھے لیکن فخرزمان کے ناکام تجربے کو ترجیح دی گئی،اظہر علی نے ون ڈے ٹیم کی قیادت چھوڑی تو ان کو ڈراپ ہی کردیا گیا جبکہ احمد شہزاد کریبیئنز کے خلاف تینوں فارمیٹ میں آزمائے گئے، آصف ذاکر،محمد اصغر بھی سکواڈ کے ہمراہ تھے لیکن سیر کرکے واپس آگئے،ان کھلاڑیوں کو ایک آسان سیریز میں ہی مواقع دیئے جاتے تو پاکستان چیمپئنز ٹرافی میں 3کھلاڑیوں کو ڈیبیو کرانے والے واحد ٹیم نہ بنتا۔
دراصل بھارت کے خلاف ناقص کارکردگی کے دوران ہی وہاب ریاض ان فٹ ہوئے تو انگلش کنڈیشنز کے لیے موزوں جیند خان کی جگہ بن گئی،احمد شہزاد پہلے ہی میچ میں ٹیم سے زیادہ اپنے لئے کھیلتے نظر آئے،ٹیسٹ میچ کھیلنے کے باوجود کریز پر قیام طویل نہ کرسکے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کسی اور موقع دیا جائے، شاداب خان کو کنڈیشنز کے مطابق پلیئنگ الیون میں شامل کرنے کے فیصلے بھی درست ثابت ہوئے،نوجوان بابر اعظم کے ساتھ سینئرز شعیب ملک، محمد حفیظ کی کاکردگی ایک آدھ میچ میں ہی نظر آئی،عماد وسیم کا بیٹ بھی خاموش رہا۔
بولرز خاص طور پر حسن علی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کرتے ہوئے مینجمنٹ اور کپتان کے مشکل فیصلے درست ثابت کئے،سب سے اہم بات یہ تھی کہ کرکٹر کی بطور ٹیم اپنی صلاحیتوں پر یقین کی دولت واپس لوٹ آئی،بہرحال پہلے میچ میں بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد پلیئرز کا مورال بلند رکھنے کا کریڈٹ کپتان اور کوچنگ سٹاف کو جاتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے فاتح سکواڈ کے لیے انعامات کا اعلان ہوا تو حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی پہلی فہرست میں کرکٹرز کے لیے ایک ایک کروڑ، ہیڈ کوچ مکی آرتھر، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور، بولنگ کوچ اظہر محمود، فیلڈنگ کوچ سٹیورکسن کے ساتھ ٹیم منیجر طلعت علی، میڈیا منیجر رضا راشد، سوشل میڈیا منیجر عون زیدی، انچارج ٹور آپریشنز شاہد اسلم،کرکٹ انالسٹ محمد طلحہ، سکیورٹی منیجر اظہر عارف، فزیوتھراپسٹ شین ہیز اور مساجرڈونلڈ ڈیو البرٹ کوبھی50،50 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
کسی سیانے نے بتایا کہ مساجر اور ہیڈ کوچ کو ایک ہی کھاتے میں ڈالنا درست نہیں، بعد ازاں ترمیم شدہ نئے نوٹیفکیشن میں کوچز کے علاوہ معاون سٹاف کی رقم 25،25 لاکھ کردی گئی،صرف ایک میچ کھیل کے تنقیدی تیروں کی بوچھاڑ میں وطن واپس لوٹ آنے والے وہاب ریاض کو بھی 16ویں کھلاڑی کے طور شامل کرلیا گیا۔
ذرائع کے مطابق یہ سیانا بورڈ کی ایک ایک اعلیٰ عہدیدار تھا جس نے یہ تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ بچنے والی سے رقم منظور نظر افراد کو نوازنے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے، وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب کے دوران چیف سلیکٹر انضمام الحق کو ایک کروڑ، سلیکشن کمیٹی کے دیگر ارکان وسیم حیدر،توصیف احمد اور وجاہت اﷲ واسطی کو 10،10لاکھ دینے کے ساتھ ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی اور جی ایم انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو بھی اتنی ہی رقم انعام میں دی گئی تو کرکٹ حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا میں اس فیصلے کا خوب مذاق اڑیا گیا، ماہانہ12 لاکھ روپے تنخواہ پانے والے انضمام الحق کو گھر بیٹھے ہی ایک کروڑ روپے انعام دیئے جانے پر انگلیاں اٹھانے والوں میں کئی سابق کرکٹرز بھی شامل ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیڈکوچ مکی آرتھر کو چیف سلیکٹر سے آدھی رقم دینا ناانصافی ہے،جولوگ ٹور میں قومی سکواڈ کے ہمراہ ہی نہیں تھے، ان کا جیت کے سفر میں کوئی کردار ہی نہیں بنتا تو پھر انعامات کیوں دیئے گئے۔
ان فیصلوں پر پی سی بی کے دیگر ملازمین میں بھی تشویش کی لہر پائی جاتی ہے،ان کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی سکواڈ کے ہمراہ کوچز اور آفیشلز کو انعامات دینے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بعد ازاں فہرست میں شامل کرکے نوازے جانے والوں نے ان کی حق تلفی بھی کی ہے،بہتر یہی تھا کہ ٹیم کے جیتنے کی خوشی میں یہ رقم تمام ملازمین میں تنخواہوں کے حساب سے فارمولا وضع کرکے بونس کی شکل میں تقسیم کردی جاتی، چوردروازے کے منظور نظر افراد کو نوازے جانے سے بورڈ کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔
انعامات کی برسات میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے وزیر اعظم اور حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اس دوران کی جانے والی فضول باتوں سے شائقین کرکٹ تو کوئی دلچسپی نہیں تھی،تاہم شہریار خان جاتے جاتے ایک کام کی بات بھی کرگئے،انہوں نے سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کا بھی کپتان بنائے جانے کی خوشخبری سنادی،بلاشبہ وکٹ کیپر بیٹسمین کی فائٹنگ سپرٹ نے محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان ٹیم کو نئی جہت دی ہے،ون ڈے اور ٹوئنٹی20فارمیٹس کے لیے دستیاب کھلاڑیوں میں وہی بہتر انتخاب تھے،اچھی پرفارمنس دینے والے بیشتر کھلاڑی انٹرنیشنل میں نووارد ہیں۔
سینئرز میں سے زیادہ تر ڈھلتے سورج نظر آرہے ہیں، ان میں سے کئی ورلڈکپ 2019ء کے پلان میں فٹ نہیں ہوتے لیکن ٹیسٹ کرکٹ قطعی مختلف فارمیٹ ہے،اس کے لیے سرفراز احمد کو بھی اپنے مزاج میں ٹھہراؤ لانا ہوگا،برسوں تک ایک مستحکم یونٹ کے طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے یونس خان اور مصباح الحق بھی ریٹائر ہوچکے،ون ڈے سکواڈ میں نئے کھلاڑیوں نے اپنی جگہ بنائی،ٹیسٹ کرکٹ میں بھی سینئرز کی متبادل تیار کرنا سلیکٹرز، کوچنگ سٹاف اور کپتان سب کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہوگا۔