کوئی مرے یا جئے سرکار کو فرق نہیں پڑتا سپریم کورٹ

پنجاب کے ہر گاؤں میں جعلی دواؤں اور گردوں کی فروخت جاری ہے

پنجاب کے ہر گاؤں میں جعلی دواؤں اور گردوں کی فروخت جاری ہے، آخر یہ سلسلہ کب ختم ہوگا کہ سپریم کورٹ سے حکم آئیگا تو کام ہوگا۔ فوٹو ایکسپریس

سپریم کورٹ نے گردوں کی غیر قا نونی پیوند کاری کے خلاف مؤثر اقدامات اور رولز وضع نہ کرنے کا سخت نوٹس لیا ہے اور چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریوں اور کمشنر اسلام آبادکو غیر قانونی پیوند کاری کے مراکز اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے 2 ہفتے کے اندر پیوند کاری کو باضابطہ بنانے کے لیے رولز وضع کرنے کا طریقہ کار بنانے کی ہدایت کی ہے۔

انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کیخلاف دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے آرڈنینس کا مسودہ تیار کیا جا چکاہے جبکہ باقی صوبوں کی طرف سے بھی بتایا گیا کہ رولز ابھی تک نہیں بن سکے ہیں۔ عدالت نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا لگتا ہے انسانی جان کی قدر ختم ہو چکی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہاں انسان تو بے وقت ہے، چاہے وہ مرے یا جیے، سرکار کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس جواد نے کہا توہین عدالت کا سارا قانون دو دن میں بن گیا لیکن جس چیز کا تعلق انسانی جانوں سے ہے، وہ گزشتہ ڈھائی سال سے لٹکا ہوا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرڈنینس اس مسئلے کا حل نہیں یہ ڈنگ ڈپاؤ کام ہے۔ آرڈنینس کی مدت ختم ہو گی تو کیا یہ کاروبار دو بارہ شروع ہو جائے گا۔ منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ پوری دنیا سے لوگ گردے خریدنے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ فلیٹس میں گردوں کی پیوند کاری کے مرا کز کھولے گئے ہیں۔


عدالت میں کورٹ مومن میں گردوں کی فروخت کے حوالے سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سرگودھا کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ گاؤں کے ہر بندے نے ایک گردہ فروخت کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ خیر آباد سے لے کر روجھان مزاری تک پنجاب کے ہرگاؤں اورمحلے میں جعلی دوائیں اور گردوں کی غیر قانونی خرید وفروخت کا کاروبار ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسپتال غریب لوگوں سے گردے خرید کار مہنگے فروخت کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا عام اسٹور وں کو تو چھوڑیں بڑے بڑے میڈیکل اسٹوروں پر جعلی دوائوں کا کاروبار ہو رہا ہے اور محکمہ صحت تماشا دیکھ رہا ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا ڈرگ عدالتیں جعلی دواؤں کے اس گھناؤنے جرم پر مجرم کو عدالت کا وقت ختم ہونے تک کی سزا دیتی ہیں۔ اگر ریاست انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے پر خاموش ہوگی تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا ملک کے کونے کونے میں جعلی دواؤں کے کارخانے کھلے ہیں۔ غیر قانونی زچگی کے مراکز فعال ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آخر یہ سلسلہ کب ختم ہو گا کہ سپریم کورٹ سے حکم آئے گا تو ادارے کام کریں گے؟چیف جسٹس نے کہا کہ صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس چلے جانے سے بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اچھی حکومت یہ ہے کہ ادارے کام کریں۔ اگر بلدیاتی انتخابات کرا دیے جاتے تو کچھ بہتری آچکی ہو تی۔
Load Next Story