محنت کش ہی جلتا اور مرتا ہے
اب خواہ جتنی بھی غلط بلنگ ہو اسے ہر صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے۔
عید سے دو دن قبل پانچ دہشت گردی کے واقعات اور ایک المناک سانحہ رونما ہوا۔ پارہ چنار، کوئٹہ، کراچی اور احمد پورشرقیہ میں تقریباً 250 افراد جاں بحق ہوئے اور 500 کے قریب زخمی ہوئے۔ مسلسل قتل وغارت گری کے واقعات ہوتے آرہے ہیں۔ اس کی شروعات کی قطعی تاریخ بتانا تو ممکن نہیں، ہاں مگر یہ پتہ ہے کہ جب سے ریاست کا وجود ہوا، اسی وقت سے طبقات کا وجود ہوا۔ جب ایک طبقہ دوسرے پر قابض ہوا اور استحصال کرنا شروع کیا توکچھ لوگوں کے پاس دولت کا انبار آگیا اور باقی تمام لوگ بے دست و پا کنگال ہوگئے اور پھر ردعمل شروع ہوا۔
معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جب اپنے خطے میں لوٹ مار کی انتہا ہوگئی تو عالمی سرمایہ داری نے جو بعد میں سامراج کی شکل اختیار کی، غیر علاقے پر ہلہ بولا۔ پرتگال، ہالینڈ، جرمنی اور فرانس وغیرہ نے ایشیا، افریقہ اور امریکا کے وسائل پر قبضہ کیا۔ بعد میں برطانیہ نے قبضہ جمایا۔ بعد ازاں جب برطانیہ کے خلاف دنیا بھر میں ردعمل شروع ہوا تو اسے پسپا ہونا پڑا اور اس کی جگہ امریکی سامراج نے لے لی۔ اس نے بھی ماضی کے سامراجیوں کی طرح دنیا بھر میں قتل وغارت گری کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کیا۔
جب اس عالمی سامراجی استحصال اور قبضے کے خلاف دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور نجی ملکیت کو ختم کرکے سامراجی غلامی سے نجات ملی، اب ان ممالک میں جہاں سوشلزم نافذ ہوا وہاں امریکا کی دال نہیں گلتی تھی، اس لیے دنیا بھر کی مذہبی جماعتوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ کمیونسٹ، آپ کے مذہب کو تباہ کردیں گے اور پھر ان مذہبی جماعتوں کو تشکیل دینے اور ڈالر جہاد کو منظم اور فعال کیا گیا۔
مغرب میں کنزرویٹو اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹیاں اور مشرق میں اخوان المسلمون، راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندوپریشد تشکیل دی گئیں۔ ان کی پشت پناہی اور مسلح تربیت کی گئی۔ پھر جن ملکوں میں بادشاہتوں کا خاتمہ کرکے تیل کی دولت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا، جیسا کہ مصر، لیبیا، شام، عراق، الجزائر اور تیونس وغیرہ میں سامراجیوں نے مذہبی رجعتی جماعتوں کے ذریعے یہاں خلفشار پھیلایا اور فرقوں، نسلوں اور برادریوں میں تقسیم کرکے گتھم گتھا کردیا۔
آج ان ملکوں میں سے تیل کی قومیائی گئی دولت کی نجکاری کردی گئی اور امریکی سامراج وہاں کا تیل کوڑیوں کے دام خرید رہا ہے۔ یہ ہیں سامراجی مفادات۔ اب جب ان مذہبی جماعتوں سے سامراج نے کام لے لیا تو ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر ڈالر کی ریل پیل بند ہوگئی۔ اب وہی مذہبی جماعتیں مختلف ناموں سے مختلف عالمی سامراجی مراکز کی مدد سے خلفشار اور قتل وغارت گری کر رہی ہیں۔ اس ہی شاخسانہ کے نتائج پارا چنار، کوئٹہ اور کراچی میں رونما ہوئے۔
جہاں تک احمد پور شرقیہ کا تعلق ہے تو یہ حکومت کی ذمے داری بنتی ہے، اگر ٹریفک کا نظم و ضبط ہوتا تو ایسے حادثے نہ ہوتے اور حادثے کے بعد جب تیل کو بہتے ہوئے دیکھا تو گاؤں کے غریب مرد، عورت، بچے اور بوڑھے اپنے ہاتھوں میں بالٹی، کولر اور جو کچھ برتن ملا لے کر ٹینکر سے بہنے والے تیل کو بھر رہے تھے، کہ جس میں تیل کے تبادلے سے دال دلیہ نصیب ہوجائے۔ مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا، اچانک آگ بھڑک اٹھی، تقریباً 212 محنت کش آگ میں بھسم ہوگئے۔
پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے بعض موقعے پر خود کو آتش برد کرنا پڑتا ہے۔ مرنے والوں میں کوئی جاگیردار، کوئی وڈیرہ یا کوئی سرمایہ دار نہیں تھا۔ جاگیردار اور خوشحال لوگ یہی کہیں گے کہ کتنے بے حس اور لالچی تھے وہ کسان جو تیل بٹورنے نکل پڑے، جب کہ غریب کسان یہ کہے گا کہ کتنے بے کس، مجبور اور غریب تھے وہ کسان جو روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے تیل جمع کرنے لگ گئے تھے۔ اس سانحہ کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔
اگر سمندروں اور بین البراعظموں سے تیل کی پائپ لائن گزر سکتی ہے تو ملک کے اندر کیوں نہیں؟ اس لیے ٹینکروں کے بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے تیل کی ترسیل کی جائے۔ جو اس ملک کے حاکم اور رکھوالے تو کہلواتے ہیں لیکن حفاظت نہیں کرپاتے۔ سب سے بڑی مصیبت کراچی کے عوام پر بجلی کی مار ہے۔ بل بھی ادا کریں اور بجلی بھی نصیب نہ ہو۔ گزشتہ دنوں کے الیکٹرک کی جانب سے روزنامہ ایکسپریس میں ایک مراسلہ شایع ہوا جس میں انھوں نے اپنی بہترین کارکردگی کا اظہار کیا۔
کے الیکٹرک کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ کچھ بتانے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ آئے روز لوگ سڑکوں پر آکر خود بتاتے رہتے ہیں۔ اس مراسلے میں کہا گیا کہ ہم بھرپور کوشش میں ہیں کہ لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکے۔ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جب کے الیکٹرک، کے ای ایس سی تھی تو بل بھی کم آتا تھا اور نہ اتنی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔
اب خدمت اس طرح سے ہورہی ہے کہ اربوں روپے کا منافع کما کر ملک سے باہر لے جایا جارہا ہے اور عوام سے ایکسیس بلنگ، ایوریج بلنگ اور اوور بلنگ لی جارہی ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی درستگی کے لیے چوبیس گھنٹے عملہ موجود ہوتا ہے، جب کہ سارا سارا دن بجلی غائب ہوتی ہے اور فون کرنے پر کوئی اٹھاتا بھی نہیں۔ کے الیکٹرک نے بجلی کی چوری کا الزام غریب علاقوں کے سر ڈالا ہے جب کہ چور سرمایہ دار ہیں۔ انھوں نے یہ کہا کہ لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق ہورہی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
جب سے کے ای ایس سی کی نجکاری ہوئی ہے پچیس ہزار مزدوروں کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ بڑے بڑے فیکٹری مالکان دو لاکھ کا بل دے کر دس لاکھ کی بچت کرتے ہیں۔ بجلی کے جو نئے میٹر لگائے گئے ہیں وہ اتنا تیز چلتے ہیں کہ بل زیادہ آتا ہے۔ کے ای ایس سی کے وقت اگر ایکسیس بلنگ ہوتی تھی تو درخواست دینے پر غور ہوتا تھا اور پھر دوسرے بل میں کٹوتی کرکے کم کردی جاتی تھی۔
اب خواہ جتنی بھی غلط بلنگ ہو اسے ہر صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ پہلے تین ماہ تک بل ادا نہ کرنے پر لائن کاٹ دی جاتی تھی اور اب مکان فروخت ہونے پر بھی برسوں کے بعد ووکس بلنگ آتی رہتی ہے اور اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کو ازسر نو قومی ملکیت میں لے کر اپنے نظام کے تحت چلائے جس میں عوام کو بجلی سستی ملے اور لوڈشیڈنگ بھی کم ہو۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک کمیونسٹ سماج (امداد باہمی کا سماج) میں ہی ممکن ہے۔
معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جب اپنے خطے میں لوٹ مار کی انتہا ہوگئی تو عالمی سرمایہ داری نے جو بعد میں سامراج کی شکل اختیار کی، غیر علاقے پر ہلہ بولا۔ پرتگال، ہالینڈ، جرمنی اور فرانس وغیرہ نے ایشیا، افریقہ اور امریکا کے وسائل پر قبضہ کیا۔ بعد میں برطانیہ نے قبضہ جمایا۔ بعد ازاں جب برطانیہ کے خلاف دنیا بھر میں ردعمل شروع ہوا تو اسے پسپا ہونا پڑا اور اس کی جگہ امریکی سامراج نے لے لی۔ اس نے بھی ماضی کے سامراجیوں کی طرح دنیا بھر میں قتل وغارت گری کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کیا۔
جب اس عالمی سامراجی استحصال اور قبضے کے خلاف دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور نجی ملکیت کو ختم کرکے سامراجی غلامی سے نجات ملی، اب ان ممالک میں جہاں سوشلزم نافذ ہوا وہاں امریکا کی دال نہیں گلتی تھی، اس لیے دنیا بھر کی مذہبی جماعتوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ کمیونسٹ، آپ کے مذہب کو تباہ کردیں گے اور پھر ان مذہبی جماعتوں کو تشکیل دینے اور ڈالر جہاد کو منظم اور فعال کیا گیا۔
مغرب میں کنزرویٹو اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹیاں اور مشرق میں اخوان المسلمون، راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندوپریشد تشکیل دی گئیں۔ ان کی پشت پناہی اور مسلح تربیت کی گئی۔ پھر جن ملکوں میں بادشاہتوں کا خاتمہ کرکے تیل کی دولت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا، جیسا کہ مصر، لیبیا، شام، عراق، الجزائر اور تیونس وغیرہ میں سامراجیوں نے مذہبی رجعتی جماعتوں کے ذریعے یہاں خلفشار پھیلایا اور فرقوں، نسلوں اور برادریوں میں تقسیم کرکے گتھم گتھا کردیا۔
آج ان ملکوں میں سے تیل کی قومیائی گئی دولت کی نجکاری کردی گئی اور امریکی سامراج وہاں کا تیل کوڑیوں کے دام خرید رہا ہے۔ یہ ہیں سامراجی مفادات۔ اب جب ان مذہبی جماعتوں سے سامراج نے کام لے لیا تو ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر ڈالر کی ریل پیل بند ہوگئی۔ اب وہی مذہبی جماعتیں مختلف ناموں سے مختلف عالمی سامراجی مراکز کی مدد سے خلفشار اور قتل وغارت گری کر رہی ہیں۔ اس ہی شاخسانہ کے نتائج پارا چنار، کوئٹہ اور کراچی میں رونما ہوئے۔
جہاں تک احمد پور شرقیہ کا تعلق ہے تو یہ حکومت کی ذمے داری بنتی ہے، اگر ٹریفک کا نظم و ضبط ہوتا تو ایسے حادثے نہ ہوتے اور حادثے کے بعد جب تیل کو بہتے ہوئے دیکھا تو گاؤں کے غریب مرد، عورت، بچے اور بوڑھے اپنے ہاتھوں میں بالٹی، کولر اور جو کچھ برتن ملا لے کر ٹینکر سے بہنے والے تیل کو بھر رہے تھے، کہ جس میں تیل کے تبادلے سے دال دلیہ نصیب ہوجائے۔ مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا، اچانک آگ بھڑک اٹھی، تقریباً 212 محنت کش آگ میں بھسم ہوگئے۔
پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے بعض موقعے پر خود کو آتش برد کرنا پڑتا ہے۔ مرنے والوں میں کوئی جاگیردار، کوئی وڈیرہ یا کوئی سرمایہ دار نہیں تھا۔ جاگیردار اور خوشحال لوگ یہی کہیں گے کہ کتنے بے حس اور لالچی تھے وہ کسان جو تیل بٹورنے نکل پڑے، جب کہ غریب کسان یہ کہے گا کہ کتنے بے کس، مجبور اور غریب تھے وہ کسان جو روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے تیل جمع کرنے لگ گئے تھے۔ اس سانحہ کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔
اگر سمندروں اور بین البراعظموں سے تیل کی پائپ لائن گزر سکتی ہے تو ملک کے اندر کیوں نہیں؟ اس لیے ٹینکروں کے بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے تیل کی ترسیل کی جائے۔ جو اس ملک کے حاکم اور رکھوالے تو کہلواتے ہیں لیکن حفاظت نہیں کرپاتے۔ سب سے بڑی مصیبت کراچی کے عوام پر بجلی کی مار ہے۔ بل بھی ادا کریں اور بجلی بھی نصیب نہ ہو۔ گزشتہ دنوں کے الیکٹرک کی جانب سے روزنامہ ایکسپریس میں ایک مراسلہ شایع ہوا جس میں انھوں نے اپنی بہترین کارکردگی کا اظہار کیا۔
کے الیکٹرک کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ کچھ بتانے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ آئے روز لوگ سڑکوں پر آکر خود بتاتے رہتے ہیں۔ اس مراسلے میں کہا گیا کہ ہم بھرپور کوشش میں ہیں کہ لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکے۔ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جب کے الیکٹرک، کے ای ایس سی تھی تو بل بھی کم آتا تھا اور نہ اتنی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔
اب خدمت اس طرح سے ہورہی ہے کہ اربوں روپے کا منافع کما کر ملک سے باہر لے جایا جارہا ہے اور عوام سے ایکسیس بلنگ، ایوریج بلنگ اور اوور بلنگ لی جارہی ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی درستگی کے لیے چوبیس گھنٹے عملہ موجود ہوتا ہے، جب کہ سارا سارا دن بجلی غائب ہوتی ہے اور فون کرنے پر کوئی اٹھاتا بھی نہیں۔ کے الیکٹرک نے بجلی کی چوری کا الزام غریب علاقوں کے سر ڈالا ہے جب کہ چور سرمایہ دار ہیں۔ انھوں نے یہ کہا کہ لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق ہورہی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
جب سے کے ای ایس سی کی نجکاری ہوئی ہے پچیس ہزار مزدوروں کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ بڑے بڑے فیکٹری مالکان دو لاکھ کا بل دے کر دس لاکھ کی بچت کرتے ہیں۔ بجلی کے جو نئے میٹر لگائے گئے ہیں وہ اتنا تیز چلتے ہیں کہ بل زیادہ آتا ہے۔ کے ای ایس سی کے وقت اگر ایکسیس بلنگ ہوتی تھی تو درخواست دینے پر غور ہوتا تھا اور پھر دوسرے بل میں کٹوتی کرکے کم کردی جاتی تھی۔
اب خواہ جتنی بھی غلط بلنگ ہو اسے ہر صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ پہلے تین ماہ تک بل ادا نہ کرنے پر لائن کاٹ دی جاتی تھی اور اب مکان فروخت ہونے پر بھی برسوں کے بعد ووکس بلنگ آتی رہتی ہے اور اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کو ازسر نو قومی ملکیت میں لے کر اپنے نظام کے تحت چلائے جس میں عوام کو بجلی سستی ملے اور لوڈشیڈنگ بھی کم ہو۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک کمیونسٹ سماج (امداد باہمی کا سماج) میں ہی ممکن ہے۔