نیا نصاب تعلیم اور اخلاقی اقدار
اس نئے نصاب میں جمہوریت کے تصور اور آئین پر مشتمل مواد بھی شامل ہوگا۔
ہماری حکومتیں تسلسل کے ساتھ عوامی مفادات کے کام کرتی رہتی ہیں، وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ حکومتیں عوام کی منتخب کردہ ہوتی ہیں اور منتخب حکومتیں عوامی مفادات کے کاموں کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کا ریکارڈ سب سے اعلیٰ ہے۔ عوام کو رنگ برنگی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ایسا کارنامہ ہے جو کسی پچھلی حکومت نے انجام نہیں دیا۔
بلاشبہ ہمارے ملک میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ 70 سال سے عوام کے لیے روزانہ کی اذیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کے باوجود کہ گرین، یلو، گرے قسم کی بس سروس دستیاب ہے یا انڈر پروسس ہے، آج بھی 80 فیصد عوام بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں، بسوں کے دروازوں پر لٹک کر سفر کرنا، بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا، جانوروں کی طرح بسوں میں ٹھنس کر سفر کرنا، گھنٹوں بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر بسوں کا انتظار کرنا روزمرہ کا معمول ہے اور یہ عذاب اس لیے ختم نہیں ہوتے کہ حکمران طبقات عوامی مفادات کے کام عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ ان کا بنیادی مقصد ''پبلسٹی'' ہوتا ہے۔
آج عوامی مفادات اور حکومت کی کارکردگی پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہماری حکومت نے عوامی بھلائی کے ایک بڑے کام کا اعلان کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ کام بلاشبہ ایک تاریخی کام نظر آتا ہے لیکن اگر کوئی کام تحقیق منصوبہ بندی کے بغیر نہ کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہی نکلتے ہیں۔
وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے زیر اہتمام جمہوریت کے گورکھ دھندوں کو سمجھنے اور آئینی گتھیوں کو سلجھانے کے حوالے سے تیار کردہ نصابی کتب ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں لاگو کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نصابی کتب کی تیاری میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی معاونت بھی لی جائے گی۔اس تیار کیے جانے والے نئے نصاب کا مقصد اخلاقی اقدار، کردار سازی ہے اور ''جمہوریت کے تصورات اور آئین پر مشتمل نصابی مواد'' تیار کرلیا گیا ہے۔
اخلاقی قدروں، کردار سازی اور جمہوریت، بلاشبہ قابل قدر اقدامات ہیں لیکن یہ سمجھنے کی غالباً زحمت نہیں کی جاتی کہ اخلاقی اقدار اور کردار آسمان سے اترنے یا پیڑوں پر لگنے والی چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں رائج الوقت معاشی نظام میں گڑی ہوتی ہیں اور ہم جس معاشی نظام میں سانس لے رہے ہیں، وہ طبقاتی نظام ہے۔ اس نظام کا ہر کام طبقات کے حوالے سے ہوتا ہے۔
ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلواتا ہے اور غریب طبقات اپنے بچوں کو اس لیے سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم کسی حد تک ان کے بس میں ہوتی ہے، لیکن کوئی اہل عقل اگر یہ سمجھ کر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتا ہے کہ بچے سرکاری اسکولوں میں اخلاقی قدروں سے آراستہ ہوں گے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ سرکاری اسکول عموماً اخلاق سنوارنے کے بجائے اخلاق بگاڑنے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔
اس کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اکثر اساتذہ خود اخلاقی قدروں سے ماورا ہوتے ہیں، دوسرے سرکاری اسکولوں میں بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود، لڑائی جھگڑوں اور گالی گلوچ سیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ جس ملک میں گھوسٹ اساتذہ ہوں اور تعلیمی ادارے وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہوں، ان اسکولوں میں کردار سازی کا کام کیسے ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دیہی علاقوں میں ہزاروں اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتے ہیں یا گھروں سے سوئیٹر کی بنائی کا سامان لا کر اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں۔ جب پڑھانے والوں کی مصروفیات یہ ہوں تو طلبا کی مصروفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سرکاری اسکولوں اور اے لیول کے اعلیٰ اسکولوں کے درمیان پرائیویٹ انگلش اسکولوں کی ایک پھیلی ہوئی کاٹج انڈسٹری ہے جہاں ماں باپ سے بھاری فیس لے کر یہ نفسیاتی تسکین پہنچائی جاتی ہے کہ ان کے بچے انگلش اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ ان انگلش اسکولوں کے اساتذہ کو اگر ماہانہ 8-10 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہو تو ان اساتذہ کی کارکردگی کا اندازہ مشکل نہیں۔
اس کے علاوہ جب طلبا کو نقل کی جدید ترین سہولتیں حاصل ہوں اور اشرافیہ کی اولاد کو پرچے گھر بیٹھ کر حل کرنے کی سہولت حاصل ہو تو ایسے ملک کی اخلاقی قدریں اور کردار سازی کی ''صنعتی ترقی'' کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ غریبوں کے بچوں کے ذہن میں اعلیٰ سے اعلیٰ تصور یہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ''بابو'' بنے گا، تو اس کی نفسیات کیا ہوسکتی ہے؟
اس نئے نصاب میں جمہوریت کے تصور اور آئین پر مشتمل مواد بھی شامل ہوگا۔ ''جمہوریت'' کیا ہوتی ہے، جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اس کا علم پاکستانی عوام سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ پچھلے 70 سال سے ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے، اسے عرف عام ''اشرافیائی جمہوریت'' کہا جاتا ہے، جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے نام ہی سے سرمایہ داری کا اندازہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اشرافیائی جمہوریت سے ہماری 70 سالہ جمہوریت کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جو نصاب زیر تکمیل ہے اس میں کون سی جمہوریت کے بارے میں طلبا کو روشناس کرایا جائے گا۔ عوامی یا اشرافیائی؟
بلاشبہ ہمارے ملک میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ 70 سال سے عوام کے لیے روزانہ کی اذیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کے باوجود کہ گرین، یلو، گرے قسم کی بس سروس دستیاب ہے یا انڈر پروسس ہے، آج بھی 80 فیصد عوام بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں، بسوں کے دروازوں پر لٹک کر سفر کرنا، بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا، جانوروں کی طرح بسوں میں ٹھنس کر سفر کرنا، گھنٹوں بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر بسوں کا انتظار کرنا روزمرہ کا معمول ہے اور یہ عذاب اس لیے ختم نہیں ہوتے کہ حکمران طبقات عوامی مفادات کے کام عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ ان کا بنیادی مقصد ''پبلسٹی'' ہوتا ہے۔
آج عوامی مفادات اور حکومت کی کارکردگی پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہماری حکومت نے عوامی بھلائی کے ایک بڑے کام کا اعلان کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ کام بلاشبہ ایک تاریخی کام نظر آتا ہے لیکن اگر کوئی کام تحقیق منصوبہ بندی کے بغیر نہ کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہی نکلتے ہیں۔
وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے زیر اہتمام جمہوریت کے گورکھ دھندوں کو سمجھنے اور آئینی گتھیوں کو سلجھانے کے حوالے سے تیار کردہ نصابی کتب ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں لاگو کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نصابی کتب کی تیاری میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی معاونت بھی لی جائے گی۔اس تیار کیے جانے والے نئے نصاب کا مقصد اخلاقی اقدار، کردار سازی ہے اور ''جمہوریت کے تصورات اور آئین پر مشتمل نصابی مواد'' تیار کرلیا گیا ہے۔
اخلاقی قدروں، کردار سازی اور جمہوریت، بلاشبہ قابل قدر اقدامات ہیں لیکن یہ سمجھنے کی غالباً زحمت نہیں کی جاتی کہ اخلاقی اقدار اور کردار آسمان سے اترنے یا پیڑوں پر لگنے والی چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں رائج الوقت معاشی نظام میں گڑی ہوتی ہیں اور ہم جس معاشی نظام میں سانس لے رہے ہیں، وہ طبقاتی نظام ہے۔ اس نظام کا ہر کام طبقات کے حوالے سے ہوتا ہے۔
ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلواتا ہے اور غریب طبقات اپنے بچوں کو اس لیے سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم کسی حد تک ان کے بس میں ہوتی ہے، لیکن کوئی اہل عقل اگر یہ سمجھ کر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتا ہے کہ بچے سرکاری اسکولوں میں اخلاقی قدروں سے آراستہ ہوں گے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ سرکاری اسکول عموماً اخلاق سنوارنے کے بجائے اخلاق بگاڑنے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔
اس کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اکثر اساتذہ خود اخلاقی قدروں سے ماورا ہوتے ہیں، دوسرے سرکاری اسکولوں میں بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود، لڑائی جھگڑوں اور گالی گلوچ سیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ جس ملک میں گھوسٹ اساتذہ ہوں اور تعلیمی ادارے وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہوں، ان اسکولوں میں کردار سازی کا کام کیسے ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دیہی علاقوں میں ہزاروں اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتے ہیں یا گھروں سے سوئیٹر کی بنائی کا سامان لا کر اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں۔ جب پڑھانے والوں کی مصروفیات یہ ہوں تو طلبا کی مصروفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سرکاری اسکولوں اور اے لیول کے اعلیٰ اسکولوں کے درمیان پرائیویٹ انگلش اسکولوں کی ایک پھیلی ہوئی کاٹج انڈسٹری ہے جہاں ماں باپ سے بھاری فیس لے کر یہ نفسیاتی تسکین پہنچائی جاتی ہے کہ ان کے بچے انگلش اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ ان انگلش اسکولوں کے اساتذہ کو اگر ماہانہ 8-10 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہو تو ان اساتذہ کی کارکردگی کا اندازہ مشکل نہیں۔
اس کے علاوہ جب طلبا کو نقل کی جدید ترین سہولتیں حاصل ہوں اور اشرافیہ کی اولاد کو پرچے گھر بیٹھ کر حل کرنے کی سہولت حاصل ہو تو ایسے ملک کی اخلاقی قدریں اور کردار سازی کی ''صنعتی ترقی'' کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ غریبوں کے بچوں کے ذہن میں اعلیٰ سے اعلیٰ تصور یہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ''بابو'' بنے گا، تو اس کی نفسیات کیا ہوسکتی ہے؟
اس نئے نصاب میں جمہوریت کے تصور اور آئین پر مشتمل مواد بھی شامل ہوگا۔ ''جمہوریت'' کیا ہوتی ہے، جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اس کا علم پاکستانی عوام سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ پچھلے 70 سال سے ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے، اسے عرف عام ''اشرافیائی جمہوریت'' کہا جاتا ہے، جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے نام ہی سے سرمایہ داری کا اندازہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اشرافیائی جمہوریت سے ہماری 70 سالہ جمہوریت کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جو نصاب زیر تکمیل ہے اس میں کون سی جمہوریت کے بارے میں طلبا کو روشناس کرایا جائے گا۔ عوامی یا اشرافیائی؟