ملک سے سیاست کی بے دخلی
عمارت کے اندر انصاف کی فر اہمی کے لیے معزز جج صاحبان عدالتیں لگائے انصاف کی فراہمی میں مصروف ہیں۔
KARACHI:
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعدان کے خلاف موجودہ پانامہ کیس کے بارے میں میرے خدشات بڑھ گئے ہیں، اس پیشی نے مجھے ان کی ایک پرانی پیشی کی یاد دلا دی ہے جو پاکستانی سپریم کورٹ کے سامنے ہی تھی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور آج تک اس کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے اور اس باز گشت میں موجودہ کیس کے حوالے سے مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ حالات پھر اسی طرف جانے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
موجودہ حالات کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کو ماضی میں رونماء ہونے والے اس اہم ترین واقعہ کے بارے میں یاد دہانی ضروری ہے تا کہ آپ موجودہ حالات کے بارے میں نظر آنے والے خدشات کے متعلق زیادہ پریشان نہ ہوں کہ میں نہ مانوں کا یہ وطیرہ ہمارے سیاستدانوں کا خاصہ رہا ہے اور وہ اس پر سختی سے کاربند رہنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔
اسلام آباد کا موسم نومبر میں خنک ہو نے کے ساتھ ساتھ سردی کی آمد کا پتا بھی دیتا ہے، نومبر کے آخری دنوں کی ایک ایسی ہی خنک صبح کا آغاز ہوا ہی تھا ، منظر ہے سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارت کا، جو اپنے سامنے انصاف کے ترازو کی شبیہ سجائے انصاف کی فراہمی کا علم بلند رکھتی دکھائی دیتی ہے۔
عمارت کے اندر انصاف کی فر اہمی کے لیے معزز جج صاحبان عدالتیں لگائے انصاف کی فراہمی میں مصروف ہیں، وکلاء حضرات اپنے موکلین کے حق میں پُرجوش دلائل کے ساتھ اپنے موکلین کو انصاف کی فراہمی کے کوشاں نظر آتے ہیں اور وہ موسم کی خنکی کو اپنے پُر جوش دلائل سے کمرہ عدالت کو گرمانے کی کوششوں میں ہیں کہ باہر سے ایک شور وغوغا بلند ہوتا ہے، منظر بدلتا دکھائی دیتا ہے چیف جسٹس آف پاکستان جناب سجاد علی شاہ انصاف فراہم کرنے کی کرسی پر براجمان ہیں اور اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے کیس کی کارروائی جاری ہے۔
ہمارے دوست محترم ایس ایم ظفر نواز شریف کے وکیل کے طور پر ترجمانی کرتے ہوئے اپنے دلائل دے رہے ہیں کہ اچانک ایک صاحب عدالت میں داخل ہوتے ہیں اور معزز عدالت کو بتاتے ہیں کہ ایک ہجوم عدالت میں داخل ہوا چاہتا ہے ۔ معزز جج سجاد علی شاہ فوری طور پراپنی کرسی سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایس ایم ظفر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقدمے کی کارروائی موخر کرتے ہوئے اپنی آپ کو اس ہجوم سے بچانے کے لیے چیمبر میں چلے جاتے ہیں۔
ہجوم کی قیادت اس وقت نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری مشتا ق طاہر خیلی کر رہے تھے ان کے ساتھ معروف ٹی وی میزبان طارق عزیز جو اس وقت نواز لیگ کے ممبر قومی اسمبلی تھے ۔ یہ یاد رہے کہ سجاد علی شاہ صاحب نے غلام اسحاق خان کی جانب سے نواز شریف کو پہلی حکومت کو برطرفی کے سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بنچ کی جانب سے بحالی کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔اس کے بعد کیا ہوا ، سجاد علی شاہ کو ان کے منصب سے کیسے اتارا گیا اور سعید الزمان صدیقی صاحب کا اس فیصلے میں کیا کردار رہا، صدیقی صاحب چونکہ اب ہم میں نہیں رہے اس لیے اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نے ان کو یاد رکھا او ر ان کو خرابی صحت کے باوجود موجودہ حکومت میں ان کوسندھ کا گورنر بنا دیا۔
اس حملے کو یاد کرتے ہوئے اُس وقت کے مسلم لیگ نواز کے وزیر خارجہ جناب گوہر ایوب خان اپنی کتاب ''کوریڈوز آف پاور'' جو اس واقعہ کے دس سال بعد دوہزار سات میں شایع ہوئی میں اس کے پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں '' میاں نواز شریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے فوری چھٹکارا چاہتے تھے کیونکہ وہ ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر رہے تھے۔ وہ یعنی کہ وزیر اعظم چیف جسٹس آف پاکستان کو قومی اسمبلی کی استحقاقی کمیٹی کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے کہ انھوں نے وزیر اعظم کو بلا کر پارلیمان کا استحقاق مجروح کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پہلے ان سے اس بارے میں رائے لی گئی کہ کیسے چیف جسٹس کو کمیٹی کے سامنے بلایا جائے ، وہ مزید لکھتے ہیں کہ انھیں پانچ نومبر کو وزیراعظم کی جانب سے کال آئی کہ وہ آئیں اور ان سے قومی اسمبلی کے چیمبر میں ملاقات کریں ۔
وہ جب وہاں پہنچے تو وزیر اعظم کے علاوہ کمیٹی کے ممبران بھی موجود تھے جن کو میں نے آگاہ کیا کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا اگر آپ نے اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا تو چیف جسٹس اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے جس سے آپ کی سبکی ہو گی، اس پر بات ختم ہو گئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس جاتے ہوئے مجھے نواز شریف نے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا اور کہا کہ گوہر صاحب مجھے کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ میں چیف جسٹس کو گرفتار کرا کے ایک رات کے لیے جیل میں رکھ سکوں، میں وزیر اعظم کی یہ بات سن کر سکتے میں آگیا اور جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے ان کو اس سے باز رہے کا مشورہ دیا لیکن گہری سوچ رکھنے والے نواز شریف اس سلسلے میں مسلسل سوچتے ہی رہے یہاں تک کہ اٹھائیس نومبر انیس و ستانوے کا دن آگیا اور سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا گیا''۔
اس حملے کی یاد دلانا موجودہ حالات میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کل کے حالات میں جس طرح جے آئی ٹی کو دھمکایا جا رہا ہے، دراصل یہ دھمکیاں سپریم کورٹ کو دی جا رہی ہیں کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کوئی ایسا فیصلہ کرنے سے بازرہے جس سے نواز شریف کی ذات یا ان کے خاندان کو کسی قسم کا نقصان پہنچے۔
ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں وقت ہے لیکن نواز لیگ کے وزراء نے ابھی سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو قطری شہزادے کے بیان سے مشروط کر کے نامنظور ی کا اعلان پہلے سے ہی کر دیا جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو نواز لیگ کو لمحہ بہ لمحہ یہ بتا رہی ہے کہ حالات ان کے لیے اچھے نہیں جا رہے۔ انھی مخدوش حالات کو مد منظر رکھتے ہوئے نواز لیگ جارحانہ انداز میں سپریم کورٹ پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے اور اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ۔
ایک منتخب سیاسی حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کاروبار چلتا رہے اور اگر کسی قسم کے سیاسی تناؤ کی صورت پیدا ہو گئی ہے تو اس کو مزید انتشار میں بدلنے کے بجائے اس کے سیاسی حل کے لیے اقدامات کی بھاری ذمے داری حکومت کی ہی ہوتی ہے لیکن موجودہ حالات میں حکومت اس وقت اس موڈ میں بالکل بھی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے پارٹی کارکنوں کو آنے والے حالات کے مطابق سڑکوں پر نکالنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے چونکہ جے آئی ٹی کو تو وہ پہلے ہی مسترد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے بارے میں خدشات ظاہر کر کے اپنے آپ کو سیاست سے بے دخل سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی اس مبینہ بے دخلی کو وہ ملک سے سیاست کی بے دخلی سمجھ رہے ہیں جو کوئی اور نہیں کر رہا بلکہ حکمران خود کر رہے ہیں اوران کی طرف سے از خود نتائج اخذ کیے جارہے ہیں جو کہ ملکی سیاست کے علاوہ خود ان کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعدان کے خلاف موجودہ پانامہ کیس کے بارے میں میرے خدشات بڑھ گئے ہیں، اس پیشی نے مجھے ان کی ایک پرانی پیشی کی یاد دلا دی ہے جو پاکستانی سپریم کورٹ کے سامنے ہی تھی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور آج تک اس کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے اور اس باز گشت میں موجودہ کیس کے حوالے سے مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ حالات پھر اسی طرف جانے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
موجودہ حالات کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کو ماضی میں رونماء ہونے والے اس اہم ترین واقعہ کے بارے میں یاد دہانی ضروری ہے تا کہ آپ موجودہ حالات کے بارے میں نظر آنے والے خدشات کے متعلق زیادہ پریشان نہ ہوں کہ میں نہ مانوں کا یہ وطیرہ ہمارے سیاستدانوں کا خاصہ رہا ہے اور وہ اس پر سختی سے کاربند رہنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔
اسلام آباد کا موسم نومبر میں خنک ہو نے کے ساتھ ساتھ سردی کی آمد کا پتا بھی دیتا ہے، نومبر کے آخری دنوں کی ایک ایسی ہی خنک صبح کا آغاز ہوا ہی تھا ، منظر ہے سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارت کا، جو اپنے سامنے انصاف کے ترازو کی شبیہ سجائے انصاف کی فراہمی کا علم بلند رکھتی دکھائی دیتی ہے۔
عمارت کے اندر انصاف کی فر اہمی کے لیے معزز جج صاحبان عدالتیں لگائے انصاف کی فراہمی میں مصروف ہیں، وکلاء حضرات اپنے موکلین کے حق میں پُرجوش دلائل کے ساتھ اپنے موکلین کو انصاف کی فراہمی کے کوشاں نظر آتے ہیں اور وہ موسم کی خنکی کو اپنے پُر جوش دلائل سے کمرہ عدالت کو گرمانے کی کوششوں میں ہیں کہ باہر سے ایک شور وغوغا بلند ہوتا ہے، منظر بدلتا دکھائی دیتا ہے چیف جسٹس آف پاکستان جناب سجاد علی شاہ انصاف فراہم کرنے کی کرسی پر براجمان ہیں اور اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے کیس کی کارروائی جاری ہے۔
ہمارے دوست محترم ایس ایم ظفر نواز شریف کے وکیل کے طور پر ترجمانی کرتے ہوئے اپنے دلائل دے رہے ہیں کہ اچانک ایک صاحب عدالت میں داخل ہوتے ہیں اور معزز عدالت کو بتاتے ہیں کہ ایک ہجوم عدالت میں داخل ہوا چاہتا ہے ۔ معزز جج سجاد علی شاہ فوری طور پراپنی کرسی سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایس ایم ظفر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقدمے کی کارروائی موخر کرتے ہوئے اپنی آپ کو اس ہجوم سے بچانے کے لیے چیمبر میں چلے جاتے ہیں۔
ہجوم کی قیادت اس وقت نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری مشتا ق طاہر خیلی کر رہے تھے ان کے ساتھ معروف ٹی وی میزبان طارق عزیز جو اس وقت نواز لیگ کے ممبر قومی اسمبلی تھے ۔ یہ یاد رہے کہ سجاد علی شاہ صاحب نے غلام اسحاق خان کی جانب سے نواز شریف کو پہلی حکومت کو برطرفی کے سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بنچ کی جانب سے بحالی کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔اس کے بعد کیا ہوا ، سجاد علی شاہ کو ان کے منصب سے کیسے اتارا گیا اور سعید الزمان صدیقی صاحب کا اس فیصلے میں کیا کردار رہا، صدیقی صاحب چونکہ اب ہم میں نہیں رہے اس لیے اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نے ان کو یاد رکھا او ر ان کو خرابی صحت کے باوجود موجودہ حکومت میں ان کوسندھ کا گورنر بنا دیا۔
اس حملے کو یاد کرتے ہوئے اُس وقت کے مسلم لیگ نواز کے وزیر خارجہ جناب گوہر ایوب خان اپنی کتاب ''کوریڈوز آف پاور'' جو اس واقعہ کے دس سال بعد دوہزار سات میں شایع ہوئی میں اس کے پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں '' میاں نواز شریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے فوری چھٹکارا چاہتے تھے کیونکہ وہ ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر رہے تھے۔ وہ یعنی کہ وزیر اعظم چیف جسٹس آف پاکستان کو قومی اسمبلی کی استحقاقی کمیٹی کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے کہ انھوں نے وزیر اعظم کو بلا کر پارلیمان کا استحقاق مجروح کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پہلے ان سے اس بارے میں رائے لی گئی کہ کیسے چیف جسٹس کو کمیٹی کے سامنے بلایا جائے ، وہ مزید لکھتے ہیں کہ انھیں پانچ نومبر کو وزیراعظم کی جانب سے کال آئی کہ وہ آئیں اور ان سے قومی اسمبلی کے چیمبر میں ملاقات کریں ۔
وہ جب وہاں پہنچے تو وزیر اعظم کے علاوہ کمیٹی کے ممبران بھی موجود تھے جن کو میں نے آگاہ کیا کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا اگر آپ نے اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا تو چیف جسٹس اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے جس سے آپ کی سبکی ہو گی، اس پر بات ختم ہو گئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس جاتے ہوئے مجھے نواز شریف نے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا اور کہا کہ گوہر صاحب مجھے کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ میں چیف جسٹس کو گرفتار کرا کے ایک رات کے لیے جیل میں رکھ سکوں، میں وزیر اعظم کی یہ بات سن کر سکتے میں آگیا اور جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے ان کو اس سے باز رہے کا مشورہ دیا لیکن گہری سوچ رکھنے والے نواز شریف اس سلسلے میں مسلسل سوچتے ہی رہے یہاں تک کہ اٹھائیس نومبر انیس و ستانوے کا دن آگیا اور سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا گیا''۔
اس حملے کی یاد دلانا موجودہ حالات میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کل کے حالات میں جس طرح جے آئی ٹی کو دھمکایا جا رہا ہے، دراصل یہ دھمکیاں سپریم کورٹ کو دی جا رہی ہیں کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کوئی ایسا فیصلہ کرنے سے بازرہے جس سے نواز شریف کی ذات یا ان کے خاندان کو کسی قسم کا نقصان پہنچے۔
ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں وقت ہے لیکن نواز لیگ کے وزراء نے ابھی سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو قطری شہزادے کے بیان سے مشروط کر کے نامنظور ی کا اعلان پہلے سے ہی کر دیا جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو نواز لیگ کو لمحہ بہ لمحہ یہ بتا رہی ہے کہ حالات ان کے لیے اچھے نہیں جا رہے۔ انھی مخدوش حالات کو مد منظر رکھتے ہوئے نواز لیگ جارحانہ انداز میں سپریم کورٹ پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے اور اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ۔
ایک منتخب سیاسی حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کاروبار چلتا رہے اور اگر کسی قسم کے سیاسی تناؤ کی صورت پیدا ہو گئی ہے تو اس کو مزید انتشار میں بدلنے کے بجائے اس کے سیاسی حل کے لیے اقدامات کی بھاری ذمے داری حکومت کی ہی ہوتی ہے لیکن موجودہ حالات میں حکومت اس وقت اس موڈ میں بالکل بھی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے پارٹی کارکنوں کو آنے والے حالات کے مطابق سڑکوں پر نکالنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے چونکہ جے آئی ٹی کو تو وہ پہلے ہی مسترد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے بارے میں خدشات ظاہر کر کے اپنے آپ کو سیاست سے بے دخل سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی اس مبینہ بے دخلی کو وہ ملک سے سیاست کی بے دخلی سمجھ رہے ہیں جو کوئی اور نہیں کر رہا بلکہ حکمران خود کر رہے ہیں اوران کی طرف سے از خود نتائج اخذ کیے جارہے ہیں جو کہ ملکی سیاست کے علاوہ خود ان کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہیں۔