تنقید اور متن کی سائنس
بورژوا فلسفوں کی اکثریت میں کائنات کی ’تخلیق‘ میں کسی بھی خارجی ہاتھ کا انکار بھی دکھائی دیتا ہے
ویسے تو 'پہلے' اور 'بعد' کی تفریق اب اتنی حتمی نہیں رہی جتنی کہ 'دوئی' کے فلسفے میں تسلیم کی جاتی تھی، تاہم اس کے باوجود اس مختصر تحریر میں یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا کسی بھی چیزکا پہلے 'ہونا' ہی اس کی قدرومنزلت کومتعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے اور اسے کسی ایسی دوسری چیز پر فوقیت دلاسکتا ہے جس کے بارے میں فرض کرلیا جائے کہ فلاں چیزکمتر اس لیے ہے کہ وہ پہلے والی چیز سے' بعد' میں ہے؟ علمی، فکری اور فنی معاملات میں 'پہلے' اور 'بعد' کے تصور میں جو فلسفیانہ مفاہیم ہیں، ان کی نوعیت کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلسفیانہ مباحث میں علتِ اولیٰ کا تصور بنیادی طور پرالٰہیاتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ دیگر علوم میں بھی سرایت کرچکا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ''مظہر'' ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ حقیقی نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی اس کا ''جوہر'' ہوتا ہے اور جوہر کبھی بھی مظہر سے باہر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر ہوتا ہے۔ ان معنوں میں جو 'پہلا' ہے، جب اس کے جوہر کی دریافت کریں گے، تو پہلا دوسرا دکھائی دے گا۔ یہ سلسلہ غیر مختتم ہے۔ لہذا 'پہلے' اور 'دوسرے' کی روایتی تفریق یہاں 'ختم' ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کائنات، فطرت پہلے سے ہے اور سائنسدانوں، فلسفیوں نے اسے بعد میں سمجھنا شروع کیا تو کیا محض ا س ایک نکتے سے سائنسدانوں اور فلسفیوں کی قدرومنزلت کم ہوجاتی ہے؟ اس کا جواب بلاشبہ نفی میں ہوگا۔ اگر اس بات پر اصرارکیا جائے کہ ارسطو بہت پہلے تھا اور ہیگل بعد میں تو کیا اس سے ہیگل کی اہمیت کم ہوجائے گی؟
اس بات کو تسلیم کرنے کی بھی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے۔ ویسے بھی فکروفن کی تاریخ کو 'پہلے' اور 'بعد' کے پیمانے پر پرکھا نہیں جاسکتا۔ فکروفن کی تاریخ میں کچھ بھی اس طریقے سے' طے' نہیں پاتا کہ وہ حتمی طور پر 'ختم' ہوچکا ہے، بلکہ 'پہلے' والے کی نفی 'بعد' والے میں کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ 'پہلے' والا 'بعد' والے میں بالکل اسی طرح دکھائی دیتا ہے جس طرح بعد والا پہلے والے میں موجود ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر افلاطون نے جو پانچ فلسفیانہ مقولات دریافت کیے جن میں سکوت کو چھوڑ کر باقی چاروں جن وجود، حرکت، شناخت اور فرق شامل ہیں، یہ ہمیں اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفہ میں دکھائی دیتے ہیں، جو ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں کہ افلاطون ' بحیثیت' انسانی وجود کے تو 'ختم' ہوگیا مگر اس کی فکر ہمارے عہد تک زندہ ہے اور آگے چل کر یہ کیا شکل اختیارکر لے اس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔
بالکل اسی طرح جب اٹھارویں صدی کے فلسفے میں اڑھائی ہزار برس قبل کے فلسفے کو قبول کرلیا جاتا ہے تو اڑھائی ہزار برس قبل کے فلسفے میں ہمیں اٹھارویں صدی کا فلسفہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ یعنی ہم 'پہلے' میں 'بعد' اور 'بعد' میں 'پہلے' کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ علمی، فکری اور فنی تاریخ میں 'پہلے' اور 'بعد' کے تصورکی تفہیم اسی نہج پر ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ جو لوگ 'دوئی' کے فلسفے کے قائل ہیں وہ اشیا، خیالات وغیرہ میں حتمی تفریق قائم کرلیتے ہیں، جس سے درست تفہیم کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
نکتہ جس پر میں ساری بحث کو سمیٹنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آرٹسٹ یہ دعویٰ کرے کہ آرٹ ''پہلے'' ہے اور اس آرٹ کی تنقید 'بعد' میں توکیا اس سے تنقید کی اہمیت کم ہوجائے گی؟ اگر تو اوپر پیش کیے گئے سارے ہی نتائج درست ہیں تو ایسا کوئی بھی دعویٰ بلاشبہ مبالغہ اور غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹ اپنے فہم کے لیے خود تنقید کا محتاج ہوتا ہے۔ کوئی بھی آرٹسٹ جب اپنے ہی آرٹ کا تجزیہ کرتا ہے تو اسے اپنے آرٹسٹ ہونے کو خیرباد کہہ کر تنقید کے پیرائے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ وہ سارے آرٹسٹ جو تنقید بھی کرتے رہے ہیں، وہ محض اپنے آرٹسٹ ہونے کا نہیں بلکہ نقاد ہونے اور تنقید کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ثبوت بھی دیتے رہے ہیں۔
ان کی تنقید یہ واضح کرتی ہے کہ وہ محض اپنے آرٹسٹ ہونے سے مطمئن نہیں تھے۔تنقیدی آرٹ میں ''تخلیقی آرٹ'' میں ڈھلنے کے سارے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ تنقیدی آرٹ اور تخلیقی آرٹ اپنے مافیہا میں متماثل جب کہ اپنی بنتر میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تنقید کسی بھی آرٹ میں بیج کی نہیں بلکہ اس پودے کی مانند ہوتی ہے جو خودکو ظاہرکرنے کے لیے وقت ، حالات اور ماحول کا منتظر ہوتا ہے۔ بیج کا پودے میں ڈھلنے کا عمل تخلیقی آرٹ کا تنقیدی آرٹ میں منتقل ہونے کا عمل ہے۔
علمی، فکری اور فنی معاملات میں'پہلے' یا 'بعد' میں ہونا سچ اور جھوٹ کی شناخت کا کوئی معیار نہیں ہے۔ اعلیٰ آرٹ وہ ہوتا ہے جس میں سچائی منکشف ہوتی ہے۔ ادنیٰ یا تیسرے درجے کا آرٹ وہ ہوتا ہے جس میں جھوٹ شامل ہو۔ اس جھوٹ کی نوعیت بیک وقت جمالیاتی اور نظریاتی ہوسکتی ہے۔
تنقید کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس جمالیاتی اور نظریاتی جھوٹ کو آرٹسٹ کی منشا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منکشف کرے۔ان معنوں میں نقاد جب آرٹسٹ کی بجائے فنی متن پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو آرٹسٹ کی منشا خود بخود ہی ثانوی درجے پر چلی جاتی ہے اور متن اپنی خود انکشافی حرکت میں فعال دکھائی دینے لگتا ہے۔
اس نکتے کو یہ سوال اٹھا کر بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فطرت کے رازوں کو آشکارکرنے کے دوران کیا سائنسدان فطرت کے اندر سائنس یا فطرت کے رازوں کوکہیں 'خارج' سے داخل کرتا ہے یا کوئی ایسا خارجی ہاتھ ہے جو فطرت کی تفہیم میں فطرت سے بھی زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہوگا کہ فطرت اپنی خود انکشافی حرکت کے دوران خود کو جس طریقے سے عیاں کرتی ہے اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نقاد تنقید کو آرٹ کے اندرکہیں 'خارج' سے داخل نہیں کرتا، بلکہ تنقید کا بیج آرٹ کی پیداوارکے وقت ہی آرٹ کے اندر بویا جاچکا ہوتا ہے ۔اس حوالے سے بھی 'پہلے' اور 'بعد' کی تفریق باطل دکھائی دینے لگتی ہے۔ یعنی تنقید آرٹ کے اندر موجود ہوتی ہے اور نقاد اس آرٹ کی سائنس یعنی تنقید کو بالکل ویسے ہی منکشف کرتا ہے جیسا کہ سائنسدان فطرت کے انکشاف میں معاون ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تنقید کا اولین کام آرٹ کی سائنسی تفہیم کرانا ہے۔
جیسا ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کا مادہ ازل سے موجود تھا جو مختلف اشکال اختیار کرتا رہتا ہے۔ بالکل ایسے ہی یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک آرٹسٹ کسی آرٹ کے وجود میں آنے میں تو معاون ہو سکتا ہے، مگر وہ کسی بھی صورت میں 'متن' کا 'خالق' نہیں ہو سکتا۔آرٹ کا مواد بالکل ویسے ہی پہلے سے موجود ہوتا ہے جیسے کائنات کا مادہ ازل سے موجود ہوتا ہے۔
ایک مذہبی ذہن خدا کو کائنات کا خالق سمجھتا ہے اور کائنات میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کو کائنات سے 'باہر' اسی' خالق' کی فعلیت کا مرہونِ منت گردانتا ہے۔لیکن غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اب تک کی انسانی'ترقی' اور کائنات کا فہم حاصل کرنے کی ساری 'کامیابی' کائنات کو ''خود کفیل'' سمجھنے سے ممکن ہو پائی ہے۔انسان نے اب تک اپنے لیے جتنی بھی سہولیات پیدا کی ہیں وہ کائنات، فطرت کی خود کفالت کے ذریعے سے ہی ممکن تھیں۔
بورژوا فلسفوں کی اکثریت میں کائنات کی 'تخلیق' میں کسی بھی خارجی ہاتھ کا انکار بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن دوسری طرف یہی وہ فکر ہے جو آرٹ کی تخلیق میں انسان کو 'مرکز' تسلیم کرتی ہوئی فنی متن میں بدستور انسانی ہاتھ کی مسلسل کارفرمائی اور متن میں معنی کی تخلیق تک متن کی اپنی فعلیت کا انکار کرتی ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔آرٹ پر کسی بھی آرٹسٹ کو مسلط کرنا اور اس کے حوالے سے آرٹ کی تفہیم کا عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کائنات سے باہر کائنات کے رازکو افشا کرنے کی کوشش کی جائے۔
مادی اور مابعد جدید ذہن جدیدیت کی نفی کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کائنات، فطرت اپنی خود انکشافی حرکت میں اپنے معنی کی تشکیل کے عمل کے دوران میں خود کفیل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ فنی 'متن'' خود کفیل نہ ہو ! نقاد کسی آرٹسٹ کی منشا کی دریافت کی بجائے ''متن'' کو اس کی داخلی حرکت کے تحت آشکار کرتا ہے اور یہی اعلیٰ تنقید کے سائنسی ہونے کا پیمانہ ہے۔
فلسفیانہ مباحث میں علتِ اولیٰ کا تصور بنیادی طور پرالٰہیاتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ دیگر علوم میں بھی سرایت کرچکا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ''مظہر'' ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ حقیقی نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی اس کا ''جوہر'' ہوتا ہے اور جوہر کبھی بھی مظہر سے باہر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر ہوتا ہے۔ ان معنوں میں جو 'پہلا' ہے، جب اس کے جوہر کی دریافت کریں گے، تو پہلا دوسرا دکھائی دے گا۔ یہ سلسلہ غیر مختتم ہے۔ لہذا 'پہلے' اور 'دوسرے' کی روایتی تفریق یہاں 'ختم' ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کائنات، فطرت پہلے سے ہے اور سائنسدانوں، فلسفیوں نے اسے بعد میں سمجھنا شروع کیا تو کیا محض ا س ایک نکتے سے سائنسدانوں اور فلسفیوں کی قدرومنزلت کم ہوجاتی ہے؟ اس کا جواب بلاشبہ نفی میں ہوگا۔ اگر اس بات پر اصرارکیا جائے کہ ارسطو بہت پہلے تھا اور ہیگل بعد میں تو کیا اس سے ہیگل کی اہمیت کم ہوجائے گی؟
اس بات کو تسلیم کرنے کی بھی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے۔ ویسے بھی فکروفن کی تاریخ کو 'پہلے' اور 'بعد' کے پیمانے پر پرکھا نہیں جاسکتا۔ فکروفن کی تاریخ میں کچھ بھی اس طریقے سے' طے' نہیں پاتا کہ وہ حتمی طور پر 'ختم' ہوچکا ہے، بلکہ 'پہلے' والے کی نفی 'بعد' والے میں کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ 'پہلے' والا 'بعد' والے میں بالکل اسی طرح دکھائی دیتا ہے جس طرح بعد والا پہلے والے میں موجود ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر افلاطون نے جو پانچ فلسفیانہ مقولات دریافت کیے جن میں سکوت کو چھوڑ کر باقی چاروں جن وجود، حرکت، شناخت اور فرق شامل ہیں، یہ ہمیں اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفہ میں دکھائی دیتے ہیں، جو ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں کہ افلاطون ' بحیثیت' انسانی وجود کے تو 'ختم' ہوگیا مگر اس کی فکر ہمارے عہد تک زندہ ہے اور آگے چل کر یہ کیا شکل اختیارکر لے اس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔
بالکل اسی طرح جب اٹھارویں صدی کے فلسفے میں اڑھائی ہزار برس قبل کے فلسفے کو قبول کرلیا جاتا ہے تو اڑھائی ہزار برس قبل کے فلسفے میں ہمیں اٹھارویں صدی کا فلسفہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ یعنی ہم 'پہلے' میں 'بعد' اور 'بعد' میں 'پہلے' کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ علمی، فکری اور فنی تاریخ میں 'پہلے' اور 'بعد' کے تصورکی تفہیم اسی نہج پر ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ جو لوگ 'دوئی' کے فلسفے کے قائل ہیں وہ اشیا، خیالات وغیرہ میں حتمی تفریق قائم کرلیتے ہیں، جس سے درست تفہیم کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
نکتہ جس پر میں ساری بحث کو سمیٹنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آرٹسٹ یہ دعویٰ کرے کہ آرٹ ''پہلے'' ہے اور اس آرٹ کی تنقید 'بعد' میں توکیا اس سے تنقید کی اہمیت کم ہوجائے گی؟ اگر تو اوپر پیش کیے گئے سارے ہی نتائج درست ہیں تو ایسا کوئی بھی دعویٰ بلاشبہ مبالغہ اور غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹ اپنے فہم کے لیے خود تنقید کا محتاج ہوتا ہے۔ کوئی بھی آرٹسٹ جب اپنے ہی آرٹ کا تجزیہ کرتا ہے تو اسے اپنے آرٹسٹ ہونے کو خیرباد کہہ کر تنقید کے پیرائے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ وہ سارے آرٹسٹ جو تنقید بھی کرتے رہے ہیں، وہ محض اپنے آرٹسٹ ہونے کا نہیں بلکہ نقاد ہونے اور تنقید کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ثبوت بھی دیتے رہے ہیں۔
ان کی تنقید یہ واضح کرتی ہے کہ وہ محض اپنے آرٹسٹ ہونے سے مطمئن نہیں تھے۔تنقیدی آرٹ میں ''تخلیقی آرٹ'' میں ڈھلنے کے سارے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ تنقیدی آرٹ اور تخلیقی آرٹ اپنے مافیہا میں متماثل جب کہ اپنی بنتر میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تنقید کسی بھی آرٹ میں بیج کی نہیں بلکہ اس پودے کی مانند ہوتی ہے جو خودکو ظاہرکرنے کے لیے وقت ، حالات اور ماحول کا منتظر ہوتا ہے۔ بیج کا پودے میں ڈھلنے کا عمل تخلیقی آرٹ کا تنقیدی آرٹ میں منتقل ہونے کا عمل ہے۔
علمی، فکری اور فنی معاملات میں'پہلے' یا 'بعد' میں ہونا سچ اور جھوٹ کی شناخت کا کوئی معیار نہیں ہے۔ اعلیٰ آرٹ وہ ہوتا ہے جس میں سچائی منکشف ہوتی ہے۔ ادنیٰ یا تیسرے درجے کا آرٹ وہ ہوتا ہے جس میں جھوٹ شامل ہو۔ اس جھوٹ کی نوعیت بیک وقت جمالیاتی اور نظریاتی ہوسکتی ہے۔
تنقید کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس جمالیاتی اور نظریاتی جھوٹ کو آرٹسٹ کی منشا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منکشف کرے۔ان معنوں میں نقاد جب آرٹسٹ کی بجائے فنی متن پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو آرٹسٹ کی منشا خود بخود ہی ثانوی درجے پر چلی جاتی ہے اور متن اپنی خود انکشافی حرکت میں فعال دکھائی دینے لگتا ہے۔
اس نکتے کو یہ سوال اٹھا کر بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فطرت کے رازوں کو آشکارکرنے کے دوران کیا سائنسدان فطرت کے اندر سائنس یا فطرت کے رازوں کوکہیں 'خارج' سے داخل کرتا ہے یا کوئی ایسا خارجی ہاتھ ہے جو فطرت کی تفہیم میں فطرت سے بھی زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہوگا کہ فطرت اپنی خود انکشافی حرکت کے دوران خود کو جس طریقے سے عیاں کرتی ہے اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نقاد تنقید کو آرٹ کے اندرکہیں 'خارج' سے داخل نہیں کرتا، بلکہ تنقید کا بیج آرٹ کی پیداوارکے وقت ہی آرٹ کے اندر بویا جاچکا ہوتا ہے ۔اس حوالے سے بھی 'پہلے' اور 'بعد' کی تفریق باطل دکھائی دینے لگتی ہے۔ یعنی تنقید آرٹ کے اندر موجود ہوتی ہے اور نقاد اس آرٹ کی سائنس یعنی تنقید کو بالکل ویسے ہی منکشف کرتا ہے جیسا کہ سائنسدان فطرت کے انکشاف میں معاون ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تنقید کا اولین کام آرٹ کی سائنسی تفہیم کرانا ہے۔
جیسا ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کا مادہ ازل سے موجود تھا جو مختلف اشکال اختیار کرتا رہتا ہے۔ بالکل ایسے ہی یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک آرٹسٹ کسی آرٹ کے وجود میں آنے میں تو معاون ہو سکتا ہے، مگر وہ کسی بھی صورت میں 'متن' کا 'خالق' نہیں ہو سکتا۔آرٹ کا مواد بالکل ویسے ہی پہلے سے موجود ہوتا ہے جیسے کائنات کا مادہ ازل سے موجود ہوتا ہے۔
ایک مذہبی ذہن خدا کو کائنات کا خالق سمجھتا ہے اور کائنات میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کو کائنات سے 'باہر' اسی' خالق' کی فعلیت کا مرہونِ منت گردانتا ہے۔لیکن غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اب تک کی انسانی'ترقی' اور کائنات کا فہم حاصل کرنے کی ساری 'کامیابی' کائنات کو ''خود کفیل'' سمجھنے سے ممکن ہو پائی ہے۔انسان نے اب تک اپنے لیے جتنی بھی سہولیات پیدا کی ہیں وہ کائنات، فطرت کی خود کفالت کے ذریعے سے ہی ممکن تھیں۔
بورژوا فلسفوں کی اکثریت میں کائنات کی 'تخلیق' میں کسی بھی خارجی ہاتھ کا انکار بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن دوسری طرف یہی وہ فکر ہے جو آرٹ کی تخلیق میں انسان کو 'مرکز' تسلیم کرتی ہوئی فنی متن میں بدستور انسانی ہاتھ کی مسلسل کارفرمائی اور متن میں معنی کی تخلیق تک متن کی اپنی فعلیت کا انکار کرتی ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔آرٹ پر کسی بھی آرٹسٹ کو مسلط کرنا اور اس کے حوالے سے آرٹ کی تفہیم کا عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کائنات سے باہر کائنات کے رازکو افشا کرنے کی کوشش کی جائے۔
مادی اور مابعد جدید ذہن جدیدیت کی نفی کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کائنات، فطرت اپنی خود انکشافی حرکت میں اپنے معنی کی تشکیل کے عمل کے دوران میں خود کفیل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ فنی 'متن'' خود کفیل نہ ہو ! نقاد کسی آرٹسٹ کی منشا کی دریافت کی بجائے ''متن'' کو اس کی داخلی حرکت کے تحت آشکار کرتا ہے اور یہی اعلیٰ تنقید کے سائنسی ہونے کا پیمانہ ہے۔