کیا یہ سب نوٹ کھاتے ہیں
ذہن میں رہے اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مسلسل کڑا احتساب، کڑی نگرانی، کڑی پہر ہ داری لازمی ہے
LAHORE:
پوری انسانی تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ انسانوں نے کبھی کرداروں سے نفرت نہیں کی بلکہ کرداروں کے کردار سے نفرت کی ہے۔ ہٹلر ، مسولینی ، شاہ ایران ، فرعون اور دیگر سے نفرت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے کرداروں کی وجہ سے ہے۔
آئیں! یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کرداروں کے کردار بدکردار کیوں بنتے ہیں، مکیاولی کہتا ہے کہ '' انسان فطری طور پر حریص اور لالچی ہے اور یہ زندگی بھرکا ساتھ ہے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن قسمت ساتھ نہیں دیتی اور اس دوران وہ چند خواہشیں ہی پوری کر پاتا ہے خواہشات کا یہ طوفان اسے غیر مطمئن رکھتا ہے ۔ پھر انسان حال سے خفا ماضی کا معترف اور مستقبل سے امید باندھے رکھتا ہے کوئی بھی فرد، حکومت اور معاشرہ حال کی صورت حال پر مطمئن نہیں ہوتا، ایسی صورتحال اقتدار کی خواہش اور خو د توصیفی کو جنم دیتی ہے جو بالاخر تباہی پر منتج ہوتی ہے لیکن اس تباہی کو ٹالا نہیں جاسکا۔ اس کے نزدیک اس کے پیچھے دو عناصر کام کررہے ہوتے ہیں، ایک تو وہ غیر تسلی بخش حالت میں رہتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی مخاصمت اور جنگ کی صورت حال میں رہتا ہے ۔''
یہ ہی بات سب سے پہلے یونانی فلسفی ہیرا کلیٹس نے چھٹی صدی قبل از مسیح میں کی تھی۔ میکاولی کے نزدیک انسان اپنے علاوہ کسی اورکو خاطر میں نہیں لاتا ۔ لوگ عام طور پر ناشکرگزار ، متلو ن مزاج اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں وہ بدمعاشی کی حدتک کمینے، حریص ،حرص وہوس سے پر اور اپنے باپ کے قاتل کو جائیداد کی خاطر معاف کردینے کے لیے تیار رہتے ہیں یہ سب اس لیے ہے کہ اس سے منافع حاصل کرسکیں گے اور جسے محبت کہتے ہیں وہ صرف ان کو خود سے ہے۔
دوسر ی جانب ہوبز انسان کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ حالت فطرت میں زندگی ، تنہا، پر افلاس، وحشی اور چھوٹی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے طاقت کی خواہش زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور جو موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے لیکن زندگی میں اس خواہش میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
طاقت کی اس خواہش کو متوازن اور قابو کرنے کے لیے حالت فطرت میں چونکہ کوئی ادارہ نہیں ہوتا، اس لیے ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہے یہ صورت حال ماورائے تہذیب ہے کیونکہ زندگی گذارنے کے لیے جو بنیادی اصول کا رفرما ہے کہ انسان اپنی بقا کے لیے جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ حاصل کرلے خواہ اس کے لیے اسے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے اور زندگی اسی حصول کے تسلسل کا نام ہے ، تھامس ہابزاس بات کو دہراتا ہے کہ یہ ضروری نہیں انسان ہر وقت حالت جنگ میں رہے یا اس چپقلش میں مبتلا رہے لیکن درمیانی وقفوں میں بھی اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شاید کوئی اس پر حملہ کردے اور اس کے مال پر قابض ہوجائے ہروقت ایک عدم اعتماد اور خوف کی فضا قائم رہتی ہے۔
اب اس کے بعدیہ بات بتانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے حکمران ہر وقت عدم تحفظ کا شکار کیوں رہتے ہیں وہ کیوں ہروقت ڈرے ، سہمے اور خوفزدہ رہتے ہیں لیکن یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ انسان اس وقت حالت فطرت میں رہتا ہے جب اسے ایسی صورتحال اور حالات نصیب ہوں جہاں وہ اپنی تمام خواہشات کو پورا کرتا جائے جہاں اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچ رہی ہو ،جہاں اس کا ہر جائزکام بغیر سفارش و رشوت کے باآسانی ہورہا ہو جہاں اس کو آزادی اور حقوق میسر ہوں جہاں تمام بنیادی ضروریات زندگی مفت مہیا کرنا حکومت نے اپنے سر لے رکھی ہو جہاں اس کو کسی بھی قسم کا خوف لاحق نہ ہو۔
دوسری طرف ذہن میں رہے کہ بدکرداروں کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے یہ بھی ذہن میں رہے کہ بدکرداری ہمیشہ انسان کو ذہنی مریض بناکے رکھ دیتی ہے اسی لیے ہمیں اپنے بدکرداروں کی لوٹ مار، کرپشن کی کوئی حد نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ وہ سب کے سب اصل میں بیمار ہیں، اسی وجہ سے اکثر اوقات ہم ان کی کر پشن اور لوٹ مارکی کہانیاں سن کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ آخر ایک انسان اتنے روپوں پیسوں کا کرے گا کیا ؟
کیا انھیں یہ مال و دولت ، یہ محلات یہ گا ڑیاں اوپر لے جانے کا خصوصی اجازت نامہ مل گیا ہے یا یہ سب روٹی کھانے کے بجائے نوٹ کھاتے ہیں کیا یہ سب گدوں کے بجائے نوٹوں پر سوتے ہیں کیا یہ کپڑوں کے بجائے نوٹوں کے سوٹ پہنتے ہیں۔ اصل میں یہ سب قابل ترس اور قابل رحم مخلوق ہیں جو اصل میں زندگی کے حقیقی مفہوم سے نابلد ہیں جنہیں نہ تو جینا آتا ہے اور نہ ہی وہ زندگی کی اصل خوشیوں ، مسرتوں سے آگاہ ہیں۔
آئیں ہم مل کر ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ خدا ان کو ان عذابوں سے نجات دے دے جن میں یہ مبتلا ہیں خداان کو سکون دے خدا ان کو ان بیماریوں سے نجات دے دے جنہوں نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے ، لیکن اس کے بالکل برعکس انسان اپنے حالات اور ماحول میں جب اپنی فطری جبلتوں پر قابو پالیتا ہے اور ان کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیتا تو پھر اس کی سو چ ، فکر اور عمل ذاتیات کے بجائے اجتماعی شکل اختیارکرلیتے ہیں پھر وہ اپنے فائد ے کے ساتھ ساتھ سب کے فائدے کا سوچتا ہے پھر اس کی سو چ خود تک محدود نہیں رہتی ہے۔ اسی کے لیے آج کل ترقی یافتہ ، مہذب اور خوشحال ممالک میں ''خوشیاں سب کے لیے '' کا سلوگن استعمال ہورہا ہے اور وہ سب ممالک اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔
ذہن میں رہے اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مسلسل کڑا احتساب ،کڑی نگرانی ،کڑی پہر ہ داری لازمی ہے ۔ تب ہی انسان اپنی فطری جبلت پر قابو پاسکتا ہے ورنہ اسے ہٹلر مسولینی ، شاہ ایران اور ہمارے ملک جیسے کرپٹ سیاست دان ،کرپٹ بیوروکریٹس ، مجرم جاگیردار اور پیدا گیر سرمایہ دار بنتے دیر نہیں لگتی ہے ۔
پوری انسانی تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ انسانوں نے کبھی کرداروں سے نفرت نہیں کی بلکہ کرداروں کے کردار سے نفرت کی ہے۔ ہٹلر ، مسولینی ، شاہ ایران ، فرعون اور دیگر سے نفرت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے کرداروں کی وجہ سے ہے۔
آئیں! یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کرداروں کے کردار بدکردار کیوں بنتے ہیں، مکیاولی کہتا ہے کہ '' انسان فطری طور پر حریص اور لالچی ہے اور یہ زندگی بھرکا ساتھ ہے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن قسمت ساتھ نہیں دیتی اور اس دوران وہ چند خواہشیں ہی پوری کر پاتا ہے خواہشات کا یہ طوفان اسے غیر مطمئن رکھتا ہے ۔ پھر انسان حال سے خفا ماضی کا معترف اور مستقبل سے امید باندھے رکھتا ہے کوئی بھی فرد، حکومت اور معاشرہ حال کی صورت حال پر مطمئن نہیں ہوتا، ایسی صورتحال اقتدار کی خواہش اور خو د توصیفی کو جنم دیتی ہے جو بالاخر تباہی پر منتج ہوتی ہے لیکن اس تباہی کو ٹالا نہیں جاسکا۔ اس کے نزدیک اس کے پیچھے دو عناصر کام کررہے ہوتے ہیں، ایک تو وہ غیر تسلی بخش حالت میں رہتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی مخاصمت اور جنگ کی صورت حال میں رہتا ہے ۔''
یہ ہی بات سب سے پہلے یونانی فلسفی ہیرا کلیٹس نے چھٹی صدی قبل از مسیح میں کی تھی۔ میکاولی کے نزدیک انسان اپنے علاوہ کسی اورکو خاطر میں نہیں لاتا ۔ لوگ عام طور پر ناشکرگزار ، متلو ن مزاج اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں وہ بدمعاشی کی حدتک کمینے، حریص ،حرص وہوس سے پر اور اپنے باپ کے قاتل کو جائیداد کی خاطر معاف کردینے کے لیے تیار رہتے ہیں یہ سب اس لیے ہے کہ اس سے منافع حاصل کرسکیں گے اور جسے محبت کہتے ہیں وہ صرف ان کو خود سے ہے۔
دوسر ی جانب ہوبز انسان کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ حالت فطرت میں زندگی ، تنہا، پر افلاس، وحشی اور چھوٹی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے طاقت کی خواہش زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور جو موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے لیکن زندگی میں اس خواہش میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
طاقت کی اس خواہش کو متوازن اور قابو کرنے کے لیے حالت فطرت میں چونکہ کوئی ادارہ نہیں ہوتا، اس لیے ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہے یہ صورت حال ماورائے تہذیب ہے کیونکہ زندگی گذارنے کے لیے جو بنیادی اصول کا رفرما ہے کہ انسان اپنی بقا کے لیے جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ حاصل کرلے خواہ اس کے لیے اسے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے اور زندگی اسی حصول کے تسلسل کا نام ہے ، تھامس ہابزاس بات کو دہراتا ہے کہ یہ ضروری نہیں انسان ہر وقت حالت جنگ میں رہے یا اس چپقلش میں مبتلا رہے لیکن درمیانی وقفوں میں بھی اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شاید کوئی اس پر حملہ کردے اور اس کے مال پر قابض ہوجائے ہروقت ایک عدم اعتماد اور خوف کی فضا قائم رہتی ہے۔
اب اس کے بعدیہ بات بتانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے حکمران ہر وقت عدم تحفظ کا شکار کیوں رہتے ہیں وہ کیوں ہروقت ڈرے ، سہمے اور خوفزدہ رہتے ہیں لیکن یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ انسان اس وقت حالت فطرت میں رہتا ہے جب اسے ایسی صورتحال اور حالات نصیب ہوں جہاں وہ اپنی تمام خواہشات کو پورا کرتا جائے جہاں اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچ رہی ہو ،جہاں اس کا ہر جائزکام بغیر سفارش و رشوت کے باآسانی ہورہا ہو جہاں اس کو آزادی اور حقوق میسر ہوں جہاں تمام بنیادی ضروریات زندگی مفت مہیا کرنا حکومت نے اپنے سر لے رکھی ہو جہاں اس کو کسی بھی قسم کا خوف لاحق نہ ہو۔
دوسری طرف ذہن میں رہے کہ بدکرداروں کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے یہ بھی ذہن میں رہے کہ بدکرداری ہمیشہ انسان کو ذہنی مریض بناکے رکھ دیتی ہے اسی لیے ہمیں اپنے بدکرداروں کی لوٹ مار، کرپشن کی کوئی حد نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ وہ سب کے سب اصل میں بیمار ہیں، اسی وجہ سے اکثر اوقات ہم ان کی کر پشن اور لوٹ مارکی کہانیاں سن کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ آخر ایک انسان اتنے روپوں پیسوں کا کرے گا کیا ؟
کیا انھیں یہ مال و دولت ، یہ محلات یہ گا ڑیاں اوپر لے جانے کا خصوصی اجازت نامہ مل گیا ہے یا یہ سب روٹی کھانے کے بجائے نوٹ کھاتے ہیں کیا یہ سب گدوں کے بجائے نوٹوں پر سوتے ہیں کیا یہ کپڑوں کے بجائے نوٹوں کے سوٹ پہنتے ہیں۔ اصل میں یہ سب قابل ترس اور قابل رحم مخلوق ہیں جو اصل میں زندگی کے حقیقی مفہوم سے نابلد ہیں جنہیں نہ تو جینا آتا ہے اور نہ ہی وہ زندگی کی اصل خوشیوں ، مسرتوں سے آگاہ ہیں۔
آئیں ہم مل کر ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ خدا ان کو ان عذابوں سے نجات دے دے جن میں یہ مبتلا ہیں خداان کو سکون دے خدا ان کو ان بیماریوں سے نجات دے دے جنہوں نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے ، لیکن اس کے بالکل برعکس انسان اپنے حالات اور ماحول میں جب اپنی فطری جبلتوں پر قابو پالیتا ہے اور ان کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیتا تو پھر اس کی سو چ ، فکر اور عمل ذاتیات کے بجائے اجتماعی شکل اختیارکرلیتے ہیں پھر وہ اپنے فائد ے کے ساتھ ساتھ سب کے فائدے کا سوچتا ہے پھر اس کی سو چ خود تک محدود نہیں رہتی ہے۔ اسی کے لیے آج کل ترقی یافتہ ، مہذب اور خوشحال ممالک میں ''خوشیاں سب کے لیے '' کا سلوگن استعمال ہورہا ہے اور وہ سب ممالک اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔
ذہن میں رہے اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مسلسل کڑا احتساب ،کڑی نگرانی ،کڑی پہر ہ داری لازمی ہے ۔ تب ہی انسان اپنی فطری جبلت پر قابو پاسکتا ہے ورنہ اسے ہٹلر مسولینی ، شاہ ایران اور ہمارے ملک جیسے کرپٹ سیاست دان ،کرپٹ بیوروکریٹس ، مجرم جاگیردار اور پیدا گیر سرمایہ دار بنتے دیر نہیں لگتی ہے ۔