جو ڈر گیا وہ بچ گیا
ایک انڈین اور انڈین میں بھی ساؤتھ انڈین فلم کا ایک منظر آپ کو سنا سکتے ہیں
ان دنو ں دنیا میں بھی اور پاکستان میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس سے کیا اگر کسی کو ٹرمپ ہو رہا ہے، نواز شریف ہو رہا ہے یا عمران خان بلکہ پرویز خٹک اور امیر مقام بھی ہو رہا ہے تو ہوا کرے یعنی انگار جانے اور لوہار جانے۔ کوئی مرتا ہے تو سوبار مرے کوئی جیتا ہے تو جُگ جُگ جیے ۔ ہم تو
یاں کے سپید و سیہ میں ہم دخل جو ہے سو اتنا ہے
دن کو رو رو کر صبح کیا صبح کو جوں توں شام کیا
اس سے زیادہ بُرا ہمارا اور ہو بھی کیا سکتا ہے کہ ہمارے سوا شاید کوئی بھی کالم نگار نہیں بچا ہوگا جس نے اپنے امریکا ، برطانیہ ، فرانس اٹلی حتیٰ کہ ٹمبکٹو اور مڈغاسکر کے دورے کر کر کے اور پھر کالموں میں اس کے رنگین قصے لکھ کر ہمارے دل پر آرے نہ چلائے ہوں۔مطلب یہ کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے چاہے اچھے کے لیے ہو رہا ہو یا برے کے لیے ہمیں اس سے کوئی لینا ہے نہ دینا لیکن جس بات نے ہمیں از حد پریشان حیران بلکہ ہراساں کر کے رکھا ہوا ہے وہ ہمارے ارد گرد کچھ ایسے لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھنے کا ہے جو لگتے تو سب شریف ہیں لیکن اصل میں غنڈے ہیں۔
یہ غنڈے یا بقول دیپکا یا ڈوکون'' غونڈی لوگ '' جو دن دوگنی رات چوگنی اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں کون ہیں کیا ہیں کن کھیتوں سے اُگتے ہیں اور کن کارخانوں میں تیار ہوتے ہیں پھل ، پھول اور کھیل رہے ہیں ان کو جانتے تو ہم ہیں پہچانتے ہیں اور سب کچھ ہمیں پتہ ہے لیکن ان کے بارے میں ہم اس سے زیادہ اور کچھ کچھ نہیں بتا سکتے کہ غونڈی لوگ ہیں کیونکہ ایک توہم محض نام کے پشتون ہیں، اندر سے کچھ زیادہ دلیراور بہادر پشتون بالکل بھی نہیں ہیں یعنی بہادری ہماری گھٹی میں تو کیا گھر میں بھی نہیں پڑی ہے۔بلکہ ہمارے محلے میں بھی نہیں پائی جاتی ۔
اوپر سے ہم انڈین فلمیں بھی بہت دیکھتے ہیں جن میں مسلسل اور بڑے زور شور سے یہ پرچار کیا جا رہا ہے کہ ''ڈر کو '' پہچانو کہ ''ڈر'' بہت بڑی چیز ہے ''ڈر '' کی قدر کرو ''ڈر ''سے دوستی بنائے رکھو ''ڈر ''کو نظر انداز نہ کرو بلکہ ''ڈر '' کو مستقل اپنا ساتھی بنالو کہ ڈر سے بڑا دوست اور محافظ اور کوئی نہ ہو گا۔گویا وہ زمانے گئے جب گبر سنگھ کہتا تھا کہ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا بلکہ اب جو ''ڈر گیا '' وہی بچ گیا ۔ یعنی
یہ ''ڈر '' ہے بڑی چیز جہان تگ ودو میں
جس کے پاس ''ڈر ''نہیں اس کے پاس ''سر '' نہیں اور جب ''سر '' نہیں تو کچھ بھی نہیں کہ ''ڈر ''ہی سب کچھ ہے اور سب کچھ ڈر ہی ہے۔اوپر سے ہمارے ناصح مشفق چوہدری صاحب نے یہ کہہ کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے، میاں ذرا دھیان سے کہیں ایسا نہ ہوکہ کسی درخت سے لٹکے ہوئے نظر آؤ یا کسی چو ک میں ایسی حالت میں نظر آؤ کہ سر اور دھڑ کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ ہو۔ یا باڈی بنوں ، ڈیرہ اسماعیل میں گدھ کھا رہے ہوں اور سر چارسدہ ، مردان میں لوگ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں، اب کون اتناجگر والا ہوگا جو اپنی لاش لٹکتی ہوئی پسند کرے یا سر اور دھڑ کے درمیان فاصلے بڑھائے اس لیے دل کے کسی کونے کھدرے میں بہادری کی کوئی کمزور سی رمق باقی بھی تھی وہ بھی صاف ہو گئی چنانچہ کسی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم صابر و شاکر بیوی کے سامنے بھی گم سم رہنے کے عادی ہوگئے ہیں چنانچہ یہ بالکل بھی نہیں بتا پائیں گے کہ یہ نئی قسم کے ''غونڈی''لوگ کون ہیں، ان کا ویرا باؤٹ کیا ہے، اس انڈسٹری کے اونر کون ہیں، انڈسٹری سیلر اور ایجنسی ہولڈر کون ہیں جو ہمارے ارد گرد مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور جو بظاہر شریف نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں غونڈی لوگ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ نکمی سمجھ کر...نہیں اگر یہ بتا دیا تو پھر آپ ہمیںکہاں ڈھونڈیں گے۔
ایک انڈین اور انڈین میں بھی ساؤتھ انڈین فلم کا ایک منظر آپ کو سنا سکتے ہیں جس میں پولیس کا ایک بڑا اور سنیئر تجربہ کار افسر جیسے ہمارے چوہدری صاحب ہیں نے اپنے ایک پرجوش انسپکٹر کو جیسے کبھی ہم ہوا کرتے تھے بتاتا ہے کہ دیکھو ڈر کو پہچانو ۔ سمجھو تم تھکے ہارے اپنے گھر پہنچتے ہو، اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے، تم دروازہ کھول کر دیکھتے ہو تو ایک پتھر تمہارے ماتھے سے ٹکراتا ہے جس کے ساتھ ایک کاغذ کی چٹ بھی ہوتی ہے اور اس میں لکھا ہوتا ہے کہ منشیات کے خلاف کارروائی بند کرو ورنہ اگلی مرتبہ اس پتھر کی جگہ کی گولی ہوگی یا تم تھانے میں ہوکہ بیوی کا فون آتا ہے کہ کافی دیر ہو گئی لیکن بچہ اسکول سے لوٹ کر نہیں آیا ہے، تم اسے تسلی دے کر فون رکھتے ہو تو گھنٹی پھر بجتی ہے اس مرتبہ کوئی شخص بھاری آواز میں کہتا ہے کہ فلاں مجرم کو چھوڑ دو ورنہ فلاں جگہ آکر بچے کی لاش لے جاؤ۔
یہ ڈر ہے، ڈرکو پہچانو اس کی قدر کرو اسے اپنا ساتھی، اپنا دوست ،اپنا ہمراز بنالو۔ لیکن وہ پرجوش انسپکٹر جواب میں بڑ ی بڑی باتیں کہہ کر مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتا ہے کہ میں ڈر سے بالکل نہیں ڈرتا۔ نتیجے میں ایک دن اپنی بن ماں کی بچی کو بن باپ کے کر کے گولیوں سے چھلنی ہو جاتا ہے اگر وہ بیوقوف اپنے چوہدری صاحب کی بات مان کر ''ڈر '' کو اپنا محافظ بنا لیتا تو نہ خود مرتا نہ اس کی بچی یتیم ہوتی بلکہ کچھ بھی نہ ہوتا۔لیکن ہم اتنے نادان نہیں ہم اس قسم کا کوئی منظر دیکھنا نہیں چاہتے کہ ہم گھر میں بیٹھے کالم لکھ رہے ہوں اور اچانک گلی میں شور اٹھتا ہے،گھر پر پتھروں کی بارش ہونے لگتی ہے اور کچھ مردہ باد کے نعروں سے پتہ چلتا کہ ہم نے کل پرسوں کے کالم میں ان کے لیڈر کو ''چور '' کہہ کر پارٹی کا اسکرپٹ آؤٹ کیا.
یہ بات اب تک صرف ہمیں معلوم تھی اس لیے اپنے علی بابا کے ساتھ ہوگئے لیکن اب سب کو اس راز کا پتہ چل گیا ہے، تھوڑی دیر بعد راہگیر لوگ بھی ان کے ساتھ اس '' نیک کام '' میں شامل ہو جاتے ہیں اور محلے کے لوگ بیلچوں ، کلہاڑوں اور گنتی کدالوں سے ''مدد'' کردیتے ہیں اور''کارکن''اپنے مجروح جذبات کو ہمارے اوپر منتقل کر دیتے ہیں۔خیال ہی خیال میں یہ منظر دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنا آدھا لکھا ہوا کالم پھاڑ کر ردی میں ڈال دیتے ہیں۔ واقعی ڈر بڑی قیمتی چیز ہے، اس لیے ہم نے بھی ''ڈر '' کو مستقل جان بنا لیا ہے ۔
اس لیے ہم آپ کو یہ تو نہیں بتا سکتے کہ وہ غونڈی لوگ کون ہیں جو ہمارے ارد گرد بڑھتے جارہے ہیں البتہ یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر ''ڈر ''ہمارا شامل حال نہ ہوتا تو اب تک نہ جانے ہم کہاں پہنچ چکے ہوتے؟
یاں کے سپید و سیہ میں ہم دخل جو ہے سو اتنا ہے
دن کو رو رو کر صبح کیا صبح کو جوں توں شام کیا
اس سے زیادہ بُرا ہمارا اور ہو بھی کیا سکتا ہے کہ ہمارے سوا شاید کوئی بھی کالم نگار نہیں بچا ہوگا جس نے اپنے امریکا ، برطانیہ ، فرانس اٹلی حتیٰ کہ ٹمبکٹو اور مڈغاسکر کے دورے کر کر کے اور پھر کالموں میں اس کے رنگین قصے لکھ کر ہمارے دل پر آرے نہ چلائے ہوں۔مطلب یہ کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے چاہے اچھے کے لیے ہو رہا ہو یا برے کے لیے ہمیں اس سے کوئی لینا ہے نہ دینا لیکن جس بات نے ہمیں از حد پریشان حیران بلکہ ہراساں کر کے رکھا ہوا ہے وہ ہمارے ارد گرد کچھ ایسے لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھنے کا ہے جو لگتے تو سب شریف ہیں لیکن اصل میں غنڈے ہیں۔
یہ غنڈے یا بقول دیپکا یا ڈوکون'' غونڈی لوگ '' جو دن دوگنی رات چوگنی اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں کون ہیں کیا ہیں کن کھیتوں سے اُگتے ہیں اور کن کارخانوں میں تیار ہوتے ہیں پھل ، پھول اور کھیل رہے ہیں ان کو جانتے تو ہم ہیں پہچانتے ہیں اور سب کچھ ہمیں پتہ ہے لیکن ان کے بارے میں ہم اس سے زیادہ اور کچھ کچھ نہیں بتا سکتے کہ غونڈی لوگ ہیں کیونکہ ایک توہم محض نام کے پشتون ہیں، اندر سے کچھ زیادہ دلیراور بہادر پشتون بالکل بھی نہیں ہیں یعنی بہادری ہماری گھٹی میں تو کیا گھر میں بھی نہیں پڑی ہے۔بلکہ ہمارے محلے میں بھی نہیں پائی جاتی ۔
اوپر سے ہم انڈین فلمیں بھی بہت دیکھتے ہیں جن میں مسلسل اور بڑے زور شور سے یہ پرچار کیا جا رہا ہے کہ ''ڈر کو '' پہچانو کہ ''ڈر'' بہت بڑی چیز ہے ''ڈر '' کی قدر کرو ''ڈر ''سے دوستی بنائے رکھو ''ڈر ''کو نظر انداز نہ کرو بلکہ ''ڈر '' کو مستقل اپنا ساتھی بنالو کہ ڈر سے بڑا دوست اور محافظ اور کوئی نہ ہو گا۔گویا وہ زمانے گئے جب گبر سنگھ کہتا تھا کہ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا بلکہ اب جو ''ڈر گیا '' وہی بچ گیا ۔ یعنی
یہ ''ڈر '' ہے بڑی چیز جہان تگ ودو میں
جس کے پاس ''ڈر ''نہیں اس کے پاس ''سر '' نہیں اور جب ''سر '' نہیں تو کچھ بھی نہیں کہ ''ڈر ''ہی سب کچھ ہے اور سب کچھ ڈر ہی ہے۔اوپر سے ہمارے ناصح مشفق چوہدری صاحب نے یہ کہہ کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے، میاں ذرا دھیان سے کہیں ایسا نہ ہوکہ کسی درخت سے لٹکے ہوئے نظر آؤ یا کسی چو ک میں ایسی حالت میں نظر آؤ کہ سر اور دھڑ کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ ہو۔ یا باڈی بنوں ، ڈیرہ اسماعیل میں گدھ کھا رہے ہوں اور سر چارسدہ ، مردان میں لوگ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں، اب کون اتناجگر والا ہوگا جو اپنی لاش لٹکتی ہوئی پسند کرے یا سر اور دھڑ کے درمیان فاصلے بڑھائے اس لیے دل کے کسی کونے کھدرے میں بہادری کی کوئی کمزور سی رمق باقی بھی تھی وہ بھی صاف ہو گئی چنانچہ کسی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم صابر و شاکر بیوی کے سامنے بھی گم سم رہنے کے عادی ہوگئے ہیں چنانچہ یہ بالکل بھی نہیں بتا پائیں گے کہ یہ نئی قسم کے ''غونڈی''لوگ کون ہیں، ان کا ویرا باؤٹ کیا ہے، اس انڈسٹری کے اونر کون ہیں، انڈسٹری سیلر اور ایجنسی ہولڈر کون ہیں جو ہمارے ارد گرد مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور جو بظاہر شریف نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں غونڈی لوگ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ نکمی سمجھ کر...نہیں اگر یہ بتا دیا تو پھر آپ ہمیںکہاں ڈھونڈیں گے۔
ایک انڈین اور انڈین میں بھی ساؤتھ انڈین فلم کا ایک منظر آپ کو سنا سکتے ہیں جس میں پولیس کا ایک بڑا اور سنیئر تجربہ کار افسر جیسے ہمارے چوہدری صاحب ہیں نے اپنے ایک پرجوش انسپکٹر کو جیسے کبھی ہم ہوا کرتے تھے بتاتا ہے کہ دیکھو ڈر کو پہچانو ۔ سمجھو تم تھکے ہارے اپنے گھر پہنچتے ہو، اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے، تم دروازہ کھول کر دیکھتے ہو تو ایک پتھر تمہارے ماتھے سے ٹکراتا ہے جس کے ساتھ ایک کاغذ کی چٹ بھی ہوتی ہے اور اس میں لکھا ہوتا ہے کہ منشیات کے خلاف کارروائی بند کرو ورنہ اگلی مرتبہ اس پتھر کی جگہ کی گولی ہوگی یا تم تھانے میں ہوکہ بیوی کا فون آتا ہے کہ کافی دیر ہو گئی لیکن بچہ اسکول سے لوٹ کر نہیں آیا ہے، تم اسے تسلی دے کر فون رکھتے ہو تو گھنٹی پھر بجتی ہے اس مرتبہ کوئی شخص بھاری آواز میں کہتا ہے کہ فلاں مجرم کو چھوڑ دو ورنہ فلاں جگہ آکر بچے کی لاش لے جاؤ۔
یہ ڈر ہے، ڈرکو پہچانو اس کی قدر کرو اسے اپنا ساتھی، اپنا دوست ،اپنا ہمراز بنالو۔ لیکن وہ پرجوش انسپکٹر جواب میں بڑ ی بڑی باتیں کہہ کر مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتا ہے کہ میں ڈر سے بالکل نہیں ڈرتا۔ نتیجے میں ایک دن اپنی بن ماں کی بچی کو بن باپ کے کر کے گولیوں سے چھلنی ہو جاتا ہے اگر وہ بیوقوف اپنے چوہدری صاحب کی بات مان کر ''ڈر '' کو اپنا محافظ بنا لیتا تو نہ خود مرتا نہ اس کی بچی یتیم ہوتی بلکہ کچھ بھی نہ ہوتا۔لیکن ہم اتنے نادان نہیں ہم اس قسم کا کوئی منظر دیکھنا نہیں چاہتے کہ ہم گھر میں بیٹھے کالم لکھ رہے ہوں اور اچانک گلی میں شور اٹھتا ہے،گھر پر پتھروں کی بارش ہونے لگتی ہے اور کچھ مردہ باد کے نعروں سے پتہ چلتا کہ ہم نے کل پرسوں کے کالم میں ان کے لیڈر کو ''چور '' کہہ کر پارٹی کا اسکرپٹ آؤٹ کیا.
یہ بات اب تک صرف ہمیں معلوم تھی اس لیے اپنے علی بابا کے ساتھ ہوگئے لیکن اب سب کو اس راز کا پتہ چل گیا ہے، تھوڑی دیر بعد راہگیر لوگ بھی ان کے ساتھ اس '' نیک کام '' میں شامل ہو جاتے ہیں اور محلے کے لوگ بیلچوں ، کلہاڑوں اور گنتی کدالوں سے ''مدد'' کردیتے ہیں اور''کارکن''اپنے مجروح جذبات کو ہمارے اوپر منتقل کر دیتے ہیں۔خیال ہی خیال میں یہ منظر دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنا آدھا لکھا ہوا کالم پھاڑ کر ردی میں ڈال دیتے ہیں۔ واقعی ڈر بڑی قیمتی چیز ہے، اس لیے ہم نے بھی ''ڈر '' کو مستقل جان بنا لیا ہے ۔
اس لیے ہم آپ کو یہ تو نہیں بتا سکتے کہ وہ غونڈی لوگ کون ہیں جو ہمارے ارد گرد بڑھتے جارہے ہیں البتہ یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر ''ڈر ''ہمارا شامل حال نہ ہوتا تو اب تک نہ جانے ہم کہاں پہنچ چکے ہوتے؟