صوبائی خودمختاری اور کرپشن
حقائق کے تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبائی خودمختاری کو کرپشن کے تحفظ کے لیے استعمال کررہی ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی جدوجہد کاآغاز چھوٹے صوبوں کو حقوق دلوانے سے کرنا تھا۔ مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجے میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوکر صوبہ بنا، جب 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس قرارداد میں ریاستوں کا لفظ استعمال ہوا مگر 1947 میں آنے والے ملک میں صورتحال مختلف ہوگئی۔
مضبوط مرکز کے نعرے پر صوبوں کے حقوق غضب کیے گئے۔ برابری کے اصول کی بنیاد پر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا اور سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے حقوق کو غضب کر کے ون یونٹ بنایا گیا مگر مشرقی بنگال، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں نے مضبوط مرکز کے نعرے کو قبول نہیں کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ اور دیگر بائیں بازو کی تنظیموں نے ہمیشہ صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں عوام نے جنرل ایوب خان کا نافذ کردہ 1962ء کا آئین مسترد کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پہلے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کی خودمختاری کے حامی نہیںتھے۔ کمیونسٹ رہنما جام ساقی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ بھٹو ایوب خان کی حکومت کے تو مخالف تھے مگر وہ ون یونٹ توڑنے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ جب سندھ میں سندھی زبان میں انتخابی فہرستوں کی اشاعت کے لیے تحریک چلائی گئی تو سندھی دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے ون یونٹ کے خاتمے کے لیے جدوجہد کو تیز کیا تو پیپلز پارٹی بھی ون یونٹ کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت میں میدان میں آگئی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے عوامی لیگ کے 6نکات کو کبھی قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور فوج ایک پیج پر آگئے اور عوامی لیگ فوجی آپریشن کا شکار ہوئی، یوں ملک ٹوٹ گیا۔
جب 1973ء کا آئین تیار ہوا تو صوبائی خود مختاری کو تحفظ دینے کے لیے علیحدہ شقیں شامل کی گئیں۔ اب آئین میں اختیارات کے حوالے سے تین قسم کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ ایک مرکز، دوسری صوبوں کی اور تیسری مشترکہ فہرست جن کے بارے میں تحریرکیا گیا کہ اگر مرکز ان امور پر قانون سازی کرے گا تو صوبے کا قانون بے اثر ہوجائے گا مگر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو سے وعدہ کیا تھا کہ 10 سال بعد مشترکہ فہرست ختم کردی جائے گی اور اس فہرست میں دیے گئے امور پر صوبوں کو قانون سازی کا اختیار ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد 1973ء کا آئین معطل کیا اور ایک طرح سے وحدانی طرز حکومت قائم کی اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ صوبائی خودمختاری کا معاملہ گزشتہ صدی میں حل نہیں ہوسکا مگر نئی صدی کے آغاز کے پانچویں سال دو سابق وزراء اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے۔ اس میثاق جمہوریت میں صوبوں کو مکمل طور پر خودمختاری پر اتفاق رائے ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت کو عملی شکل دینے پر کام شروع ہوا۔ 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم منظور ہوئی۔ پارلیمنٹ میں نمایندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی حمایت کی۔ صدر زرداری اسمبلی توڑنے کے اختیارات سے دستبردار ہوئے اورصوبوں کو ملنے والے حقوق عوامی لیگ کے 6 نکات سے تقریباً قریب تھے۔ عوامی لیگ 6نکات کی بنیاد پر غداروں کی جماعت کہلاتی تھی ۔
اب ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔کئی وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئیں،کچھ وزارتوں اور اداروں کی صوبوں کو منتقلی کا اصولی فیصلہ ہوا مگر آئینی معاملات حائل ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ (N.F.C) کی نئے فارمولے کے تحت تشکیل ہوئی اور صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی، مگر اس صورتحال کے سب سے زیادہ منفی نتائج سندھ میں برآمد ہوئے۔ سندھ کے ہر محکمے میں کرپشن کا لیول تمام ممکنہ حدود کو پار کرگیا۔ ہر محکمے کی آسامیاں فروخت ہونے لگیں۔ تبادلے اور پوسٹنگ کے ہر محکمے کے حساب سے نرخ مقرر ہوئے۔
ترقیاتی فنڈ ترقی کے بجائے با اثر افراد کی خوشحالی پر خرچ ہونے لگے۔ تعلیم، اطلاعات، خوراک، زراعت، فشریز، پولیس اورغرض ہر محکمے میں ہر معاملے کے الگ الگ ریٹ طے ہوئے۔ سرکاری ملازمتیں، حج اور عمرہ کے این او سی تک حاصل کرنے کے لیے مخصوص رقم کا ادا کرنا لازمی ہوا ۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کیس میں اس وقت کے آئی جی واجد درانی کو طلب کیا تو انھوں نے معزز عدالت کے سامنے بیان دیا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلے اور پوسٹنگ کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
صورتحال صرف پولیس کے محکمے کی خراب نہیں ہوئی بلکہ تعلیم کے محکمہ کا اور زیادہ برا حال ہوا ۔ ایسے کئی ہزار افراد کو بطور استاد بھرتی کرلیا گیا جو استاد کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان میں سے ہر شخص نے تقرر نامے کے حصول کے لیے کئی کئی لاکھ روپے ادا کیے۔ پھر محکمہ تعلیم میں اس زمانے میں ہر پوسٹ فروخت ہوئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ورلڈ بینک نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ ان ہزاروں افراد کو برطرف کردیا گیا تو یہ لوگ مہینوں سڑکوں پر دھرنے دیتے رہے اور ساتھ ہی پولیس سے لڑتے رہے۔ سب سے زیادہ برا حال بلدیات کے محکمے کا ہوا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادی گئی۔ اتھارٹی نے 20، 20 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی۔
کراچی کے بیشتر علاقے فلیٹوں کے جنگل میں تبدیل ہوگئے۔ ان عمارتوں کی تعمیر سے دیگر مسائل کے علاوہ ماحولیات پر بھی برے اثرات برآمد ہوئے۔ دو سال قبل کراچی میں سمندر سے آنی والی گرم ہواؤں کی تباہی کی ایک اہم وجہ بے ہنگم طویل عمارتوں کی تعمیر تھی۔ پھر بلدیاتی اداروں کافنڈ سب کچھ لٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباداور دادو زبوں حالی کی تصویر بن گئے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے کراچی کے بیورو چیف کئی برسوں بعد لاڑکانہ اور موئنجودڑو گئے اور کراچی اور لاڑکانہ کی زبوں حالی دیکھی۔ انھوں نے کراچی پریس کلب میں زرداری کے ایک عاشق دانشور سے سوال پوچھا کہ زیادہ قدیم کون سا شہر ہے لاڑکانہ یا موئن جودڑو؟ کراچی کی گلیاں اور سڑکیں ہر طرف کوڑے کے ڈھیر لگ گئے، شہر کا سیوریج کا نظام تقریباً معطل ہوا اور کوڑے کی مسلسل موجودگی کی بنیاد پر چکن گونیا جیسی بیماریاں پھیل گئیں۔
گزشتہ سال نیب اور رینجرز نے دہشت گردی سے منسلک کرپشن ذرایع کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کیے۔ اس آپریشن سے بچنے کے لیے کئی افراد یورپ، امریکا اورکینیڈا فرار ہوگئے جب کہ کئی افراد گرفتار بھی ہوگئے۔ سندھ کے سابق آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت متعدد سیکریٹریوں نے نیب کی کارروائی سے بچنے کے لیے ضمانتیں کرالیں۔ سابق صدر زرداری اور سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن وغیرہ دبئی چلے گئے۔
ڈاکٹر عاصم نے ایک سال کے قریب جیل کی ہوا کھائی۔ نیب اور رینجرز کے آپریشن میں سیاسی مقاصد بھی شامل تھے۔ اس بناء پر یہ آپریشن بہت زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا مگر سندھ کی پسماندگی ختم نہ ہوسکی۔ چند ماہ قبل حکومت سندھ نے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کیا تو سندھ ہائی کورٹ نے مداخلت کی۔ اے ڈی خواجہ ایک ایماندار افسرکے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے تبادلے کی وجوہات افشاں نہیں کی گئیں۔
اب حکومت نے سندھ میں نیب کی طرزکا ادارہ بنانے کے لیے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا، یوں نیب کے صوبے میں کارروائی کے اختیارات ختم ہوجائیں گے۔ اس طرح آئی جی اے ڈی خواجہ کے اختیارات بھی ختم کردیے گئے۔ وہ اپنے ماتحت افسروں کے تبادلے اور تقرریاں نہیں کرپائیں گے۔ یہ افسران اب عملی طور پر آئی جی کے سامنے جوابدہ نہیں ہونگے۔پیپلزپارٹی کے ایک پرانے حامی اور سینئر وکیل امجد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کی حکومت احتساب کے قانون کی تیاری کے لیے خیبر پختون خواہ کی پیروی کرنا چاہتی ہے جہاں وفاق اور صوبے کے احتساب کے ادارے کام کررہے ہیں۔
حقائق کے تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبائی خودمختاری کو کرپشن کے تحفظ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ جن اکابرین نے پاکستان بننے کے بعد سے صوبائی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی تھی، ان کا مقصد کسی قسم کی کرپشن کا تحفظ نہیں بلکہ اپنے صوبوں کو ترقی دینا تھا۔ اس قانون سے پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما اور بیوروکریٹ احتساب سے بچ جائیں گے مگر جمہوری نظام کمزور ہوجائے گا اور سندھ پسماندہ ہی رہے گا۔
مضبوط مرکز کے نعرے پر صوبوں کے حقوق غضب کیے گئے۔ برابری کے اصول کی بنیاد پر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا اور سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے حقوق کو غضب کر کے ون یونٹ بنایا گیا مگر مشرقی بنگال، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں نے مضبوط مرکز کے نعرے کو قبول نہیں کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ اور دیگر بائیں بازو کی تنظیموں نے ہمیشہ صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں عوام نے جنرل ایوب خان کا نافذ کردہ 1962ء کا آئین مسترد کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پہلے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کی خودمختاری کے حامی نہیںتھے۔ کمیونسٹ رہنما جام ساقی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ بھٹو ایوب خان کی حکومت کے تو مخالف تھے مگر وہ ون یونٹ توڑنے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ جب سندھ میں سندھی زبان میں انتخابی فہرستوں کی اشاعت کے لیے تحریک چلائی گئی تو سندھی دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے ون یونٹ کے خاتمے کے لیے جدوجہد کو تیز کیا تو پیپلز پارٹی بھی ون یونٹ کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت میں میدان میں آگئی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے عوامی لیگ کے 6نکات کو کبھی قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور فوج ایک پیج پر آگئے اور عوامی لیگ فوجی آپریشن کا شکار ہوئی، یوں ملک ٹوٹ گیا۔
جب 1973ء کا آئین تیار ہوا تو صوبائی خود مختاری کو تحفظ دینے کے لیے علیحدہ شقیں شامل کی گئیں۔ اب آئین میں اختیارات کے حوالے سے تین قسم کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ ایک مرکز، دوسری صوبوں کی اور تیسری مشترکہ فہرست جن کے بارے میں تحریرکیا گیا کہ اگر مرکز ان امور پر قانون سازی کرے گا تو صوبے کا قانون بے اثر ہوجائے گا مگر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو سے وعدہ کیا تھا کہ 10 سال بعد مشترکہ فہرست ختم کردی جائے گی اور اس فہرست میں دیے گئے امور پر صوبوں کو قانون سازی کا اختیار ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد 1973ء کا آئین معطل کیا اور ایک طرح سے وحدانی طرز حکومت قائم کی اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ صوبائی خودمختاری کا معاملہ گزشتہ صدی میں حل نہیں ہوسکا مگر نئی صدی کے آغاز کے پانچویں سال دو سابق وزراء اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے۔ اس میثاق جمہوریت میں صوبوں کو مکمل طور پر خودمختاری پر اتفاق رائے ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت کو عملی شکل دینے پر کام شروع ہوا۔ 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم منظور ہوئی۔ پارلیمنٹ میں نمایندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی حمایت کی۔ صدر زرداری اسمبلی توڑنے کے اختیارات سے دستبردار ہوئے اورصوبوں کو ملنے والے حقوق عوامی لیگ کے 6 نکات سے تقریباً قریب تھے۔ عوامی لیگ 6نکات کی بنیاد پر غداروں کی جماعت کہلاتی تھی ۔
اب ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔کئی وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئیں،کچھ وزارتوں اور اداروں کی صوبوں کو منتقلی کا اصولی فیصلہ ہوا مگر آئینی معاملات حائل ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ (N.F.C) کی نئے فارمولے کے تحت تشکیل ہوئی اور صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی، مگر اس صورتحال کے سب سے زیادہ منفی نتائج سندھ میں برآمد ہوئے۔ سندھ کے ہر محکمے میں کرپشن کا لیول تمام ممکنہ حدود کو پار کرگیا۔ ہر محکمے کی آسامیاں فروخت ہونے لگیں۔ تبادلے اور پوسٹنگ کے ہر محکمے کے حساب سے نرخ مقرر ہوئے۔
ترقیاتی فنڈ ترقی کے بجائے با اثر افراد کی خوشحالی پر خرچ ہونے لگے۔ تعلیم، اطلاعات، خوراک، زراعت، فشریز، پولیس اورغرض ہر محکمے میں ہر معاملے کے الگ الگ ریٹ طے ہوئے۔ سرکاری ملازمتیں، حج اور عمرہ کے این او سی تک حاصل کرنے کے لیے مخصوص رقم کا ادا کرنا لازمی ہوا ۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کیس میں اس وقت کے آئی جی واجد درانی کو طلب کیا تو انھوں نے معزز عدالت کے سامنے بیان دیا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلے اور پوسٹنگ کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
صورتحال صرف پولیس کے محکمے کی خراب نہیں ہوئی بلکہ تعلیم کے محکمہ کا اور زیادہ برا حال ہوا ۔ ایسے کئی ہزار افراد کو بطور استاد بھرتی کرلیا گیا جو استاد کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان میں سے ہر شخص نے تقرر نامے کے حصول کے لیے کئی کئی لاکھ روپے ادا کیے۔ پھر محکمہ تعلیم میں اس زمانے میں ہر پوسٹ فروخت ہوئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ورلڈ بینک نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ ان ہزاروں افراد کو برطرف کردیا گیا تو یہ لوگ مہینوں سڑکوں پر دھرنے دیتے رہے اور ساتھ ہی پولیس سے لڑتے رہے۔ سب سے زیادہ برا حال بلدیات کے محکمے کا ہوا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادی گئی۔ اتھارٹی نے 20، 20 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی۔
کراچی کے بیشتر علاقے فلیٹوں کے جنگل میں تبدیل ہوگئے۔ ان عمارتوں کی تعمیر سے دیگر مسائل کے علاوہ ماحولیات پر بھی برے اثرات برآمد ہوئے۔ دو سال قبل کراچی میں سمندر سے آنی والی گرم ہواؤں کی تباہی کی ایک اہم وجہ بے ہنگم طویل عمارتوں کی تعمیر تھی۔ پھر بلدیاتی اداروں کافنڈ سب کچھ لٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباداور دادو زبوں حالی کی تصویر بن گئے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے کراچی کے بیورو چیف کئی برسوں بعد لاڑکانہ اور موئنجودڑو گئے اور کراچی اور لاڑکانہ کی زبوں حالی دیکھی۔ انھوں نے کراچی پریس کلب میں زرداری کے ایک عاشق دانشور سے سوال پوچھا کہ زیادہ قدیم کون سا شہر ہے لاڑکانہ یا موئن جودڑو؟ کراچی کی گلیاں اور سڑکیں ہر طرف کوڑے کے ڈھیر لگ گئے، شہر کا سیوریج کا نظام تقریباً معطل ہوا اور کوڑے کی مسلسل موجودگی کی بنیاد پر چکن گونیا جیسی بیماریاں پھیل گئیں۔
گزشتہ سال نیب اور رینجرز نے دہشت گردی سے منسلک کرپشن ذرایع کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کیے۔ اس آپریشن سے بچنے کے لیے کئی افراد یورپ، امریکا اورکینیڈا فرار ہوگئے جب کہ کئی افراد گرفتار بھی ہوگئے۔ سندھ کے سابق آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت متعدد سیکریٹریوں نے نیب کی کارروائی سے بچنے کے لیے ضمانتیں کرالیں۔ سابق صدر زرداری اور سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن وغیرہ دبئی چلے گئے۔
ڈاکٹر عاصم نے ایک سال کے قریب جیل کی ہوا کھائی۔ نیب اور رینجرز کے آپریشن میں سیاسی مقاصد بھی شامل تھے۔ اس بناء پر یہ آپریشن بہت زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا مگر سندھ کی پسماندگی ختم نہ ہوسکی۔ چند ماہ قبل حکومت سندھ نے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کیا تو سندھ ہائی کورٹ نے مداخلت کی۔ اے ڈی خواجہ ایک ایماندار افسرکے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے تبادلے کی وجوہات افشاں نہیں کی گئیں۔
اب حکومت نے سندھ میں نیب کی طرزکا ادارہ بنانے کے لیے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا، یوں نیب کے صوبے میں کارروائی کے اختیارات ختم ہوجائیں گے۔ اس طرح آئی جی اے ڈی خواجہ کے اختیارات بھی ختم کردیے گئے۔ وہ اپنے ماتحت افسروں کے تبادلے اور تقرریاں نہیں کرپائیں گے۔ یہ افسران اب عملی طور پر آئی جی کے سامنے جوابدہ نہیں ہونگے۔پیپلزپارٹی کے ایک پرانے حامی اور سینئر وکیل امجد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کی حکومت احتساب کے قانون کی تیاری کے لیے خیبر پختون خواہ کی پیروی کرنا چاہتی ہے جہاں وفاق اور صوبے کے احتساب کے ادارے کام کررہے ہیں۔
حقائق کے تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبائی خودمختاری کو کرپشن کے تحفظ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ جن اکابرین نے پاکستان بننے کے بعد سے صوبائی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی تھی، ان کا مقصد کسی قسم کی کرپشن کا تحفظ نہیں بلکہ اپنے صوبوں کو ترقی دینا تھا۔ اس قانون سے پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما اور بیوروکریٹ احتساب سے بچ جائیں گے مگر جمہوری نظام کمزور ہوجائے گا اور سندھ پسماندہ ہی رہے گا۔