ایک جیسی سوچ
سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے 1977 میں خفیہ طریقے سے ایک اسرائیلی بھارت پہنچا
ISLAMABAD:
سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے 1977 میں خفیہ طریقے سے ایک اسرائیلی بھارت پہنچا، مگراسے ناکام ہی لوٹنا پڑا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل کا سابق فوجی جنرل اور بعد کا اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دایان تھا۔ سترکی دہائی کے نوجوان اس شخص کو اس کی بائیں آنکھ سے جانتے تھے جو ہر وقت ایک کپڑے سے ڈھکی رہتی تھی۔ موشے دایان کی یہ آ نکھ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس وقت ایک سپاہی کی گولی کا نشانہ بنی تھی جب وہ شام کی سرحد پر پیش قدمی کررہا تھا۔ بھارت نے اسرائیل کو 1950ء میں تسلیم توکر لیا تھا لیکن ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے ۔
اس سے قبل 1962 ء کی چین بھارت جنگ کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے امداد کے لیے اسرائیل کے وزیراعظم کو ایک خط لکھا تھا، مگر عرب ممالک کی ناراضی سے بچنے کے لیے یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ جس جہاز پر ہتھیار بھیجے جائیں اس پر اسرائیل کا پرچم نہ لہرایا جائے ، جس پر اسرائیل نے بھارت کو امداد دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ 1977ء میں جنتا پارٹی کی حکومت کے دوران بھارت کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی بات کی ، مگراس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے بھی وزیر اعظم کے سامنے عرب ممالک کی ناراضگی کا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔وقت نے کروٹ بدلی اور 2003ء میںاسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شمعون نے بھارت کا دورہ کیا تو اس وقت اٹل بہاری واجپائی ہی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔
دونوں ممالک کے تعلقات سست روی سے آگے بڑھنے لگے، لیکن2015ء میں بھارتی صدر پرناب مکر جی نے پہلی بار اسرائیل کا دورہ کیا تو یہ تعلقات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ اسرائیل اور بھارت کے سفارتی تعلقات دیر سے قائم نہ ہونے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ تھی کہ بھارت فلسطین کی حمایت کرتا تھا اور دوسرا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کے بعد وہ عرب ممالک سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا جو تیل کی وافر مقدار سے مالا مال تھے۔
مہاتما گاندھی بھی اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں یہ بات کہہ چکے تھے کہ ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہیں مگر فلسطینی علاقہ یہودیوں کا نہیں بلکہ عربوں کا ہے۔البرٹ آئن اسٹائن نے بھی بھارت سے درخواست کی تھی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن اس کے باوجود 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔
موشے دایان کو اپنے ملک سے خالی ہاتھ واپس لوٹانے والے اسی ملک کے چودھویں وزیر اعظم نریندر مودی جب چالیس سال کے بعد اسرائیل پہنچے تو انھیں کسی بھی ناکامی کا ڈر نہیں تھا اور نہ ہی فلسطینی قیادت سے ان کی ملاقات کا کوئی پروگرام طے تھا ۔ بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو اب پچیس سال ہوگئے ہیںاور اس عرصے کے دوران دونوں ممالک نے زراعت، ثقافت اور سیاست سے دفاع تک ہر شعبے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا ہے۔2002 میں اسرائیلی خلائی پروگرام کے سربراہ کرنل ایوی ہارون اور انڈیا کے خلائی تحقیقی ادارے کے سربراہ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے بعد سے بھارت اور اسرائیل بڑے کاروباری اور دفاعی شراکت دار بن کر سامنے آئے یوں 2013ء تک بھارت اور اسرئیل کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم چھ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا۔
2006ء میںبھارت اور اسرائیل کے زرعی شعبے میں ایک طویل مدتی تربیتی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت دونوں ممالک نے ابتدائی طور پر پچاس ملین ڈالر کا مشترکہ زرعی فنڈ قائم کیا جس کا مقصد دودھ،زرعی ٹیکنالوجی اور آب پاشی کے نظام پرتوجہ دینا تھا۔2010ء میں دونوں ممالک کے درمیان بھارت کے شہری علاقوں میں پانی کے ترسیلی نظام کی بہتری کے لیے کام شروع ہوا جو دس سالہ تحقیق اور مشترکہ سرمایہ کاری کے بعد تکمیل تک پہنچا۔ بھارت اور اسرائیل کے مرکزی تعلقات میں دفاعی تعاون کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور جب 2012میں بھارتی خارجہ امورکے وزیر ایس ایم کرشنا نے اسرائیل کا دورہ کیا تو اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر بات چیت کے ساتھ مستقبل کے دفاعی منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔2013ء میں اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو پھلوں اور سبزیوں کے شعبے میں فروغ کے لیے جدید طریقوں سے آشنا کرائے گی جس کے بعد ملکی سطح پر 28 مراکز قائم کیے گئے جن میں کسانوں کو تربیت دینے کے ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت پر بھر پور توجہ دی گئی ۔ اب ہریانہ میں قائم ہونیوالے ایسے ہی مرکزکو اس منصوبے کے بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جولائی 2014 ء کے دوران دونوں ممالک نے خفیہ اداروں کے تعاون کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے جس کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنا تھا۔ دونوں ممالک میں بدلتی ہوئی صورت حال کے تحت مزید تقویت دینے کے لیے پچھلے ہفتے کے دوران جب نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر پہنچے توان کا انتہائی شان دار استقبال کیا گیا۔ایک امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق'' ایسا شاندار استقبال یا تو امریکی صدرکا ہوتا ہے یا پوپ کا''۔ اس دورے میںمودی کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اسے بھی دنیا کا محفوظ ترین ہوٹل کہا جاتا ہے۔
جس پر بم دھماکوں اور کیمیائی حملوں کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ یہاں تک کہ اگر پورے ہوٹل کو بم سے اڑا بھی دیا جائے تو وہ کمرہ جس میں خاص مہمان ٹھہرا ہوا ہے محفوظ ہی رہے گا۔اسی محفوظ ہوٹل میں مودی کی آمد سے تین ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی قیام کرچکے ہیں۔ اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مودی کے اسرائیل پہنچنے سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی ساری کابینہ سے سے کہا کہ وہ ائیر پورٹ پر میرے ساتھ چل کر مودی کا استقبال کرے۔ یوں مودی کے استقبال کی تمام تیاریاں بالکل اسی طرح تھیں جیسی ڈونلڈ ٹرمپ کے استقبال کے موقعے پر کی گئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم سے باقاعدہ ملاقات سے قبل بھارتی وزیر اعظم نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا گیا۔جس کے بعد وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران سات معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں صنعتی ترقی میں تحقیق ،شہری سطح پر پانی کی تقسیم اور اسے محفوظ بنانے کا معاہدہ ، زرعی شعبے میں تین سالہ تعاون کا منصوبہ اورچھوٹے خلائی سیاروں کے شعبے میں تعاون کا منصوبہ شامل ہے۔
دنیا بھرکا ذرایع ابلاغ مودی کے دورہ اسرائیل کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ان میں سے زیادہ تر نے اپنی شہ سرخیوں میںدونوں شخصیات کی'' ایک جیسی سوچ'' کی سرخیاں شایع کی ہیں، لیکن بھارت کا غیر جانبدار حلقہ انتہائی حقیت پسندانہ انداز سے اس دورے کو امریکا اور بھارت کی دوستی کے ساتھ دنیا بھر میں امریکا کی نئی پالیسیوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہا ہے۔ امریکا کی سابق حکومت نے اسرائیل کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے اس سے دوری اختیار کر لی تھی، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل کرکے اور سعودی عرب کے دورے میں اپنے سخت بیانات کے بعد مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر بھی ہل چل برپا کر دی تھی۔ ایک بین الاقوامی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اس دورے کے سلسلے میں خود اسرائیل کے عوام کی سمجھ میں یہ بات نہیںآرہی کہ ماضی کے برعکس دونوں ممالک ایک دوسرے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اسے امریکا کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی، مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور بھارت کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی سے جوڑ رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب '' ایک جیسی سوچ '' کی بات چلتی ہے تو بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے تشدد اور فلسطین میں اسرئیل فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں پر تشدد کے علاوہ کوئی بھی ایسی روایتی یا موجودہ بات نہیں جس پر دونوں کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہو۔ شاید اسی لیے بھارت کے ایک مسلم رہنما نے اس دورے کے سلسلے میں ایک جملہ کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ''نریندر مودی کا اسرائیل کا دورہ صرف اسرائیل پر اس کے قبضے کو مستحکم کرے گا۔'' لیکن اس دورے کے بعد یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال میں ہماری خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟
سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے 1977 میں خفیہ طریقے سے ایک اسرائیلی بھارت پہنچا، مگراسے ناکام ہی لوٹنا پڑا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل کا سابق فوجی جنرل اور بعد کا اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دایان تھا۔ سترکی دہائی کے نوجوان اس شخص کو اس کی بائیں آنکھ سے جانتے تھے جو ہر وقت ایک کپڑے سے ڈھکی رہتی تھی۔ موشے دایان کی یہ آ نکھ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس وقت ایک سپاہی کی گولی کا نشانہ بنی تھی جب وہ شام کی سرحد پر پیش قدمی کررہا تھا۔ بھارت نے اسرائیل کو 1950ء میں تسلیم توکر لیا تھا لیکن ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے ۔
اس سے قبل 1962 ء کی چین بھارت جنگ کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے امداد کے لیے اسرائیل کے وزیراعظم کو ایک خط لکھا تھا، مگر عرب ممالک کی ناراضی سے بچنے کے لیے یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ جس جہاز پر ہتھیار بھیجے جائیں اس پر اسرائیل کا پرچم نہ لہرایا جائے ، جس پر اسرائیل نے بھارت کو امداد دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ 1977ء میں جنتا پارٹی کی حکومت کے دوران بھارت کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی بات کی ، مگراس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے بھی وزیر اعظم کے سامنے عرب ممالک کی ناراضگی کا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔وقت نے کروٹ بدلی اور 2003ء میںاسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شمعون نے بھارت کا دورہ کیا تو اس وقت اٹل بہاری واجپائی ہی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔
دونوں ممالک کے تعلقات سست روی سے آگے بڑھنے لگے، لیکن2015ء میں بھارتی صدر پرناب مکر جی نے پہلی بار اسرائیل کا دورہ کیا تو یہ تعلقات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ اسرائیل اور بھارت کے سفارتی تعلقات دیر سے قائم نہ ہونے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ تھی کہ بھارت فلسطین کی حمایت کرتا تھا اور دوسرا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کے بعد وہ عرب ممالک سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا جو تیل کی وافر مقدار سے مالا مال تھے۔
مہاتما گاندھی بھی اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں یہ بات کہہ چکے تھے کہ ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہیں مگر فلسطینی علاقہ یہودیوں کا نہیں بلکہ عربوں کا ہے۔البرٹ آئن اسٹائن نے بھی بھارت سے درخواست کی تھی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن اس کے باوجود 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔
موشے دایان کو اپنے ملک سے خالی ہاتھ واپس لوٹانے والے اسی ملک کے چودھویں وزیر اعظم نریندر مودی جب چالیس سال کے بعد اسرائیل پہنچے تو انھیں کسی بھی ناکامی کا ڈر نہیں تھا اور نہ ہی فلسطینی قیادت سے ان کی ملاقات کا کوئی پروگرام طے تھا ۔ بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو اب پچیس سال ہوگئے ہیںاور اس عرصے کے دوران دونوں ممالک نے زراعت، ثقافت اور سیاست سے دفاع تک ہر شعبے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا ہے۔2002 میں اسرائیلی خلائی پروگرام کے سربراہ کرنل ایوی ہارون اور انڈیا کے خلائی تحقیقی ادارے کے سربراہ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے بعد سے بھارت اور اسرائیل بڑے کاروباری اور دفاعی شراکت دار بن کر سامنے آئے یوں 2013ء تک بھارت اور اسرئیل کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم چھ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا۔
2006ء میںبھارت اور اسرائیل کے زرعی شعبے میں ایک طویل مدتی تربیتی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت دونوں ممالک نے ابتدائی طور پر پچاس ملین ڈالر کا مشترکہ زرعی فنڈ قائم کیا جس کا مقصد دودھ،زرعی ٹیکنالوجی اور آب پاشی کے نظام پرتوجہ دینا تھا۔2010ء میں دونوں ممالک کے درمیان بھارت کے شہری علاقوں میں پانی کے ترسیلی نظام کی بہتری کے لیے کام شروع ہوا جو دس سالہ تحقیق اور مشترکہ سرمایہ کاری کے بعد تکمیل تک پہنچا۔ بھارت اور اسرائیل کے مرکزی تعلقات میں دفاعی تعاون کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور جب 2012میں بھارتی خارجہ امورکے وزیر ایس ایم کرشنا نے اسرائیل کا دورہ کیا تو اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر بات چیت کے ساتھ مستقبل کے دفاعی منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔2013ء میں اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو پھلوں اور سبزیوں کے شعبے میں فروغ کے لیے جدید طریقوں سے آشنا کرائے گی جس کے بعد ملکی سطح پر 28 مراکز قائم کیے گئے جن میں کسانوں کو تربیت دینے کے ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت پر بھر پور توجہ دی گئی ۔ اب ہریانہ میں قائم ہونیوالے ایسے ہی مرکزکو اس منصوبے کے بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جولائی 2014 ء کے دوران دونوں ممالک نے خفیہ اداروں کے تعاون کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے جس کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنا تھا۔ دونوں ممالک میں بدلتی ہوئی صورت حال کے تحت مزید تقویت دینے کے لیے پچھلے ہفتے کے دوران جب نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر پہنچے توان کا انتہائی شان دار استقبال کیا گیا۔ایک امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق'' ایسا شاندار استقبال یا تو امریکی صدرکا ہوتا ہے یا پوپ کا''۔ اس دورے میںمودی کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اسے بھی دنیا کا محفوظ ترین ہوٹل کہا جاتا ہے۔
جس پر بم دھماکوں اور کیمیائی حملوں کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ یہاں تک کہ اگر پورے ہوٹل کو بم سے اڑا بھی دیا جائے تو وہ کمرہ جس میں خاص مہمان ٹھہرا ہوا ہے محفوظ ہی رہے گا۔اسی محفوظ ہوٹل میں مودی کی آمد سے تین ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی قیام کرچکے ہیں۔ اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مودی کے اسرائیل پہنچنے سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی ساری کابینہ سے سے کہا کہ وہ ائیر پورٹ پر میرے ساتھ چل کر مودی کا استقبال کرے۔ یوں مودی کے استقبال کی تمام تیاریاں بالکل اسی طرح تھیں جیسی ڈونلڈ ٹرمپ کے استقبال کے موقعے پر کی گئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم سے باقاعدہ ملاقات سے قبل بھارتی وزیر اعظم نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا گیا۔جس کے بعد وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران سات معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں صنعتی ترقی میں تحقیق ،شہری سطح پر پانی کی تقسیم اور اسے محفوظ بنانے کا معاہدہ ، زرعی شعبے میں تین سالہ تعاون کا منصوبہ اورچھوٹے خلائی سیاروں کے شعبے میں تعاون کا منصوبہ شامل ہے۔
دنیا بھرکا ذرایع ابلاغ مودی کے دورہ اسرائیل کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ان میں سے زیادہ تر نے اپنی شہ سرخیوں میںدونوں شخصیات کی'' ایک جیسی سوچ'' کی سرخیاں شایع کی ہیں، لیکن بھارت کا غیر جانبدار حلقہ انتہائی حقیت پسندانہ انداز سے اس دورے کو امریکا اور بھارت کی دوستی کے ساتھ دنیا بھر میں امریکا کی نئی پالیسیوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہا ہے۔ امریکا کی سابق حکومت نے اسرائیل کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے اس سے دوری اختیار کر لی تھی، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل کرکے اور سعودی عرب کے دورے میں اپنے سخت بیانات کے بعد مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر بھی ہل چل برپا کر دی تھی۔ ایک بین الاقوامی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اس دورے کے سلسلے میں خود اسرائیل کے عوام کی سمجھ میں یہ بات نہیںآرہی کہ ماضی کے برعکس دونوں ممالک ایک دوسرے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اسے امریکا کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی، مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور بھارت کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی سے جوڑ رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب '' ایک جیسی سوچ '' کی بات چلتی ہے تو بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے تشدد اور فلسطین میں اسرئیل فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں پر تشدد کے علاوہ کوئی بھی ایسی روایتی یا موجودہ بات نہیں جس پر دونوں کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہو۔ شاید اسی لیے بھارت کے ایک مسلم رہنما نے اس دورے کے سلسلے میں ایک جملہ کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ''نریندر مودی کا اسرائیل کا دورہ صرف اسرائیل پر اس کے قبضے کو مستحکم کرے گا۔'' لیکن اس دورے کے بعد یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال میں ہماری خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟