’’جو کچھ سیکھا اپنے والد سے سیکھا‘‘

اشتیاق بشیر کا تعلق دہلی گھرانے سے ہے۔ اُن کے پردادا مدھن خان کا شمار اپنے عہد کے نام وَر گویوں میں ہوتا تھا۔

سچاموسیقار انسانیت کے قریب تر ہوتا ہے,اشتیاق بشیر فوٹو : فائل

یہ سُر کہانی ہے، جس کا اسلوب جادوئی ہے۔

اِس کہانی کا مرکزی کردار ایک ستھرا گائیک ہے، جو نقوش پا کے تعاقب میں ہے، ایک ایسی آواز کے نقوش پا کے تعاقب میں، جو حقیقتاً اُس کے اندر بولتی ہے!

یہ دل کش آواز کے مالک، اشتیاق احمد بشیر کا قصہ ہے، جو اُن کے قابل احترام والد، استاد بشیر احمد خان کے ذکر کے بغیر ادھورا معلوم ہوتا ہے کہ اشتیاق نے اُن ہی سے گنڈا بندھوایا۔ جو کچھ سیکھا، اُن ہی سے سیکھا۔ ہمیشہ اُن سا بننا چاہا۔ اور ناقدین متفق ہیں کہ اُنھوں نے خود تک پہنچنے والے ورثے کی حفاظت کی۔ یوں تو وہ کلاسیکی گائیکی کے اسرارورموز سے بھی واقف ہیں، مگر اظہار کا اصل میدان ٹھمری، دادرا، گیت اور غزل گائیکی ہے۔ تین عشروں سے زاید عرصے سے وہ اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے وہ ڈبل اے کیٹیگری کے آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ پی ٹی وی کے اے کیٹیگری کے آرٹسٹوں میں شمار ہوتا ہے۔2007 میں اُنھیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے، غزل کے شعبے میں نیشنل ایکسیلنسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس نے خدمات کا اعتراف کیا۔ دیگر تنظیموں کی جانب سے بھی نشان سپاس پیش کیے گئے۔

اُنھوں نے فقط سامعین سے داد نہیں سمیٹی، کئی قدآور فن کاروں نے بھی اُن کا کاندھا تھپتھپایا، جن میں شہنشاۂ غزل، مہدی حسن بھی شامل تھے، جنھوں نے اشتیاق کو سننے کے بعد استاد بشیر خان سے کہا تھا،''اشتیاق کو گھر بھجوائو، روزانہ ایک گھنٹے مجھ سے سیکھا کرے!'' یہ اشتیاق کے لیے ایک اعزاز تھا۔ ایسا ہی موقع اُس وقت آیا، جب ریڈیو پاکستان مہدی حسن کی آواز میں کلام اقبال ریکارڈ کر رہا تھا۔ اُس منصوبے کے لیے ایک ''سپورٹنگ وائس'' کی ضرورت تھی۔ خان صاحب نے اشتیاق بشیر کا انتخاب کیا۔ عہدحاضر کے عظیم ترین گائیک کی آواز سے آواز ملانا ایک یادگار تجربہ رہا۔ غلام علی صاحب کے ساتھ پرفارم کرنے کا بھی موقع ملا، جس کی یاد آج بھی ذہن کو مہکاتی ہے۔ مہدی حسن کے مانند جگجیت سنگھ، سلامت علی خان، فتح علی خان اور حامد علی خان نے بھی اِس فن کار کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

محافل اور تقریبات میں جہاں سامعین اُن سے مقبول عام غزلیں سُننے کی فرمایش کرتے ہیں، وہیں اُن کی اپنی ترتیب کردہ دھنیں بھی بہت پسند کی جاتی ہیں۔ البتہ کمپوزیشنز کو میوزک البم کی شکل دینے کا فی الحال ارادہ نہیں۔ اُن کے والد کی کمپوزکردہ دو غزلوں ''اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے'' اور ''دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے'' کی تو ہر محفل میں فرمایش ہوتی ہے۔ یوں تو کئی افراد نے اِن غزلوں کو گانے کی کوشش کی، لیکن جس ڈھب پر استاد بشیر خان نے اُنھیں گایا، اُس ڈھنگ سے اشتیاق ہی اِنھیں پیش کر سکے۔

عام طور سے ہارمونیم کے ساتھ پرفارم کرتے ہیں، البتہ دیگر ساز بھی بجا لیتے ہیں۔ ریاض باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ صبح کا وقت اِس کام کے لیے مقرر ہے۔ اُن کے نزدیک سچا موسیقار انسانیت کے قریب تر ہوتا ہے۔ ''سُر سچائی کے عکاس، محبت کا پیغام ہوتے ہیں!'' گائیکی ہی کُل وقتی مصروفیت ہے، خود کو ملازمت یا کاروبار کے جھمیلوں میں نہیں ڈالا۔ بہ قول اُن کے، اِس فن سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے کہ اظہار کا میدان فقط پاکستان تک محدود نہیں۔ اُن کے بھائی، اخلاق بشیر بھی موسیقی کی دنیا سے منسلک ہیں۔

والدین کا دیا ہوا نام اشتیاق احمد ہے۔ میدان گائیکی میں قدم رکھنے کے بعد اشتیاق بشیر ہوگئے۔ تعلق دہلی گھرانے سے ہے۔ اُن کے پردادا، مدھن خان کا شمار اپنے عہد کے نام وَر گویوں میں ہوتا تھا۔ بلا کے سارنگی نواز تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے بھی اُن سے اکتساب فیض کیا۔ مدھن خان کا انتقال روتک میں ہوا، وہیں مقبرہ ہے۔ اشتیاق کے دادا، مامن خان نے دہلی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد کلاسیکی گائیکی کے ساتھ قوالی کا بھی تجربہ کیا۔ اُن کے بیٹوں، غلام حسین عرف ٹنّا اور عابد حسین نے اِس کام کو آگے بڑھایا، مامن خان کے چھوٹے بیٹے، بشیر خان نے بھی اوائل عمری میں قوالیاں پیش کیں۔ تقسیم کے چند برس بعد اس گھرانے نے ہجرت کی۔ ابتداً لاہور میں قیام کیا۔ پھر کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہیں 1965 میں اشتیاق بشیر نے آنکھ کھولی۔

اپنے والد کی بابت گفت گو کرتے ہوئے کہتے ہیں،''پاکستان آنے کے بعد ہمارے گھرانے نے قوالی کا سلسلہ جاری رکھا، مگر میرے والد کا رجحان کلاسیکی گائیکی کی جانب تھا۔ اس میدان میں اُنھوں نے لطافت حسین خان کی شاگردی اختیار کی۔ بریلی گھرانے سے تعلق رکھنے والے لطافت حسین، لتا اور نوشاد صاحب کے استاد گردانے جانے والے مشتاق حسین خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ صابری برادرز نے بھی لطافت حسین خان سے فیض حاصل کیا۔'' آنے والے برسوں میں جہاں استاد بشیر خان نے قوالی میں کلاسیکی گائیکی کا کام یاب تجربہ کیا، وہیں نیم کلاسیکی گائیکی میں بھی خوب نام بنایا۔ اُن کی کئی دھنوں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

پانچ بہنوں، چھے بھائیوں میں اشتیاق تیسرے ہیں۔ شمار معتدل مزاج بچوں میں ہوتا تھا۔ شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ کھیلوں میں کرکٹ اُن کی دل چسپیوں کا محور رہا۔ والد سے دوستانہ روابط تھے۔ سزا کی خال خال ہی نوبت آتی۔ کہتے ہیں،''وہ دوروں پر چلے جاتے، تو کئی کئی ماہ بعد لوٹتے۔ اُن کی واپسی ہمارے لیے خوشیاں لاتی۔ والد صاحب کی موجودگی میں ہمارا ہر دن، عید کا دن ہوتا تھا۔''

گنتی قابل طلبا میں ہوتی تھی۔ کلاس کے مانیٹر رہے۔ اوروں کو اُن کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ آگے آگے رہتے۔ اسکول کے لیے کئی ٹرافیاں جیتیں ۔ 80ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنھوں نے اردو سائنس کالج میں قدم رکھا، جہاں سے 87ء میں بی ایس سی کی سند حاصل کی۔ آنے والے ماہ و سال فن کو تراشتے گزرے۔


اُن کی شناخت کا ایک حوالہ نعت خوانی بھی ہے۔ ابتداً اسکول میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت کی۔ نجی محافل میں عقیدت کا اظہار کیا۔ 79ء میں ریڈیو پاکستان نے ملکی سطح پر نعت خوانی کا ایک مقابلہ منعقد کیا۔ شرکت کرنے والے 150 نعت خواں حضرات میں سے فقط 10 کا انتخاب ہوا، جن میں اشتیاق پہلے نمبر پر تھے۔ جب منتخب ہونے والوں کے درمیان مقابلہ ہوا، تو خورشید احمد بازی لے گئے، اشتیاق نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اگلے برس مقابلہ منعقد ہوا، تو فصیح الدین سہروردی نے اول پوزیشن حاصل کی۔ اِس بار بھی اشتیاق دوسری پوزیشن پر براجمان تھے۔ نعت خوانی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اِسے وہ خالصتاً عقیدت کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔

گائیکی کا شوق تو بچپن ہی سے تھا، سیکھنے کی آرزو بھی تھی، مگر استاد بشیر خان کے پاس سِکھانے کے لیے وقت ہی کہاں تھا۔ مصروفیات اکثر انھیں کراچی سے باہر رکھتیں۔ گھر میں ہوتے بھی، تو روایتی ڈھب پر تربیت نہیں کرتے۔ تھوڑا بہت سمجھا دیتے، بس! اولاد کو یہی نصیحت کرتے کہ پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ اشتیاق کے بہ قول،''والد نے گھر میں گانے بجانے کا کوئی سامان نہیں رکھا تھا۔ نہ تو ہارمونیم، نہ ہی کوئی اور انسٹرومینٹ۔ میں نے اپنی کوششوں سے یہ فن سیکھا۔ والد کو دیکھا، دیگر سُریلے گلوکاروں کو دیکھا۔ یوں دھیرے دھیرے آگے بڑھتا رہا۔'' سفر کو آگے بڑھانے میں نجی محافل نے کلیدی کردار ادا کیا، جہاں اِس نوجوان گائیک کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔ اسکول اور کالج کی سطح پر ہونے والے فنکشنز میں بھی آواز کا جادو جگایا۔

85ء میں اُنھوں نے پی ٹی وی کے پروگرام ''رنگ ترنگ'' سے اپنے کیریر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پروگرام کے پروڈیوسر، عارف رانا، جب کہ موسیقار، نیاز احمد تھے۔ وہ تجربہ شان دار رہا۔ اُس وقت اُن کے والد لاہور میں تھے، اور نہیں جانتے تھے کہ اُن کا سپوت ٹی وی کے لیے ریکارڈنگ کروا رہا ہے۔ ''رنگ ترنگ'' سے شروع ہونے والا سلسلہ بہت تیزی سے آگے بڑھا۔ آنے والے برسوں میں ''گیت نگر''، ''گیت سنگیت''، ''پیمان وفا''، ''محفل شب''، ''بزم غزل''، ''سُر کا سفر'' اور ''جواں فکر'' سمیت پی ٹی وی کے کئی پروگراموں میںآواز کا جادو جگایا۔

90ء میں ریڈیو سے جُڑ گئے۔ گو ٹی وی سے گاتے ہوئے چھے سات سال ہوگئے تھے، لیکن ریڈیو کا حصہ بننے کے لیے باقاعدہ آڈیشن دینا پڑا کہ یہیں طریق تھا۔ وہاں اُن کی آواز میں کئی غزلیں، گیت، ملی نغمے ریکارڈ ہوئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

غیرملکی دوروں کا آغاز 86ء میں ہوا، جب اُنھوں نے والد کے ساتھ بنگلادیش کا رخ کیا۔ اُسی دورے سے تربیت کا سلسلہ، حقیقی معنوں میں، شروع ہوا۔ ڈھاکا میں ہونے والی ایک تقریب میں، اپنی پرفارمینس کے بعد استاد بشیر خان نے اشتیاق کو مائیک سونپ دیا، جنھوں راگ ایمن میں، والد ہی کی کمپوز کردہ ایک غزل پیش کی، جسے بہت پسند کیا گیا۔ سامعین کے ردعمل نے اشتیاق کا حوصلہ بڑھایا۔ وہاں سے بنکاک گئے۔ اِس بار بھی خوب پزیرائی ہوئی۔ پرفارمینس کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ فرمایشیں بھی آنے لگیں۔ اگلی منزل بھارت تھی، جہاں ہر محفل میں اُنھیں سراہا گیا۔ اِس دورے نے دنیا ہی بدل دی، اُنھیں استاد بشیر خان کا جانشیں تصور کیا جانے لگا۔ کہتے ہیں،''اس ٹور میں انھوں نے اتنا گوایا کہ مجھے میں اعتماد پیدا ہوگیا۔''

اُسی زمانے میں انھوں نے، ڈھاکا سے، ساڑھے چار ہزار روپے کا ہارمونیم خریدا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا، جب کوئی ساز گھر میں آیا۔

94ء میں اُنھوں نے سرحد عبور کی، تو کویت، بحرین، مسقط اور دبئی میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ اِس بار بھی خوب پزیرائی ہوئی۔ اگلا دورہ کینیا کا تھا، جہاں انوکھے تجربات سے گزرے۔ بتاتے ہیں،''وہ 13 اگست کی رات تھی۔ ہندو کمیونٹی کا پروگرام تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروگرام رات آٹھ بجے شروع ہوا، اور میں صبح آٹھ بجے تک گاتا رہا۔ وہ میری یادگار پرفارمینس تھی۔'' اگلے برس انھوں نے جنوبی افریقا کا رخ کیا۔ وہاں کئی شہروں میں پرفارم کیا۔ 2010 میں پھر کویت کا سفر کیا۔ چار پروگراموں کے لیے گئے تھے، دس پروگرام کرکے لوٹے۔

والد کا انتقال ان کی زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔ یہ سانحہ جنوری 97ء میں پیش آیا۔ استاد بشیر خان کا انتقال جنوبی افریقا میں ہوا۔ اشتیاق بتاتے ہیں،'' والد صاحب پاکستانی سفارت خانے اور جنوبی افریقا کی حکومت کے تعاون سے ڈربن میں، میرے پردادا، مدھن خان کے نام سے ایک اکیڈمی قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ کاغذی کارروائی مکمل ہوچکی تھی، کام شروع ہونے ہی والا تھا کہ بلاوا آگیا۔'' بعد میں اشتیاق صاحب کو اکیڈمی چلانے کی پیش کش کی گئی، لیکن اُس وقت کرب اتنا گہرا تھا کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکے۔

ماضی کے سیمی کلاسیکل سنگرز کے برعکس، آج اِس صنف میں طبع آزمائی کرنے والے فن کار زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر پاتے، اِس کا کیا سبب ہے؟ اس سوال کے جواب میں اشتیاق کہتے ہیں،''دیکھیں، پرائیویٹ چینلز آنے کے بعد معاملات بدل گئے ہیں۔ ماضی میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے ریکارڈ ہونے والا ایک گانا متعدد بار نشر ہوتا تھا۔ اگر گلوکار میں دم ہوتا، تو وہ اپنی جگہ بنا لیتا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ریکارڈ ہونے والے پروگرام ایک ہی بار چلتے ہیں۔ موجودہ حالات میں تو بڑے سے بڑا گویّا اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ سچ تو یہ ہے ہماری نسل کے گلوکاروں سے ناانصافی برتی گئی، اُن کا موازنہ اُن کے بڑوں سے کیا جاتا ہے، مگر معروضی حالات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔''
یہیں سے کلاسیکی موسیقی کے سامعین کی گھٹتی تعداد کا موضوع نکل آیا۔ اِس بابت کہتے ہیں،''والد صاحب نے اپنے دور میں پیش گوئی کر دی تھی کہ آنے والے زمانے میں کلاسیکی موسیقی سننے والے خال خال ہی ملا کریں گے، سامعین کے پاس وقت نہیں ہوگا، اور اُس دور میں نیم کلاسیکی موسیقی مقبول ہوگی۔ ان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ اب تو صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔ نیم کلاسیکی موسیقی کے سامعین کی تعداد بھی گھٹنے لگی ہے۔''

استاد بشیر خان کو کسی حکومتی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا، جس کا سبب اشتیاق کے مطابق اُن کی خودداری، انکساری اور قناعت پسندی تھی۔ ''اُنھوں نے کبھی ایوارڈز کے لیے کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ بھاگ دوڑ نہیں کی۔ جتنا ملا، اُس پر بہ خوشی گزارہ کر لیا۔'' ہاں، یہ شکایت ضرور ہے کہ حکومت نے اُس طرز پر فن کاروں کی پرورش نہیں کی، جس ڈھب کی جانی چاہیے تھی۔ میڈیا سے بھی شکایت ہے۔ کہنا ہے، پی ٹی وی نے کئی آرٹسٹ پیدا کیے، مگر دیگر چینلز یہ کردار ادا نہیں کرسکے۔ اداروں پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ارمان ہے کہ ثقافت کے نام پر قائم ہونے والے ادارے، حقیقی فن کاروں کو پرموٹ کریں۔ ''موسیقی روبہ زوال ہے۔ آج سُریلے گلوکار گھر بیٹھے ہیں، جب کہ بے سُرے گا رہے ہیں۔ اچھے آرٹسٹوں سے کام نہیں لیا جارہا۔ یہ امر افسوس ناک ہے۔'' اِسی احساس سے دکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔ ''جس شعبے سے آپ وابستہ ہیں، جس کے لیے آپ نے اپنی زندگی دے دی، اگر وہ زوال کی جانب جائے گا، تو آپ کو دُکھ تو ہوگا۔''

لباس کے معاملے میں اشتیاق صاحب کی کوئی خاص پسند نہیں، البتہ پرفارمینس کے سمے شلوار کرتے کا چنائو کرتے ہیں۔ معتدل موسم پسند ہے۔ ہر سُریلی آواز اچھی لگتی ہے۔ ساز کی بات ہو، تو ستار پسند ہے، اِس میدان میں استاد ولایت خان اور استاد رئیس خان کے مداح ہیں۔ فلموں میں زیادہ دل چسپی نہیں۔ شاعری میں فیض کا نام لیتے ہیں۔ اُن کی غزلیں کمپوز بھی کیں۔ فکشن میں اشفاق احمد کے مداح ہیں۔ جاوید جعفری کا شعری مجموعہ ''بھید بھرا سناٹا'' من پسند کتاب ہے۔ 90ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے تین بیٹیوں، دو بیٹوں سے نوازا۔ بچوں میں بھی گائیکی کا شوق منتقل ہوا۔
Load Next Story