جاوید ہاشمی ۔ منظر پس منظر

1993ء میں نواز شریف نے مسلم لیگ نواز کے نام سے نئی مسلم لیگ قائم کی تو جاوید ہاشمی نئی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

WASHINGTON:
عین اس وقت جب کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ اپنا حتمی فیصلہ صادرکے قریب پہنچ چکی ہے، جاوید ہاشمی نے ایک بار پھر دھواں دار پریس کانفرنس کی ہے اور اس سارے عمل کو '' جمہوریت اور سیاست دانوں '' کے خلاف کسی '' ان دیکھی سازش''سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قریب قریب وہی تھیوری ہے، جو جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد حکومتی کیمپ بیچنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پریس کانفرنس کا خلاصہ یہ ہے کہ نام لیے بغیر موصوف نے اداروں کی طرف انگلی اٹھائی ہے اور عمران خان کو ان کا آلہ ء کار قرار دیا ہے۔

اگرچہ نوازشریف کو بھی استعفا دینے کے لیے کہا، لیکن پریس کانفرنس کا ہدف ادارے اور عمران خان ہی تھے۔ اپنی پریس کانفرنس میں جاویدہاشمی نے پانامہ کیس پر بات نہیں کی لہٰذا جاویدہاشمی کی یہ پریس کانفرنس حکومتی کیمپ ہی کی پریس کانفرنس تھی۔ مگر شاید اب وہ خود اور ان کی سیاست زیادہ موثر نہیں ہے۔

جنوبی پنجاب میں مصطفیٰ کھر بھی اسی صف میں ہیں۔ چنانچہ جب بھی ملکی سیاست میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے، وہ '' ابھی تو میں جوان ہوں '' کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ وہ سیاسی تعلق بھی تبدیل کرتے رہے ہیں مگر تحریک انصاف سے فراغت ان کو کافی مہنگی پڑی ہے ، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو وہ اب تک معاف نہیں کر سکے ہیں۔جاوید ہاشمی کی ''سیاست''نے اسلامی جمعیت طلبہ میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جمعیت کا ڈنکا بجتا تھا۔ جاوید ہاشمی جمعیت کے ' امیدوار رکنیت ' تھے، جب وہ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

1971ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی بدترین شکست سے نڈھال تھی، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی کامیابی جماعت اسلامی کے لیے نفسیاتی سہارا بن گئی۔ وہ جمعیت اور جماعت کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد جاویدہاشمی نے جماعت اسلامی کا رکن بننے کے لیے درخواست جمع کرا دی تھی اور وہ منظور بھی کر لی گئی تھی، مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر انھوں نے جماعت کا رکن بننے سے معذرت کر لی۔

کہا جاتا ہے کہ ان کے بعض صحافی دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ جماعت اسلامی کا کوئی انتخابی مستقبل نہیں۔ اگر آگے بھی ان کو انتخابی سیاست کرنی ہے تو جماعت اسلامی کے بجائے کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کریں۔7 جنوری 1977ء کو وزیراعظم بھٹو نے 7 مارچ کو قومی اسمبلی اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔

یہ ائر مارشل ( ر ) اصغر خان اور ان کی تحریک استقلال کے عروج کا دور ہے۔ جاوید ہاشمی تحریک استقلال میں شامل ہو گئے۔ ائر مارشل(ر) اصغر خان نے اپنے سیاسی ڈائری My Political Journey ( میرا سیاسی سفر ) میں جاوید ہاشمی کے تحریک استقلال میں شامل ہونے اور اسے چھوڑنے کا تذکرہ بڑے دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔ 5جولائی 1978ء کو چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل ضیاالحق کی سترہ وفاقی وزرا اورپانچ وزراے مملکت پر مشتمل وفاقی کابینہ میں جاوید ہاشمی کی شمولیت چوہدری ظہورالٰہی مرحوم کی کاوش کا نتیجہ تھی۔


یوں جاوید ہاشمی کے لیے ''وزارت امور طلبہ اور نوجوانان'' کے نام سے نئی وزارت وجود میں آ گئی ۔ 23 اگست 1977ء کواکیس وفاقی وزرا اور تین وزراے مملکت پر مشتمل جنرل ضیاالحق کی نئی کابینہ نے حلف اٹھایا، جس میں قومی اتحاد کے وزرا بھی شامل تھے تو جاوید ہاشمی اس مارشل لا کابینہ میں بھی شامل تھے۔

1985ء میں جاوید ہاشمی نے پہلی بار الیکشن لڑا اور اول اول قومی اسمبلی میں جنرل ضیاالحق سے ناراض گروپ، جس کی قیادت سید فخرامام کررہے تھے، میں شامل ہو گئے، 1988 ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بن گئے، بلکہ 1988ء اور 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد ہی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ 1993ء میں نواز شریف نے مسلم لیگ نواز کے نام سے نئی مسلم لیگ قائم کی تو جاوید ہاشمی نئی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

ن لیگ میں جاوید ہاشمی کو اہمیت ملی10 دسمبر 2000ء کو، جب نواز شریف، جنرل مشرف سے معاہدہ کرکے دس سال کے لیے جدہ چلے گئے اور جاتے جاتے ایک چٹ کے ذریعے جاوید ہاشمی کو ن لیگ کا صدر اور راجہ ظفر الحق کو چیئرمین بنا گئے۔ صدر ن لیگ بننے کے بعد نوازشریف کے اشارے پرچوہدری پرویزالٰہی اور ان کے ساتھیوں کو پارٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا ۔

2002 ء میں وہ ملتان سے ہارگئے، مگر نوازشریف نے1993ء کی طرح دوبارہ ان کولاہور سے کامیاب کرا دیا، تاکہ ان کی غیرموجودگی میں وہ ن لیگ کی '' دیکھ بھال'' کر سکیں۔ اپریل 2005 ء میں ان پر ''مقدمہ بغاوت'' قائم ہوا، اور ان کو سزا ہو گئی۔ 2008ء میں ان کو نہ صرف یہ کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نہیں بنایا گیا ، بلکہ اس کے بعد اس حد تک ان کو نظر انداز کیا کہ انھوں نے ن لیگ کو خیر باد کہنے میں عافیت سمجھی۔ تاہم اس سے پہلے وہ عمران خان کی تحریک انصاف میں اپنی صدارت پکی کر چکے تھے۔ یہ عمران خان کی جلد بازی بھی تھی اور غلطی بھی۔

11 مئی 2013ء کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں جاوید ہاشمی نے اپنے پہلے خطاب ہی میں نوازشریف کو اپنا'' لیڈر'' قرار دے ڈالا، جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کہ اندرون خانہ وہ اب بھی ن لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ عمران خان نے پھر بھی نظر انداز کیا، مگر پھر عین اس وقت جب کہ عمران خان پارلیمنٹ ہاوس کے باہر اپنی سیاسی زندگی کی ایک بڑی لڑائی لڑ رہے ہیں، جاوید ہاشمی نے عقب سے عمران خان پر اس طرح کاری وار کیا کہ ایک بار تو عمران خان بھی ڈگمگاگئے ۔ جاوید ہاشمی نے الزام لگایا کہ دھرنا سیاست عمران خان فوج کے بعض جنرلوں اورعدلیہ کے بعض ججوں سے مل کر رہے تھے۔

جاویدہاشمی نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں ایک بار پھر ویسی ہی باتیں کی ہیں، مگر شاید اب نہ وہ منظر ہے ، نہ وہ پس منظر اور نہ نوازشریف کے خلاف وہ دھاندلی والا پرانا کیس ہے ۔ پانامہ کیس کی نوعیت قطعاً مختلف ہے ۔ بہرحال جاوید ہاشمی پیرانہ سالی کے باوجود میدان میں آئے ہیں اور نواز شریف کو بچانے کی کوشش ہے، آگے ان کی قسمت۔
Load Next Story