امدادی طریقہ کار کی تبدیلی انقلاب لاسکتی ہے
وقت اب سچا انقلاب مانگ رہا ہے اور اس حقیقی انقلاب کے لیے 2018 میں ایک موقع ہمارے سامنے ہے۔
NEW YORK:
غربت کوکوسنے کے بجائے ان عوامل کو سمجھنا ضروری ہے، جوغریب کو فقیر بنانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ قصہ کہانیوں میں خاص طور پر شیخ چلی کی کہانی میں ہم نے ایسے واقعات ضرور پڑھے تھے کہ ایک غریب آدمی کی مرغی نے جو انڈا دیا اس سے ایک چوزا نکلا جو مرغی بنی پھر اس نے انڈے دیے ان تمام انڈوں سے چوزے نکلے جو بہت ساری مرغیاں بنیں اور سب کے انڈوں سے بہت سے چوزے نکلے اور یوں وہ ایک مرغی اور ایک انڈے کا مالک بڑا رئیس کاروباری بن گیا۔ جب وہ اس سارے خواب سے باہر نکلا تو جو انڈہ ہاتھوں میں تھا وہ بھی پھوٹ گیا اور وہ غریب سے غریب تر ہوگیا۔
ہم بھی اپنے معاشرے میں غریب کو فقیر ہوتے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہم سماج میں سدھار اور غربت کے خاتمے کی کہانیاں تو بہت سن رہے ہیں لیکن عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو بہتری کا راستہ بنانے اور دکھانے کے بجائے مفلسی اور غربت کی آبیاری کر رہا ہے جب کہ ہم بھوکے کو روٹی دے کر، سڑکوں پہ دسترخوان لگاکر سہل پسندی کا وہ راستہ دکھا رہے ہیں جن کے سبب وہ فکر معاش سے بالکل ہی غافل ہوتا چلا جارہا ہے اور اس غفلت کا شکار ہونے والے کمیونٹی کی صورت میں ایک کموڈیٹی بن چکے ہیں اور مفلسی کا سفر نشیب کی طرف ہوگیا ہے اور دینے والے یا اس کی مدد کرنے والے بلندیاں طے کر رہے ہیں۔
غربت ایک کیفیت کا نام ہے۔ کسی کے لیے تکلیف دہ توکسی کے لیے ذریعہ معاش بھی ہے۔ امداد دینے والوں میں کسی کے لیے ایسی سیڑھی جو جنت کے دروازے تک لے جاتی ہے توکسی کو شہرت کی بلندیوں پر، تو کسی کی ذات کی تسلی کا سامان بھی۔ لیکن غربت اور مفلسی کے خاتمے کی فکرکہیں عیاں نظر نہیں آتی اور نہ ہی حکومت اور ریاست کے عمل میں اور نہ ہی وہ افراد جو معاشرے کی درجہ بندی میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ ریاست، حکومت اور مخیر حضرات سمیت سب کو یہ ادراک ہونا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ غربت کا علاج نہیں۔
بھوکے کو راشن ملے گا تو وہ کتنے دن چلے گا؟ بدن کو ڈھانپنے والا لباس کب تک نہیں پھٹے گا؟ سڑک اور چوراہوں پر کھڑے فقیروں کو دی جانے والی رقم وہ کتنی ہی قلیل ہو کثرت سے ملنے کے سبب پیشہ ورانہ غربت کو جنم دے چکی ہے بلکہ گدا گری کی مضبوط مافیا بن گئی ہے۔ عبدالستار ایدھی سڑکوں پر رچی بسی گدا گری کے سخت خلاف تھے۔انھوں نے اس کے خاتمے کا ایک ہی علاج بتایا تھا کہ دینا چھوڑ دیجیے یہ اپنے آپ ہی ختم ہوجائیں گے۔ ان کی اس بات کی روشنی میں کہ ان کو دینا مسئلے کا حل نہیں، نہ دینا مسئلے کا حل ہے۔
مختلف ادوار میں حکومتیں بیرونی طاقتوں سے امداد یا بھاری رقومات لیتی چلی آرہی ہیں جو حکومت سے عوام تک آتے آتے بیسواں حصہ بھی نہیں پہنچتی، راستے میں ہی ان ذہنی مفلسوں میں تقسیم ہوجاتی ہے جو مانگتے تو نہیں مفت ہاتھ آئے تو کیا برا ہے کہ مصداق ہتھیا لیتا ہے اور یہ غیر ملکی قرضے اور امداد جو کہ ہمارے ذہنوں کو مفلوج بھی کر رہی ہے اور قرضے تعمیری کاموں میں لگانے کے بجائے خود ہتھیائے جارہے ہیں۔
ان کی غیرت کی کھال موٹی سے موٹی ہوتی جارہی ہے اور جن کو ہاتھ پھیلاکر مل رہا ہے ان کی عزت نفس کا سودا ایسے ہورہا ہے کہ اب قوم نہ پوری سو رہی ہے اور نہ پوری جاگ رہی ہے بلکہ اونگھ رہی ہے اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قوم تین حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔
ریاست و حکومت Haveیعنی VIP کلچر کے پروردہ افراد اور Have Not ہاتھ پھیلائے ایک بڑی کمیونٹی جو کموڈیٹی کے طور پر بلندیوں پر رہنے والوں کی ترقی کی ضامن بنتی جارہی ہے جتنی زیادہ غربت و افلاس اور آفتیں اتنی ہی زیادہ امداد ملنے اور کھلنے کے راستے اسی غربت کے سہارے سرعت سے ترقی کرنے والوں میں ریاست و حکومت کے مد مقابل فلاحی ادارے بھی جنم لے چکے ہیں جو بہت اچھا کام بھی کررہے ہیں لیکن مفت علاج اچھا کام نہیں یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ فلاحی مدد غریب کے لیے تو مدد ضرور ہے لیکن ریاست و مفلوج کررہی ہے۔
وقت اب سچا انقلاب مانگ رہا ہے اور اس حقیقی انقلاب کے لیے 2018 میں ایک موقع ہمارے سامنے ہے۔ اس میں ان قوتوں کو سر کردہ بنایا جائے جو شتر بے مہارکے بجائے روایت شکن بن کر کھڑے ہوں۔ دلدلوں میں پھنسی ابہام کا شکار عوام کی تقدیر بدلنے کی سکت رکھتے ہوں، زبانی جمع خرچ، تسلیوں اور وعدوں سے پر نعروں کے بجائے ایسی تبدیلی لاسکے جس میں ریاست اور حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور جہاں نہ کر پا رہی ہو وہاں امداد کرنے والوں کا طریقہ یہ نہ ہو کہ ضرورت مند کو رقم یا اشیا پکڑا کر اس کے مسئلے کا حل سمجھ لیا کہ ذمے داری پوری ہوگئی نہیں! ہر گز نہیں۔ بلکہ اس غریب کے بچے کو اسی اسکول میں تعلیم دلوانے کی ذمے داری لے جہاں اس کا اپنا بچہ اپنے خاندان کے بچے پڑھ رہے ہوں۔
اسے راشن دینے کے بجائے ایسا کام دے جس سے اجرت ملے اور وہ اس اجرت سے راشن خریدے۔ سر راہ دستر خوان بچھانے کے بجائے جہاں ہر روز فرد کی غیرت مجروح ہوکر اسے اپنی اصلاح سے دور کرتی چلی جارہی ہے۔ اسے اپنے راستوں اور گلیوں کی آراستگی سونپ کر انھیں اتنی اجرت دے کہ سڑک پر کھانے کے بجائے اپنے گھر میں پکوا سکے اور اگر کسی اور شہر سے آیا ہوا ہے تو اپنی اجرت سے ہی ہوٹل میں کھانا کھاسکے۔
بے سہارا بزرگوں، اسپتالوں میں داخل تنہائی کے شکار مریضوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کی مدد ہاتھ پیر رکھنے والوں سے کروا کے اس خدمت کے صلے میں اجرت دیجیے جو انھیں مانگنے کی لعنت سے دور رکھے۔ جسمانی رضا کارانہ خدمت جو ہم خود نہیں کرسکتے تو ان بے روزگاروں سے جو مانگنے پر مجبور یا عادی ہوگئے ہیں انھیں اجرتیں دے کر کروایا جاسکتا ہے۔
کراچی کی ایک بستی میں، میں نے معذور افراد کا ایک ایسا ادارہ دیکھا جس میں کافی تعداد پیروں سے معذور ایسے افراد کام کررہے ہیں جو سائیکلوں اور اسکوٹروں کی مرمت، بازار سے کم اجرتوں میں کرتے ہیں جس کے سبب ان کے اس چھوٹے سے کارخانے پر مرمت کروانے والوں کا ہجوم لگا ہوا ہوتا ہے اور کام کرنے والے یہ تمام نہ صرف اپنے گھروں کے کفیل ہیں بلکہ ایسے کافی معذور بچوں کی تربیت بھی کررہے ہوتے ہیں کہ اس کام کو سیکھیں اور سمجھیں کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اور خود کفیل رہو۔ غربت سے نکلنے اور بچنے کے اور بہت سے راستے ہیں اور اب اس لعنت سے نکلنا یوں بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم عملی طور پر ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عالمی قرضوں اور امداد لینے والی صفوں میں کھڑے رہنے کے سبب بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے سر جھکائے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے فیصلے بھی اپنے ہاتھوں میں نظر نہیں آتے۔
کھانا، تعلیم، علاج اور چھت ریاست کرے تو اس کا فرض اور آئینی ذمے داری ہے اور شہری کا یہ بنیادی حق، لیکن اس کے برعکس یہی چار ضرورتیں اگر کوئی امیر کسی غریب کے لیے کرتا ہے تو وہ زکوٰۃ، خیرات، صدقہ اور بھیک جو وہ اپنے طریقہ کار کے سبب اختیار کرتا ہے تو یہ غریب کی عزت نفس کا سودا بن جاتی ہے۔ غریب کی ضرورت اپنی جگہ مسلم لیکن اس کے طریقہ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے مضبوط اور معقول نظام کی ضرورت ہے جو ضرورت مند کی ضرورت کو بھیک یا خیرات کے بجائے حق کی شکل میں دلوایا جاسکے۔
یہ سب کچھ ایسے مضبوط رہنما ہی کرسکتے ہیں جو بھوک اور افلاس کو سمجھتے ہوں اور یہ سب کچھ انھوں نے خود دیکھا اور وہ جو صرف اﷲ کی رضا کے لیے خیرات تقسیم کرتے ہیں ان پر بھی جتنا فخر کیا جائے کم ہے کہ انھی کی وجہ سے پاکستان کا نام چیریٹی کرنے کے حوالے سے سے دنیا کے سرفہرست ناموں میں شامل ہے لیکن یہاں ایک بہت بڑا تضاد کھڑا نظر آتا ہے، ایک طرف ہم امداد مانگنے والی حکومت اور قوم تو دوسری جانب امداد دینے والوں میں ہم سر فہرست لہٰذا اس تناظر میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نظام کی تبدیلی کہہ لیں یا پھر انقلاب جو انسانوں کی درجہ بندی کی کمی کا سبب بن سکے۔ قوم کو اس دہرے نظام کی دلدل سے نکالنے کے لیے ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو شفافیت پر مبنی ہو اور ہر فرد کو سر اٹھا کر چلنے کے قابل بناسکے اس سے ہی ہم ایک خوددار اور فرض شناس قوم کا درجہ حاصل کرسکیں گے۔
غربت کوکوسنے کے بجائے ان عوامل کو سمجھنا ضروری ہے، جوغریب کو فقیر بنانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ قصہ کہانیوں میں خاص طور پر شیخ چلی کی کہانی میں ہم نے ایسے واقعات ضرور پڑھے تھے کہ ایک غریب آدمی کی مرغی نے جو انڈا دیا اس سے ایک چوزا نکلا جو مرغی بنی پھر اس نے انڈے دیے ان تمام انڈوں سے چوزے نکلے جو بہت ساری مرغیاں بنیں اور سب کے انڈوں سے بہت سے چوزے نکلے اور یوں وہ ایک مرغی اور ایک انڈے کا مالک بڑا رئیس کاروباری بن گیا۔ جب وہ اس سارے خواب سے باہر نکلا تو جو انڈہ ہاتھوں میں تھا وہ بھی پھوٹ گیا اور وہ غریب سے غریب تر ہوگیا۔
ہم بھی اپنے معاشرے میں غریب کو فقیر ہوتے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہم سماج میں سدھار اور غربت کے خاتمے کی کہانیاں تو بہت سن رہے ہیں لیکن عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو بہتری کا راستہ بنانے اور دکھانے کے بجائے مفلسی اور غربت کی آبیاری کر رہا ہے جب کہ ہم بھوکے کو روٹی دے کر، سڑکوں پہ دسترخوان لگاکر سہل پسندی کا وہ راستہ دکھا رہے ہیں جن کے سبب وہ فکر معاش سے بالکل ہی غافل ہوتا چلا جارہا ہے اور اس غفلت کا شکار ہونے والے کمیونٹی کی صورت میں ایک کموڈیٹی بن چکے ہیں اور مفلسی کا سفر نشیب کی طرف ہوگیا ہے اور دینے والے یا اس کی مدد کرنے والے بلندیاں طے کر رہے ہیں۔
غربت ایک کیفیت کا نام ہے۔ کسی کے لیے تکلیف دہ توکسی کے لیے ذریعہ معاش بھی ہے۔ امداد دینے والوں میں کسی کے لیے ایسی سیڑھی جو جنت کے دروازے تک لے جاتی ہے توکسی کو شہرت کی بلندیوں پر، تو کسی کی ذات کی تسلی کا سامان بھی۔ لیکن غربت اور مفلسی کے خاتمے کی فکرکہیں عیاں نظر نہیں آتی اور نہ ہی حکومت اور ریاست کے عمل میں اور نہ ہی وہ افراد جو معاشرے کی درجہ بندی میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ ریاست، حکومت اور مخیر حضرات سمیت سب کو یہ ادراک ہونا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ غربت کا علاج نہیں۔
بھوکے کو راشن ملے گا تو وہ کتنے دن چلے گا؟ بدن کو ڈھانپنے والا لباس کب تک نہیں پھٹے گا؟ سڑک اور چوراہوں پر کھڑے فقیروں کو دی جانے والی رقم وہ کتنی ہی قلیل ہو کثرت سے ملنے کے سبب پیشہ ورانہ غربت کو جنم دے چکی ہے بلکہ گدا گری کی مضبوط مافیا بن گئی ہے۔ عبدالستار ایدھی سڑکوں پر رچی بسی گدا گری کے سخت خلاف تھے۔انھوں نے اس کے خاتمے کا ایک ہی علاج بتایا تھا کہ دینا چھوڑ دیجیے یہ اپنے آپ ہی ختم ہوجائیں گے۔ ان کی اس بات کی روشنی میں کہ ان کو دینا مسئلے کا حل نہیں، نہ دینا مسئلے کا حل ہے۔
مختلف ادوار میں حکومتیں بیرونی طاقتوں سے امداد یا بھاری رقومات لیتی چلی آرہی ہیں جو حکومت سے عوام تک آتے آتے بیسواں حصہ بھی نہیں پہنچتی، راستے میں ہی ان ذہنی مفلسوں میں تقسیم ہوجاتی ہے جو مانگتے تو نہیں مفت ہاتھ آئے تو کیا برا ہے کہ مصداق ہتھیا لیتا ہے اور یہ غیر ملکی قرضے اور امداد جو کہ ہمارے ذہنوں کو مفلوج بھی کر رہی ہے اور قرضے تعمیری کاموں میں لگانے کے بجائے خود ہتھیائے جارہے ہیں۔
ان کی غیرت کی کھال موٹی سے موٹی ہوتی جارہی ہے اور جن کو ہاتھ پھیلاکر مل رہا ہے ان کی عزت نفس کا سودا ایسے ہورہا ہے کہ اب قوم نہ پوری سو رہی ہے اور نہ پوری جاگ رہی ہے بلکہ اونگھ رہی ہے اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قوم تین حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔
ریاست و حکومت Haveیعنی VIP کلچر کے پروردہ افراد اور Have Not ہاتھ پھیلائے ایک بڑی کمیونٹی جو کموڈیٹی کے طور پر بلندیوں پر رہنے والوں کی ترقی کی ضامن بنتی جارہی ہے جتنی زیادہ غربت و افلاس اور آفتیں اتنی ہی زیادہ امداد ملنے اور کھلنے کے راستے اسی غربت کے سہارے سرعت سے ترقی کرنے والوں میں ریاست و حکومت کے مد مقابل فلاحی ادارے بھی جنم لے چکے ہیں جو بہت اچھا کام بھی کررہے ہیں لیکن مفت علاج اچھا کام نہیں یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ فلاحی مدد غریب کے لیے تو مدد ضرور ہے لیکن ریاست و مفلوج کررہی ہے۔
وقت اب سچا انقلاب مانگ رہا ہے اور اس حقیقی انقلاب کے لیے 2018 میں ایک موقع ہمارے سامنے ہے۔ اس میں ان قوتوں کو سر کردہ بنایا جائے جو شتر بے مہارکے بجائے روایت شکن بن کر کھڑے ہوں۔ دلدلوں میں پھنسی ابہام کا شکار عوام کی تقدیر بدلنے کی سکت رکھتے ہوں، زبانی جمع خرچ، تسلیوں اور وعدوں سے پر نعروں کے بجائے ایسی تبدیلی لاسکے جس میں ریاست اور حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور جہاں نہ کر پا رہی ہو وہاں امداد کرنے والوں کا طریقہ یہ نہ ہو کہ ضرورت مند کو رقم یا اشیا پکڑا کر اس کے مسئلے کا حل سمجھ لیا کہ ذمے داری پوری ہوگئی نہیں! ہر گز نہیں۔ بلکہ اس غریب کے بچے کو اسی اسکول میں تعلیم دلوانے کی ذمے داری لے جہاں اس کا اپنا بچہ اپنے خاندان کے بچے پڑھ رہے ہوں۔
اسے راشن دینے کے بجائے ایسا کام دے جس سے اجرت ملے اور وہ اس اجرت سے راشن خریدے۔ سر راہ دستر خوان بچھانے کے بجائے جہاں ہر روز فرد کی غیرت مجروح ہوکر اسے اپنی اصلاح سے دور کرتی چلی جارہی ہے۔ اسے اپنے راستوں اور گلیوں کی آراستگی سونپ کر انھیں اتنی اجرت دے کہ سڑک پر کھانے کے بجائے اپنے گھر میں پکوا سکے اور اگر کسی اور شہر سے آیا ہوا ہے تو اپنی اجرت سے ہی ہوٹل میں کھانا کھاسکے۔
بے سہارا بزرگوں، اسپتالوں میں داخل تنہائی کے شکار مریضوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کی مدد ہاتھ پیر رکھنے والوں سے کروا کے اس خدمت کے صلے میں اجرت دیجیے جو انھیں مانگنے کی لعنت سے دور رکھے۔ جسمانی رضا کارانہ خدمت جو ہم خود نہیں کرسکتے تو ان بے روزگاروں سے جو مانگنے پر مجبور یا عادی ہوگئے ہیں انھیں اجرتیں دے کر کروایا جاسکتا ہے۔
کراچی کی ایک بستی میں، میں نے معذور افراد کا ایک ایسا ادارہ دیکھا جس میں کافی تعداد پیروں سے معذور ایسے افراد کام کررہے ہیں جو سائیکلوں اور اسکوٹروں کی مرمت، بازار سے کم اجرتوں میں کرتے ہیں جس کے سبب ان کے اس چھوٹے سے کارخانے پر مرمت کروانے والوں کا ہجوم لگا ہوا ہوتا ہے اور کام کرنے والے یہ تمام نہ صرف اپنے گھروں کے کفیل ہیں بلکہ ایسے کافی معذور بچوں کی تربیت بھی کررہے ہوتے ہیں کہ اس کام کو سیکھیں اور سمجھیں کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اور خود کفیل رہو۔ غربت سے نکلنے اور بچنے کے اور بہت سے راستے ہیں اور اب اس لعنت سے نکلنا یوں بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم عملی طور پر ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عالمی قرضوں اور امداد لینے والی صفوں میں کھڑے رہنے کے سبب بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے سر جھکائے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے فیصلے بھی اپنے ہاتھوں میں نظر نہیں آتے۔
کھانا، تعلیم، علاج اور چھت ریاست کرے تو اس کا فرض اور آئینی ذمے داری ہے اور شہری کا یہ بنیادی حق، لیکن اس کے برعکس یہی چار ضرورتیں اگر کوئی امیر کسی غریب کے لیے کرتا ہے تو وہ زکوٰۃ، خیرات، صدقہ اور بھیک جو وہ اپنے طریقہ کار کے سبب اختیار کرتا ہے تو یہ غریب کی عزت نفس کا سودا بن جاتی ہے۔ غریب کی ضرورت اپنی جگہ مسلم لیکن اس کے طریقہ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے مضبوط اور معقول نظام کی ضرورت ہے جو ضرورت مند کی ضرورت کو بھیک یا خیرات کے بجائے حق کی شکل میں دلوایا جاسکے۔
یہ سب کچھ ایسے مضبوط رہنما ہی کرسکتے ہیں جو بھوک اور افلاس کو سمجھتے ہوں اور یہ سب کچھ انھوں نے خود دیکھا اور وہ جو صرف اﷲ کی رضا کے لیے خیرات تقسیم کرتے ہیں ان پر بھی جتنا فخر کیا جائے کم ہے کہ انھی کی وجہ سے پاکستان کا نام چیریٹی کرنے کے حوالے سے سے دنیا کے سرفہرست ناموں میں شامل ہے لیکن یہاں ایک بہت بڑا تضاد کھڑا نظر آتا ہے، ایک طرف ہم امداد مانگنے والی حکومت اور قوم تو دوسری جانب امداد دینے والوں میں ہم سر فہرست لہٰذا اس تناظر میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نظام کی تبدیلی کہہ لیں یا پھر انقلاب جو انسانوں کی درجہ بندی کی کمی کا سبب بن سکے۔ قوم کو اس دہرے نظام کی دلدل سے نکالنے کے لیے ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو شفافیت پر مبنی ہو اور ہر فرد کو سر اٹھا کر چلنے کے قابل بناسکے اس سے ہی ہم ایک خوددار اور فرض شناس قوم کا درجہ حاصل کرسکیں گے۔