ہماری زندگی کا سائنسی کتب خانہ آخری حصہ
جاپان کی مختلف دماغی ریسرچ سینٹروں میں پیدائشی طور پر ذہنی پس ماندہ بچوں کے بارے میں کافی ریسرچ ہورہی ہے۔
یہ ایک طرح سے دماغ کی بنیاد ہوتی ہے اس کی نشوونما کا سلسلہ تیزی سے جاری رہتا ہے، مثلاً اعصابی خلیوں میں تقسیم کا عمل جاری رہتا ہے اس کے تین ماہ بعد وہ نظام وجود میں آتا ہے جو دماغ کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے یعنی اعصابی ریشے بننے لگتے ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے میں برقی سگنل بھیجتے ہیں۔ یہ خلیے پورے دماغ میں پھیل جاتے ہیں اور ان کے درمیان گہرا رابطہ پیدا ہوجاتا ہے اس نظام پر انسان کو آیندہ اپنی پوری زندگی گزارنی ہوتی ہے۔
یہ وہ نظام ہے جو اپنی بے انتہا پیچیدگیوں کے سبب آج بھی خلا میں جست لگانے والے انسان کے لیے ناقابل فہم ہے اعصابی خلیوں کے درمیان رابطوں کا ایسا نظام شاید ہی کائنات میں کہیں اور پایا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت اس کے دماغ کا سائز ایک بالغ شخص کے دماغ کا دو تہائی ہوتا ہے لیکن ماہرین کے نزدیک ایک لحاظ سے دنیا کا یہ سب سے پیچیدہ عضو نامکمل ہوتا ہے کیونکہ ابھی اسے بہت کچھ سیکھنا ہے اور بہت کچھ سمجھنا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانی دماغ کو اتنی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں کہ ہم تمام زندگی میں ان کا عشر عشیر بھی استعمال نہیں کر پاتے۔ دماغ کی کارکردگی بجائے خود انسان کے لیے محیرالعقول ہے۔ دنیا میں اس وقت کئی لیبارٹریوں میں دماغ کے پر اسرارگوشوں کو بے نقاب کیا جارہا ہے، ان میں جاپان کے نیشنل سینٹر آف نیورولوجی اینڈ سائیکاٹری کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ساچپوتا کاشیما انسٹیٹیوٹ برائے دماغ امراض کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں اس کے علاوہ واکا شہر میں انسٹیٹیوٹ آف فزیکل اینڈ کیمیکل ریسرچ کے چیف منسٹرکیاجی تنا کا کوئی بھی اس اعتبار سے بہت شہرت حاصل ہے کہ ان کی تحقیقات برطانوی سائنس جرنل میں شایع ہوتی ہے ۔
تنا کا کی تحقیقات کا بنیادی مقصد یہ دیکھنا ہے کہ جب انسان کوئی چیز دیکھتا ہے تو دماغ اسے اپنے پردے پر کسی طرح اجاگرکرتا ہے۔ اس تحقیقی کاوشوں میں یونیورسٹی آف یورو ریسرچ کے تناکا کہتے ہیں کہ 300 گرام وزنی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ چیز ہے، سمجھ، بوجھ، فیصلہ کرنے کی قوت اور حافظے کو تو علیحدہ رہنے دیں آپ صرف دیکھنے کے عمل کو ہی لے لیں ہم ابھی تک یہ نہیں جان سکے ہیں کہ دماغ کس طرح آنکھوں سے موصول ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے جب دماغ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کے خاص سیل متحرک ہوجاتے ہیں۔
تجربات کے دوران بندروں کے دماغ میں خاص قسم کے آلات نصب کیے گئے تھے بندروں کو مختلف چیزیں دکھاکر آلات کے ذریعے یہ پتا چلایا گیا کہ اس وقت بندروں کے دماغ کے کون کون سے خلیے متحرک ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ دماغ کے تمام رد عمل برقی کرنٹ کے ذریعے وجود میں آجاتے ہیں اور کسی چیز کو دیکھنے کے بعد دماغ کے جس حصے میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے وہی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے مثلاً پہلے بندر کو شیر دکھاکر اس کے دماغ کے خلیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا پھر اسے ایسی چیزیں دکھائی گئیں جن سے کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ اگر مختلف چیزوں کو دیکھ کر دماغ کے اندر ہونے والے کیمیاوی عمل کا لائحہ عمل سمجھ لیا گیا تو اس کی کارکردگی کے مزید کئی پہلو بے نقاب ہوںگے۔ اس وقت صرف بندروں میں ڈھائی سو سے زائد اقسام کے دماغی خلیوں کا پتا چلا ہے جو مختلف قسم کارد عمل ظاہر کرتے ہیں یہ تو صرف دماغ کے دیکھنے کا کام ہے سوچنے اور سمجھنے میں بھی دماغ کے کروڑوں خلیے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔
مسٹر تناکا کا کہناہے کہ دماغ کا جو حصہ دیکھنے کا کام کرتا ہے اس سے اعصابی خلیے تجربات کی بنیاد پر مسلسل دماغ کے نئے سرکٹ بناتے رہتے ہیں مثلاً جب آپ کوئی نیا چہرہ یا کوئی نیا مقام دیکھتے ہیں تو دماغ اسے محفوظ کرلیتا ہے لیکن دماغ کے اندر کسی چیز کو دیکھنے اور محفوظ کرنے کی مشینری جس طرح کام کرتی ہے اسے سمجھنے کے لیے ابھی کئی دہائیاں درکار ہیں البتہ اب ایسے حساس ترین آلات اور الیکٹرانک طاقت و خورد بینیں وجود میں آچکی ہیں جو دماغ کے اندر اس کی کارکردگی دیکھنے کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔
مثال کے طور پر حال ہی میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ جب انسان غصے میں ہوتا ہے تو کس طرح اس کے دماغ کے اندر سرخ رنگ کی روشنی سی پیدا ہوتی ہے اور جب انسان حیرت انگیز لمحات سے گزرتا ہے تو کس طرح مختلف قسم کی روشنیاں نکلتی ہیں اور دونوں صورتوں میں کس طرح کروڑوں خلیے مل کر مختلف قسم کے احساسات کو جنم دیتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار انسانی دماغ کی کارکردگی اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر اس سے ایسے حیرت انگیز کام لیے جاسکتے ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا ایک معمولی سا مظاہرہ آپ اکثر ہیپنا ٹائزم کے دوران دیکھتے ہیں جاپان میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کے نیورو سرجری ڈپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نومیو ساسا کی کے بہ قول انسانی دماغ جتنا پیچیدہ ہے۔ اتنا ہی نازک بھی ہے اور بے پناہ مضبوط بھی دماغی خلیوں کی کارکردگی میں معمولی سا فرق بھی انسانی کو ایب نارمل بنادیتا ہے یہی وجہ ہے کہ دماغی بیماریوں پر مکمل طور پر قابو پانا ذرا مشکل ہے۔
سرجری کے دوران اگر بولنے، دیکھنے یا سوچنے سمجھنے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی خلیے کو نقصان پہنچ جائے تو انسان مکمل طور پر اپاہج ہوسکتا ہے۔ لہٰذا بے پناہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے خوش قسمتی سے 20 سال میں دماغ کی سرجی اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ انسان قدرت کے اس شاہکار کی گہرائیوں میں ہونے والے کارروائیوں کو بہ چشم خود دیکھ سکتا ہے کیونکہ اندر جوکچھ ہوتا ہے اسے انسانی ساختہ طاقتور دور بینی کیمروں کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے، خاص طور پر سرجری کے طالب علم ان کیمروں سے بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔
جاپان کی مختلف دماغی ریسرچ سینٹروں میں پیدائشی طور پر ذہنی پس ماندہ بچوں کے بارے میں کافی ریسرچ ہورہی ہے۔ فی الحال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے لیکن جاپانی سائنس دان یہ کوشش کررہے ہیں کہ پیدائش سے پہلے رحم مادر میں ہی اس قسم کے نقص کو دورکردیا جائے اگر اس ضمن میں کامیابی حاصل ہوگئی تو یہ دماغ پر فتح حاصل کرنے کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔
نیوروسرجن تاکا شیما کا کہناہے کہ ماہرین کے نزدیک قبل از پیدائش رحم مادر کے اندر ماحول بھی بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پیدا ہونے کے بعد کا ماحول۔ اب یہ بھی پتا چلا ہے کہ دوران حمل جو مائیں موسیقی سنتی ہیں ان کے بچے بھی موسیقی کے رسیا ہوتے ہیں اسی طرح مائیں جو کچھ سوچتی ہیں ان کا براہ راست بچے کے دماغ پر اثر پڑتا ہے اور بچے کی شخصیت کے ابتدائی نقوش بھی معرض وجود میں آتے ہیں ان ہی عوامل کی بنا پر ماہرین نے کہاہے کہ :
''جو مائیں حمل کے دوران سگریٹ یا شراب پیتی ہیں تو اس کا اثر بچے کی نشوونما پر پڑتا ہے''
تاکا شیما کے مطابق لیبارٹریوں میں تجربات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رحم مادر میں بچہ جس طرح اور جس قسم کے ماحول میں زندگی گزارتا ہے وہ دنیا کے ماحول سے زیادہ اہم ہے۔
یہ وہ نظام ہے جو اپنی بے انتہا پیچیدگیوں کے سبب آج بھی خلا میں جست لگانے والے انسان کے لیے ناقابل فہم ہے اعصابی خلیوں کے درمیان رابطوں کا ایسا نظام شاید ہی کائنات میں کہیں اور پایا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت اس کے دماغ کا سائز ایک بالغ شخص کے دماغ کا دو تہائی ہوتا ہے لیکن ماہرین کے نزدیک ایک لحاظ سے دنیا کا یہ سب سے پیچیدہ عضو نامکمل ہوتا ہے کیونکہ ابھی اسے بہت کچھ سیکھنا ہے اور بہت کچھ سمجھنا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانی دماغ کو اتنی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں کہ ہم تمام زندگی میں ان کا عشر عشیر بھی استعمال نہیں کر پاتے۔ دماغ کی کارکردگی بجائے خود انسان کے لیے محیرالعقول ہے۔ دنیا میں اس وقت کئی لیبارٹریوں میں دماغ کے پر اسرارگوشوں کو بے نقاب کیا جارہا ہے، ان میں جاپان کے نیشنل سینٹر آف نیورولوجی اینڈ سائیکاٹری کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ساچپوتا کاشیما انسٹیٹیوٹ برائے دماغ امراض کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں اس کے علاوہ واکا شہر میں انسٹیٹیوٹ آف فزیکل اینڈ کیمیکل ریسرچ کے چیف منسٹرکیاجی تنا کا کوئی بھی اس اعتبار سے بہت شہرت حاصل ہے کہ ان کی تحقیقات برطانوی سائنس جرنل میں شایع ہوتی ہے ۔
تنا کا کی تحقیقات کا بنیادی مقصد یہ دیکھنا ہے کہ جب انسان کوئی چیز دیکھتا ہے تو دماغ اسے اپنے پردے پر کسی طرح اجاگرکرتا ہے۔ اس تحقیقی کاوشوں میں یونیورسٹی آف یورو ریسرچ کے تناکا کہتے ہیں کہ 300 گرام وزنی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ چیز ہے، سمجھ، بوجھ، فیصلہ کرنے کی قوت اور حافظے کو تو علیحدہ رہنے دیں آپ صرف دیکھنے کے عمل کو ہی لے لیں ہم ابھی تک یہ نہیں جان سکے ہیں کہ دماغ کس طرح آنکھوں سے موصول ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے جب دماغ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کے خاص سیل متحرک ہوجاتے ہیں۔
تجربات کے دوران بندروں کے دماغ میں خاص قسم کے آلات نصب کیے گئے تھے بندروں کو مختلف چیزیں دکھاکر آلات کے ذریعے یہ پتا چلایا گیا کہ اس وقت بندروں کے دماغ کے کون کون سے خلیے متحرک ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ دماغ کے تمام رد عمل برقی کرنٹ کے ذریعے وجود میں آجاتے ہیں اور کسی چیز کو دیکھنے کے بعد دماغ کے جس حصے میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے وہی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے مثلاً پہلے بندر کو شیر دکھاکر اس کے دماغ کے خلیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا پھر اسے ایسی چیزیں دکھائی گئیں جن سے کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ اگر مختلف چیزوں کو دیکھ کر دماغ کے اندر ہونے والے کیمیاوی عمل کا لائحہ عمل سمجھ لیا گیا تو اس کی کارکردگی کے مزید کئی پہلو بے نقاب ہوںگے۔ اس وقت صرف بندروں میں ڈھائی سو سے زائد اقسام کے دماغی خلیوں کا پتا چلا ہے جو مختلف قسم کارد عمل ظاہر کرتے ہیں یہ تو صرف دماغ کے دیکھنے کا کام ہے سوچنے اور سمجھنے میں بھی دماغ کے کروڑوں خلیے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔
مسٹر تناکا کا کہناہے کہ دماغ کا جو حصہ دیکھنے کا کام کرتا ہے اس سے اعصابی خلیے تجربات کی بنیاد پر مسلسل دماغ کے نئے سرکٹ بناتے رہتے ہیں مثلاً جب آپ کوئی نیا چہرہ یا کوئی نیا مقام دیکھتے ہیں تو دماغ اسے محفوظ کرلیتا ہے لیکن دماغ کے اندر کسی چیز کو دیکھنے اور محفوظ کرنے کی مشینری جس طرح کام کرتی ہے اسے سمجھنے کے لیے ابھی کئی دہائیاں درکار ہیں البتہ اب ایسے حساس ترین آلات اور الیکٹرانک طاقت و خورد بینیں وجود میں آچکی ہیں جو دماغ کے اندر اس کی کارکردگی دیکھنے کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔
مثال کے طور پر حال ہی میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ جب انسان غصے میں ہوتا ہے تو کس طرح اس کے دماغ کے اندر سرخ رنگ کی روشنی سی پیدا ہوتی ہے اور جب انسان حیرت انگیز لمحات سے گزرتا ہے تو کس طرح مختلف قسم کی روشنیاں نکلتی ہیں اور دونوں صورتوں میں کس طرح کروڑوں خلیے مل کر مختلف قسم کے احساسات کو جنم دیتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار انسانی دماغ کی کارکردگی اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر اس سے ایسے حیرت انگیز کام لیے جاسکتے ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا ایک معمولی سا مظاہرہ آپ اکثر ہیپنا ٹائزم کے دوران دیکھتے ہیں جاپان میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کے نیورو سرجری ڈپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نومیو ساسا کی کے بہ قول انسانی دماغ جتنا پیچیدہ ہے۔ اتنا ہی نازک بھی ہے اور بے پناہ مضبوط بھی دماغی خلیوں کی کارکردگی میں معمولی سا فرق بھی انسانی کو ایب نارمل بنادیتا ہے یہی وجہ ہے کہ دماغی بیماریوں پر مکمل طور پر قابو پانا ذرا مشکل ہے۔
سرجری کے دوران اگر بولنے، دیکھنے یا سوچنے سمجھنے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی خلیے کو نقصان پہنچ جائے تو انسان مکمل طور پر اپاہج ہوسکتا ہے۔ لہٰذا بے پناہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے خوش قسمتی سے 20 سال میں دماغ کی سرجی اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ انسان قدرت کے اس شاہکار کی گہرائیوں میں ہونے والے کارروائیوں کو بہ چشم خود دیکھ سکتا ہے کیونکہ اندر جوکچھ ہوتا ہے اسے انسانی ساختہ طاقتور دور بینی کیمروں کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے، خاص طور پر سرجری کے طالب علم ان کیمروں سے بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔
جاپان کی مختلف دماغی ریسرچ سینٹروں میں پیدائشی طور پر ذہنی پس ماندہ بچوں کے بارے میں کافی ریسرچ ہورہی ہے۔ فی الحال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے لیکن جاپانی سائنس دان یہ کوشش کررہے ہیں کہ پیدائش سے پہلے رحم مادر میں ہی اس قسم کے نقص کو دورکردیا جائے اگر اس ضمن میں کامیابی حاصل ہوگئی تو یہ دماغ پر فتح حاصل کرنے کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔
نیوروسرجن تاکا شیما کا کہناہے کہ ماہرین کے نزدیک قبل از پیدائش رحم مادر کے اندر ماحول بھی بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پیدا ہونے کے بعد کا ماحول۔ اب یہ بھی پتا چلا ہے کہ دوران حمل جو مائیں موسیقی سنتی ہیں ان کے بچے بھی موسیقی کے رسیا ہوتے ہیں اسی طرح مائیں جو کچھ سوچتی ہیں ان کا براہ راست بچے کے دماغ پر اثر پڑتا ہے اور بچے کی شخصیت کے ابتدائی نقوش بھی معرض وجود میں آتے ہیں ان ہی عوامل کی بنا پر ماہرین نے کہاہے کہ :
''جو مائیں حمل کے دوران سگریٹ یا شراب پیتی ہیں تو اس کا اثر بچے کی نشوونما پر پڑتا ہے''
تاکا شیما کے مطابق لیبارٹریوں میں تجربات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رحم مادر میں بچہ جس طرح اور جس قسم کے ماحول میں زندگی گزارتا ہے وہ دنیا کے ماحول سے زیادہ اہم ہے۔