شمس العلما مرزا قلیچ بیگ
مرزا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتے لکھنے پڑھنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
میں جتنی تحقیق کرتا جاتا ہوں، اس سے زیادہ سندھ میں شخصیات مل رہی ہیں، جن کی خدمات اسلام، سماج، سیاست، تاریخ، علم، ادب اور انسانیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی یہ ہوتی ہے کہ ان شخصیات نے سہولتیں نہ ہونے کے باوجود اتنا کام کیسے کرلیا جب کہ ہم صرف انگلی گھماتے ہیں تو منٹوں میں پوری دنیا کی معلومات ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
سندھ کی معروف اور مقبول ادبی اور علمی شخصیت شمس العلما مرزا قلیچ بیگ نے سندھی ادب کی دنیا میں 385 کتابیں لکھ کر ایک انقلاب برپا کردیا۔ ان کتابوں میں نثر اور شاعری بھی شامل ہے۔ کچھ کتابیں ان کی زندگی میں شایع ہوئیں اور کچھ بعد میں اور اتنا کچھ مواد اب بھی مسودہ کی صورت میں پڑا ہوا ہے جسے سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ کو چھپوانا چاہیے۔
مرزا نے کئی کتابیں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو سے سندھی زبان میں ترجمہ کیں، جن کی بڑی اہمیت ہے اور سندھی لوگوں کو دوسری زبانوں کے علم اور ادب سے روشناس کروایا۔ اس طرح سے سندھی ادب کو شاہکار بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے، جس میں ہارٹیکلچر، اکنامکس، ڈرامے، کہانیاں اور بچوں کا ادب شامل ہے۔ وہ واحد سندھی رائٹر تھے جنھوں نے سندھی ادب کی دنیا میں سنگ بنیاد رکھا جس کی بعد میں آنے والے ادیبوں نے تقلید کی اور ان کے چھوڑے ہوئے ادبی رسم و رواج کے راستے پر چل کر سندھی ادب کو بلندیوں تک پہنچایا، ان کی کھڑی کی ہوئی ادبی عمارت کو مزید خوبصورت بنانے اور اسے سنوارنے میں جدت بھی لائے۔ سندھی ادب میں نقاد کے کردار کو بھی انھوں نے پیدا کیا، اس کے علاوہ انھیں ناول نگاری، آرٹیکل اور سوانح حیات کا بانی بھی کہا جاسکتا ہے۔
مرزا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتے لکھنے پڑھنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ایک ہی وقت میں تین سے چار کتاب لکھنے کا کام کرتے۔ صبح، دوپہر، شام اور رات الگ الگ کتابیں لکھتے، جو ایک ریکارڈ ہے۔ مگر عبادت کے وقت وہ کسی اور چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ انھوں نے گھر کے باغیچے میں لکڑی کا ایک چھوٹا کمرہ بنایا تھا جہاں وہ اپنا لکھنے اور پڑھنے کا کام بڑے پرسکون ماحول میں کیا کرتے تھے۔ ان کی علمی اور ادبی خدمات کے سلسلے میں انھیں 1906 میں قیصر ہند کے ٹائٹل سے نوازا گیا تھا، جب کہ 1924 میں انھیں شمس العلما اور خان بہادر کے خطاب دیے گئے۔ جب کہ عوام نے انھیں فادر آف سندھی لٹریچر اور سندھ کا شیکسپیئر کے خطاب دیے۔
مرزا قلیچ بیگ 7 اکتوبر 1853 میں ٹنڈی ٹھوڑہی گاؤں میں پیدا ہوئے جو حیدرآباد کے قریب ہے۔ ان کے والد سندھ میں آکر آباد ہوئے تھے، ان کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں مرزا بیٹوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد شفیع محمد کے پاس حاصل کی اور پھر انھیں ایک سندھی پرائمری اسکول میں داخل کیا گیا، جہاں پر انھوں نے سندھی کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی بھی سیکھ لی۔
1865 میں وہ اینگلو ورنیکیولر اسکول حیدرآباد میں داخل ہوئے۔ 1873 میں وہ بمبئی جاگر ایلیفنٹن کالج میں پڑھنے لگے، جہاں سے انھوں نے بی اے کا امتحان دینا تھا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ سخت بیمارہیں تو وہ پڑھائی چھوڑ کر واپس چلے آئے، اس دوران ان کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس صدمے سے وہ ذہنی طور پر پریشان رہنے لگے، جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ بی اے کے فائنل امتحان نہ دے سکے۔ وہ 1876 میں سندھ واپس چلے آئے۔
بمبئی میں رہنے کے دوران انھیں دو چیزیں بھائیں، جس میں ایک ان کے ٹیچر حیرت تھے اور دوسرا وہاں پر کالج کی رنگین زندگی، جس سے وہ بڑے متاثر ہوئے۔ پروفیسر مرزا کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اور انھوں نے شاعری میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مرزا کی ہمت افزائی کی۔ پروفیسر کی وجہ سے مرزا میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بڑھ گیا اور انھوں نے عربی، فارسی اور انگریزی کی اچھی اچھی کتابیں پڑھ ڈالیں، اس کے علاوہ انھوں نے ترکی زبان بھی سیکھ لی۔ اس کی وجہ سے پروفیسر حیرت نے پہلی مرتبہ مرزا کو قلیچ کا خطاب دیا، جس کا مطلب ترکی زبان میں تلوار ہے۔
بمبئی یونیورسٹی میں کئی زبانیں جاننے والے اور کئی مذہب اور ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبا پڑھتے تھے، جن کی الگ الگ تہذیب، رسم و رواج، زندگی گزارنے کا اسٹائل تھا، جنھیں وہ دیکھتے رہتے تھے اور سمجھنے کی کوشش کرتے۔ سندھ میں واپسی پر وہ کراچی ہائی اسکول میں فارسی کے ٹیچر بن گئے۔
مرزا کو Revenue محکمے سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ حکومت وقت کی اجازت سے ریونیو دفاتر جاکر وہاں پر ہونے والے کام میں دلچسپی لے کر کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ ٹرینری اور کرائم کے کاموں میں بھی اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے، جس کے لیے انھوں نے کئی کتابیں بھی پڑھ لیں، جس میں خاص طور پر قانون کی کتابیں شامل تھیں۔
1879 میں وہ ریونیو محکمے میں ہونے والے مجسٹریٹ کے لیے ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور مرزا وہ واحد Candidate تھے جنھوں نے یہ امتحان پاس کرلیا اور انھیں ہیڈ منشی کے طور پر بھرتی کرلیا گیا۔ 1880 میں انھیں نوکری ملی اور 1882 میں ترقی ہوئی اور مختیارکار بن گئے، ان کی پہلی پوسٹنگ مٹھی میں کی گئی، جو اب ضلع دادو میں ہے۔ 1891 میں محکمہ کی طرف سے ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور اس میں پاس ہونے کے بعد انھیں سٹی مجسٹریٹ بنایا گیا۔ اسی دوران انھیں ڈپٹی کلکٹر کا چارج بھی دیا گیا جس کا دفتر شکارپور میں تھا، کیونکہ اس وقت لاڑکانہ اور دوسرے علاقے شکارپور ضلع میں آتے تھے۔
وہ سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کرتے رہے اور اپنے علمی اور ادبی سفر کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ وہ 1910 میں اپنی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوگئے۔ اپنی پوری سروس کے دوران ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا اور محبت والا تھا کہ وہ سندھ کے لوگوں میں بڑے مقبول ہوگئے اور ان کا دل جیت لیا۔ حکومت وقت بھی ان کی کارکردگی سے بڑی خوش تھی کیونکہ وہ ہمیشہ انصاف، ایمانداری اور ٹائم کی پابندی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے جس کی وجہ سے حکومت نے انھیں کئی انعامات اور خطابات سے نوازا۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں، جو ایک کے مر جانے کے بعد دوسری کی، ان کے 11 بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔
مرزا کا ناول 'زینت' بڑا مشہور ہوا، جس پر پی ٹی وی نے سندھی میں ڈرامہ بنایا تھا، جسے عبدالکریم بلوچ نے پروڈیوس کیا تھا۔ ایک ڈرامہ کی کتاب جسے روسی ادیب گوگول نے لکھا تھا، اس کے انگریزی ترجمہ سے سندھی میں ترجمہ کرکے ایک تحفہ پیش کیا۔ ان کی اپنی سوانح حیات '' ساؤ پن کارو پنو'' بھی ایک بڑا شاہکار ہے۔ دیوان گدومل اور سادھو ہیرانند، جو سندھ میں اچھی حیثیت رکھتے تھے وہ مرزا کے کلاس فیلو تھے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں قرض لینے کو بڑا برا کہا ہے اور اسے انسان کی تباہی کی ابتدا بتایا ہے۔
مرزا کے والد فریدون بیگ بھی بڑے پڑھے لکھے تھے۔ ان کی والدہ بڑی جرأت مند اور عقلمند تھیں، جس کی وجہ سے ان کی بیٹھک پر سنگیت کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، انھوں نے اپنے شوق کی خاطر سنسکرت، مراٹھی اور گجراتی زبانیں بھی سیکھ لیں۔ ان کی لکھی ہوئی کافیوں کی کتاب 'سودائی خادم' ہے۔ 1920 میں جب لاڑکانہ میں پہلی کل سندھی ادبی کانفرنس منعقد ہوئی اس کی صدارت مرزا نے کی تھی۔ انھیں روزانہ ڈائری لکھنے کا بڑا شوق تھا۔ 457 کتابیں لکھنے پر ان کے دوست کوڑومل نے ایک دن مرزا کو کہا کہ وہ کتاب لکھنے کی مشین ہیں۔
مرزا کو شاہ عبداللطیف بھٹائی سے بڑی عقیدت تھی اور بھٹائی کے کلام کو اکٹھا کرکے احوال شاہ لطیف، شاہ جو رسالو، لطیفی لغات، شاہ جے رسالے جس کنجی، وغیرہ لکھیں، اس کے علاوہ سندھ کے کلاسیکل شاعروں کی شاعری کے مشکل الفاظ کے معنی کی کتاب لغات قدیمی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سندھ کے عالموں کے آفتاب مرزا قلیچ بیگ آخرکار علمی اور ادبی کارنامہ انجام دیتے دیتے اس دنیا سے 3 جولائی 1929 کو رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
سندھ کی معروف اور مقبول ادبی اور علمی شخصیت شمس العلما مرزا قلیچ بیگ نے سندھی ادب کی دنیا میں 385 کتابیں لکھ کر ایک انقلاب برپا کردیا۔ ان کتابوں میں نثر اور شاعری بھی شامل ہے۔ کچھ کتابیں ان کی زندگی میں شایع ہوئیں اور کچھ بعد میں اور اتنا کچھ مواد اب بھی مسودہ کی صورت میں پڑا ہوا ہے جسے سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ کو چھپوانا چاہیے۔
مرزا نے کئی کتابیں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو سے سندھی زبان میں ترجمہ کیں، جن کی بڑی اہمیت ہے اور سندھی لوگوں کو دوسری زبانوں کے علم اور ادب سے روشناس کروایا۔ اس طرح سے سندھی ادب کو شاہکار بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے، جس میں ہارٹیکلچر، اکنامکس، ڈرامے، کہانیاں اور بچوں کا ادب شامل ہے۔ وہ واحد سندھی رائٹر تھے جنھوں نے سندھی ادب کی دنیا میں سنگ بنیاد رکھا جس کی بعد میں آنے والے ادیبوں نے تقلید کی اور ان کے چھوڑے ہوئے ادبی رسم و رواج کے راستے پر چل کر سندھی ادب کو بلندیوں تک پہنچایا، ان کی کھڑی کی ہوئی ادبی عمارت کو مزید خوبصورت بنانے اور اسے سنوارنے میں جدت بھی لائے۔ سندھی ادب میں نقاد کے کردار کو بھی انھوں نے پیدا کیا، اس کے علاوہ انھیں ناول نگاری، آرٹیکل اور سوانح حیات کا بانی بھی کہا جاسکتا ہے۔
مرزا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتے لکھنے پڑھنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ایک ہی وقت میں تین سے چار کتاب لکھنے کا کام کرتے۔ صبح، دوپہر، شام اور رات الگ الگ کتابیں لکھتے، جو ایک ریکارڈ ہے۔ مگر عبادت کے وقت وہ کسی اور چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ انھوں نے گھر کے باغیچے میں لکڑی کا ایک چھوٹا کمرہ بنایا تھا جہاں وہ اپنا لکھنے اور پڑھنے کا کام بڑے پرسکون ماحول میں کیا کرتے تھے۔ ان کی علمی اور ادبی خدمات کے سلسلے میں انھیں 1906 میں قیصر ہند کے ٹائٹل سے نوازا گیا تھا، جب کہ 1924 میں انھیں شمس العلما اور خان بہادر کے خطاب دیے گئے۔ جب کہ عوام نے انھیں فادر آف سندھی لٹریچر اور سندھ کا شیکسپیئر کے خطاب دیے۔
مرزا قلیچ بیگ 7 اکتوبر 1853 میں ٹنڈی ٹھوڑہی گاؤں میں پیدا ہوئے جو حیدرآباد کے قریب ہے۔ ان کے والد سندھ میں آکر آباد ہوئے تھے، ان کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں مرزا بیٹوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد شفیع محمد کے پاس حاصل کی اور پھر انھیں ایک سندھی پرائمری اسکول میں داخل کیا گیا، جہاں پر انھوں نے سندھی کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی بھی سیکھ لی۔
1865 میں وہ اینگلو ورنیکیولر اسکول حیدرآباد میں داخل ہوئے۔ 1873 میں وہ بمبئی جاگر ایلیفنٹن کالج میں پڑھنے لگے، جہاں سے انھوں نے بی اے کا امتحان دینا تھا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ سخت بیمارہیں تو وہ پڑھائی چھوڑ کر واپس چلے آئے، اس دوران ان کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس صدمے سے وہ ذہنی طور پر پریشان رہنے لگے، جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ بی اے کے فائنل امتحان نہ دے سکے۔ وہ 1876 میں سندھ واپس چلے آئے۔
بمبئی میں رہنے کے دوران انھیں دو چیزیں بھائیں، جس میں ایک ان کے ٹیچر حیرت تھے اور دوسرا وہاں پر کالج کی رنگین زندگی، جس سے وہ بڑے متاثر ہوئے۔ پروفیسر مرزا کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اور انھوں نے شاعری میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مرزا کی ہمت افزائی کی۔ پروفیسر کی وجہ سے مرزا میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بڑھ گیا اور انھوں نے عربی، فارسی اور انگریزی کی اچھی اچھی کتابیں پڑھ ڈالیں، اس کے علاوہ انھوں نے ترکی زبان بھی سیکھ لی۔ اس کی وجہ سے پروفیسر حیرت نے پہلی مرتبہ مرزا کو قلیچ کا خطاب دیا، جس کا مطلب ترکی زبان میں تلوار ہے۔
بمبئی یونیورسٹی میں کئی زبانیں جاننے والے اور کئی مذہب اور ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبا پڑھتے تھے، جن کی الگ الگ تہذیب، رسم و رواج، زندگی گزارنے کا اسٹائل تھا، جنھیں وہ دیکھتے رہتے تھے اور سمجھنے کی کوشش کرتے۔ سندھ میں واپسی پر وہ کراچی ہائی اسکول میں فارسی کے ٹیچر بن گئے۔
مرزا کو Revenue محکمے سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ حکومت وقت کی اجازت سے ریونیو دفاتر جاکر وہاں پر ہونے والے کام میں دلچسپی لے کر کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ ٹرینری اور کرائم کے کاموں میں بھی اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے، جس کے لیے انھوں نے کئی کتابیں بھی پڑھ لیں، جس میں خاص طور پر قانون کی کتابیں شامل تھیں۔
1879 میں وہ ریونیو محکمے میں ہونے والے مجسٹریٹ کے لیے ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور مرزا وہ واحد Candidate تھے جنھوں نے یہ امتحان پاس کرلیا اور انھیں ہیڈ منشی کے طور پر بھرتی کرلیا گیا۔ 1880 میں انھیں نوکری ملی اور 1882 میں ترقی ہوئی اور مختیارکار بن گئے، ان کی پہلی پوسٹنگ مٹھی میں کی گئی، جو اب ضلع دادو میں ہے۔ 1891 میں محکمہ کی طرف سے ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور اس میں پاس ہونے کے بعد انھیں سٹی مجسٹریٹ بنایا گیا۔ اسی دوران انھیں ڈپٹی کلکٹر کا چارج بھی دیا گیا جس کا دفتر شکارپور میں تھا، کیونکہ اس وقت لاڑکانہ اور دوسرے علاقے شکارپور ضلع میں آتے تھے۔
وہ سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کرتے رہے اور اپنے علمی اور ادبی سفر کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ وہ 1910 میں اپنی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوگئے۔ اپنی پوری سروس کے دوران ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا اور محبت والا تھا کہ وہ سندھ کے لوگوں میں بڑے مقبول ہوگئے اور ان کا دل جیت لیا۔ حکومت وقت بھی ان کی کارکردگی سے بڑی خوش تھی کیونکہ وہ ہمیشہ انصاف، ایمانداری اور ٹائم کی پابندی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے جس کی وجہ سے حکومت نے انھیں کئی انعامات اور خطابات سے نوازا۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں، جو ایک کے مر جانے کے بعد دوسری کی، ان کے 11 بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔
مرزا کا ناول 'زینت' بڑا مشہور ہوا، جس پر پی ٹی وی نے سندھی میں ڈرامہ بنایا تھا، جسے عبدالکریم بلوچ نے پروڈیوس کیا تھا۔ ایک ڈرامہ کی کتاب جسے روسی ادیب گوگول نے لکھا تھا، اس کے انگریزی ترجمہ سے سندھی میں ترجمہ کرکے ایک تحفہ پیش کیا۔ ان کی اپنی سوانح حیات '' ساؤ پن کارو پنو'' بھی ایک بڑا شاہکار ہے۔ دیوان گدومل اور سادھو ہیرانند، جو سندھ میں اچھی حیثیت رکھتے تھے وہ مرزا کے کلاس فیلو تھے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں قرض لینے کو بڑا برا کہا ہے اور اسے انسان کی تباہی کی ابتدا بتایا ہے۔
مرزا کے والد فریدون بیگ بھی بڑے پڑھے لکھے تھے۔ ان کی والدہ بڑی جرأت مند اور عقلمند تھیں، جس کی وجہ سے ان کی بیٹھک پر سنگیت کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، انھوں نے اپنے شوق کی خاطر سنسکرت، مراٹھی اور گجراتی زبانیں بھی سیکھ لیں۔ ان کی لکھی ہوئی کافیوں کی کتاب 'سودائی خادم' ہے۔ 1920 میں جب لاڑکانہ میں پہلی کل سندھی ادبی کانفرنس منعقد ہوئی اس کی صدارت مرزا نے کی تھی۔ انھیں روزانہ ڈائری لکھنے کا بڑا شوق تھا۔ 457 کتابیں لکھنے پر ان کے دوست کوڑومل نے ایک دن مرزا کو کہا کہ وہ کتاب لکھنے کی مشین ہیں۔
مرزا کو شاہ عبداللطیف بھٹائی سے بڑی عقیدت تھی اور بھٹائی کے کلام کو اکٹھا کرکے احوال شاہ لطیف، شاہ جو رسالو، لطیفی لغات، شاہ جے رسالے جس کنجی، وغیرہ لکھیں، اس کے علاوہ سندھ کے کلاسیکل شاعروں کی شاعری کے مشکل الفاظ کے معنی کی کتاب لغات قدیمی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سندھ کے عالموں کے آفتاب مرزا قلیچ بیگ آخرکار علمی اور ادبی کارنامہ انجام دیتے دیتے اس دنیا سے 3 جولائی 1929 کو رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔