ایک مرتبہ پھر چند ’’کالمی پیروڈیاں‘‘

اس بات کا کسی کو علم نہیں کہ کمپیوٹر کی ایجاد سب سے پہلے بغداد میں عباسی خلافت کے دوران ہوئی تھی.

barq@email.com

کافی عرصہ پہلے ہم نے اپنے اسی کالم میں کچھ کالموں کی پیروڈیاں کی تھیں ارادہ تھا کہ اس سلسلے کو آگے بڑھا کر کبھی کبھار قلم کا اور اپنے منہ کا ذائقہ بدلا کریں گے لیکن حسب معمول حسب روایت اور حسب قسمت ہم نے اس ہلکے پھلکے کام میں بھی اپنے چند دوست کھو دیے کیوں کہ ان کو اپنے کالموں کی ''پیروڈی'' ایک آنکھ نہیں بھائی، ہم نے ارادہ کر لیا کہ اب کالموں کی پیروڈی نہیں کریں گے اور کی بھی نہیں لیکن ایک دن اچانک خیال آیا کہ جو دوست کھونا تھے وہ تو کھو چکے بلکہ دشمن بنا چکے اب تو صرف خالی میدان ہے اور بزرگوں نے کہا ہے کہ خالی میدان سے آندھی کیا اڑا کر لے جائے گی اور خالی کھنڈر سے کسی چور کو کیا ملے گا اس لیے مشق سخن اور چکی کی مشقت پھر سے شروع کیے دیتے ہیں، مستقبل کے ناراض ہونے والوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پیروڈی کسی فن پارے کی تضحیک نہیں ہوتی بلکہ مقبولیت کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے، لیجیے پہلی پیروڈی چھوڑ رہے ہیں۔

ویسے تو یہ خاکسار ایک معمولی سا جرنلسٹ ہے لیکن اپنے کام کے سلسلے میں کچھ ستاروں سیاروں اور کہکشاؤں کی نظر کرم حاصل رہی ہے چنانچہ جس زمانے میں یہ خاکسار ذرہ بے مقدار روزنامہ ''کو بہ کو'' کے لیے آسمان کی رپورٹنگ کرتا تھا تو کبھی کبھی مریخ اور عطارد ٹیلی فون کر کے لنچ ڈنر پر بلا لیتے تھے اور ہم سے سورج کے خلاف مشورہ طلب کر لیتے تھے جو ان دنوں زمین اور اس کے ساتھ چاند پر کچھ زیادہ مہربان ہو رہا تھا، مریخ تو پھر بھی ذرا مدھم لہجے میں بات کرتا تھا لیکن عطارد تو سورج کی ایسی تیسی کرنے پر اتاولا ہو رہا تھا۔ میں ان کو سمجھاتا کہ سورج سے بیر رکھنا تم دونوں کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے اس لیے سب سے پہلے جا کر کہکشاں کے دوسرے سورجوں کو اپنے اعتماد میں لے لو، وہ ہمارا مشورہ مان لیتے اور خلاء ایک تباہ کن بین السیاراتی جنگ سے بچ جاتی، یہ تو ایک رنگ ہو گیا اب دوسرا رنگ ملاحظہ فرمایئے۔

باویز شومو وینزویلا کا ایک کسان تھا وہ جب اپنے کھیتوں میں جو اور جئی کاشت کرتا تھا تو اکثر سوچتا کہ آخر اس جو اور جئی کی کاشت نے میرے آبائو و اجداد کو کیا دیا جو مجھے دیں گے چنانچہ وہ کاشتکاری کے ساتھ بوٹ پالش کا کام بھی کرنے لگا، بوٹ پالش کرتے کرتے اسے خیال آیا کہ بازار سے مہنگا بوٹ پالش خرید کر میں کچھ زیادہ نہیں کماتا چنانچہ اس نے اپنا بوٹ پالش ایجاد کر لیا۔ پہلے تو وہ ساتھ کے پالشیوں کو اپنا پالش بیچنے لگا پھر اس نے شہر میں پھر پھر کر سارے پالشیوں کو اپنا خریدار بنا لیا مانگ بڑھ گئی تو اس نے ایک چھوٹا کارخانہ پالش کا بنا لیا اپنے پالش کو ''کوا کوا کائیں کائیں'' کے ٹریڈ نام سے رجسٹرڈ کروایا اور پورے ملک میں پالش کی پبلسٹی کرنے لگا، کچھ ہی عرصے میں وہ پالش کا سب سے بڑا کارخانہ دار بن گیا، اب اس نے پالش کے ساتھ مالش کا دھندہ بھی شروع کر دیا کیوں کہ پالش کرنا اور مالش کرنا ایک جیسا کام تھا، پالش میں جوتوں کی مالش ہی تو کی جاتی ہے... ترقی ترقی کرتے وہ ایک دن ملک کا صدر بن گیا، اگر باویز نشومو ایک پالشی سے صدر بن سکتا ہے تو ہمارے پاکستان کے باشندوں میں تو دنیا کی ساری صلاحیتیں پائی جاتی ہیں چنانچہ اگر کوشش کریں ایمان داری سے کام کیا جائے تو پاکستان کا ہر مزدور ٹھیکیدار پھر تاجر اور پھر صنعت کار بن سکتا ہے۔ کسان ایک بڑا زمیندار بن سکتا ہے، ڈرائیور ٹرانسپورٹر بن سکتا ہے اور معمار کنسٹرکشن کمپنی کھول سکتا ہے اور پھر کسی دن یہ سارے کے سارے بیک وقت ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ جب ملک میں ایک نہ دو نہ دس نہ سو نہ ہزار نہ لاکھ بلکہ پورے اٹھارہ کروڑ صدر ہوں گے جب سب کے سب صدر بن جائیں گے تو نہ کوئی غربت ہو گی نہ مہنگائی اور نہ یہ لڑائی جھگڑے، اور دنیا پاکستان کے اٹھارہ کروڑ صدر دیکھ کر اتنی جل بھن جائے گی کہ اپنی ہی آگ میں بھسم ہو کر رہ جائے گی، اب ملاحظہ کیجیے تیسرا رنگ۔

آج مغربی دنیا کو جن ایجادات پر بڑا ناز ہے ان میں سے اکثر مسلمانوں سے چوری کی ہوئی ہیں کمپیوٹر کو دیکھ کر آج لوگ حیران ہو رہے ہیں لیکن اس بات کا کسی کو علم نہیں کہ کمپیوٹر کی ایجاد سب سے پہلے بغداد میں عباسی خلافت کے دوران ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ جب عباسی دور حکومت میں دنیا کے اکثر ممالک پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو بغداد کے خلفا، وزیروں اور امیروں کے حرام سراؤں میں دنیا بھر کی کنیزیں آنے لگیں چونکہ خلیفہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ ان میں درجہ بندی کرتا ...اس لیے انھوں نے حکم دیا کہ ایسا کوئی طریقہ ایجاد کیا جائے جس سے کنیزوں کی درجہ بندی کی جائے، سائنس دان اس کام میں لگ گئے اور آخر کار ایک ایسا آلہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے کنیزوں کی درجہ بندی، انتخاب اور خصائص معلوم کرنے میں آسانی ہو گئی، بعد میں اسی آلے کو ترقی دے کر خزانوں میں پڑے ہوئے زر و جواہر کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ اسی آلے کی بنیاد پر آج مغربی دنیا نے کمپیوٹر کی ایجاد کر کے مونچھوں پر تاؤ دینا شروع کیا حالانکہ ان کی مونچھیں ہی نہیں سب کے سب کلین شیو ہوتے ہیں۔


عالمی مقابلہ حسن آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ایک مشہور ایونٹ ہے اس کی ابتداء بھی امیہ دور حکومت میں عبدالملک اور ولید کے زمانے میں ہوئی تھی، بازاروں میں بڑے پیمانے پر حسیناؤں کا اجتماع منعقد کیا جاتا اور چنی ہوئی حسینائوں کی نیلامی سے ان کے حسن کا تعین ہو جاتا تھا، ان مقابلوں کے ججز اپنی کمر سے اشرفیوں اور زر و جواہر کی تھیلیاں لٹکائے کھڑے ہوتے تھے، ایک اونچے اسٹیج پر حسینہ کو کھڑا کیا جاتا اور پھر ججز نمبروں کے بجائے نقد دے کر فیصلہ کرتے، مطلب یہ ہے کہ یہ ساری سائنسی ایجادات جن پر آج مغربی دنیا اترائی ہوئی ہے اصل میں مسلمانوں کے آبائو اجداد کے کارنامے ہیں جو انھوں نے مختلف طریقوں سے چرا کر اپنائے ہیں۔ اصل میں مسلمان کچھ دوسرے ضروری کاموں میں مصروف ہو گئے تھے ایک دوسرے کو دھمکیاں دے کر اسلام سے نکالنے اور کافر بنانے کے علاوہ سب سے زیادہ اہم کام یہ نکل آیا کہ کافروں سے لڑائیاں ختم ہو گئی تھیں اس لیے مسلمانوں کو شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے کی اپنی مدد آپ کا طریقہ اختیار کرنا پڑا بلکہ کافروں سے جنگوں کے دوران تو آدھا فائدہ ہوتا تھا یعنی مسلمان شہید تو ہو جاتے تھے مگر شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے والا کافر ہوتا تھا لیکن مسلمانوں کی طبع رسا نے یہ نیا طریقہ نکالا کہ اب دوہرا فائدہ ہونے لگا تھا ایک تو شہید ہو کر جنت مکین ہو جاتا اور دوسرا غازی بن کر سرخرو ہو جاتا گویا ایک تیر سے دو شکار یا ایک موت سے ''دو جنتی'' ۔۔۔ یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا اور مسلمانوں کو اتنا پسند آیا کہ اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگی اور آج تک ہو رہی ہے۔ چونکہ پاکستان اسلام کا قلعہ اور گڑھ ہے اس لیے یہاں پر یہ کام بڑے وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے گلی گلی کوچے میں شہید اور غازی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف سے ان کا دھیان ہٹ گیا اور ان کے آبائو اجداد کی ایجادات مغرب والوں نے اپنے نام کر لیں۔

میں اپنے وطن کی مٹی سے بے پناہ پیار کرتا ہوں اور ایک لمحے کے لیے بھی اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا چنانچہ اپنے وطن سے دور جانا تو درکنار میں چارپائی پر سوتا بھی نہیں ہوں، ہوائی جہاز کا سفر بھی اختیار نہیں کرتا کہ وطن کی مٹی سے دور نہ ہونا پڑے لیکن اپنے دوست احباب ایک عرصے سے ضدر کر رہے تھے کہ میں ان کے پاس امریکا جاؤں کیوں کہ امریکا کے ہر شہر میں یار دوست ایک عرصے سے میرے فراق میں آنسو بہا رہے ہیں چنانچہ

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

کے مصداق طوعاً و کرہاً امریکا جانا پڑا، خیر مقدم کا سلسلہ ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہی شروع ہو گیا ایک چندے آفتاب چندے ماہتاب حسینہ کو میرے استقبال کے لیے جہاز کے دروازے پر ہی کھڑا کیا گیا تھا ۔
Load Next Story