رسولِ کریم ﷺ کی نمازِ کامل
آپؐ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خضوع و خشوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی
اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں انبیائے کرامؑ، صحابۂ کرامؓ اور اولیائے کرامؒ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمتِ خاص سے نوازا اور انہیں مقام عبدیت سے سرفراز کیا۔ ان محبوب ہستیوں کی نماز میں بے پناہ محویت اور خشوع و خضوع تھا۔
رسول اکرم ﷺ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غار حرا میں کافی عرصہ عبادت الہٰی میں مصروف رہے۔ مگر جب آپؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپؐ کو نماز کا حکم ملا اور آپؐ اس پر کاربند ہوگئے۔ ابتدا میں آپؐ چُھپ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ نبی کریمؐ کی نماز مثالی ہے آپ ﷺ کی نماز میں حد درجے کی محویت تھی گویا کہ آپؐ کی نماز کامل تھی۔ آپؐ نفلی نمازوں میں بھی خشیت الہٰی سے اشک بار ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی لگن اور محبت سے متوجہ ہوتے کہ دنیا کے ہر خیال سے بے نیاز اور بارگاہ رب العزت کے بالکل قریب ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپؐ جیسی کامل اور مقبول نماز نہ کوئی پڑھ سکا اور نہ کوئی پڑھ سکے گا۔
آپ تہجد پڑھا کرتے تھے اور شروع میں آپؐ پر نماز تہجد فرض تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد صبح و شام آپؐ نے دو رکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہوا ہے، مفہوم : ''صبح و شام اپنے پروردگار کا نام یاد کیا کرو اور رات کے وقت دیر تک اس کو سجدہ کیا کرو اور اس کی تسبیح کیا کرو۔''
مفسرین کا کہنا ہے کہ رات کو اٹھ کر دیر تک نماز پڑھنے کا حکم ایک سال تک باقی رہا، اس کے بعد رات کی نماز فرض کے بہ جائے نفل ہوگئی۔ تہجد کے نفل ہوجانے کے بعد بھی حضور اکرمؐ شب میں کثرت سے نماز پڑھا کر تے تھے اور بڑی قرأت کیا کرتے تھے۔ بعد میں جب پانچ نمازیں باجماعت فرض ہوگئیں تو آپؐ نے آخری دم تک اس فریضے کو بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیا۔ مکہ سے جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ شریف میں قیام پذیر ہوئے تو یہاں آپؐ نے نظام الصلوۃ کا مکمل اہتمام کیا۔
آپؐ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خضوع و خشوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار ایک شخص نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے درخواست کی کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی کوئی عجیب بات جو آپؐ نے دیکھی ہو بیان کیجیے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: حضور اکرمؐ کی کون سی بات عجیب نہ تھی سب ہی باتیں عجیب تھیں، چناں چہ ایک شب کا واقعہ ہے کہ حضور اکرمؐ میرے پاس تشریف لائے اور لیٹ گئے۔ پھر فرمایا مجھے چھوڑ دو میں اپنے رب کی عبادت کروں۔ یہ فرما کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور رونا شروع کیا۔ یہاں تک کہ آنسو بہہ کر سینۂ مبارک تک آگئے، پھر رکوع کیا اور رکوع میں بھی اسی طرح روتے رہے، پھر سجدے میں بھی گر یہ جاری رہا۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھایا تو اس وقت بھی روتے ہی رہے، یہاں تک کہ بلالؓ نے آکر فجر کی نماز کے لیے آواز دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس قدر روتے ہیں حالاں کہ آپؐ معصوم ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
آپؐ نے نماز کے لیے بہت سی تکالیف بھی برداشت کیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک دن آپؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے اور رؤسائے قریش بیٹھے تمسخر کر رہے تھے ابوجہل نے کہا کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھا لاتا اور محمد ﷺ جب سجدے میں جاتے تو وہ ان کی گردن پر ڈال دیتا۔ چناں چہ عقبہ نے ابوجہل کی خواہش کے مطابق ایک بڑے اونٹ کی اوجھ لا کر آپؐ اوپر ڈال دی اور آپ کو سخت تکلیف اٹھانا پڑی۔
مسلم شریف میں حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ ایک رات مجھ کو حضور اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حضور اکرمؐ نے سورۂ بقرہ شروع کی، میں نے سمجھا آپ سو آیتوں تک پڑھیں گے لیکن جب آپ اس کو پڑھ کر آگے بڑھے تو میں نے دل میں کہا شاید آپ پوری سورہ ایک ہی رکعت میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ جب آپؐ نے اس سورہ کو ختم کیا تو میں نے خیال کیا اب آپؐ رکوع کریں گے لیکن آپؐ نے فوراً سورہ آل عمران شروع کر دی اور وہ بھی ختم ہوگئی تو سورۃ نساء شروع کردی۔
حضور اکرم ؐ بہت ٹھہر ٹھہر کر نہایت سکون و اطمینان سے قرأت فرما رہے تھے۔ اور ہر آیت کے مضمون کے مطابق درمیان میں تسبیح اور دعا کرتے جاتے تھے۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے رکوع کیا۔ رکوع میں بھی قیام کے برابر توقف فرمایا۔ پھر کھڑے ہوئے اور اتنی ہی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا اور سجدے میں بھی اسی قدر دیر فرمائی۔
حضرت عوفؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ حضورؐ نے مسواک کیا، وضو فرمایا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں بھی حضورؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوا۔ حضور اکرمؐ نے ایک رکعت میں پوری سورۂ بقرہ پڑھ ڈالی، جہاں رحمت کی آیت آتی ٹھہر جاتے اور دیر تک رحمت کی دعا مانگتے رہتے۔ سورہ کے آخر پر رکوع کیا اور اتنی دیر تک رکوع میں رہے جتنی دیر سورۂ بقرہ کی قرأت میں لگی تھی اور رکوع میں سبحان ذوالجبروت والملکوت والعظمۃ پڑھتے تھے۔ رکوع کے بعد اتنا ہی طویل سجدہ کیا، دوسری رکعت میں سورۂ آل عمران پڑھی اسی طرح ہر رکعت میں پوری ایک سورہ پڑھتے رہے۔
تہجد میں حضور اکرمؐ کی قرأت اتنی بلند ہوتی تھی کہ آواز دور تک جاتی اور لوگ اپنے بستروں پر پڑے حضور اکرمؐ کی قرأت سنتے۔ کبھی کبھی ایسی آیت آجاتی کہ آپؐ اس کے کیف و اثر میں محو ہوجاتے۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ایک بار حضور اکرمؐ نے نماز میں یہ آیت پڑھی: '' اگر تُو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اگر تُو ان کو معاف کر دے تو غالب اور حکمت والا ہے۔''
حضور اکرمؐ پر اس آیت کا ایسا اثر ہوا کہ صبح تک یہی آیت پڑھتے رہے۔ حضور اکرمؐ ارکان نماز خوب سکون و اطمینان سے ادا کیا کرتے تھے۔ نماز کے ارکان میں سب سے کم وقفہ رکوع کے بعد قیام میں ہوتا ہے لیکن حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ رکوع کے بعد اتنی دیر قیام کرتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ حضورؐ سجدے میں جانا بھول گئے۔
خشوع، نماز کی روح ہے اور حضورؐ سے زیادہ خاشع کون ہوسکتا ہے ؟ حضرت عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے ہاں گیا اس وقت حضور اکرمؐ نماز پڑھ رہے تھے اور فرط گریہ سے حضور اکرمؐ کے اندر سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے دیگ کے جوش کرنے کی آواز۔
حضرت مطرب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا حضور اکرمؐ نماز میں ہیں اور آپؐ پر گریہ طاری ہے اور سینے میں سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ہانڈی جوش مارتی ہو۔
شمائل ترمذی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک شب حضرت میمونہؓ کے گھر تھے جو ان کی خالہ تھیں۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ ﷺ اس کے طول میں لیٹے اور سوگئے۔ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ دیر بعد آپؐ بیدار ہوئے اور چہرہ مبارک پر ہاتھ مل کر نیند کے اثر کو زائل کیا اس کے بعد آپؐ نے سورۂ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں اس کے بعد آپؐ کھڑے ہوئے اور لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے۔ اس سے خوب اچھی طرح وضو کرکے آپؐ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے یہ دیکھ کر میں بھی اُٹھ بیٹھا اور وضو کرکے آپؐ کے بائیں پہلو پر کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور بائیں ہاتھ سے میرا دایاں کان پکڑ کر مجھے (بائیں جانب سے دائیں جانب) پھیر لیا۔ پھر آپؐ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت اور پھر دو رکعت (کل بارہ رکعتیں) پھر نماز وتر پڑھی۔ اس کے بعد آپؐ لیٹ گئے۔ اس کے بعد مؤذن نماز فجر کی اطلاع دینے آیا تو آپؐ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں اور نماز فجر کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ شب میں کچھ دیر سوتے پھر اُٹھ کر نماز پڑھتے پھر سوجاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اُٹھ کر بیٹھتے اور نماز میں مصروف ہوجاتے غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے کبھی کسی حالت میں تہجد کی نماز ترک نہیں فرمائی جب کبھی بیمار ہو تے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔
حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ غزوہ بدر میں سوائے رسول اللہ ﷺ کے رات میں ہر شخص سو تا رہا مگر حضور اکرم ؐ ایک درخت کے نیچے رات بھر نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپؐ نے صبح کر دی۔
رسول اکرم ﷺ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غار حرا میں کافی عرصہ عبادت الہٰی میں مصروف رہے۔ مگر جب آپؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپؐ کو نماز کا حکم ملا اور آپؐ اس پر کاربند ہوگئے۔ ابتدا میں آپؐ چُھپ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ نبی کریمؐ کی نماز مثالی ہے آپ ﷺ کی نماز میں حد درجے کی محویت تھی گویا کہ آپؐ کی نماز کامل تھی۔ آپؐ نفلی نمازوں میں بھی خشیت الہٰی سے اشک بار ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی لگن اور محبت سے متوجہ ہوتے کہ دنیا کے ہر خیال سے بے نیاز اور بارگاہ رب العزت کے بالکل قریب ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپؐ جیسی کامل اور مقبول نماز نہ کوئی پڑھ سکا اور نہ کوئی پڑھ سکے گا۔
آپ تہجد پڑھا کرتے تھے اور شروع میں آپؐ پر نماز تہجد فرض تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد صبح و شام آپؐ نے دو رکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہوا ہے، مفہوم : ''صبح و شام اپنے پروردگار کا نام یاد کیا کرو اور رات کے وقت دیر تک اس کو سجدہ کیا کرو اور اس کی تسبیح کیا کرو۔''
مفسرین کا کہنا ہے کہ رات کو اٹھ کر دیر تک نماز پڑھنے کا حکم ایک سال تک باقی رہا، اس کے بعد رات کی نماز فرض کے بہ جائے نفل ہوگئی۔ تہجد کے نفل ہوجانے کے بعد بھی حضور اکرمؐ شب میں کثرت سے نماز پڑھا کر تے تھے اور بڑی قرأت کیا کرتے تھے۔ بعد میں جب پانچ نمازیں باجماعت فرض ہوگئیں تو آپؐ نے آخری دم تک اس فریضے کو بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیا۔ مکہ سے جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ شریف میں قیام پذیر ہوئے تو یہاں آپؐ نے نظام الصلوۃ کا مکمل اہتمام کیا۔
آپؐ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خضوع و خشوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار ایک شخص نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے درخواست کی کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی کوئی عجیب بات جو آپؐ نے دیکھی ہو بیان کیجیے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: حضور اکرمؐ کی کون سی بات عجیب نہ تھی سب ہی باتیں عجیب تھیں، چناں چہ ایک شب کا واقعہ ہے کہ حضور اکرمؐ میرے پاس تشریف لائے اور لیٹ گئے۔ پھر فرمایا مجھے چھوڑ دو میں اپنے رب کی عبادت کروں۔ یہ فرما کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور رونا شروع کیا۔ یہاں تک کہ آنسو بہہ کر سینۂ مبارک تک آگئے، پھر رکوع کیا اور رکوع میں بھی اسی طرح روتے رہے، پھر سجدے میں بھی گر یہ جاری رہا۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھایا تو اس وقت بھی روتے ہی رہے، یہاں تک کہ بلالؓ نے آکر فجر کی نماز کے لیے آواز دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس قدر روتے ہیں حالاں کہ آپؐ معصوم ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
آپؐ نے نماز کے لیے بہت سی تکالیف بھی برداشت کیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک دن آپؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے اور رؤسائے قریش بیٹھے تمسخر کر رہے تھے ابوجہل نے کہا کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھا لاتا اور محمد ﷺ جب سجدے میں جاتے تو وہ ان کی گردن پر ڈال دیتا۔ چناں چہ عقبہ نے ابوجہل کی خواہش کے مطابق ایک بڑے اونٹ کی اوجھ لا کر آپؐ اوپر ڈال دی اور آپ کو سخت تکلیف اٹھانا پڑی۔
مسلم شریف میں حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ ایک رات مجھ کو حضور اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حضور اکرمؐ نے سورۂ بقرہ شروع کی، میں نے سمجھا آپ سو آیتوں تک پڑھیں گے لیکن جب آپ اس کو پڑھ کر آگے بڑھے تو میں نے دل میں کہا شاید آپ پوری سورہ ایک ہی رکعت میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ جب آپؐ نے اس سورہ کو ختم کیا تو میں نے خیال کیا اب آپؐ رکوع کریں گے لیکن آپؐ نے فوراً سورہ آل عمران شروع کر دی اور وہ بھی ختم ہوگئی تو سورۃ نساء شروع کردی۔
حضور اکرم ؐ بہت ٹھہر ٹھہر کر نہایت سکون و اطمینان سے قرأت فرما رہے تھے۔ اور ہر آیت کے مضمون کے مطابق درمیان میں تسبیح اور دعا کرتے جاتے تھے۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے رکوع کیا۔ رکوع میں بھی قیام کے برابر توقف فرمایا۔ پھر کھڑے ہوئے اور اتنی ہی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا اور سجدے میں بھی اسی قدر دیر فرمائی۔
حضرت عوفؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ حضورؐ نے مسواک کیا، وضو فرمایا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں بھی حضورؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوا۔ حضور اکرمؐ نے ایک رکعت میں پوری سورۂ بقرہ پڑھ ڈالی، جہاں رحمت کی آیت آتی ٹھہر جاتے اور دیر تک رحمت کی دعا مانگتے رہتے۔ سورہ کے آخر پر رکوع کیا اور اتنی دیر تک رکوع میں رہے جتنی دیر سورۂ بقرہ کی قرأت میں لگی تھی اور رکوع میں سبحان ذوالجبروت والملکوت والعظمۃ پڑھتے تھے۔ رکوع کے بعد اتنا ہی طویل سجدہ کیا، دوسری رکعت میں سورۂ آل عمران پڑھی اسی طرح ہر رکعت میں پوری ایک سورہ پڑھتے رہے۔
تہجد میں حضور اکرمؐ کی قرأت اتنی بلند ہوتی تھی کہ آواز دور تک جاتی اور لوگ اپنے بستروں پر پڑے حضور اکرمؐ کی قرأت سنتے۔ کبھی کبھی ایسی آیت آجاتی کہ آپؐ اس کے کیف و اثر میں محو ہوجاتے۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ایک بار حضور اکرمؐ نے نماز میں یہ آیت پڑھی: '' اگر تُو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اگر تُو ان کو معاف کر دے تو غالب اور حکمت والا ہے۔''
حضور اکرمؐ پر اس آیت کا ایسا اثر ہوا کہ صبح تک یہی آیت پڑھتے رہے۔ حضور اکرمؐ ارکان نماز خوب سکون و اطمینان سے ادا کیا کرتے تھے۔ نماز کے ارکان میں سب سے کم وقفہ رکوع کے بعد قیام میں ہوتا ہے لیکن حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ رکوع کے بعد اتنی دیر قیام کرتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ حضورؐ سجدے میں جانا بھول گئے۔
خشوع، نماز کی روح ہے اور حضورؐ سے زیادہ خاشع کون ہوسکتا ہے ؟ حضرت عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے ہاں گیا اس وقت حضور اکرمؐ نماز پڑھ رہے تھے اور فرط گریہ سے حضور اکرمؐ کے اندر سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے دیگ کے جوش کرنے کی آواز۔
حضرت مطرب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا حضور اکرمؐ نماز میں ہیں اور آپؐ پر گریہ طاری ہے اور سینے میں سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ہانڈی جوش مارتی ہو۔
شمائل ترمذی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک شب حضرت میمونہؓ کے گھر تھے جو ان کی خالہ تھیں۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ ﷺ اس کے طول میں لیٹے اور سوگئے۔ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ دیر بعد آپؐ بیدار ہوئے اور چہرہ مبارک پر ہاتھ مل کر نیند کے اثر کو زائل کیا اس کے بعد آپؐ نے سورۂ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں اس کے بعد آپؐ کھڑے ہوئے اور لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے۔ اس سے خوب اچھی طرح وضو کرکے آپؐ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے یہ دیکھ کر میں بھی اُٹھ بیٹھا اور وضو کرکے آپؐ کے بائیں پہلو پر کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور بائیں ہاتھ سے میرا دایاں کان پکڑ کر مجھے (بائیں جانب سے دائیں جانب) پھیر لیا۔ پھر آپؐ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت اور پھر دو رکعت (کل بارہ رکعتیں) پھر نماز وتر پڑھی۔ اس کے بعد آپؐ لیٹ گئے۔ اس کے بعد مؤذن نماز فجر کی اطلاع دینے آیا تو آپؐ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں اور نماز فجر کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ شب میں کچھ دیر سوتے پھر اُٹھ کر نماز پڑھتے پھر سوجاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اُٹھ کر بیٹھتے اور نماز میں مصروف ہوجاتے غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے کبھی کسی حالت میں تہجد کی نماز ترک نہیں فرمائی جب کبھی بیمار ہو تے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔
حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ غزوہ بدر میں سوائے رسول اللہ ﷺ کے رات میں ہر شخص سو تا رہا مگر حضور اکرم ؐ ایک درخت کے نیچے رات بھر نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپؐ نے صبح کر دی۔