قومی وحدت از حد ضروری
یہ اصول طے کیا جائے کہ مسلکی جماعت کو سیاسی جماعت اور سیاسی جماعت کو مسلکی یا مذہبی جماعت نہ مانا جائے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان کے عوام میں جہادی جذبہ تھا اور ہر خاص و عام بلا مذہب و تفریق آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے تحریک کا حصہ تھا۔ اسی طرح سامراجی قوتوں کے خلاف جہاد جاری تھا اور ہماری توجہ مسئلہ کشمیر پر تھی۔ کشمیر کی اہمیت کے لیے اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ہمارے عوام اور پاک افواج اس جذبہ جہاد سے فکری اور عملی طور پر وابستہ تھے آزادیٔ فلسطین اور آزادیٔ کشمیر کی مسلسل جدوجہد جاری تھی اس جذبے نے پوری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد رکھا ہوا تھا۔
ملت پاکستان کا دبائو ہندوستان پر مسلسل بر قرار تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے اور کشمیر کے دونوں طرف کے عوام جو مقبوضہ ہوں یا آزاد کشمیر کے ہوں ان کو فیصلہ کا حق دے۔ وہ جو چاہیں آزادی سے فیصلہ کریں ۔ مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اس پر آ گئے کہ اندرونی خلفشار نے ہمیں بہت کمزور کر دیا۔ پوری ملت پارہ پارہ ہو گئی۔ ہمارا اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کمزور ہو گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آمریت کی وجہ سے آئین اور قانون کی حکمرانی نہ رہی۔ اس وجہ سے اداروں میں استحکام نہ رہا۔ ہم آہنگی جو بہت ضروری ہے وہ نا پید ہو گئی ہے۔ عدم استحکام کا دوسرا مہیب سبب غیر جمہوری قوتوں کو پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی مسلسل حمایت رہی۔ اور آج بھی اگر کوئی جمہوریت کو ڈی ریل کر کے حکومت پر قبضہ کرے تو سب سے پہلے حمایت کرنے والی وہی جماعتیں ہیں۔
ان جماعتوں کی فکر ان کی بنیادیں اصول، حق اور جمہوری عمل پر نہیں ہیں بلکہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں۔ ہماری اس فکر نے پاکستان کی ملت کو کمزور کیا اور تقسیم کر دیا ہے۔ اگر ان مذہبی جماعتوں پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہو گی کہ ان میں کوئی سنّی جماعت تو کوئی شیعہ ہے کوئی بریلوی ہے تو دیوبندی کوئی وہابی ہے تو کوئی اہلحدیث۔ اس لیے ان کی جماعتوں میں کسی دوسرے مسلک کے افراد شامل نہیں ہو سکتے۔ کیا یہ اسلام کی آفاقیت کا اعتراف ہے یا ملت کی پریشاں خیالی۔ یہی بات ملک اور قوم کو کمزور کرنے کا سبب ہے۔ جس کا سدباب بہت ضروری ہے جسکا بہترین حل یہ ہے کہ ان جماعتوں کو سیاست سے دور کر کے مسلک تک محدود رکھیں اور اگر انھیں سیاست کرنی ہے تو ایسی جماعت بنائیں جس میں ملت کے ہر مکتبہ فکر کو شامل کیا جائے یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ اس ضمن میں بنیاد ی سفارشات تیار کر کے پارلیمنٹ کو بھیجے۔ یہ اصول طے کیا جائے کہ مسلکی جماعت کو سیاسی جماعت تسلیم نہ کیا جائے اور سیاسی جماعت کو مسلکی یا مذہبی جماعت نہ مانا جائے۔
اس عمل سے ملک میں قومی یکجہتی پیدا ہو گی۔ رواداری کا درس ملے گا۔ دوسری توجہ ان جماعتوں پر دی جائے جو علاقائی یا لسانیت کی بنیاد پر اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں چلا رہی ہیں۔ اس سے بھی قوم تقسیم ہو رہی ہے۔ نفرت انگیز سیاسی ماحول کو بڑھاوا مل رہا ہے، پاکستانی قوم بہت با صلاحیت ہے اور ہماری سر زمین قدرتی نعمتوں سے بھی مالا مال ہے، بس ایک اچھی اور باکردار و عوام دوست قیادت کا فقدان ہے، ایسی قیادت جو حقیقی طور پر قائداعظم، لیاقت علی خان اور علامہ اقبال کی فکر سے ہم آہنگ ہو۔ جہاں نہ کسی مسلک کی چھاپ ہو نہ کسی لسانیت کا شائبہ ہو۔ کیونکہ کوئی ملت بغیر قائد کے نہیں چلتی۔ اگر خدا نخواستہ اب بھی ان معاملات پر ارباب فکر و اختیار نے توجہ نہ دی تو پوری ملت مسلکوں اور مذہبوں میں تقسیم در تقسیم ہو کر فکری انتشار کا شکار ہوتی چلی جائے گی جسکا فائدہ اسلام دشمن قوتوں کو ہی ہو گا۔
اور سب سے زیادہ نقصان ان انسان دوست قوتوں کو ہو گا جو اسلامی نظام کے نفاذ اور ملکی سالمیت و عوام کی خوشحالی کے لیے کو شاں ہیں۔ یہ پاکستان کسی ایک مسلک کسی ایک مذہب کے لیے وجود میں نہیں لایا گیا بلکہ تمام مسالک اور مذاہب کے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے، یہ اسلام کا قلعہ ہے۔ اسے امن کا گہوارہ بنانا ہو گا۔ اس لیے اس ملک میں سیاست کو سلطانیٔ جمہور کی انقلابی لہر سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ملت پاکستان کا دبائو ہندوستان پر مسلسل بر قرار تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے اور کشمیر کے دونوں طرف کے عوام جو مقبوضہ ہوں یا آزاد کشمیر کے ہوں ان کو فیصلہ کا حق دے۔ وہ جو چاہیں آزادی سے فیصلہ کریں ۔ مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اس پر آ گئے کہ اندرونی خلفشار نے ہمیں بہت کمزور کر دیا۔ پوری ملت پارہ پارہ ہو گئی۔ ہمارا اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کمزور ہو گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آمریت کی وجہ سے آئین اور قانون کی حکمرانی نہ رہی۔ اس وجہ سے اداروں میں استحکام نہ رہا۔ ہم آہنگی جو بہت ضروری ہے وہ نا پید ہو گئی ہے۔ عدم استحکام کا دوسرا مہیب سبب غیر جمہوری قوتوں کو پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی مسلسل حمایت رہی۔ اور آج بھی اگر کوئی جمہوریت کو ڈی ریل کر کے حکومت پر قبضہ کرے تو سب سے پہلے حمایت کرنے والی وہی جماعتیں ہیں۔
ان جماعتوں کی فکر ان کی بنیادیں اصول، حق اور جمہوری عمل پر نہیں ہیں بلکہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں۔ ہماری اس فکر نے پاکستان کی ملت کو کمزور کیا اور تقسیم کر دیا ہے۔ اگر ان مذہبی جماعتوں پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہو گی کہ ان میں کوئی سنّی جماعت تو کوئی شیعہ ہے کوئی بریلوی ہے تو دیوبندی کوئی وہابی ہے تو کوئی اہلحدیث۔ اس لیے ان کی جماعتوں میں کسی دوسرے مسلک کے افراد شامل نہیں ہو سکتے۔ کیا یہ اسلام کی آفاقیت کا اعتراف ہے یا ملت کی پریشاں خیالی۔ یہی بات ملک اور قوم کو کمزور کرنے کا سبب ہے۔ جس کا سدباب بہت ضروری ہے جسکا بہترین حل یہ ہے کہ ان جماعتوں کو سیاست سے دور کر کے مسلک تک محدود رکھیں اور اگر انھیں سیاست کرنی ہے تو ایسی جماعت بنائیں جس میں ملت کے ہر مکتبہ فکر کو شامل کیا جائے یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ اس ضمن میں بنیاد ی سفارشات تیار کر کے پارلیمنٹ کو بھیجے۔ یہ اصول طے کیا جائے کہ مسلکی جماعت کو سیاسی جماعت تسلیم نہ کیا جائے اور سیاسی جماعت کو مسلکی یا مذہبی جماعت نہ مانا جائے۔
اس عمل سے ملک میں قومی یکجہتی پیدا ہو گی۔ رواداری کا درس ملے گا۔ دوسری توجہ ان جماعتوں پر دی جائے جو علاقائی یا لسانیت کی بنیاد پر اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں چلا رہی ہیں۔ اس سے بھی قوم تقسیم ہو رہی ہے۔ نفرت انگیز سیاسی ماحول کو بڑھاوا مل رہا ہے، پاکستانی قوم بہت با صلاحیت ہے اور ہماری سر زمین قدرتی نعمتوں سے بھی مالا مال ہے، بس ایک اچھی اور باکردار و عوام دوست قیادت کا فقدان ہے، ایسی قیادت جو حقیقی طور پر قائداعظم، لیاقت علی خان اور علامہ اقبال کی فکر سے ہم آہنگ ہو۔ جہاں نہ کسی مسلک کی چھاپ ہو نہ کسی لسانیت کا شائبہ ہو۔ کیونکہ کوئی ملت بغیر قائد کے نہیں چلتی۔ اگر خدا نخواستہ اب بھی ان معاملات پر ارباب فکر و اختیار نے توجہ نہ دی تو پوری ملت مسلکوں اور مذہبوں میں تقسیم در تقسیم ہو کر فکری انتشار کا شکار ہوتی چلی جائے گی جسکا فائدہ اسلام دشمن قوتوں کو ہی ہو گا۔
اور سب سے زیادہ نقصان ان انسان دوست قوتوں کو ہو گا جو اسلامی نظام کے نفاذ اور ملکی سالمیت و عوام کی خوشحالی کے لیے کو شاں ہیں۔ یہ پاکستان کسی ایک مسلک کسی ایک مذہب کے لیے وجود میں نہیں لایا گیا بلکہ تمام مسالک اور مذاہب کے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے، یہ اسلام کا قلعہ ہے۔ اسے امن کا گہوارہ بنانا ہو گا۔ اس لیے اس ملک میں سیاست کو سلطانیٔ جمہور کی انقلابی لہر سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے۔