ایسےسوال مت اٹھائیں جس سےججز کی تضحیک ہوچیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے قانون سے متاثرہونے والے تمام افراد کونوٹس جاری کرکے انہیں سناجائے
سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کی سماعت،اٹارنی جنرل عرفان قادرنے عدالتی بینچ کے ججوں پر اعتراض کر دیا۔ان کا کہنا ہے کہ چارو ججوں کے جانبدار ہونے کا تاثر مل رہا ہے، ایکسپریس نیوز
ایکسپریس نیوز کے نمائندے فیصل شکیل کے مطابق" آج اٹارنی جنرل نے توہین عدالت کی ان درخواستوں پر دلائل دینے ہیں ، جنہوں نے توہین عدالت کے 2012 کے قانون کو چیلنج کررکھا ہے ، یہ قانون بنیادی طور پر آئین سے متصادم ہے،اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے ۔
اٹارنی جنرل صاحب نے عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہی کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت قانون کےخلاف درخواستوں کوسننے کے بجائے معاملہ ہائی کورٹس کوبھجوادے،سماعت کےکچھ حصوں میں عدالتی تعصب کا اظہارہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ " آپ توفیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے پیش نہیں ہورہے ہیں، آپ عدالت کی معاونت کے لئے پیش ہورہے ہیں تو آپ کس کی ایما پر عدالت پر الزام لگا رہے ہیں"، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ " وہ یہ الزام عدالت کی معاونت کرتے ہوئے لگا رہے ہیں"
جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ" کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں آپ عدالت کو متعاصب کہہ رہے ہیں،کیونکہ اس سوال کا تعلق حقائق سے ہوتا ہے" اس پر اٹارنی جنرل نے کہا" اس کا تعلق حقائق سے نہیں قانون سے ہے اور میں نے عدالت کی سماعت کے اوپر ایک سوال اٹھا دیا ہے ،اب فیصلہ ججز صاحبان نے کرنا ہے"جسٹس جواد ایس خواجہ نے مزید کہا کہ" آپ اس ادارے اور اپنےعہدے کا مذاق مت اڑائیں"
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہوئے کہا کہ" آپ ایسے سوالات مت اٹھائیں جس سے ججوں کی تضحیک ہو"جس پر اٹارنی جنرل کے کہا کہ ان کے پاس اخبارات کےتراشے ہیں اوروہ عدالت کو ڈرا نہیں رہے۔
چیف جسٹس نے اپنے مزید ریمارکس میں کہا کہ" آپ نے کل بھی ایک اور بینچ پر یہی الزام لگایا تھا،وہ بینچ بھی تعصب رکھتا ہے، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں، اس قسم کے الزامات میں ججوں کو کیوں ملوث کررہے ہیں ،" اٹارنی جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ" آج سے پہلے تو انہوں نے ایسے نہیں کیا ہے ، پہلے جب وہ پریٹکس کرتے رہے تو انہوں نے ایسے سوالات نہیں اٹھائے،یہ پہلی دفعہ ہورہا ہے"
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہتا تھا کہ" اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ بینچ متعاسب ہے تو بات پھر بنتی ہےخالی کہنے سے تعلق نہیں ثابت ہوسکتا ، اس سوال کے اوپر پچاس ملکوں کے فیصلے موجود ہیں، اگر تعصب کا سوال اٹھایا جائے گا تو اسے حقائق کہ بنیاد پر ثابت کیا جائے گا نہ ہی کہ قانون کی بنیاد پر ثابت کیا جائے" اٹارنی جنرل نے اپنا یہ نکتہ واپس لے لیا یہ کہہ کر کہ "پورے ملک میں مفاہمت کی فزا چاہئے اس لئے وہ بھی چاہتے ہیں کہ بار اور بینچ کے درمیان معاملات اور تعلقات خوشگوار رہیں اسلئے میں اپنا نکتہ واپس لیتا ہوں"
جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ" اگر آپ نے اس پوائنٹ پر آگے نہیں بڑھنا تو دلائل شروع کریں. اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نئے قانون سے متاثرہونے والے تمام افراد کونوٹس جاری کرکے انہیں سناجائے، چیف جسٹس نےکہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا"
ایکسپریس نیوز کے نمائندے فیصل شکیل کے مطابق" آج اٹارنی جنرل نے توہین عدالت کی ان درخواستوں پر دلائل دینے ہیں ، جنہوں نے توہین عدالت کے 2012 کے قانون کو چیلنج کررکھا ہے ، یہ قانون بنیادی طور پر آئین سے متصادم ہے،اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے ۔
اٹارنی جنرل صاحب نے عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہی کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت قانون کےخلاف درخواستوں کوسننے کے بجائے معاملہ ہائی کورٹس کوبھجوادے،سماعت کےکچھ حصوں میں عدالتی تعصب کا اظہارہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ " آپ توفیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے پیش نہیں ہورہے ہیں، آپ عدالت کی معاونت کے لئے پیش ہورہے ہیں تو آپ کس کی ایما پر عدالت پر الزام لگا رہے ہیں"، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ " وہ یہ الزام عدالت کی معاونت کرتے ہوئے لگا رہے ہیں"
جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ" کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں آپ عدالت کو متعاصب کہہ رہے ہیں،کیونکہ اس سوال کا تعلق حقائق سے ہوتا ہے" اس پر اٹارنی جنرل نے کہا" اس کا تعلق حقائق سے نہیں قانون سے ہے اور میں نے عدالت کی سماعت کے اوپر ایک سوال اٹھا دیا ہے ،اب فیصلہ ججز صاحبان نے کرنا ہے"جسٹس جواد ایس خواجہ نے مزید کہا کہ" آپ اس ادارے اور اپنےعہدے کا مذاق مت اڑائیں"
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہوئے کہا کہ" آپ ایسے سوالات مت اٹھائیں جس سے ججوں کی تضحیک ہو"جس پر اٹارنی جنرل کے کہا کہ ان کے پاس اخبارات کےتراشے ہیں اوروہ عدالت کو ڈرا نہیں رہے۔
چیف جسٹس نے اپنے مزید ریمارکس میں کہا کہ" آپ نے کل بھی ایک اور بینچ پر یہی الزام لگایا تھا،وہ بینچ بھی تعصب رکھتا ہے، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں، اس قسم کے الزامات میں ججوں کو کیوں ملوث کررہے ہیں ،" اٹارنی جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ" آج سے پہلے تو انہوں نے ایسے نہیں کیا ہے ، پہلے جب وہ پریٹکس کرتے رہے تو انہوں نے ایسے سوالات نہیں اٹھائے،یہ پہلی دفعہ ہورہا ہے"
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہتا تھا کہ" اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ بینچ متعاسب ہے تو بات پھر بنتی ہےخالی کہنے سے تعلق نہیں ثابت ہوسکتا ، اس سوال کے اوپر پچاس ملکوں کے فیصلے موجود ہیں، اگر تعصب کا سوال اٹھایا جائے گا تو اسے حقائق کہ بنیاد پر ثابت کیا جائے گا نہ ہی کہ قانون کی بنیاد پر ثابت کیا جائے" اٹارنی جنرل نے اپنا یہ نکتہ واپس لے لیا یہ کہہ کر کہ "پورے ملک میں مفاہمت کی فزا چاہئے اس لئے وہ بھی چاہتے ہیں کہ بار اور بینچ کے درمیان معاملات اور تعلقات خوشگوار رہیں اسلئے میں اپنا نکتہ واپس لیتا ہوں"
جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ" اگر آپ نے اس پوائنٹ پر آگے نہیں بڑھنا تو دلائل شروع کریں. اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نئے قانون سے متاثرہونے والے تمام افراد کونوٹس جاری کرکے انہیں سناجائے، چیف جسٹس نےکہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا"