موسمیاتی تبدیلیوں سے ریچھوں کے انسانوں پر حملوں میں نمایاں اضافہ
موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد برفانی ریچھوں کے انسانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں، امریکی ماہرین
ماہرین کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) سے قطبین پر پائے جانے والے برفانی ریچھ زیادہ مشتعل ہو رہے ہیں اور انسانوں پر ان کے حملے غیرمعمولی طور پر بڑھ رہے ہیں جس کے مہلک نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔
امریکی جیالوجیکل سروے سے وابستہ ماہر ٹوڈ ایٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ہم طوفانی صورتحال میں رہ رہے ہیں کیونکہ برفانی ریچھ براہِ راست انسانوں کے مقابل آ چکے ہیں اور قطبی ریچھ غذائی کمی کا شکار ہو کر انسانی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔
ٹوڈ ایٹ ووڈ اور ان کے ساتھیوں نے کینیڈا، گرین لینڈ، روس، امریکا اور ناروے میں انسانوں پر برفانی ریچھوں کے حملے کا 150 سالہ جائزہ لیا ہے۔ یہ ڈیٹا حکومتی اداروں، اخباری تراشوں اور سمندری جہازوں کے لاگ (رجسٹر) سے حاصل کردہ ہے۔ رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ 1870 سے 2014 تک انسانوں پر برفانی اور قطبی ریچھوں کے 73 حملے ہوئے جن میں 20 افراد ہلاک اور 63 افراد زخمی ہوئے، ریچھوں کی جانب سے یہ حملے شکاری انداز میں کئے گئے اور زیادہ تر حملوں میں نر ریچھ ملوث تھے۔
جب ان ریچھوں کی حالت پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 61 فیصد ریچھ بھوکے تھے یعنی وہ سمندری برف میں غذا کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے کیونکہ انہیں ان کی پسندیدہ خوراک سمندری سیل دستیاب نہ تھی۔
خوفناک بات یہ ہے کہ ماضی کے ہر عشرے (10 سال) میں ریچھوں کے 9 حملے رپورٹ ہوئے لیکن صرف 2010 سے 2014 کے 5 برسوں میں 15 حملے ہوئے یعنی ریچھوں کے حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
دیگر ماہرین نے اس تحقیق کو درست قرار دیا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ریچھ سمندر سے ساحلی کناروں تک آ رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ خشکی پر بطخوں کے انڈے، چھوٹے ہرنوں کے شکار اور دیگر غذا کے لیے بھی آتے رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ غذائیں بھی رغبت سے کھاتے ہیں۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ سیاہ اور بھورے ریچھوں کے انسانوں پر حملے کا تناسب بہت زیادہ ہے اور یہ تحقیق ان کی وجہ بیان نہیں کر رہی۔
امریکی جیالوجیکل سروے سے وابستہ ماہر ٹوڈ ایٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ہم طوفانی صورتحال میں رہ رہے ہیں کیونکہ برفانی ریچھ براہِ راست انسانوں کے مقابل آ چکے ہیں اور قطبی ریچھ غذائی کمی کا شکار ہو کر انسانی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔
ٹوڈ ایٹ ووڈ اور ان کے ساتھیوں نے کینیڈا، گرین لینڈ، روس، امریکا اور ناروے میں انسانوں پر برفانی ریچھوں کے حملے کا 150 سالہ جائزہ لیا ہے۔ یہ ڈیٹا حکومتی اداروں، اخباری تراشوں اور سمندری جہازوں کے لاگ (رجسٹر) سے حاصل کردہ ہے۔ رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ 1870 سے 2014 تک انسانوں پر برفانی اور قطبی ریچھوں کے 73 حملے ہوئے جن میں 20 افراد ہلاک اور 63 افراد زخمی ہوئے، ریچھوں کی جانب سے یہ حملے شکاری انداز میں کئے گئے اور زیادہ تر حملوں میں نر ریچھ ملوث تھے۔
جب ان ریچھوں کی حالت پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 61 فیصد ریچھ بھوکے تھے یعنی وہ سمندری برف میں غذا کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے کیونکہ انہیں ان کی پسندیدہ خوراک سمندری سیل دستیاب نہ تھی۔
خوفناک بات یہ ہے کہ ماضی کے ہر عشرے (10 سال) میں ریچھوں کے 9 حملے رپورٹ ہوئے لیکن صرف 2010 سے 2014 کے 5 برسوں میں 15 حملے ہوئے یعنی ریچھوں کے حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
دیگر ماہرین نے اس تحقیق کو درست قرار دیا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ریچھ سمندر سے ساحلی کناروں تک آ رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ خشکی پر بطخوں کے انڈے، چھوٹے ہرنوں کے شکار اور دیگر غذا کے لیے بھی آتے رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ غذائیں بھی رغبت سے کھاتے ہیں۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ سیاہ اور بھورے ریچھوں کے انسانوں پر حملے کا تناسب بہت زیادہ ہے اور یہ تحقیق ان کی وجہ بیان نہیں کر رہی۔