’’ لٹل پاکستان‘‘ خطرے میں
نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی گھرانے کی اندوہ ناک داستان جسے نسلی و مذہبی نفرت و تعصّب نے تباہ کر ڈالا
ISLAMABAD:
طاہرہ خان اپنے بیٹے کو سکول بھجوانے کی تیاری کر رہی تھی کہ دروازے پر لگی بیل بج اٹھی۔ اس نے سوچا، صبح سویرے کون آ گیا؟ دروازہ کھولا' تو اسے ایف بی آئی کے دو ایجنٹ نظر آئے۔ ایک ایجنٹ نے طاہرہ کو اس کے خاوند شاہد علی خان کی تصویر دکھائی اور پوچھا ''یہ آدمی کہاں ہے؟''
شاہد علی خان بہ حیثیت مزدور ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ تو کام پر جا چکا۔ ایجنٹ نے طاہرہ سے کہا کہ وہ شوہر کو فون کر کے گھر بلوا لے۔ طاہرہ شوہر سے ٹیلی فون پر باتیں کر رہی تھی کہ ایجنٹ نے فون چھین لیا اور تحکمانہ لہجے میں شاہد کو کہا کہ وہ گھر چلا آئے۔
حیران پریشان شاہد گھر پہنچا' تو اسے باہر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ایجنٹوں نے اسے ہتھکڑی لگائی اور اپنی کار میں بیٹھا کر اڑن چھو ہوئے۔ پیچھے طاہرہ خوف کے مارے چلاتی رہ گئی۔ یہ پاکستانی جوڑا امریکی شہر' نیویارک کے علاقے' بروکلین کا رہائشی تھا۔ ایف بی آئی کے ایجنٹ شاہد کو ایک نظر بندی سینٹر لے گئے ' اسے قیدیوں والا لباس پہنایا اور جیل میں بند کر دیا۔
یہ 5 مئی2005ء کا واقعہ ہے۔ شاہد علی خان 1997ء میں بیگم اور ایک سالہ بیٹے منصور کے ساتھ اسلام آباد سے نیویارک آیا تھا۔ منصور کے دل میں پیدائشی نقص تھا ۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس نقص کا آپریشن صرف امریکا میں ہو سکتا ہے۔ شاہد بینک منیجر تھا۔ اس نے عارضی چھٹی لی اور بیگم و بچے کے ہمراہ نیویارک پہنچ گیا۔ وہاں ماؤنٹ سینائی میڈیکل سینٹر میں منصور کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔
دل کانقص تو جاتا رہا مگر بیچارے منصور سے ایک نہایت نایاب پیچیدگی ' پوسٹ پمپ چوریا (post-pump chorea)چمٹ گئی۔ اس طبی پیچیدگی کا شکار انسان کے بازو اور ٹانگیں مسلسل ہلتے رہتے ہیں اور وہ ان کی حرکت کنٹرول نہیں کر پاتا۔ چناںچہ منصور چلنے پھرنے حتیٰ کے کھانا کھانے سے قاصر ہو گیا۔ اس کے گلے میں غذائی ٹیوب لگانا پڑی تاکہ وہ کھانا کھا سکے۔ نیز وہیل چیئر اس کی زندگی کا مستقل جز بن گئی۔
بیٹے کی دگر گوں حالت کے باعث شاہد کو نیویارک ہی میں قیام کرنا پڑا تاکہ ماؤنٹ سینائی سینٹر کے ڈاکٹر اس کا علاج جاری رکھ سکیں۔ اسی دوران 2001ء میں واقعہ نائن الیون پیش آ گیا اور مسلمانوں خصوصا پاکستانیوں کو امریکی حکومت شک و شبے کی نظروں سے دیکھنے لگی۔ ورلڈ ٹریڈسینٹر پر جہاز گرانے والے میں سے کوئی پاکستانی نہیں تھا' مگر پاکستان میں القاعدہ رہنماؤں کی موجودگی نے اس دیس کو امریکی حکمرانوں اور عوام کے نزدیک مشکوک بنا دیا۔
نومبر 2003ء میں امریکی حکومت نے شاہد علی خان کو مع اہل خانہ ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ ملک بدری روکنے کی خاطر شاہد نے ایک مسلمان وکیل' رحمانی ڈرکر کی خدمات حاصل کر لیں۔ رحمانی نے عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کر لیا اور یوں شاہد امریکا ہی میں مقیم رہا۔ اب پھر امریکی حکومت اسے تنگ کر رہی تھی بلکہ اس بار شاہد کو گرفتار کر لیا گیا۔
شاہد نے جیل سے طاہرہ کو فون کر کے کہا کہ وہ رحمانی ڈرکر سے رابطہ کر ے۔ رحمانی نے پریشان حال خاتون کو ایک پاکستانی نژاد امریکی' محمد رضوی کے پاس بھیج دیا۔ محمد نے جیلوں میں پھنسے پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے ایک سماجی تنظیم' کونسل آف پیپلز آرگنائزیشن(Council of Peoples Organization) کھول رکھی تھی۔ اس کا دفتر بروکلین ہی میں واقع تھا۔ طاہرہ فوراً وہاں پہنچ گئی۔ اس نے زاروقطار روتے ہوئے محمد رضوی کو اپنی داستان سنائی۔ وہ وقت یاد کرتے ہوئے محمد کہتا ہے '' مجھے لگا' جیسے میں کسی جنازے میں شرکت کرنے آیا ہوں۔ طاہرہ اور اس کے ساتھ آنے والے سبھی پاکستانی رو رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی و تشفی دی کہ رو مت' سب ٹھیک ہو جائے گا۔''
ایک انسان دوست روح
مصائب' مشکلات اور غم و آلام محمد رضوی کے لیے بھی نئے نہ تھے۔ اس کے والدین لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب 1980ء کے بعد پاکستان فرقہ وارانہ فساد کا نشانہ بنا' تو محمد والدین کے ہمراہ نیویارک چلا آیا۔ تب اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ ماں نرس تھی جسے ایک امریکی ہسپتال میں ملازمت مل گئی۔ اس وقت بروکلین میں بیشتر آبادی یہودی تھی۔ تاہم 1982ء میں بروکلین کے علاقے' کونی آئی لینڈ ایونیو(Coney Island Avenue) میں مکی مسجد تعمیر ہوئی' تو منظر نامہ تبدیل ہونے لگا۔
رفتہ رفتہ کئی پاکستانی کونی آئی لینڈ ایونیو میں آ بسے۔ یہ تقریباً پانچ میل لمبی سڑک ہے جس کے دونوں اطراف رہائشی بلاک آباد ہیں۔ اس کا ایک میل حصہ ایونیو ایچ بلاک اور نیو کرک ایونیو بلاک کے درمیان واقع ہے۔ تقریباً سبھی پاکستانیوں نے اسی حصّے کو اپنا مسکن بنایا اور وہاں رہنے بسنے لگے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہوتے دیکھ کر 1984ء میں محمد رضوی کے والد نے ''پنجاب گروسری'' کے نام سے جنرل اسٹور کھول لیا۔ یہ کونی آئی لینڈ ایونیو میں پہلا پاکستانی گروسری اسٹور تھا۔
محمد کا والد' عباس رضوی میل جول رکھنے والاہمدرد انسان تھا۔ وہ علاقے میں آنے والے پاکستانیوں ہی نہیںاپنے یہودی و عیسائی گاہکوں کی بھی سیٹ ہونے میں مدد کرنے لگا۔ وہ انہیں مکان یا فلیٹ تلاش کر کے دیتا۔ حتیٰ کہ آجر اور ملازموں کے مابین بھی واسطہ بن گیا۔ گاہکوں کو قرضے بھی دے دیتا۔ محمد سکول سے واپس آ کر اسٹور کے کاموں میں باپ کی مدد کرتا۔1989ء میں گریجویشن کے بعد محمد پہلی بار ماں باپ کے ساتھ پاکستان گیا تاکہ عزیز واقارب سے مل سکے۔ وہاں چچا کی بیٹی' نرجس کے مشرقی حسن نے اس کا دل موہ لیا۔ وہ پاکستانی نسوانی حسن دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ اگلے ہی سال نرجس محمد کی شریک حیات بن گئی۔ آج پانچ پیارے سے بچے ان کے گھر کی روشنی ہیں۔
حکومت ِامریکا نے 1965ء میں نیا امیگریشن اینڈ نیشلنٹی ایکٹ بنایا تھا۔ اس سے ایشیا' افریقا اور جنوبی امریکا کے باسیوں کو موقع ملا کہ امریکا آ کر آباد ہو سکیں۔ پھر 1990ء میں نیا ا یکٹ بنایا گیا جس نے ویزوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ۔ نتیجتاً اگلے ایک عشرے میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد امریکا چلی آئی اور اکثر نے نیویارک کو نیا وطن بنایا۔ چناں چہ 2000 ء میں شہر میں پاکستانیوں کی تعداد 15ہزار سے بڑھ کر 45ہزار تک پہنچ گئی۔
پاکستانیوں کی اکثریت کوئی آئی لینڈ ایونیو میں آباد ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے علاقے میں ملبوسات' قیام وطعام اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے ''دیسی'' اسٹور اور کاروبار کھل گئے۔ کوئی اس علاقے میں جاتا' تو وہاں اسے شلوار قمیص میں ملبوس پاکستانی جا بجا چلتے دکھائی دیتے۔ کہیں قلفی بک رہی ہے' تو کہیں نہاری!کونی آئی لینڈ کا وہ حصہ پاکستانیوں کی کثرت کے باعث ''لٹل پاکستان'' یا چھوٹا پاکستان کہلانے لگا۔
زندگی آرام وسکون سے گزر رہی تھی کہ واقعہ نائن الیون رونما ہو گیا اور مسلمانانِ نیویارک پر آفت ٹوٹ پڑی۔ اب امریکی خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کو معمولی باتوں پر گرفتار کرنے لگیں۔ جس مسلمان کے پاس پورے کاغذات نہ ہوتے اس سے ہتک آمیز سلوک کیا جاتا۔ امریکیوں نے لٹل پاکستان سے بھی تقریباً اڑھائی سو پاکستانی مشکوک قرار دے کر پکڑ لیے۔
گرفتار شدگان کے اہل خانہ کی حالت زار دیکھ کر محمد رضوی اور ان کے والد کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ ہم وطن ماؤں اور بہنوں کی پریشانیوں کو کم کرنے کی خاطر دوڑدھوپ کرنے لگے تاکہ گرفتار پاکستانی مردوں کو رہا کرا یا جا سکے۔ محمد رضوی کبھی ایف بی آئی کے دفتر جاتے تو کبھی کسی جیل خانے۔ اس دوران انہیں مذہبی تعصب کا نشانہ بننا پڑا۔
دراصل محمد رضوی جب اپنا نام بتاتے تو اہل کار سمجھ جاتے کہ وہ مسلمان ہیں چنانچہ انہیں جان بوجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا۔ ان کا کام بڑی دیر بعد مکمل ہوتا۔ یہ دیکھ کر محمد رضوی اپنا امریکی نک نیم ''مو'' استعمال کرنے لگے۔ وہ بتاتے ہیں ''جب میں اپنا نام مو رضوی بتانے لگا تو میرے کام تیزی سے انجام پانے لگے۔''
محمد رضوی کی سب سے بڑی بیٹی، اسما بروکلین کے ہائی سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ وہ حجاب لیتی تھی اور اسی باعث سکول میں متعصب سفید فاموں کا نشانہ بن گئی۔ بعض لڑکیاں اس پر یہ آوازیں کستیں ''تم دہشت گرد باپ کی بیٹی ہو، اپنے ملک واپس جاؤ۔''اس پر حملے بھی ہوئے۔ چوبیس سالہ اسما اب نفسیات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے ''اس زمانے میں مجھے ذہنی ٹارچر سے گزرنا پڑا، میں کئی باتیں بابا سے پوشیدہ رکھتی۔ مجھے علم تھا کہ انہیں بہت صدمہ پہنچے گا۔''
امریکا کی خفیہ ایجنسیوں، سکیورٹی کے دیگر اداروں اور عملہ جیل سے ملتے ملاتے محمد رضوی مہاجرین، تارکین وطن، پناہ گزینوں وغیرہ سے متعلق امریکی قوانین سے بخوبی آشنا ہو گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کسی مصیبت میں پھنس جائیں تو قانون سے ناواقفیت کے سبب انہیں زیادہ مصائب جھیلنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ مشکلات میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے انہوں نے ایک سماجی تنظیم قائم کر دی۔
جب پریشان حال طاہرہ خان محمد رضوی سے مدد کی طلب گار ہوئی تو وہ فوراً حرکت میں آ گئے۔ اگلے ہی دن پاکستانی خاتون کو لیے سینٹر چک شومار اور میجر اوتز کے دفاتر پہنچ گئے۔ یہ دونوں اصحاب بروکلین سے سینٹ اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں منتخب عوامی نمائندے تھے۔ محمد نے مقامی رسالے، نیوز ڈے کے رپورٹر دوست، رابرٹ پولز سے بھی رابطہ کیا۔
10 مئی 2005ء کو رابرٹ پولز نے شاہد علی خان کے خاندان پر تفصیلی رپورٹ شائع کی اور ساکنانِ نیویارک کو بتایا کہ امریکی حکومت ایک بیمار بچے کی پاکستانی فیملی کو تنگ کر رہی ہے۔ اس مضمون کی اشاعت سے امریکی حکمرانوں کے عتاب کا شکار پاکستانی خاندان کو سیکڑوں شہریوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ دباؤ میں آ کر آخر ایف بی آئی نے شاہد علی خان کو رہا کر دیا تاہم انہیں پابند بنایا گیا کہ وہ باقاعدگی سے امیگریشن افسروں سے رابطہ رکھیں۔ اس جیت کی خوشی میں نو سالہ صفدر نے محمد رضوی کو ''تھینک یو کارڈ'' بھجوایا جو اس نے خود کاغذ اور رنگوں سے تیار کیا تھا۔
نئی آفت کا نزول
2016 ء میں امریکی قوم پرست رہنما ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ انتخابی مہم شروع کرتے ہی موصوف اسلام اور مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔ اپنی نفرت انگیز مہم کے باعث وہ لاکھوں متعصب اور قوم پرست سفید فام امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور صدر امریکا بن گئے۔
جنوری 2017ء میں جیسے ہی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، پورے امریکا میں تعصب پسند گورے مسلمانوں کو زبانی کلامی یا ہاتھ سے اپنے غصّے و نفرت کا نشانہ بنانے لگے۔ ایسی سرگرمیاں امریکا میں ''ہیٹ کرائم'' یا نفرت انگیز جرم کہلاتی ہیں۔ ٹرمپ دور میں مسلمان اور سیاہ فام قوم پرست سفید فاموں کے غیظ وغصب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ لٹل پاکستان میں بستے پاکستانی بھی اس مخالفانہ لہر سے بچ نہ سکے۔
امریکی حکومت کے تازہ اعداد وشمار کی رو سے نیویارک میں 73 ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ ان کی بڑی تعداد لٹل پاکستان ہی میں آباد ہے۔ کئی پاکستانی ٹیکسیاں چلاتے، ہوٹلوں میں کام کرتے اور اسی قسم کی دیگر عام ملازمتیں کرتے ہیں۔ نسل پرست یا متعصب سفید فام ساتھی عموماً انہیں نفرت انگیز فقرے بول کر نہ صرف دق کرتے بلکہ ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ محمد رضوی کا کہنا ہے ''واقعہ نائن الیون کے بعد لٹل پاکستان میں مقیم کئی پاکستانی گھرانوں کو امریکی حکومت نے بہت تنگ کیا تھا۔ اب ٹرمپ دور شروع ہوتے ہی ان کے زخم پھر سے ہرے ہونے لگے ہیں۔''
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سب سے زیادہ شاہد علی خان کے گھرانے کی بدنصیبی ثابت ہوئی۔ اس کا بائیس سالہ بیٹا منصور طویل علاج کے بعد خاصا صحت یاب ہو چکا تھا مگر 6 جولائی کو امریکی محکمہ امیگریشن نے اس خاندان کو ملک بدر کر دیا۔ پاکستان میں امریکی ہسپتالوں جیسی سہولتیں میسر نہیں۔ گویا اب منصور کو لاچار وبے بس انسان کی طرح دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنا پڑے گی۔ اس مجبور انسان کی زندگی قوم پرستی کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ اس لعنت نے آج کئی ممالک کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دانش وروں کی اکثریت قوم پرستی کو بیماری قرار دیتی ہے۔ مشہور سائنس دان آئن سٹائل کا قول ہے ''قوم پرستی ایک طفلانہ مرض ہے۔ یہ بنی نوع انسان کا خسرہ ہے۔'' اسی طرح ممتاز امریکی فلسفی کورنیل ویسٹ کہتا ہے: ''مجھے قوم پرستی سے شدید نفرت ہے۔ یہ قبائلیت کی قسم ہے... جسے بیسویں صدی میں بت پرستی بنا دیا گیا۔''
کئی مغربی ممالک میں نیویارک کی طرح ''لٹل پاکستان'' اور ''لٹل اسلامستان'' واقع ہیں۔ان مخصوص آبادیوں میں پاکستانی اور دیگر مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں۔مگر قوم پرستی کے جراثیم پھیلنے کے بعد یہ آبادیاں سفید فام حکومتوں اور عوام کی نظروں میں کھٹکنے لگی ہیں۔ان قوتوں کی سعی ہے کہ مختلف اقدامات اپنا کر یہ آبادیاں ختم کر دی جائیں۔گویا آنے والے وقت میں لٹل پاکستان اور لٹل اسلامستان کے باسیوں کو مذید مخالفانہ اقدامات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔صد افسوس کہ نفرت و تعصب نے ان آبادیوں کے امن پسند مکینوں کو خطرات سے دوچار کر دیا اور اب وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے لگے ہیں۔
طاہرہ خان اپنے بیٹے کو سکول بھجوانے کی تیاری کر رہی تھی کہ دروازے پر لگی بیل بج اٹھی۔ اس نے سوچا، صبح سویرے کون آ گیا؟ دروازہ کھولا' تو اسے ایف بی آئی کے دو ایجنٹ نظر آئے۔ ایک ایجنٹ نے طاہرہ کو اس کے خاوند شاہد علی خان کی تصویر دکھائی اور پوچھا ''یہ آدمی کہاں ہے؟''
شاہد علی خان بہ حیثیت مزدور ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ تو کام پر جا چکا۔ ایجنٹ نے طاہرہ سے کہا کہ وہ شوہر کو فون کر کے گھر بلوا لے۔ طاہرہ شوہر سے ٹیلی فون پر باتیں کر رہی تھی کہ ایجنٹ نے فون چھین لیا اور تحکمانہ لہجے میں شاہد کو کہا کہ وہ گھر چلا آئے۔
حیران پریشان شاہد گھر پہنچا' تو اسے باہر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ایجنٹوں نے اسے ہتھکڑی لگائی اور اپنی کار میں بیٹھا کر اڑن چھو ہوئے۔ پیچھے طاہرہ خوف کے مارے چلاتی رہ گئی۔ یہ پاکستانی جوڑا امریکی شہر' نیویارک کے علاقے' بروکلین کا رہائشی تھا۔ ایف بی آئی کے ایجنٹ شاہد کو ایک نظر بندی سینٹر لے گئے ' اسے قیدیوں والا لباس پہنایا اور جیل میں بند کر دیا۔
یہ 5 مئی2005ء کا واقعہ ہے۔ شاہد علی خان 1997ء میں بیگم اور ایک سالہ بیٹے منصور کے ساتھ اسلام آباد سے نیویارک آیا تھا۔ منصور کے دل میں پیدائشی نقص تھا ۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس نقص کا آپریشن صرف امریکا میں ہو سکتا ہے۔ شاہد بینک منیجر تھا۔ اس نے عارضی چھٹی لی اور بیگم و بچے کے ہمراہ نیویارک پہنچ گیا۔ وہاں ماؤنٹ سینائی میڈیکل سینٹر میں منصور کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔
دل کانقص تو جاتا رہا مگر بیچارے منصور سے ایک نہایت نایاب پیچیدگی ' پوسٹ پمپ چوریا (post-pump chorea)چمٹ گئی۔ اس طبی پیچیدگی کا شکار انسان کے بازو اور ٹانگیں مسلسل ہلتے رہتے ہیں اور وہ ان کی حرکت کنٹرول نہیں کر پاتا۔ چناںچہ منصور چلنے پھرنے حتیٰ کے کھانا کھانے سے قاصر ہو گیا۔ اس کے گلے میں غذائی ٹیوب لگانا پڑی تاکہ وہ کھانا کھا سکے۔ نیز وہیل چیئر اس کی زندگی کا مستقل جز بن گئی۔
بیٹے کی دگر گوں حالت کے باعث شاہد کو نیویارک ہی میں قیام کرنا پڑا تاکہ ماؤنٹ سینائی سینٹر کے ڈاکٹر اس کا علاج جاری رکھ سکیں۔ اسی دوران 2001ء میں واقعہ نائن الیون پیش آ گیا اور مسلمانوں خصوصا پاکستانیوں کو امریکی حکومت شک و شبے کی نظروں سے دیکھنے لگی۔ ورلڈ ٹریڈسینٹر پر جہاز گرانے والے میں سے کوئی پاکستانی نہیں تھا' مگر پاکستان میں القاعدہ رہنماؤں کی موجودگی نے اس دیس کو امریکی حکمرانوں اور عوام کے نزدیک مشکوک بنا دیا۔
نومبر 2003ء میں امریکی حکومت نے شاہد علی خان کو مع اہل خانہ ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ ملک بدری روکنے کی خاطر شاہد نے ایک مسلمان وکیل' رحمانی ڈرکر کی خدمات حاصل کر لیں۔ رحمانی نے عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کر لیا اور یوں شاہد امریکا ہی میں مقیم رہا۔ اب پھر امریکی حکومت اسے تنگ کر رہی تھی بلکہ اس بار شاہد کو گرفتار کر لیا گیا۔
شاہد نے جیل سے طاہرہ کو فون کر کے کہا کہ وہ رحمانی ڈرکر سے رابطہ کر ے۔ رحمانی نے پریشان حال خاتون کو ایک پاکستانی نژاد امریکی' محمد رضوی کے پاس بھیج دیا۔ محمد نے جیلوں میں پھنسے پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے ایک سماجی تنظیم' کونسل آف پیپلز آرگنائزیشن(Council of Peoples Organization) کھول رکھی تھی۔ اس کا دفتر بروکلین ہی میں واقع تھا۔ طاہرہ فوراً وہاں پہنچ گئی۔ اس نے زاروقطار روتے ہوئے محمد رضوی کو اپنی داستان سنائی۔ وہ وقت یاد کرتے ہوئے محمد کہتا ہے '' مجھے لگا' جیسے میں کسی جنازے میں شرکت کرنے آیا ہوں۔ طاہرہ اور اس کے ساتھ آنے والے سبھی پاکستانی رو رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی و تشفی دی کہ رو مت' سب ٹھیک ہو جائے گا۔''
ایک انسان دوست روح
مصائب' مشکلات اور غم و آلام محمد رضوی کے لیے بھی نئے نہ تھے۔ اس کے والدین لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب 1980ء کے بعد پاکستان فرقہ وارانہ فساد کا نشانہ بنا' تو محمد والدین کے ہمراہ نیویارک چلا آیا۔ تب اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ ماں نرس تھی جسے ایک امریکی ہسپتال میں ملازمت مل گئی۔ اس وقت بروکلین میں بیشتر آبادی یہودی تھی۔ تاہم 1982ء میں بروکلین کے علاقے' کونی آئی لینڈ ایونیو(Coney Island Avenue) میں مکی مسجد تعمیر ہوئی' تو منظر نامہ تبدیل ہونے لگا۔
رفتہ رفتہ کئی پاکستانی کونی آئی لینڈ ایونیو میں آ بسے۔ یہ تقریباً پانچ میل لمبی سڑک ہے جس کے دونوں اطراف رہائشی بلاک آباد ہیں۔ اس کا ایک میل حصہ ایونیو ایچ بلاک اور نیو کرک ایونیو بلاک کے درمیان واقع ہے۔ تقریباً سبھی پاکستانیوں نے اسی حصّے کو اپنا مسکن بنایا اور وہاں رہنے بسنے لگے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہوتے دیکھ کر 1984ء میں محمد رضوی کے والد نے ''پنجاب گروسری'' کے نام سے جنرل اسٹور کھول لیا۔ یہ کونی آئی لینڈ ایونیو میں پہلا پاکستانی گروسری اسٹور تھا۔
محمد کا والد' عباس رضوی میل جول رکھنے والاہمدرد انسان تھا۔ وہ علاقے میں آنے والے پاکستانیوں ہی نہیںاپنے یہودی و عیسائی گاہکوں کی بھی سیٹ ہونے میں مدد کرنے لگا۔ وہ انہیں مکان یا فلیٹ تلاش کر کے دیتا۔ حتیٰ کہ آجر اور ملازموں کے مابین بھی واسطہ بن گیا۔ گاہکوں کو قرضے بھی دے دیتا۔ محمد سکول سے واپس آ کر اسٹور کے کاموں میں باپ کی مدد کرتا۔1989ء میں گریجویشن کے بعد محمد پہلی بار ماں باپ کے ساتھ پاکستان گیا تاکہ عزیز واقارب سے مل سکے۔ وہاں چچا کی بیٹی' نرجس کے مشرقی حسن نے اس کا دل موہ لیا۔ وہ پاکستانی نسوانی حسن دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ اگلے ہی سال نرجس محمد کی شریک حیات بن گئی۔ آج پانچ پیارے سے بچے ان کے گھر کی روشنی ہیں۔
حکومت ِامریکا نے 1965ء میں نیا امیگریشن اینڈ نیشلنٹی ایکٹ بنایا تھا۔ اس سے ایشیا' افریقا اور جنوبی امریکا کے باسیوں کو موقع ملا کہ امریکا آ کر آباد ہو سکیں۔ پھر 1990ء میں نیا ا یکٹ بنایا گیا جس نے ویزوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ۔ نتیجتاً اگلے ایک عشرے میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد امریکا چلی آئی اور اکثر نے نیویارک کو نیا وطن بنایا۔ چناں چہ 2000 ء میں شہر میں پاکستانیوں کی تعداد 15ہزار سے بڑھ کر 45ہزار تک پہنچ گئی۔
پاکستانیوں کی اکثریت کوئی آئی لینڈ ایونیو میں آباد ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے علاقے میں ملبوسات' قیام وطعام اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے ''دیسی'' اسٹور اور کاروبار کھل گئے۔ کوئی اس علاقے میں جاتا' تو وہاں اسے شلوار قمیص میں ملبوس پاکستانی جا بجا چلتے دکھائی دیتے۔ کہیں قلفی بک رہی ہے' تو کہیں نہاری!کونی آئی لینڈ کا وہ حصہ پاکستانیوں کی کثرت کے باعث ''لٹل پاکستان'' یا چھوٹا پاکستان کہلانے لگا۔
زندگی آرام وسکون سے گزر رہی تھی کہ واقعہ نائن الیون رونما ہو گیا اور مسلمانانِ نیویارک پر آفت ٹوٹ پڑی۔ اب امریکی خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کو معمولی باتوں پر گرفتار کرنے لگیں۔ جس مسلمان کے پاس پورے کاغذات نہ ہوتے اس سے ہتک آمیز سلوک کیا جاتا۔ امریکیوں نے لٹل پاکستان سے بھی تقریباً اڑھائی سو پاکستانی مشکوک قرار دے کر پکڑ لیے۔
گرفتار شدگان کے اہل خانہ کی حالت زار دیکھ کر محمد رضوی اور ان کے والد کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ ہم وطن ماؤں اور بہنوں کی پریشانیوں کو کم کرنے کی خاطر دوڑدھوپ کرنے لگے تاکہ گرفتار پاکستانی مردوں کو رہا کرا یا جا سکے۔ محمد رضوی کبھی ایف بی آئی کے دفتر جاتے تو کبھی کسی جیل خانے۔ اس دوران انہیں مذہبی تعصب کا نشانہ بننا پڑا۔
دراصل محمد رضوی جب اپنا نام بتاتے تو اہل کار سمجھ جاتے کہ وہ مسلمان ہیں چنانچہ انہیں جان بوجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا۔ ان کا کام بڑی دیر بعد مکمل ہوتا۔ یہ دیکھ کر محمد رضوی اپنا امریکی نک نیم ''مو'' استعمال کرنے لگے۔ وہ بتاتے ہیں ''جب میں اپنا نام مو رضوی بتانے لگا تو میرے کام تیزی سے انجام پانے لگے۔''
محمد رضوی کی سب سے بڑی بیٹی، اسما بروکلین کے ہائی سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ وہ حجاب لیتی تھی اور اسی باعث سکول میں متعصب سفید فاموں کا نشانہ بن گئی۔ بعض لڑکیاں اس پر یہ آوازیں کستیں ''تم دہشت گرد باپ کی بیٹی ہو، اپنے ملک واپس جاؤ۔''اس پر حملے بھی ہوئے۔ چوبیس سالہ اسما اب نفسیات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے ''اس زمانے میں مجھے ذہنی ٹارچر سے گزرنا پڑا، میں کئی باتیں بابا سے پوشیدہ رکھتی۔ مجھے علم تھا کہ انہیں بہت صدمہ پہنچے گا۔''
امریکا کی خفیہ ایجنسیوں، سکیورٹی کے دیگر اداروں اور عملہ جیل سے ملتے ملاتے محمد رضوی مہاجرین، تارکین وطن، پناہ گزینوں وغیرہ سے متعلق امریکی قوانین سے بخوبی آشنا ہو گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کسی مصیبت میں پھنس جائیں تو قانون سے ناواقفیت کے سبب انہیں زیادہ مصائب جھیلنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ مشکلات میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے انہوں نے ایک سماجی تنظیم قائم کر دی۔
جب پریشان حال طاہرہ خان محمد رضوی سے مدد کی طلب گار ہوئی تو وہ فوراً حرکت میں آ گئے۔ اگلے ہی دن پاکستانی خاتون کو لیے سینٹر چک شومار اور میجر اوتز کے دفاتر پہنچ گئے۔ یہ دونوں اصحاب بروکلین سے سینٹ اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں منتخب عوامی نمائندے تھے۔ محمد نے مقامی رسالے، نیوز ڈے کے رپورٹر دوست، رابرٹ پولز سے بھی رابطہ کیا۔
10 مئی 2005ء کو رابرٹ پولز نے شاہد علی خان کے خاندان پر تفصیلی رپورٹ شائع کی اور ساکنانِ نیویارک کو بتایا کہ امریکی حکومت ایک بیمار بچے کی پاکستانی فیملی کو تنگ کر رہی ہے۔ اس مضمون کی اشاعت سے امریکی حکمرانوں کے عتاب کا شکار پاکستانی خاندان کو سیکڑوں شہریوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ دباؤ میں آ کر آخر ایف بی آئی نے شاہد علی خان کو رہا کر دیا تاہم انہیں پابند بنایا گیا کہ وہ باقاعدگی سے امیگریشن افسروں سے رابطہ رکھیں۔ اس جیت کی خوشی میں نو سالہ صفدر نے محمد رضوی کو ''تھینک یو کارڈ'' بھجوایا جو اس نے خود کاغذ اور رنگوں سے تیار کیا تھا۔
نئی آفت کا نزول
2016 ء میں امریکی قوم پرست رہنما ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ انتخابی مہم شروع کرتے ہی موصوف اسلام اور مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔ اپنی نفرت انگیز مہم کے باعث وہ لاکھوں متعصب اور قوم پرست سفید فام امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور صدر امریکا بن گئے۔
جنوری 2017ء میں جیسے ہی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، پورے امریکا میں تعصب پسند گورے مسلمانوں کو زبانی کلامی یا ہاتھ سے اپنے غصّے و نفرت کا نشانہ بنانے لگے۔ ایسی سرگرمیاں امریکا میں ''ہیٹ کرائم'' یا نفرت انگیز جرم کہلاتی ہیں۔ ٹرمپ دور میں مسلمان اور سیاہ فام قوم پرست سفید فاموں کے غیظ وغصب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ لٹل پاکستان میں بستے پاکستانی بھی اس مخالفانہ لہر سے بچ نہ سکے۔
امریکی حکومت کے تازہ اعداد وشمار کی رو سے نیویارک میں 73 ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ ان کی بڑی تعداد لٹل پاکستان ہی میں آباد ہے۔ کئی پاکستانی ٹیکسیاں چلاتے، ہوٹلوں میں کام کرتے اور اسی قسم کی دیگر عام ملازمتیں کرتے ہیں۔ نسل پرست یا متعصب سفید فام ساتھی عموماً انہیں نفرت انگیز فقرے بول کر نہ صرف دق کرتے بلکہ ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ محمد رضوی کا کہنا ہے ''واقعہ نائن الیون کے بعد لٹل پاکستان میں مقیم کئی پاکستانی گھرانوں کو امریکی حکومت نے بہت تنگ کیا تھا۔ اب ٹرمپ دور شروع ہوتے ہی ان کے زخم پھر سے ہرے ہونے لگے ہیں۔''
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سب سے زیادہ شاہد علی خان کے گھرانے کی بدنصیبی ثابت ہوئی۔ اس کا بائیس سالہ بیٹا منصور طویل علاج کے بعد خاصا صحت یاب ہو چکا تھا مگر 6 جولائی کو امریکی محکمہ امیگریشن نے اس خاندان کو ملک بدر کر دیا۔ پاکستان میں امریکی ہسپتالوں جیسی سہولتیں میسر نہیں۔ گویا اب منصور کو لاچار وبے بس انسان کی طرح دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنا پڑے گی۔ اس مجبور انسان کی زندگی قوم پرستی کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ اس لعنت نے آج کئی ممالک کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دانش وروں کی اکثریت قوم پرستی کو بیماری قرار دیتی ہے۔ مشہور سائنس دان آئن سٹائل کا قول ہے ''قوم پرستی ایک طفلانہ مرض ہے۔ یہ بنی نوع انسان کا خسرہ ہے۔'' اسی طرح ممتاز امریکی فلسفی کورنیل ویسٹ کہتا ہے: ''مجھے قوم پرستی سے شدید نفرت ہے۔ یہ قبائلیت کی قسم ہے... جسے بیسویں صدی میں بت پرستی بنا دیا گیا۔''
کئی مغربی ممالک میں نیویارک کی طرح ''لٹل پاکستان'' اور ''لٹل اسلامستان'' واقع ہیں۔ان مخصوص آبادیوں میں پاکستانی اور دیگر مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں۔مگر قوم پرستی کے جراثیم پھیلنے کے بعد یہ آبادیاں سفید فام حکومتوں اور عوام کی نظروں میں کھٹکنے لگی ہیں۔ان قوتوں کی سعی ہے کہ مختلف اقدامات اپنا کر یہ آبادیاں ختم کر دی جائیں۔گویا آنے والے وقت میں لٹل پاکستان اور لٹل اسلامستان کے باسیوں کو مذید مخالفانہ اقدامات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔صد افسوس کہ نفرت و تعصب نے ان آبادیوں کے امن پسند مکینوں کو خطرات سے دوچار کر دیا اور اب وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے لگے ہیں۔