سگار صاحب اور بندر
جب کوئی لیڈر ہمارے لیے بوجھ بن جائے تواس کوبھی سیاسی مگرمچھوں اور خوفناک انسانی چھپکلیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
چندماہ پہلے پیغام ملاکہ ''صاحب'' نے بلایا ہے۔ بلاوا قدرے عجیب اس لیے تھاکہ اس سے پہلے صرف ایک ملاقات ہوئی تھی۔ ملاقات اگر ناخوشگوار نہیں تھی تو خوشگوار تو قطعاً نہیں تھی۔ایک خشک سی،کھردری نشست۔خیراگلے دن صاحب کے فارم ہاؤس پہنچا تو بتایا گیاکہ اسٹڈی میں بیٹھے ہیں۔ اسٹڈی پہنچاتوجگہ کسی طرح بھی چھوٹاساکمرہ نہیں تھی۔وسیع ہال جس میں دواطراف نفیس چمڑے میں جلد ہوئی خوبصورت کتابیں ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔سرسری طورپردیکھنے پرمعلوم ہواکہ تمام کتب سیاست اورمعیشت پرہیں۔
صاحب،بڑے آرام سے ایک پُرتعیش''راکنگ چیئر''پربیٹھے ہوئے تھے۔ چیئرپرسونے کی تاروں سے منقش خوبصورت ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔کرسی کے دو ہتھوں کے آخرمیں اژدھے کے منہ تراشے ہوئے تھے۔ لگتاتھاکہ دونوں سانپ مجھے غورسے دیکھ رہے ہیں۔ گمان ہوتاتھاکہ ابھی کرسی سے باہرنکلیں گے اورہرایک کو نگل لینگے۔شکرہے کہ وہ صرف اورصرف لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔
صاحب بڑی تسلی سے شیشے سے باہرکی طرف دیکھ رہے تھے۔جہاں ان کا بہت بڑاذاتی چڑیا گھر تھا۔ کہنے لگے کیاحال ہے۔ میری کتابوں کواتنے غورسے کیوں دیکھ رہے تھے۔سادہ ساجواب دیاکہ مجھے کتابوں سے عشق ہے۔ صاحب نے زیرلب مسکراکرطنزیہ طریقے سے کہا،کہ اسی وجہ سے بیوروکریسی میں اتنا پیچھے رہ چکے ہیں۔
کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں ہوتیں۔یہ صرف سجاوٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ان میں صرف ایک کتاب ہے جسے میں روزپڑھتاہوں،صرف ایک۔کئی برس سے سمجھنے کی کوشش کر رہاہوں لیکن ابھی تک صرف پچاس فیصدتک سمجھ پایاہوں۔کتاب''پرنس'' The Prince ہے۔ جو دنیاکے سب سے ظالم فلسفی میکاولی نے سیکڑوں برس پہلے لکھی تھی۔آج بھی یہ کتاب حرف بحرف سچ ہے۔ میراسادہ ساسوال تھاکہ یہ توایک منفی سی کتاب ہے۔اس میں تودرج ہے کہ بادشاہ کواپنی حکومت بچانے کے لیے ہر حربہ آزماناچاہیے۔
جن ساتھیوں کی مدد سے طاقت میں آیاہے۔سب سے پہلے انھیں ٹھکانے لگاناچاہیے۔کسی پر بھی اعتماد نہیں کرناچاہیے۔سلطنت بچانے کے لیے کسی بھی اخلاقی قدروں پریقین نہیں کرناچاہیے۔صاحب میری معصومانہ گفتگوسن کراُٹھے۔ میزسے کیوبن سگاراُٹھایااور سکون سے پینے لگے۔ پھر کہنے لگے۔ برخوردار،اصل سچ اورحقیقت تویہی ہے۔بادشاہ کاکوئی دوست نہیں ہونا چاہیے۔اوراس کاکوئی دشمن زندہ نہیں رہناچاہیے۔ تمہیں تیس سال کی نوکری کے بعد بھی رموزسلطنت کی الف ب بھی معلوم نہیں۔طاقت دنیاکاسب سے جان لیوانشہ ہے۔اس کے لیے اگربھائی یا بیٹا بھی قربان کرنا پڑے تو یہ معمولی بات ہے۔
صاحب کی باتوں میں سگارپینے کے ساتھ ساتھ مزیدٹھہراؤآرہاتھا۔اتنی دیرمیں بارودی ویڑگرم کافی کے دوکپ لایا۔کافی پیتے ہوئے صاحب نے سوال کیا۔ملک کی سیاست کیسی چل رہی ہے۔سوچ سمجھ کرجواب دیا،کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔میراسیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں تومتعددحکومتوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔زچ ہوکرصاحب کہنے لگے۔کہ تمہاری دوسری بڑی غلطی ہے کہ تم کسی بھی سیاسی جماعت یاگروہ کے ساتھ نہیں ہو۔اس لیے آج تک اپنا ذاتی مکان نہیں بنا پائے۔ادنیٰ سے سرکاری مکان میں رہنے پراکتفاکیے بیٹھے ہو۔تمہیں طاقتورسیاسی گروہوں میں اپنی جگہ بنانے کا فن نہیں آتا۔پھرایک سینئر سرکاری ملازم کانام لیا۔مثال دیکرکہا،کہ یہ اتناذہین اوردنیاداربچہ ہے کہ ہرحکومت کی آنکھ کا تارابن جاتا ہے۔تم اس طرح کبھی نہ بن پائے۔
اس لیے اتنا پیچھے رہ چکے ہو۔ میں نے تلخی سے کہاکہ کسی بھی سرکاری ملازم کاسیاست سے تعلق قوانین کے خلاف ہے۔صاحب نے زورسے قہقہہ لگایا۔ قانون، کونسا قانون۔اگر قانون کی عزت یاحرمت ہوتی، تو کیا تمہارا ملک اس درجہ بدحال ہوتا۔قانون بھی پانی کی طرح ہے۔ جس برتن میں ڈالواس جیسا ہوجاتا ہے۔اصل طاقت قانون کی نہیں،لاقانونیت کی ہے۔لیکن یہ بات تمہیں ابھی سمجھ نہیں آئیگی۔میں خاموش ہوگیا۔اصل طاقت لاقانونیت میں ہے۔ایسے لگا،شیشے کے باہربڑے بڑے درخت اپنے پتوں سمیت خاموش سے راگ الاپ رہے ہیں۔
اصل جوہراورطاقت صرف اورصرف لاقانونیت کی ہے۔گھبراکر صاحب سے کہا،کہ موجودہ حکومت کافی مشکلات کاشکارہے۔آیندہ چندہفتوں میں اونٹ کسی نہ کسی طرف بیٹھ جائیگا۔صاحب نے المیہ مسکراہٹ کے ساتھ کافی پیتے ہوئے کہا، مشکلات،کون سی مشکلات۔یہ تمام ہنرتومیرے جیسے لوگوں کی جیب میںہے۔جوجب چاہیں،جہاں چاہیں کسی بھی طرح کی مشکلات پیدا کر دیں۔یہ توسانپ اورسیڑھی کا پراناکھیل ہے۔مجھے پتہ ہے کہ کس وقت سانپ کوسیڑھی بناناہے اورکس وقت سیڑھی کوسانپ میں تبدیل کرناہے۔یہاں کسی فریق کا بھی کوئی مستقل کردارنہیں ہے۔یہ تومیرے جیسے بادشاہ گرلوگ بتاتے ہیں کہ کون کیاکریگا۔کون ساگھوڑا تیز دوڑے گا۔پھرآہستہ ہوجائیگااورآخرمیں ہمارے حکم پر بیٹھ جائیگا۔اورنتیجہ یہ کہ ریس میں سب سے آہستہ دوڑنے والاگھوڑابڑے آرام سے پہلے نمبرپرآجائیگا۔
صاحب نے دوسری بارکافی منگوائی۔میراسوال تھا، کہ حکومت توالیکشن کے ذریعے آتی ہے اورپھراس پرشب خون ماراجاتاہے۔صاحب کاجواب تھا۔الیکشن،کون سا الیکشن۔سوچو،اس میں پیسہ کون لگاتاہے۔کون مختلف پارٹیوں کوسرمایہ فراہم کرتاہے۔کون، پھران کے قائدین کو رات کے اندھیرے میں بتاتاہے کہ اس کثیررقم کو کیسے استعمال کرناہے۔
آج تک ہمارے ملک میں جوبھی الیکشن ہواہے،اس کی درپردہ داستان بالکل مختلف ہے۔کس کو جتانا ہے،کس پارٹی کوہراناہے۔کس شخص کوسیاسی دیوتا بناکرپیش کرناہے اورکس کوشیطان۔یہ سب کچھ ہمارے جیسے لوگ کرتے ہیں۔عوام کاتوکسی الیکشن میں کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ہوتا۔ہاں ایک اوربات۔ میرے جیسے چندلوگ ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کس حکومت کوکب اور کیونکر ختم کرنا ہے۔ملک کی ہرحکومت پرنئے طریقے سے وار کیا جاتاہے ایساحربہ،جوان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔صاحب کی یہ بات بہت زیادہ سنجیدہ تھی۔
اطمینان سے دوبارہ بولنا شروع کیا۔تمہارے قومی قائدین اس کمرے میں آکرہاتھ جوڑجوڑکرالتجاکرتے ہیں کہ مجھے اس بارفلاں''بڑاعہدہ'' دلوادو۔کوئی وزارت کی بھیک مانگتاہے اورکوئی بے پناہ پیسے والے ٹھیکوں کی۔ہاں،ایک اوربات۔ ہرقائد یہ ضرورکہتا ہے کہ مہربانی کرکے کسی کوبھی بتائیے گا نہیں کہ میں یہاں آیاتھا۔بس آپ صرف ہاں کر دیں۔میراکام ہوجائیگا۔ آپ اپناجومرضی حصہ رکھ لیں۔ پرمجھ پرعنایت ضرور کریں۔ ہاں ایک اوربات،تمہارے مذہبی قائدین بھی یہاں قدم رنجا فرماتے ہیں۔وہ سب سے زیادہ سچ بولتے ہیں۔وہ صرف اورصرف،سیدھے طریقے سے پیسے مانگتے ہیں۔ اختیار مانگتے ہیں۔تحفظ مانگتے ہیں۔پیسوں کے معاملے میں انکاکسی بھی فرقہ اور گروہ بندی پرکوئی یقین نہیں۔میرے گھرآکریہ سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔
مجھے اس بات پریقین نہ آیا۔ صاحب نے بے یقینی میرے چہرے پرپڑھ لی۔ کہا، کیا تمہاراایک مذہبی لیڈرایک بین الاقوامی ائیرپورٹ پر غیرملکی کرنسی پاکستان لاتے ہوئے پکڑا نہیں گیا تھا۔ میری لاعلمی پرصاحب نے قہرآلودقہقہ لگایا۔اس کانام لے کرکہا،کہ اسے چھڑوایاکس نے تھا۔جیل سے کیسے بچا۔ میرے پاس اس سوال کاکوئی معقول جواب نہیں تھا۔
صاحب کہنے لگے،ائیرپورٹ سے اس نے مجھے فون کیا تھا۔کہنے لگا۔ اتنے پیسے پکڑے گئے ہیں۔آدھے آپ لے لیں۔میری جان بخشی کرادیں۔میرے ایک فون پروہ آزاد ہو کر پاکستان پہنچ گیاتھا۔مگراس نے ایک ادنیٰ حرکت کی۔ واپس آکرمیرامعاوضہ ادا نہیں کیا۔میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔اس دن سے آج تک،وہ اپنی دلی تمنا پوری نہیں کرپایا۔ اس کھیل کی بنیادہی اعتمادہے۔ایک بارجواس بنیادکوچھیڑے،وہ کبھی بھی طاقتورسطح پرزندہ نہیں رہ سکتا۔
صاحب بڑے آرام سے اُٹھا۔کہنے لگا،میرا چڑیا گھرضروردیکھو۔دونوں گھرسے باہرآگئے۔ایکٹروں میں پھیلے ہوئے ذاتی چڑیاگھرمیں ہرطرح کے جانور قید تھے۔ ببرشیر،چیتے،بندر،ریچھ،مگرمچھ،زیبرے،بڑی بڑی چھپکلیاں اورسیکڑوں پرندے۔صاحب خوفناک چھپکلیوں کے پنجرے کے باہرکھڑے ہوگئے۔کئی کئی فٹ لمبی یہ خوفناک چھپکلیاںپہلے صرف ٹی وی پردیکھی تھیں۔ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ پاکستان میں کسی نے اپنے فارم ہاؤس میں پالیں ہوںگی۔صاحب نے ان کوبڑے پیار سے دیکھا۔پنجرے کے نزدیک کھڑاہوکرنوکرکوکہا،کہ ان کوگوشت ڈالو۔میرے سامنے نوکرنے تقریباًبیس سے تیس کلوگوشت ڈالا۔منٹوں سیکنڈوں میں گوشت چٹ کر گئیں۔ان کی قیمت تقریباً تیس کروڑہے۔ان پرمہینے میں بارہ لاکھ خرچ ہوتا ہے۔
میراسوال تھا،کہ ان کریہہ صورت جانوروں کی افادیت کیاہے۔کیاضرورت ہے ان کوپالنے کی۔صاحب نے پیارسے ان چھپکلیوں کودیکھ کرکہا،جب بھی کوئی جانور ہمارے کام کا نہیں رہتا، تو کھانے کے طورپرانکوڈال دیاجاتا ہے۔اگربڑاجثہ ہو،تو مگرمچھ والے تالاب میں ان کی بھوک مٹانے کے کام آتا ہے۔صاحب کہنے لگے،ہم تمہارے سیاسی نظام میں بھی یہی کرتے ہیں۔
جب کوئی لیڈر ہمارے لیے بوجھ بن جائے تواس کوبھی سیاسی مگرمچھوں اور خوفناک انسانی چھپکلیوں کے حوالے کردیاجاتاہے۔اس کا نام ونشان تک مٹ جاتاہے۔ہاں، چڑیاگھرمیں بہت سے بندربھی ہیں۔جب بھی دل تماشہ دیکھنے کوچاہتا ہے توان مہذب نظرآنے والے بندروں کوڈنڈے دے دیتا ہوں۔ ان کا کھاناروک دیاجاتا ہے۔تھوڑے سے عرصے کے بعد بندردیوانوں کی طرح ایک دوسرے کوڈنڈے مار مار کرفنا کر دیتے ہیں۔یہ شغل ہمیشہ کرتارہتاہوں۔صاحب کہنے لگے،یہی ہم لوگ سیاسی میدان میں کرتے ہیں۔یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ کس بندرکوکس وقت کون ساڈنڈا مہیاکرنا ہے۔ باقی سب کام خودبخودہوجاتاہے۔اب تم جاؤ،میرے اورمہمان آنے والے ہیں!
صاحب،بڑے آرام سے ایک پُرتعیش''راکنگ چیئر''پربیٹھے ہوئے تھے۔ چیئرپرسونے کی تاروں سے منقش خوبصورت ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔کرسی کے دو ہتھوں کے آخرمیں اژدھے کے منہ تراشے ہوئے تھے۔ لگتاتھاکہ دونوں سانپ مجھے غورسے دیکھ رہے ہیں۔ گمان ہوتاتھاکہ ابھی کرسی سے باہرنکلیں گے اورہرایک کو نگل لینگے۔شکرہے کہ وہ صرف اورصرف لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔
صاحب بڑی تسلی سے شیشے سے باہرکی طرف دیکھ رہے تھے۔جہاں ان کا بہت بڑاذاتی چڑیا گھر تھا۔ کہنے لگے کیاحال ہے۔ میری کتابوں کواتنے غورسے کیوں دیکھ رہے تھے۔سادہ ساجواب دیاکہ مجھے کتابوں سے عشق ہے۔ صاحب نے زیرلب مسکراکرطنزیہ طریقے سے کہا،کہ اسی وجہ سے بیوروکریسی میں اتنا پیچھے رہ چکے ہیں۔
کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں ہوتیں۔یہ صرف سجاوٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ان میں صرف ایک کتاب ہے جسے میں روزپڑھتاہوں،صرف ایک۔کئی برس سے سمجھنے کی کوشش کر رہاہوں لیکن ابھی تک صرف پچاس فیصدتک سمجھ پایاہوں۔کتاب''پرنس'' The Prince ہے۔ جو دنیاکے سب سے ظالم فلسفی میکاولی نے سیکڑوں برس پہلے لکھی تھی۔آج بھی یہ کتاب حرف بحرف سچ ہے۔ میراسادہ ساسوال تھاکہ یہ توایک منفی سی کتاب ہے۔اس میں تودرج ہے کہ بادشاہ کواپنی حکومت بچانے کے لیے ہر حربہ آزماناچاہیے۔
جن ساتھیوں کی مدد سے طاقت میں آیاہے۔سب سے پہلے انھیں ٹھکانے لگاناچاہیے۔کسی پر بھی اعتماد نہیں کرناچاہیے۔سلطنت بچانے کے لیے کسی بھی اخلاقی قدروں پریقین نہیں کرناچاہیے۔صاحب میری معصومانہ گفتگوسن کراُٹھے۔ میزسے کیوبن سگاراُٹھایااور سکون سے پینے لگے۔ پھر کہنے لگے۔ برخوردار،اصل سچ اورحقیقت تویہی ہے۔بادشاہ کاکوئی دوست نہیں ہونا چاہیے۔اوراس کاکوئی دشمن زندہ نہیں رہناچاہیے۔ تمہیں تیس سال کی نوکری کے بعد بھی رموزسلطنت کی الف ب بھی معلوم نہیں۔طاقت دنیاکاسب سے جان لیوانشہ ہے۔اس کے لیے اگربھائی یا بیٹا بھی قربان کرنا پڑے تو یہ معمولی بات ہے۔
صاحب کی باتوں میں سگارپینے کے ساتھ ساتھ مزیدٹھہراؤآرہاتھا۔اتنی دیرمیں بارودی ویڑگرم کافی کے دوکپ لایا۔کافی پیتے ہوئے صاحب نے سوال کیا۔ملک کی سیاست کیسی چل رہی ہے۔سوچ سمجھ کرجواب دیا،کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔میراسیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں تومتعددحکومتوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔زچ ہوکرصاحب کہنے لگے۔کہ تمہاری دوسری بڑی غلطی ہے کہ تم کسی بھی سیاسی جماعت یاگروہ کے ساتھ نہیں ہو۔اس لیے آج تک اپنا ذاتی مکان نہیں بنا پائے۔ادنیٰ سے سرکاری مکان میں رہنے پراکتفاکیے بیٹھے ہو۔تمہیں طاقتورسیاسی گروہوں میں اپنی جگہ بنانے کا فن نہیں آتا۔پھرایک سینئر سرکاری ملازم کانام لیا۔مثال دیکرکہا،کہ یہ اتناذہین اوردنیاداربچہ ہے کہ ہرحکومت کی آنکھ کا تارابن جاتا ہے۔تم اس طرح کبھی نہ بن پائے۔
اس لیے اتنا پیچھے رہ چکے ہو۔ میں نے تلخی سے کہاکہ کسی بھی سرکاری ملازم کاسیاست سے تعلق قوانین کے خلاف ہے۔صاحب نے زورسے قہقہہ لگایا۔ قانون، کونسا قانون۔اگر قانون کی عزت یاحرمت ہوتی، تو کیا تمہارا ملک اس درجہ بدحال ہوتا۔قانون بھی پانی کی طرح ہے۔ جس برتن میں ڈالواس جیسا ہوجاتا ہے۔اصل طاقت قانون کی نہیں،لاقانونیت کی ہے۔لیکن یہ بات تمہیں ابھی سمجھ نہیں آئیگی۔میں خاموش ہوگیا۔اصل طاقت لاقانونیت میں ہے۔ایسے لگا،شیشے کے باہربڑے بڑے درخت اپنے پتوں سمیت خاموش سے راگ الاپ رہے ہیں۔
اصل جوہراورطاقت صرف اورصرف لاقانونیت کی ہے۔گھبراکر صاحب سے کہا،کہ موجودہ حکومت کافی مشکلات کاشکارہے۔آیندہ چندہفتوں میں اونٹ کسی نہ کسی طرف بیٹھ جائیگا۔صاحب نے المیہ مسکراہٹ کے ساتھ کافی پیتے ہوئے کہا، مشکلات،کون سی مشکلات۔یہ تمام ہنرتومیرے جیسے لوگوں کی جیب میںہے۔جوجب چاہیں،جہاں چاہیں کسی بھی طرح کی مشکلات پیدا کر دیں۔یہ توسانپ اورسیڑھی کا پراناکھیل ہے۔مجھے پتہ ہے کہ کس وقت سانپ کوسیڑھی بناناہے اورکس وقت سیڑھی کوسانپ میں تبدیل کرناہے۔یہاں کسی فریق کا بھی کوئی مستقل کردارنہیں ہے۔یہ تومیرے جیسے بادشاہ گرلوگ بتاتے ہیں کہ کون کیاکریگا۔کون ساگھوڑا تیز دوڑے گا۔پھرآہستہ ہوجائیگااورآخرمیں ہمارے حکم پر بیٹھ جائیگا۔اورنتیجہ یہ کہ ریس میں سب سے آہستہ دوڑنے والاگھوڑابڑے آرام سے پہلے نمبرپرآجائیگا۔
صاحب نے دوسری بارکافی منگوائی۔میراسوال تھا، کہ حکومت توالیکشن کے ذریعے آتی ہے اورپھراس پرشب خون ماراجاتاہے۔صاحب کاجواب تھا۔الیکشن،کون سا الیکشن۔سوچو،اس میں پیسہ کون لگاتاہے۔کون مختلف پارٹیوں کوسرمایہ فراہم کرتاہے۔کون، پھران کے قائدین کو رات کے اندھیرے میں بتاتاہے کہ اس کثیررقم کو کیسے استعمال کرناہے۔
آج تک ہمارے ملک میں جوبھی الیکشن ہواہے،اس کی درپردہ داستان بالکل مختلف ہے۔کس کو جتانا ہے،کس پارٹی کوہراناہے۔کس شخص کوسیاسی دیوتا بناکرپیش کرناہے اورکس کوشیطان۔یہ سب کچھ ہمارے جیسے لوگ کرتے ہیں۔عوام کاتوکسی الیکشن میں کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ہوتا۔ہاں ایک اوربات۔ میرے جیسے چندلوگ ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کس حکومت کوکب اور کیونکر ختم کرنا ہے۔ملک کی ہرحکومت پرنئے طریقے سے وار کیا جاتاہے ایساحربہ،جوان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔صاحب کی یہ بات بہت زیادہ سنجیدہ تھی۔
اطمینان سے دوبارہ بولنا شروع کیا۔تمہارے قومی قائدین اس کمرے میں آکرہاتھ جوڑجوڑکرالتجاکرتے ہیں کہ مجھے اس بارفلاں''بڑاعہدہ'' دلوادو۔کوئی وزارت کی بھیک مانگتاہے اورکوئی بے پناہ پیسے والے ٹھیکوں کی۔ہاں،ایک اوربات۔ ہرقائد یہ ضرورکہتا ہے کہ مہربانی کرکے کسی کوبھی بتائیے گا نہیں کہ میں یہاں آیاتھا۔بس آپ صرف ہاں کر دیں۔میراکام ہوجائیگا۔ آپ اپناجومرضی حصہ رکھ لیں۔ پرمجھ پرعنایت ضرور کریں۔ ہاں ایک اوربات،تمہارے مذہبی قائدین بھی یہاں قدم رنجا فرماتے ہیں۔وہ سب سے زیادہ سچ بولتے ہیں۔وہ صرف اورصرف،سیدھے طریقے سے پیسے مانگتے ہیں۔ اختیار مانگتے ہیں۔تحفظ مانگتے ہیں۔پیسوں کے معاملے میں انکاکسی بھی فرقہ اور گروہ بندی پرکوئی یقین نہیں۔میرے گھرآکریہ سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔
مجھے اس بات پریقین نہ آیا۔ صاحب نے بے یقینی میرے چہرے پرپڑھ لی۔ کہا، کیا تمہاراایک مذہبی لیڈرایک بین الاقوامی ائیرپورٹ پر غیرملکی کرنسی پاکستان لاتے ہوئے پکڑا نہیں گیا تھا۔ میری لاعلمی پرصاحب نے قہرآلودقہقہ لگایا۔اس کانام لے کرکہا،کہ اسے چھڑوایاکس نے تھا۔جیل سے کیسے بچا۔ میرے پاس اس سوال کاکوئی معقول جواب نہیں تھا۔
صاحب کہنے لگے،ائیرپورٹ سے اس نے مجھے فون کیا تھا۔کہنے لگا۔ اتنے پیسے پکڑے گئے ہیں۔آدھے آپ لے لیں۔میری جان بخشی کرادیں۔میرے ایک فون پروہ آزاد ہو کر پاکستان پہنچ گیاتھا۔مگراس نے ایک ادنیٰ حرکت کی۔ واپس آکرمیرامعاوضہ ادا نہیں کیا۔میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔اس دن سے آج تک،وہ اپنی دلی تمنا پوری نہیں کرپایا۔ اس کھیل کی بنیادہی اعتمادہے۔ایک بارجواس بنیادکوچھیڑے،وہ کبھی بھی طاقتورسطح پرزندہ نہیں رہ سکتا۔
صاحب بڑے آرام سے اُٹھا۔کہنے لگا،میرا چڑیا گھرضروردیکھو۔دونوں گھرسے باہرآگئے۔ایکٹروں میں پھیلے ہوئے ذاتی چڑیاگھرمیں ہرطرح کے جانور قید تھے۔ ببرشیر،چیتے،بندر،ریچھ،مگرمچھ،زیبرے،بڑی بڑی چھپکلیاں اورسیکڑوں پرندے۔صاحب خوفناک چھپکلیوں کے پنجرے کے باہرکھڑے ہوگئے۔کئی کئی فٹ لمبی یہ خوفناک چھپکلیاںپہلے صرف ٹی وی پردیکھی تھیں۔ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ پاکستان میں کسی نے اپنے فارم ہاؤس میں پالیں ہوںگی۔صاحب نے ان کوبڑے پیار سے دیکھا۔پنجرے کے نزدیک کھڑاہوکرنوکرکوکہا،کہ ان کوگوشت ڈالو۔میرے سامنے نوکرنے تقریباًبیس سے تیس کلوگوشت ڈالا۔منٹوں سیکنڈوں میں گوشت چٹ کر گئیں۔ان کی قیمت تقریباً تیس کروڑہے۔ان پرمہینے میں بارہ لاکھ خرچ ہوتا ہے۔
میراسوال تھا،کہ ان کریہہ صورت جانوروں کی افادیت کیاہے۔کیاضرورت ہے ان کوپالنے کی۔صاحب نے پیارسے ان چھپکلیوں کودیکھ کرکہا،جب بھی کوئی جانور ہمارے کام کا نہیں رہتا، تو کھانے کے طورپرانکوڈال دیاجاتا ہے۔اگربڑاجثہ ہو،تو مگرمچھ والے تالاب میں ان کی بھوک مٹانے کے کام آتا ہے۔صاحب کہنے لگے،ہم تمہارے سیاسی نظام میں بھی یہی کرتے ہیں۔
جب کوئی لیڈر ہمارے لیے بوجھ بن جائے تواس کوبھی سیاسی مگرمچھوں اور خوفناک انسانی چھپکلیوں کے حوالے کردیاجاتاہے۔اس کا نام ونشان تک مٹ جاتاہے۔ہاں، چڑیاگھرمیں بہت سے بندربھی ہیں۔جب بھی دل تماشہ دیکھنے کوچاہتا ہے توان مہذب نظرآنے والے بندروں کوڈنڈے دے دیتا ہوں۔ ان کا کھاناروک دیاجاتا ہے۔تھوڑے سے عرصے کے بعد بندردیوانوں کی طرح ایک دوسرے کوڈنڈے مار مار کرفنا کر دیتے ہیں۔یہ شغل ہمیشہ کرتارہتاہوں۔صاحب کہنے لگے،یہی ہم لوگ سیاسی میدان میں کرتے ہیں۔یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ کس بندرکوکس وقت کون ساڈنڈا مہیاکرنا ہے۔ باقی سب کام خودبخودہوجاتاہے۔اب تم جاؤ،میرے اورمہمان آنے والے ہیں!