معصوم مزمل اور ظالم نظام

چند گز زمین کے مالک نے شاید زمین کے نیچے نہیں جانا اسی لئے ایک معصوم سے بچے پر ظلم کا یہ پہاڑ توڑا۔

کیا ایسے ظالموں کا کوئی حساب نہیں جو زندگیاں لوٹتے ہیں؟ کیا اِس واقعہ کی مذمت میں کسی بھی عوام نمائندے نے کوئی بیان دیا؟ کوئی نوٹس لیا؟ فوٹو: فائل

یوں تو بم دھماکے، قتل اور خون ریزی کی خبریں دیکھ دیکھ کر ہم سب کچھ سخت دل ہوگئے ہیں اور عموماً سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دلدوز تصاویر دیکھنے کی بھی عادت سی ہوگئی ہے۔ لیکن گزشتہ دو روز قبل انسان کے ہاتھوں انسانیت پر ٹوٹنے والا ایک ایسا ظلم نظروں کے سامنے سے گزرا جس نے دل کو لہولہان کردیا۔ چند گز زمین کے مالک نے شاید زمین کے نیچے نہیں جانا اِسی لئے ایک معصوم سے بچے پر ظلم کا یہ پہاڑ توڑا۔

8 برس کیا عمر ہوتی ہے، شاید تیسری جماعت کے طالب علم عموماً اِس عمر کے ہوتے ہیں۔ معصوم، بھولے بھالے، شرارتی جن کی سرزنش کیلئے پھول سے گالوں پر اُٹھنے والے ہاتھ کے بعد بھی والدین کے دل کانپ جاتے ہیں کہ چہرے پر نشان نہ بن جائیں، ایسے ہی ایک بچے مزمل کا لہولہان چہرہ دیکھ کر دل بھی چھلنی ہوگیا۔

8 سالہ مزمل ایبٹ آباد کا رہائشی تھا، اور اپنے بڑے بھائی اور ایک کزن کے ہمراہ بکریاں چرا رہا تھا کہ اِس غریب کا گدھا برابر کے زمیندار کے کھیتوں میں جا گھسا اور وہ اُسے کھیتوں سے لینے گیا تو زمیندار سے یہ برداشت نہ ہوا کہ اُس کی مختصر زمین پر کوئی گدھا داخل ہو، جبکہ رب کائنات کی بنائی گئی وسیع زمین میں اُس زمیندار جیسے جانور نما انسان آزادی سے دندناتے ہیں جو اگر بس میں ہو تو شاید انسانوں کو نگل بھی جائیں۔ اِس زمیندار کی نظر اِن تین بچوں پر گئی جو گدھے کو کھیت سے نکالنے گئے تھے، اُس کی نظروں کے قہر سے ڈر کر مزمل کا بڑا بھائی اور کزن کھیتوں سے بھاگ نکلے اور بے بس مزمل زمیندار کے ہاتھوں چڑھ گیا۔

اِس زمیندار نے طاقت کے نشے میں چور معصوم مزمل کو گدھے کے ساتھ رسی سے باندھ دیا اور گدھے کو لاٹھیاں ماریں جس سے بلبلا کر گدھا بھاگا تو ساتھ میں آٹھ سالہ معصوم، نرم و نازک رخساروں والا مزمل بھی گدھے کے ساتھ زمین پر گھسیٹنے لگا۔ ایبٹ آباد کی پتھریلی زمین نے مزمل کو لہولہان کردیا۔ جب تک مزمل کا باپ اُس کی مدد کو پہنچا زمین سے رگڑ کھا کھا کر مزمل شدید زخمی ہوچکا تھا۔ مزمل کے والد نے بتایا کہ جب انہوں نے آکر گدھے سے بندھے بیٹے کے پاؤں کی رسی کھولی تو مزمل نے آخری ہچکی لی... اللہ جانتا ہے اِس ظلم کو دیکھ کر ماں باپ کا کیا حال ہوگا، ہم تو پڑھ کر، دیکھ کر کانپ گئے، مگر وہ تو اُن کے وجود کا حصہ تھا، اُن کا پروردہ تھا، کیسے ایک معمولی بات پر اِس کا یہ حال کردیا گیا۔ خواہش تو بہت تھی کہ آپ کو بھی دکھایا جائے کہ ایک ظالم و جابر زمیندار نے معصوم بچے کا کیا حال کیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ تصاویر دکھانے کی ہمت ہی نہیں ہورہی۔


علاقہ مکینوں نے اِس خونِ ناحق پر احتجاج کیا تو پولیس نے اگرچہ زمیندار کو گرفتار کرلیا، لیکن یہ یقین کم ہی لوگوں کو ہے کہ اُس زمیندار کو اُس کے کیے کی سزا ملے گی۔ حیرت دیکھیے کہ اِس قدر ظلم کے بعد بھی ملزم کا کہنا ہے کہ اُسے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے۔ لیکن اِس پورے واقعہ میں اچھی بات بس صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ اِس کیس کے بعد میں دنیا بھی آگاہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید الفاظ میں اِس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ ہمارا بھی مطالبہ یہی ہے کہ مزمل کے ساتھ انصاف ہونا چاہئیے اور اِس زمیندار کو اُسی زمین پر اُسی سزا کا مستحق ٹھہرانا چاہیے جیسا اُس نے معصوم بچے کے ساتھ سلوک کیا، تاکہ اگلی بار کوئی بھی ایسا قدم اُٹھاتے ہوئے کم از کم دس بار سوچے۔

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں روز ہی تمام سیاستدان حکمران ایک سے بڑھ کر ایک بیان داغتے ہیں، احتساب کا رونا روتے ہیں، لوٹی گئی دولت کا حساب مانگتے ہیں، لیکن کیا ایسے ظالموں کا کوئی حساب نہیں جو زندگیاں لوٹتے ہیں؟ کیا اِس واقعہ کی مذمت میں کسی بھی عوامی نمائندے نے کوئی بیان دیا؟ کوئی نوٹس لیا؟ کیا ہمارے حکمرانوں کے ذرائع اتنے باخبر نہیں کہ اُن تک یہ خبر پہنچ سکے یا وہ خود بھی ایسی ہی طاقت اور دولت کے نشے میں بدمست ہیں کہ انسانوں کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ بھی ایسے ہی بااثر گھرانوں سے اُٹھ کر طاقت کے زور پر، دولت کے استعمال سے ووٹ حاصل کرکے ہمارے سروں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

لیکن اب وقت ہے کہ لٹیروں کے ساتھ قاتلوں کا حساب کتاب بھی ہو، اِس قاتل زمیندار سمیت طاقت کے نشے میں ڈوبے وڈیروں اور زمینداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر ہر مزمل کو انصاف فراہم کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story