اداس نسلیں…
بچے اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے خود اور خود سری سے کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
جب کبھی دل ودماغ پر بچوں کی یاد کا غلبہ ہوتا ہے تو ہم پرانے البم کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان یادوں کو تازہ کر کر کے خوش ہوتے ہیں، وہ وقت جب ہمارے بچوں کا بچپن تھا اور ہمارے گھر آنگن میں دوڑتے ، بھاگتے، ہنستے، کھلکھلاتے، کھیلتے تھے اور ہم انھیں دیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے۔
کبھی کبھار اور بھی زیادہ ناسٹلجیا ہو جائے تو اپنے بچپن اور نوجوانی کی تصاویر کی البم نکال کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس میں بہت سی تصاویر ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو ہمارے بزرگ ہیں/ تھے، اب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، ان کی جوانی کا وقت تھا اور وہ اس وقت خوب صورت اور صحت مند تھے۔ ان البمز میں بہت سی یادیںذہن کی پگڈنڈیوں پر سوکھے پتوں کے پیروں تلے روندے جانے کی سی آواز پیدا کرتی ہیں۔ جب انسان کسی خوب صورت باغ میں سیر کرتے کرتے اچانک ان پتوں کی آواز سے چونک جاتا ہے، انھیں دکھ سے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ کبھی یہ بھی تروتازہ تھے ، ان پر بھی جوبن تھا، بہار تھی۔
ہم وہ نسل ہیں جن کے پاس تصاویر کی البمز کسی خزانے کی طرح جمع ہو چکی ہیں۔ ہم ترقی کی راہ پر سرپٹ بھاگتی ہوئی اگلی نسل کے ساتھ تیز قدموں سے چلنے کی کوشش میں ہانپ رہے ہیں کیونکہ ہمارے سروں پر پرانی روایات کی گٹھڑیاں بھی ہیں، جو ہمیں تو اٹھانا ہی اٹھانا ہیں مگر ساتھ ساتھ ہم انھیں اگلی نسل کے سروں پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمارے ہاتھ جھٹک کر ہمیں چند قدم پیچھے چھوڑ کر آگے چل دیتے ہیں ۔ انھیں یہ روایات بوجھ لگتی ہیں اور ہماری اقدار فرسودہ!!
کاغذی تصاویر کا دور کیا اچھا تھا، رقم خرچ کر کے کیمرے کی فلم لیتے تھے، اسے بھی بجٹ سے فالتو خرچہ سمجھا جاتا تھا، کم رقم ہوتی تو چوبیس تصاویر کا رول لیتے اور ذرا حالات اچھے ہوتے تو چھتیس والا رول۔ یہ اہتمام بھی کسی خاص موقع کے لیے ہوتا تھا، سالگرہ، شادی، عقیقہ، عید اور دیگر تقاریب، ہر تصویر سوچ سمجھ کر کھینچی جاتی کیونکہ اس رول کو ڈیولپ کروانے پر بھی رقم خرچ ہوتی تھی۔کبھی جیب اجازت دیتی اور کیمرہ رول خرید کر تصاویر کھینچ لیتے مگر انھیں ڈیولپ کروانے کے لیے تنخواہ دار طبقہ کو اگلے مہینے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کیا خوشی کا لمحہ ہوتا تھا جب چوبیس کے رول سے پچیس یا چھتیس والے رول سے سینتیس، یعنی ایک فالتو تصویر نکل آتی تھی... وہ ایک بونس ہوتا تھا۔ تصاویر دھل کر آتیں اور اگر کوئی تصویر دھندلی یا آؤٹ آف فوکس ہوتی تو اس کا دکھ گھنٹوں رہتا کہ رقم بھی ضائع ہو گئی اور موقع بھی۔
نئی نسل کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کی زندگیوں میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے، جو چیزیں ہمیں ترس ترس کر ملتی تھیں وہ ان کے پاس وافر ہیں، ہم پھر بھی مطمئن ہوتے تھے مگر ان کو سکون اور اطمینان میسر نہیں، سب کچھ پا کر بھی یہ اداس رہتے ہیں۔ انھیں تشنگی کا مستقل احساس ہے کیونکہ انھیں قناعت کرنا نہیں آتی۔ ان میں جلد بازی ہے، شارٹ کٹ جاننا اور اختیار کرنا چاہتے ہیں، جو ان کے نصیب کا ہے اسے فوراً پا لینا چاہتے ہیں۔
ہم تو تصاویر کے دھلنے کا مہینوں انتظار کر لیا کرتے تھے مگر یہ ہمہ وقت تصاویر کھینچنے والی نسل ہے، دوسروں کی کم اور اپنی زیادہ۔ ہم تیار ہو کر شیشہ دیکھتے تھے، یہ تیار ہو کر اپنے فون کا سامنے والا کیمرہ آن کر کے سیلفی لیتے ہیں، اسے فوراً دیکھتے ہیں، مطمئن نہیں ہوتے، ایک اور... اور... اور، پھر وہ سیلفی وجود میں آ جاتی ہے جسے انھوں نے فیس بک Facebook پر ، واٹس ایپ Whatsapp، انسٹا گرام Instagramاور سنیپ چیٹ Snapchatپر شئیر کرنا ہے۔ کبھی سادہ تصویر، کبھی پھولوں کے تاج پہن کر، کبھی کتوں اور بلیوں کی شکلوں کے فلٹر لگا کر۔
کوئی بھی موقع ہو... اب سارا زور تصاویر پر ہوتا ہے، شادی بیاہ پر لاکھوں روپے خرچ کر کے پیشہ ور فوٹو گرافر بلائے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہر کوئی اپنے اپنے فون سے live coverage دے رہا ہوتا ہے۔آپ کے ہاتھ میں اگر فون ہے... ( کیمرہ کا تو فیشن نہیں رہا)، آپ نوجوانوں کے کسی گروپ کی فوٹو لینے کا ارادہ کریں، فورا سب اٹین شن ہو جائیں گے، آپ کو روک دیں گے، ایسا نہیں کہ وہ آپ کو تصویر نہیں کھینچنے دیں گے، بلکہ وہ کہیں گے ، '' ایک منٹ ٹھہر جائیں... میرے چہرے کی بہتر والی سائیڈ دوسری ہے، میں اس طرف منہ کر کے بیٹھ جاؤں''، بالوں کو ماتھے پر گرا لیا جاتا ہے، چشمے لگا کر ابرو کماندار کر لیے جاتے ہیں بے شک اندر کمرے میں بیٹھے ہوں اور اندھیرا بھی ہو۔ پرس میں سے شیشہ نکال کر منہ کے ٹیڑھے میڑھے زاویے بنا کر فائنل زاویے کو منہ پر جما لیں گے، اس میں ان کا سب سے بہتر پوز pouting ہے، جس میں منہ کو بندروں کی طرح گول کر لیا جاتا ہے۔
دنیا ایک گاؤں جیسی ہو گئی ہے، کہیں کچھ ہوتا ہے توخبر لمحوںمیں ہر طرف پھیل جاتی ہے، لوگوں کے ہاتھوں میں ٹیلی فون کی صورت پوری دنیا سمٹ گئی ہے۔ ایک دوسرے سے اتنا قریب ہو کر بھی یہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے ہیں، پاس بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کوسوں کی مسافت پر۔ ان کے پاس ٹیلی فون کے رابطے تو ہیں رشتے نہیں، دوست نہیں۔
ہم ان کی عمر میں کھانا سامنے آنے پر الحمد للہ کہہ کر توجہ اور رغبت سے کھانا کھاتے تھے، جب ان کے سامنے کھانا آتا ہے تو جیب سے فون نکال کر پہلے اس کھانے کی تصویر بناتے ہیں، اسے فیس بک اور سنیپ چیٹ پر اپ لوڈ upload کرتے ہیں، پھر تھوڑا سا کھا کر اٹھ جاتے ہیں کہ انھیں کھانا کھانے سے زیادہ اس کی تشہیر میں دلچسپی ہوتی ہے۔یہ بچے جب آنکھ کھولتے ہیں تو ان کے پاس اتنا کچھ ہوتا ہے کہ انھیں کسی چیز کی حسرت نہیں ہوتی ، عام بچوں کے خواب چھوٹے ہوتے ہیں مگر جن بچوں کو پیدا ہوتے ہی سب کچھ میسر ہوتا ہے ان کے خواب بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں۔
ان کی ٹانگیں اتنی لمبی ہوجائیں کہ ریس کے پیڈل تک پہنچ جائیں اور ذرا سا فہم آتا ہے تو گاڑی چلانا شروع کر دیتے ہیں چاہے عمر ابھی گاڑی چلانے کی عمر سے کئی برس کم ہو۔ نا سمجھی کی عمر میں ماں باپ ان کو کھلونے دینے کے بجائے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیلی فون دے دیتے ہیں، ان کے ذریعے انھیں انٹر نیٹ تک رسائی ہے اور انٹرنیٹ کے یوں آزادانہ استعمال کے نقصانات کیا ہیں ... اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔اس ٹیلی فون نے کیمرہ، ریڈیو، گھڑیاں، ٹیلی وژن، ٹیلی فون ڈائریکٹری، کیلکولیٹر، اٹلس، سفری اوقات کی ڈائریاں، کیلنڈر، سالانہ ڈائریاں ، حساب کتاب کے کتابچے ، محکمہء موسمیات اور محکمہء ڈاک کو بھی متروک کر دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو تو شاید کتابوں میں پڑھ کر کچھ اندازہ ہو گا مگر ان کے بچوں کو تو ان میں سے کسی چیز کا علم نہیں ہو گا۔
ہاں !!! ہم آخری نسل ہیں جس نے اتنی ساری چیزوں کو اپنی زندگیوں کے پہلے سالوں میں برتا اور پھر آخری چند سالوں میں انھیں متروک ہوتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کے بچوں کو تو ان چیزوں کا ذکر ماورائی کہانیوں جیسا لگے گا، انھیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ خطوط اور اخبارات کے لیے کاغذ اور قلم کا استعمال کیا جاتا تھا۔
سوشل میڈیا کا استعمال آزادی سے اور بغیر کسی راہنمائی کے ہوتا ہے... بچے اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے خود اور خود سری سے کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بغیر سوچے سمجھے دوستیاں ... رشتوں میں بدل رہی ہیں... انتہائی کچے دھاگے جیسے رشتے، بہتے پانی پر بنے مکانوں جیسے، جن کی پائیداری مشکوک ہوتی ہے۔ ان بچوں سے سوال کریں تو علم ہو گا کہ سوشل میڈیا پر ان کے followers اور friends کی تعداد تو سیکڑوں ہزاروں میں ہوتی ہے مگر ان کا حقیقی دوست کوئی نہیں!!! اس معاملے میں وہ انتہائی غریب ہیں، کیونکہ ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا تھا کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔
اپنی دنیا میں مگن یہ بچے... ہماری اداس نسلیں، ہمارے بچے، جانے کس وقت اپنی ہی ذات میں تنہا ہو جائیں گے، کیونکہ یہ ہر چیز سے بور بھی بہت جلد ہو جاتے ہیں۔ماں باپ اور بزرگ ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئیں، انھیں اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے رہنا چاہیے۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہم نے مایوسی کی راہ اختیار کی تو کون ہو گا جو انھیں اس وقت تھامے گا جب غلط راہوں پر چلتے ہوئے ان کے قدم رپٹ جائیں گے؟؟
کبھی کبھار اور بھی زیادہ ناسٹلجیا ہو جائے تو اپنے بچپن اور نوجوانی کی تصاویر کی البم نکال کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس میں بہت سی تصاویر ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو ہمارے بزرگ ہیں/ تھے، اب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، ان کی جوانی کا وقت تھا اور وہ اس وقت خوب صورت اور صحت مند تھے۔ ان البمز میں بہت سی یادیںذہن کی پگڈنڈیوں پر سوکھے پتوں کے پیروں تلے روندے جانے کی سی آواز پیدا کرتی ہیں۔ جب انسان کسی خوب صورت باغ میں سیر کرتے کرتے اچانک ان پتوں کی آواز سے چونک جاتا ہے، انھیں دکھ سے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ کبھی یہ بھی تروتازہ تھے ، ان پر بھی جوبن تھا، بہار تھی۔
ہم وہ نسل ہیں جن کے پاس تصاویر کی البمز کسی خزانے کی طرح جمع ہو چکی ہیں۔ ہم ترقی کی راہ پر سرپٹ بھاگتی ہوئی اگلی نسل کے ساتھ تیز قدموں سے چلنے کی کوشش میں ہانپ رہے ہیں کیونکہ ہمارے سروں پر پرانی روایات کی گٹھڑیاں بھی ہیں، جو ہمیں تو اٹھانا ہی اٹھانا ہیں مگر ساتھ ساتھ ہم انھیں اگلی نسل کے سروں پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمارے ہاتھ جھٹک کر ہمیں چند قدم پیچھے چھوڑ کر آگے چل دیتے ہیں ۔ انھیں یہ روایات بوجھ لگتی ہیں اور ہماری اقدار فرسودہ!!
کاغذی تصاویر کا دور کیا اچھا تھا، رقم خرچ کر کے کیمرے کی فلم لیتے تھے، اسے بھی بجٹ سے فالتو خرچہ سمجھا جاتا تھا، کم رقم ہوتی تو چوبیس تصاویر کا رول لیتے اور ذرا حالات اچھے ہوتے تو چھتیس والا رول۔ یہ اہتمام بھی کسی خاص موقع کے لیے ہوتا تھا، سالگرہ، شادی، عقیقہ، عید اور دیگر تقاریب، ہر تصویر سوچ سمجھ کر کھینچی جاتی کیونکہ اس رول کو ڈیولپ کروانے پر بھی رقم خرچ ہوتی تھی۔کبھی جیب اجازت دیتی اور کیمرہ رول خرید کر تصاویر کھینچ لیتے مگر انھیں ڈیولپ کروانے کے لیے تنخواہ دار طبقہ کو اگلے مہینے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کیا خوشی کا لمحہ ہوتا تھا جب چوبیس کے رول سے پچیس یا چھتیس والے رول سے سینتیس، یعنی ایک فالتو تصویر نکل آتی تھی... وہ ایک بونس ہوتا تھا۔ تصاویر دھل کر آتیں اور اگر کوئی تصویر دھندلی یا آؤٹ آف فوکس ہوتی تو اس کا دکھ گھنٹوں رہتا کہ رقم بھی ضائع ہو گئی اور موقع بھی۔
نئی نسل کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کی زندگیوں میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے، جو چیزیں ہمیں ترس ترس کر ملتی تھیں وہ ان کے پاس وافر ہیں، ہم پھر بھی مطمئن ہوتے تھے مگر ان کو سکون اور اطمینان میسر نہیں، سب کچھ پا کر بھی یہ اداس رہتے ہیں۔ انھیں تشنگی کا مستقل احساس ہے کیونکہ انھیں قناعت کرنا نہیں آتی۔ ان میں جلد بازی ہے، شارٹ کٹ جاننا اور اختیار کرنا چاہتے ہیں، جو ان کے نصیب کا ہے اسے فوراً پا لینا چاہتے ہیں۔
ہم تو تصاویر کے دھلنے کا مہینوں انتظار کر لیا کرتے تھے مگر یہ ہمہ وقت تصاویر کھینچنے والی نسل ہے، دوسروں کی کم اور اپنی زیادہ۔ ہم تیار ہو کر شیشہ دیکھتے تھے، یہ تیار ہو کر اپنے فون کا سامنے والا کیمرہ آن کر کے سیلفی لیتے ہیں، اسے فوراً دیکھتے ہیں، مطمئن نہیں ہوتے، ایک اور... اور... اور، پھر وہ سیلفی وجود میں آ جاتی ہے جسے انھوں نے فیس بک Facebook پر ، واٹس ایپ Whatsapp، انسٹا گرام Instagramاور سنیپ چیٹ Snapchatپر شئیر کرنا ہے۔ کبھی سادہ تصویر، کبھی پھولوں کے تاج پہن کر، کبھی کتوں اور بلیوں کی شکلوں کے فلٹر لگا کر۔
کوئی بھی موقع ہو... اب سارا زور تصاویر پر ہوتا ہے، شادی بیاہ پر لاکھوں روپے خرچ کر کے پیشہ ور فوٹو گرافر بلائے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہر کوئی اپنے اپنے فون سے live coverage دے رہا ہوتا ہے۔آپ کے ہاتھ میں اگر فون ہے... ( کیمرہ کا تو فیشن نہیں رہا)، آپ نوجوانوں کے کسی گروپ کی فوٹو لینے کا ارادہ کریں، فورا سب اٹین شن ہو جائیں گے، آپ کو روک دیں گے، ایسا نہیں کہ وہ آپ کو تصویر نہیں کھینچنے دیں گے، بلکہ وہ کہیں گے ، '' ایک منٹ ٹھہر جائیں... میرے چہرے کی بہتر والی سائیڈ دوسری ہے، میں اس طرف منہ کر کے بیٹھ جاؤں''، بالوں کو ماتھے پر گرا لیا جاتا ہے، چشمے لگا کر ابرو کماندار کر لیے جاتے ہیں بے شک اندر کمرے میں بیٹھے ہوں اور اندھیرا بھی ہو۔ پرس میں سے شیشہ نکال کر منہ کے ٹیڑھے میڑھے زاویے بنا کر فائنل زاویے کو منہ پر جما لیں گے، اس میں ان کا سب سے بہتر پوز pouting ہے، جس میں منہ کو بندروں کی طرح گول کر لیا جاتا ہے۔
دنیا ایک گاؤں جیسی ہو گئی ہے، کہیں کچھ ہوتا ہے توخبر لمحوںمیں ہر طرف پھیل جاتی ہے، لوگوں کے ہاتھوں میں ٹیلی فون کی صورت پوری دنیا سمٹ گئی ہے۔ ایک دوسرے سے اتنا قریب ہو کر بھی یہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے ہیں، پاس بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کوسوں کی مسافت پر۔ ان کے پاس ٹیلی فون کے رابطے تو ہیں رشتے نہیں، دوست نہیں۔
ہم ان کی عمر میں کھانا سامنے آنے پر الحمد للہ کہہ کر توجہ اور رغبت سے کھانا کھاتے تھے، جب ان کے سامنے کھانا آتا ہے تو جیب سے فون نکال کر پہلے اس کھانے کی تصویر بناتے ہیں، اسے فیس بک اور سنیپ چیٹ پر اپ لوڈ upload کرتے ہیں، پھر تھوڑا سا کھا کر اٹھ جاتے ہیں کہ انھیں کھانا کھانے سے زیادہ اس کی تشہیر میں دلچسپی ہوتی ہے۔یہ بچے جب آنکھ کھولتے ہیں تو ان کے پاس اتنا کچھ ہوتا ہے کہ انھیں کسی چیز کی حسرت نہیں ہوتی ، عام بچوں کے خواب چھوٹے ہوتے ہیں مگر جن بچوں کو پیدا ہوتے ہی سب کچھ میسر ہوتا ہے ان کے خواب بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں۔
ان کی ٹانگیں اتنی لمبی ہوجائیں کہ ریس کے پیڈل تک پہنچ جائیں اور ذرا سا فہم آتا ہے تو گاڑی چلانا شروع کر دیتے ہیں چاہے عمر ابھی گاڑی چلانے کی عمر سے کئی برس کم ہو۔ نا سمجھی کی عمر میں ماں باپ ان کو کھلونے دینے کے بجائے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیلی فون دے دیتے ہیں، ان کے ذریعے انھیں انٹر نیٹ تک رسائی ہے اور انٹرنیٹ کے یوں آزادانہ استعمال کے نقصانات کیا ہیں ... اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔اس ٹیلی فون نے کیمرہ، ریڈیو، گھڑیاں، ٹیلی وژن، ٹیلی فون ڈائریکٹری، کیلکولیٹر، اٹلس، سفری اوقات کی ڈائریاں، کیلنڈر، سالانہ ڈائریاں ، حساب کتاب کے کتابچے ، محکمہء موسمیات اور محکمہء ڈاک کو بھی متروک کر دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو تو شاید کتابوں میں پڑھ کر کچھ اندازہ ہو گا مگر ان کے بچوں کو تو ان میں سے کسی چیز کا علم نہیں ہو گا۔
ہاں !!! ہم آخری نسل ہیں جس نے اتنی ساری چیزوں کو اپنی زندگیوں کے پہلے سالوں میں برتا اور پھر آخری چند سالوں میں انھیں متروک ہوتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کے بچوں کو تو ان چیزوں کا ذکر ماورائی کہانیوں جیسا لگے گا، انھیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ خطوط اور اخبارات کے لیے کاغذ اور قلم کا استعمال کیا جاتا تھا۔
سوشل میڈیا کا استعمال آزادی سے اور بغیر کسی راہنمائی کے ہوتا ہے... بچے اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے خود اور خود سری سے کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بغیر سوچے سمجھے دوستیاں ... رشتوں میں بدل رہی ہیں... انتہائی کچے دھاگے جیسے رشتے، بہتے پانی پر بنے مکانوں جیسے، جن کی پائیداری مشکوک ہوتی ہے۔ ان بچوں سے سوال کریں تو علم ہو گا کہ سوشل میڈیا پر ان کے followers اور friends کی تعداد تو سیکڑوں ہزاروں میں ہوتی ہے مگر ان کا حقیقی دوست کوئی نہیں!!! اس معاملے میں وہ انتہائی غریب ہیں، کیونکہ ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا تھا کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔
اپنی دنیا میں مگن یہ بچے... ہماری اداس نسلیں، ہمارے بچے، جانے کس وقت اپنی ہی ذات میں تنہا ہو جائیں گے، کیونکہ یہ ہر چیز سے بور بھی بہت جلد ہو جاتے ہیں۔ماں باپ اور بزرگ ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئیں، انھیں اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے رہنا چاہیے۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہم نے مایوسی کی راہ اختیار کی تو کون ہو گا جو انھیں اس وقت تھامے گا جب غلط راہوں پر چلتے ہوئے ان کے قدم رپٹ جائیں گے؟؟