کرکٹ کی نرسریاں برباد کرنے کا منصوبہ

قومی یکجہتی کی علامت کھیل کے ساتھ ہاکی جیسا سلوک نہیں ہونا چاہیے

ڈومیسٹک سسٹم کو ڈرافٹنگ کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ فوٹو : رائٹرز

وہ اپنے والدین کا پانچواں بچہ تھا، نہایت لاغر اور کمزور، متوسط سا گھرانہ تھا، والد محنت کش اور اٹک آئل ریفائنری کے ایک پٹرول پمپ میں رات کو چوکیداری کرتے تھے، آبائی گھر ایک کمرے کا نیم پختہ جس کی چھت بھی مخدوش تھی،ایک بار بادل خوب برسا، شدید بارش کے نتیجہ میں اس چھت کا بڑا حصہ گر گیا، اسے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے والدین اپنے بچوں کو بارش کے پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے ادھر ادھر بھاگ دوڑ بھی کر رہے تھے اور مزید نقصان سے بچنے کے لیے چھت کی مرمت بھی کرنا چاہ رہے تھے۔

وقت اپنی رفتار چلتا رہا، اس کے بڑے بھائی نے راولپنڈی کلب کی طرف سے کھیلنا شروع کر دیا، ایک دن وہ اسے بھی میچ دکھانے کے لیے ساتھ لے گیا، اتفاق سے ایک ٹیم کا ایک کھلاڑی کم تھا اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بھی سکواڈ کا حصہ بنا لیا گیا، اس لڑکے کے بھر پور اصرار پر کپتان نے بولنگ کے لیے گیند اس کے ہاتھ میں تھما دی، وہ اپنا مخصوص سٹارٹ لینے کے لیے باؤنڈری کی جانب بڑھ رہا تھا کہ پیچھے سے زور دار آواز آئی '' اوے تجھے بولنگ کے لیے کہا ہے، فیلڈنگ کے لیے نہیں'' اسی میچ میں اس16 سالہ فاسٹ بولر نے حریف بیٹنگ کی وہ درگت بنائی کہ جس کا انہوں نے خواب میں بھی تصور نہ کیا ہوگا۔

اپنی تباہ کن بولنگ کی بدولت وہ لڑکا راتوں رات پنڈی بھر میں مشہور ہو گیا اور اپنے ریجن سے ہوتا ہوا پی آئی اے کی ٹیم تک جا پہنچا، اس کرکٹر کی پی آئی اے کے ٹرائلز کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے راولپنڈی سے لاہور تک کا سفر اس نے بس کی چھت پر بیٹھ کر طے کیا اور رات داتا دربار کے قریب کھڑے ایک تانگے میں گزاری، اگلی صبح نواب گرائونڈ ماڈل ٹائون پہنچا تو سلیکٹر کی ٹیبل پر اپنے وقت کے عظیم بیٹسمین ظہیر عباس اور پی آئی اے ٹیم کے کپتان معین خان بھی بیٹھے تھے۔

ظہیر عباس نے اس کی خطرناک حد تک سپیڈ اور لائن اینڈ لینتھ دیکھ کر اپنے پاس بلایااور کہا تم ہی وہ کرکٹر ہو جس کی مجھے تلاش تھی، کیا پی آئی اے کے لیے کھیلو گے؟ ایک کمرے کے گھر میں آنکھ کھولنے والا وہ لاغر اور کمزور سا بچہ کوئی اور نہیں بلکہ شعیب اختر تھا جسے دنیا آج تاریخ کے تیز ترین بولر کے نام سے جانتی ہے اور جس کی برق رفتاری کے سامنے سچن ٹنڈولکر سمیت دنیا کے بڑے سے بڑے بیٹسمین بھی کانپ جایا کرتے تھے۔

یہ ڈومیسٹک کرکٹ کا سسٹم ہی تھا جس کے ذریعے ایک امام مسجد کا بیٹا گگلی ماسٹر عبدالقادر بنا اور اپنی طلسمی بولنگ سے عالمی سطح پر تہلکہ مچا دیا، ریلوے میں نچلے گریڈ میں کام کرنے والے کا برخودار عظیم بیٹسمین محمد یوسف بنتا ہے اور جاوید میانداد، ظہیر عباس، فضل محمود، حنیف خان، وسیم اکرم، وقار یونس، عامر سہیل، عاقب جاوید، شاہد آفریدی، یونس خان، مصباح الحق سمیت ان گنت کرکٹرز بڑے کھلاڑی بن کر ملک وقوم کی نامی کا باعث بنتے ہیں۔

پی سی بی نے چند روز قبل نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں شیڈول اجلاس میں ڈومیسٹک کرکٹ سے چھیڑ خوانی کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے تبدیل کر دیا ہے، نئے قانون کے مطابق انٹر ڈسٹرکٹ ایونٹ سے صرف 8کھلاڑی ہی منتخب ہو کر قائد اعظم ٹرافی کا حصہ بن سکیں گے جبکہ دیگر 12کا انتخاب ڈرافٹنگ کے ذریعے ہوگا۔ اس پریکٹس سے بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ کو تبدیل کرنا نہ صرف ایک فیشن بن گیا ہے بلکہ بورڈ حکام پی ایس ایل کے بعد ہر شعبے میں ڈرافٹنگ، ڈرافٹنگ کھیل کے عادی ہو چکے ہیں۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں جب باصلاحیت کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بہت کم موقع ملے گا تو سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ ان کرکٹرز کو جب نظر انداز کیا جائے گا تو ان کے دلوں پر کیا گزرے گی، ان کے بڑا کرکٹر بننے کے سنہری خواب کس طرح چکناچور ہوں گے،گھروالوں اور عزیز واقارب سے کس کس طرح کے طعنے سننے کو ملیں گے، تاریخ شاہد ہے کہ باصلاحیت کرکٹرز صرف بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے اور محل نما گھروں میں رہنے والوں میں نہیں بلکہ نان چنے بیچنے، محنت مزدوری کرنے، سکیورٹی گارڈ، مکینک اور چپڑاسی کا کام کرنے اور ایک، دو مرلہ کے گھروں میں رہنے والوں کے بچوں میں ملیں گے۔

سب جانتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی سے قبل ٹیم کے تمام تجربہ کار کھلاڑی مصباح الحق، شاہد آفریدی اور یونس خان ایک روزہ کرکٹ کو خیر باد کہہ چکے تھے، ان حالات میں سرفراز احمد کو زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا کپتان بنا کر انگلینڈ بجھوایا گیا، میگا ایونٹ میں اسی نووارد ٹیم کے فخر زمان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو قرار پائے اور حسن علی سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔


اسی طرح شاداب خان، عماد وسیم، فہیم اشرف، بابر اعظم سمیت دیگر کرکٹرز نے بھی عالمی کرکٹ میں تجربہ میں کمی کے باوجود آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ ملکی ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی ابہام نہیں ہے تاہم پی سی بی حکام سمجھتے ہیں کہ ریجنل سطح پر سفارش کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، اس لئے اس پریکٹس کو روکنے کے لیے کچھ نئے اقدامات کرنے ضروری ہیں، اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ریجنل سطح پر ٹیموں کے انتخاب میں سفارش، پسند، ناپسند کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، لاہور ریجن کی ہی بات کر لیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ پی سی بی کے زیر اہتمام قومی ایونٹس میں لاہور ریجن کی منتخب ٹیمیں آخری نمبروں پر دکھائی دیتی ہیں، قومی ایونٹس میں زیادہ تر وہی کھلاڑی لاہور کی ٹیموں کا حصہ بننے میں کامیاب رہتے ہیں جن کے قریبی عزیز لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز یا زونز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، عام اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا کرکٹر تو ان ٹیموں کا حصہ بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن یہ تھیوری تمام ریجنز پر بھی لاگو نہیں ہوتی، کراچی ریجن کو ہی دیکھ لیں ، پستی کی گھاٹیوں میں گھرنے کے بعد شہر قائد کی کرکٹ نے آسمان کی بلندیوں کا سفر شروع کر رکھا ہے۔

یہ مناسب نہیں کہ کسی ایک ریجن کو سبق سکھانے کے لیے تمام ریجنز کوہی عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اگر ریجن سطح پر پرچی سسٹم اور سفارش کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے تو اسے روکنے کے لیے اور بھی کئی طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہاکی نے پاکستان کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ میڈلز دلوائے ہیں، یہ کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے والوں میں قومی کرکٹرز بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ حسن کارکردگی کی فہرست کا ہی جائزہ لے لیں۔

حال ہی میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے کی خوشی میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قومی ٹیم کے اعزاز میں پروقار تقریب کے دوران کھلاڑیوں کو صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ہے، حکومت پاکستان کی طرف سے ملک وقوم کی نیک نامی کا باعث بننے والوں کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ حکومت ہر سال زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایوارڈ سے نوازتی ہے، حکومت کی طرف سے تمغے دینے کا باقاعدہ طور پر آغاز1958ء میں ہوا اور سپورٹس کی 3 ایسی شخصیات تھیں جنہیں ابتدائی میڈلز حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے، حیران کن طور پر ان میں سے 2 کا تعلق کرکٹ کے کھیل سے ہی تھا، پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار اور اوول ٹیسٹ کے ہیرو فاسٹ بولر فضل محمود کو پہلے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

صدر پاکستان کی طرف سے دیئے جانے والے سول ایوارڈ 4 قسم کے ہوتے ہیں ان میں ہلال امتیاز، ستارۂ امتیاز، تمغۂ امتیاز اور تمغہ برائے حسن کارکردگی شامل ہیں۔اب تک صرف 4 کھلاڑیوں کو اعلیٰ ترین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ ان میں عمران خان شامل ہیں، اس کے بعد ستارۂ امتیاز پانے والوں میں جاوید میانداد 1992ء اور انضمام الحق 2005ء شامل ہیں۔

تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والوں کی فہرست تو طویل ہے۔ پاکستان کے لیے صدارتی ایوارڈ حاصل کرنا کرکٹرز اور کرکٹ بورڈ کے لیے یقینی طور پر خوشی کی بات ہے، مستقبل میں بھی عمدہ کارکردگی کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے غیر ضروری اقدامات کرنے سے گریز کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

بورڈ حکام کو سوچنا چاہیے کہ کرکٹ ملک کی وہ واحد گیم رہ گئی ہے جو پورے ملک کو تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں پرو دیتی ہے، ٹیم جب جیتتی ہے تو غربت، بیروزگاری اور کرپشن کی ماری قوم کے چہرے خوشی اور مسرت سے کھل جاتے ہیں، خدارا، نت نئے تجربات کرتے ہوئے اس کھیل کو بھی ہاکی نہ بنایا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاکی پلیئرز کی طرح کرکٹرز بھی اس کھیل سے روٹھ جائیں ۔

 
Load Next Story