بینظیر کیخلاف سازشوں کے پیچھے اسلم بیگ اور اسد درانی تھے مسعود شریف
محترمہ کواقتدارسے باہررکھناممکن نہ رہاتومشروط حکومت ملی،اس دورمیں آئی بی فنڈ میں اضافہ ہواتاہم غلط استعمال نہیں ہوا
سپریم کورٹ نے انٹیلی جنس بیورو فنڈزکیس میں آئی بی کے سابق سربراہ طارق لودھی کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہارکر تے ہوئے ان کا جواب مستردکر دیا ہے اور دو روزکے اندر اصل حقائق پر مبنی جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے آئی بی کے ایک اور سابق سربراہ مسعود شریف خٹک کے تحریری جواب میں صاف گوئی پر ان کی ستائش کی ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے کہاکہ عدالت اس سچے اور سیدھے سادہ جواب کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مسعود شریف نے انٹیلی جنس بیوروکے فنڈز کے بارے میں اپنی یادداشت سے14 صفحات پرمبنی تحریری جواب پیش کیا جس میں بینظیر بھٹوکی پہلی حکومت کے دوران آئی بی کے فنڈ میں غیرمعمولی اضافہ کرنے اور اس فنڈکے استعمال کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس فنڈکے غلط استعمال کے الزام کو مستردکردیا ہے۔
جواب میںکہا گیا ہے کہ بینظیر بھٹوکواقتدار سے باہر رکھنے کیلیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا اور جب انھیں اقتدارسے باہر رکھنا ان کیلیے ناممکن رہا تو نہ چاہتے ہوئے حکومت کچھ شرائط کے ساتھ ان کے حوالے کی گئی۔جواب میںکہا گیا ہے کہ بینظیربھٹوکیخلاف سازشوں کے پیچھے مسلح افواج کے اس وقت سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجرجنرل اسد درانی تھے۔ایم کیوایم اسلم بیگ کے کہنے پر بینظیر حکومت میں شامل ہوئی تھی اور یہ تب ہوا جب بینظیر بھٹو نے مسلح افواج کے سربراہ کوغلام اسحق خان کو بطور صدر،صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ اور وی اے جعفری کو مشیر خزانہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔
مسعود شریف نے موقف اپنایا کہ بینظیر بھٹو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سچے دل کے ساتھ چل رہی تھیں لیکن ان کی حکومت گرانے اور ناکام کرنے کیلیے کوششیںکی گئیں جس میں عدم اعتمادکی تحریک بھی شامل تھی۔جواب میںکہا گیا ہے کہ سیکرٹ فنڈمیںاضافہ کیاگیااور استعمال بھی ہوا لیکن قومی مفاد کیلیے، کوئی رقم غلط اور بدنیتی کیلیے استعمال نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ بینظیرحکومت خامتے کے بعد انھیں سیاست سے آئوٹ کرنے اورنااہل قراردلانے کیلیے لاہورہائیکورٹ میںسیکرٹ فنڈاستعمال کاریفرنس بھیدائر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ کاریکارڈ دیکھنا پڑے گا کہ اس مقدمے کاکیابنا ۔عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ آئی بی فنڈزکے بارے میں لاہورہائیکورٹ میں زیرالتوا مقدمے کی معلومات حاصل کرکے تفصیلات فراہم کی جائیں ۔عدالت نے آئی بی کے ایک اور سابق سربراہ طارق لودھی کے جواب پرعدم اطمینان کا اظہارکیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو چیزعدالت نے مانگی ہے جواب میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ہے، آپ پوری دنیا سے سچائی چھپا سکتے ہولیکن عدالت سے نہیں۔تمام اعداد و شمار اور خفیہ تفصیلات عدالت تک پہنچ چکی ہیں۔عدالت نے آئی بی کی طرف سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی بی نے اس پر وزارت قانون سے رائے مانگی ہے۔
عدالت نے کہا آئی بی کا جو بھی موقف ہے، اسے تحریری طور پرجمع کرادیں۔بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاکہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس بیوروکے خفیہ فنڈز سے نکالے گئے کروڑوں روپے کا غلط استعمال ہوا ہے۔ طابق لودھی نے ادارے کے اکائونٹ سے40 کروڑ روپے نکلوانے کے بارے میں واضح کیا ہے کہ رقم2009ء میں پنجاب حکومت کو گرانے کیلیے استعمال نہیں ہوئی تھی،عدالت نے ٹیکس محتسب اور آئی بی کے سابق سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو بھی تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیااورمزیدسماعت کل 8فروری تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے آئی بی کے ایک اور سابق سربراہ مسعود شریف خٹک کے تحریری جواب میں صاف گوئی پر ان کی ستائش کی ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے کہاکہ عدالت اس سچے اور سیدھے سادہ جواب کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مسعود شریف نے انٹیلی جنس بیوروکے فنڈز کے بارے میں اپنی یادداشت سے14 صفحات پرمبنی تحریری جواب پیش کیا جس میں بینظیر بھٹوکی پہلی حکومت کے دوران آئی بی کے فنڈ میں غیرمعمولی اضافہ کرنے اور اس فنڈکے استعمال کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس فنڈکے غلط استعمال کے الزام کو مستردکردیا ہے۔
جواب میںکہا گیا ہے کہ بینظیر بھٹوکواقتدار سے باہر رکھنے کیلیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا اور جب انھیں اقتدارسے باہر رکھنا ان کیلیے ناممکن رہا تو نہ چاہتے ہوئے حکومت کچھ شرائط کے ساتھ ان کے حوالے کی گئی۔جواب میںکہا گیا ہے کہ بینظیربھٹوکیخلاف سازشوں کے پیچھے مسلح افواج کے اس وقت سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجرجنرل اسد درانی تھے۔ایم کیوایم اسلم بیگ کے کہنے پر بینظیر حکومت میں شامل ہوئی تھی اور یہ تب ہوا جب بینظیر بھٹو نے مسلح افواج کے سربراہ کوغلام اسحق خان کو بطور صدر،صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ اور وی اے جعفری کو مشیر خزانہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔
مسعود شریف نے موقف اپنایا کہ بینظیر بھٹو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سچے دل کے ساتھ چل رہی تھیں لیکن ان کی حکومت گرانے اور ناکام کرنے کیلیے کوششیںکی گئیں جس میں عدم اعتمادکی تحریک بھی شامل تھی۔جواب میںکہا گیا ہے کہ سیکرٹ فنڈمیںاضافہ کیاگیااور استعمال بھی ہوا لیکن قومی مفاد کیلیے، کوئی رقم غلط اور بدنیتی کیلیے استعمال نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ بینظیرحکومت خامتے کے بعد انھیں سیاست سے آئوٹ کرنے اورنااہل قراردلانے کیلیے لاہورہائیکورٹ میںسیکرٹ فنڈاستعمال کاریفرنس بھیدائر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ کاریکارڈ دیکھنا پڑے گا کہ اس مقدمے کاکیابنا ۔عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ آئی بی فنڈزکے بارے میں لاہورہائیکورٹ میں زیرالتوا مقدمے کی معلومات حاصل کرکے تفصیلات فراہم کی جائیں ۔عدالت نے آئی بی کے ایک اور سابق سربراہ طارق لودھی کے جواب پرعدم اطمینان کا اظہارکیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو چیزعدالت نے مانگی ہے جواب میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ہے، آپ پوری دنیا سے سچائی چھپا سکتے ہولیکن عدالت سے نہیں۔تمام اعداد و شمار اور خفیہ تفصیلات عدالت تک پہنچ چکی ہیں۔عدالت نے آئی بی کی طرف سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی بی نے اس پر وزارت قانون سے رائے مانگی ہے۔
عدالت نے کہا آئی بی کا جو بھی موقف ہے، اسے تحریری طور پرجمع کرادیں۔بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاکہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس بیوروکے خفیہ فنڈز سے نکالے گئے کروڑوں روپے کا غلط استعمال ہوا ہے۔ طابق لودھی نے ادارے کے اکائونٹ سے40 کروڑ روپے نکلوانے کے بارے میں واضح کیا ہے کہ رقم2009ء میں پنجاب حکومت کو گرانے کیلیے استعمال نہیں ہوئی تھی،عدالت نے ٹیکس محتسب اور آئی بی کے سابق سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو بھی تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیااورمزیدسماعت کل 8فروری تک ملتوی کردی۔