جی 20 اور سرمایہ داری
جی 20 ممالک کے آپس میں وسائل کی لوٹ مار میں شدید تضادات ہے۔
دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں سے بیس بڑے سرمایہ دار ملکوں نے باقی ماندہ ممالک کی لوٹ مار کے لیے جی 20 تشکیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مل کر دنیا سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے اور امن قائم کریں گے۔ چونکہ آج کا سرمایہ دارانہ نظام زاید پیداوار کے بحران سے دوچار ہے۔ اس لیے کہ چند ہاتھوں میں دولت کا انبار جمع ہوچکا ہے اور دوسری جانب اربوں لوگ بھوک، غربت اور بے روزگاری کے شکار ہیں۔
یہ ممالک دنیا میں امن بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھلا جب ان ملکوں کے حکمران اور سرمایہ دار دنیا بھر کی پیداواری قوتوں، مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسیں گے تو عوام کیونکر خاموش رہیں گے۔ انھیں ان مظالم کے خلاف ردعمل کرنا ہے اور متبادل نظام بھی قائم کرنا ہے۔ بقول حبیب جالب ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو''۔
جی 20 ممالک کے آپس میں وسائل کی لوٹ مار میں شدید تضادات ہے۔ اس لیے یہ کسی نتیجے پر بھی پہنچ نہیں پاتے اور نہ پہنچ پائیں گے۔ حال ہی میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں جی 20 سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ پہلی بار امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر پوتن سے مصافہ کیا۔ روسی صدر پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام ہے اور کریمیا پر روس کا قبضہ بھی۔ اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی اور تجارت سرفہرست ہے۔
سرمایہ دار دنیا نے اپنے منافعے کی ہوس میں دنیا کی موسمیات کو خطرناک حد تک تبدیل کردیا ہے۔ برف کی پہاڑیاں پگھلنے لگی ہیں، حرارت دو ڈگری بڑھ گیا ہے۔ ان حالات کا سب سے بڑے ذمے دار امریکا اور چین ہیں، جب کہ امریکا گزشتہ ماحولیات پر منعقدہ اجلاس سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ چین میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار سے وہاں تیزابی بارش ہوتی ہے۔
جہاں تک تجارت کی بات ہے تو اس لوٹ مار میں حصہ داری کا جھگڑا ہے۔ تجارت کی اس دوڑ میں یعنی لوٹ میں امریکا اور چین کا زیادہ مقابلہ ہے۔ ان جی 20 کے ممالک کو ابھرتی ہوئی معیشت کا نام دیا گیا ہے۔ یہ موقف ''اندھے کا نام روپ چند'' رکھنے کے مترادف ہے۔ تجارتی مفادات کا یوں اظہار ہوتا ہے کہ اجلاس کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وسطی ایشیائی اور مشرقی یورپی ممالک سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ روس سے بڑے پیمانے پر ایندھن درآمد کرنے کے بجائے امریکا سے درآمد کریں۔
روسی صدر پوتن نے بھی امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ روس نے 2014 میں کریمیا کو روس کا حصہ بنانے کے بعد روس پر جو اقتصادی پابندی لگائی ہے، اسے ختم کیا جائے۔ پوتن نے ماحولیات پر منعقدہ پیرس معاہدے کی پرزور حمایت کی ہے۔ اجلاس سے قبل ہی بائیں بازو، کمیونسٹوں، مزدوروں اور پیداواری قوتوں نے زبردست مظاہرے کیے۔ اس مظاہرے کا عنوان تھا ''جہنم میں خوش آمدید''۔ جرمن پولیس کے مطابق قریب ایک ہزار انتہائی بائیں بازو کے شدت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق ان جھڑپوں کے نتیجے میں 76 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے تین کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ہیمبرگ شہر میں قریب 20 ہزار پولیس اہلکار، بکتربندگاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور نگرانی کرنے والے ڈرونز کے ساتھ صورتحال سے نمٹنے کے لیے شہر میں تعینات ہیں، جب کہ غیر جانبدار ذرایع کے مطابق شروع میں دسیوں ہزار مظاہرین سڑکوں پر تھے، دو دن کے بعد لاکھوں میں تبدیل ہوگئے۔ آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مظاہرے کو روکنے کے لیے جب 20 ہزار اہلکار ہوں تو مظاہرین کتنے ہوں گے۔
پولیس نے 75 اہلکاروں کی زخمی ہونے کی رپورٹ کی ہے جب کہ مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن سے جب حملہ ہوا تو سیکڑوں مظاہرین نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ بہت سے مظاہرین بے ہوش بھی ہوئے۔ سیکڑوں مظاہرین کو اسپتال میں داخل کیا گیا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں جی 20 کے سربراہی اجلاس سے منسلک کئی تقریبات متاثر ہوئیں، یعنی ان کے انعقاد ممکن نہ ہوسکے۔
مظاہرین یہ نعرے لگا رہے تھے کہ عالمی سرمایہ داری مردہ باد، تم نے دنیا کو جہنم بنادیا ہے، سرمایہ داری کا متبادل دنیا کو جنت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ہم 99 فیصد ہیں، عالمگیریت مردہ باد، دنیا کی پیداواری قوتیں ایک ہیں، ہم دنیا کی سرحدوں کو نہیں مانتے۔ اس مظاہرے میں کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی، انارکسٹ، ٹراسکائیٹ، ماؤ نواز کمیونسٹ، جنگ مخالف قوتیں، ماحولیات کی تنظیمیں، سماجی تنظیمیں اور امن کمیٹیوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ذیلی تنظیموں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او، ڈبلیو ای ایف، جی 8، جی 20، غرضیکہ جو بھی سرمایہ داری کے لیے کام کررہا ہے یا اس کا حامی ہے، کا جب بھی کہیں اجلاس ہوتا ہے تو عوام کا جم غفیر سڑکوں پر امڈ آتا ہے۔ اس قسم کا مظاہرہ سب سے پہلے امریکی شہر سیاٹل میں ہوا تھا، جس میں صرف ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی جو بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئے۔ 2016 کے ستمبر میں ہندوستان کی کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی کال پر 17 کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔
ان تمام عوامل سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اب یہ نظام زیادہ چل نہیں سکتا ہے۔ اس لیے کہ جس دنیا میں گوداموں میں اجناس اٹے پڑے ہوں اور گوداموں کے سامنے لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر رہے ہوں، جہاں دواؤں کا مارٹ ہو اور لوگ عدم ادویات کی وجہ سے میڈیسن مارٹ کے سامنے کراہتے ہوئے دم توڑتے ہوں، جہاں ایک جانب منرل واٹر کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہو اور دوسری جانب گٹر کا پانی ملا ہوا پینے کا پانی پینے پر مجبور ہوں، وہاں اس نظام کے خاتمے کے بغیر عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان یا ایران کا نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ جاپان، جرمنی، امریکا اور فرانس کا بھی ہے۔ یہاں بھی لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں، کوڑے خانوں سے کھانا حاصل کرتے ہیں، سردیوں میں عدم توانائی کی وجہ سے ٹھٹھر کر مرجاتے ہیں۔ اس لیے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں مظاہرین کا یہ نعرہ ''جہنم میں خوش آمدید'' سو فیصد درست ہے۔ جرمنی کی سات کروڑ کی آبادی میں اگر ساٹھ لاکھ بے روزگار ہوں تو یہ کیا جہنم سے کم ہے؟ آئیے سرمایہ داری مخالف مہم میں شامل ہوکر اس جہنم نما دنیا کو جنت میں تبدیل کریں، یعنی ایک ایسا عالمی کمیونسٹ سماج قائم کریں جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔
یہ ممالک دنیا میں امن بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھلا جب ان ملکوں کے حکمران اور سرمایہ دار دنیا بھر کی پیداواری قوتوں، مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسیں گے تو عوام کیونکر خاموش رہیں گے۔ انھیں ان مظالم کے خلاف ردعمل کرنا ہے اور متبادل نظام بھی قائم کرنا ہے۔ بقول حبیب جالب ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو''۔
جی 20 ممالک کے آپس میں وسائل کی لوٹ مار میں شدید تضادات ہے۔ اس لیے یہ کسی نتیجے پر بھی پہنچ نہیں پاتے اور نہ پہنچ پائیں گے۔ حال ہی میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں جی 20 سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ پہلی بار امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر پوتن سے مصافہ کیا۔ روسی صدر پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام ہے اور کریمیا پر روس کا قبضہ بھی۔ اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی اور تجارت سرفہرست ہے۔
سرمایہ دار دنیا نے اپنے منافعے کی ہوس میں دنیا کی موسمیات کو خطرناک حد تک تبدیل کردیا ہے۔ برف کی پہاڑیاں پگھلنے لگی ہیں، حرارت دو ڈگری بڑھ گیا ہے۔ ان حالات کا سب سے بڑے ذمے دار امریکا اور چین ہیں، جب کہ امریکا گزشتہ ماحولیات پر منعقدہ اجلاس سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ چین میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار سے وہاں تیزابی بارش ہوتی ہے۔
جہاں تک تجارت کی بات ہے تو اس لوٹ مار میں حصہ داری کا جھگڑا ہے۔ تجارت کی اس دوڑ میں یعنی لوٹ میں امریکا اور چین کا زیادہ مقابلہ ہے۔ ان جی 20 کے ممالک کو ابھرتی ہوئی معیشت کا نام دیا گیا ہے۔ یہ موقف ''اندھے کا نام روپ چند'' رکھنے کے مترادف ہے۔ تجارتی مفادات کا یوں اظہار ہوتا ہے کہ اجلاس کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وسطی ایشیائی اور مشرقی یورپی ممالک سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ روس سے بڑے پیمانے پر ایندھن درآمد کرنے کے بجائے امریکا سے درآمد کریں۔
روسی صدر پوتن نے بھی امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ روس نے 2014 میں کریمیا کو روس کا حصہ بنانے کے بعد روس پر جو اقتصادی پابندی لگائی ہے، اسے ختم کیا جائے۔ پوتن نے ماحولیات پر منعقدہ پیرس معاہدے کی پرزور حمایت کی ہے۔ اجلاس سے قبل ہی بائیں بازو، کمیونسٹوں، مزدوروں اور پیداواری قوتوں نے زبردست مظاہرے کیے۔ اس مظاہرے کا عنوان تھا ''جہنم میں خوش آمدید''۔ جرمن پولیس کے مطابق قریب ایک ہزار انتہائی بائیں بازو کے شدت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق ان جھڑپوں کے نتیجے میں 76 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے تین کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ہیمبرگ شہر میں قریب 20 ہزار پولیس اہلکار، بکتربندگاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور نگرانی کرنے والے ڈرونز کے ساتھ صورتحال سے نمٹنے کے لیے شہر میں تعینات ہیں، جب کہ غیر جانبدار ذرایع کے مطابق شروع میں دسیوں ہزار مظاہرین سڑکوں پر تھے، دو دن کے بعد لاکھوں میں تبدیل ہوگئے۔ آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مظاہرے کو روکنے کے لیے جب 20 ہزار اہلکار ہوں تو مظاہرین کتنے ہوں گے۔
پولیس نے 75 اہلکاروں کی زخمی ہونے کی رپورٹ کی ہے جب کہ مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن سے جب حملہ ہوا تو سیکڑوں مظاہرین نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ بہت سے مظاہرین بے ہوش بھی ہوئے۔ سیکڑوں مظاہرین کو اسپتال میں داخل کیا گیا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں جی 20 کے سربراہی اجلاس سے منسلک کئی تقریبات متاثر ہوئیں، یعنی ان کے انعقاد ممکن نہ ہوسکے۔
مظاہرین یہ نعرے لگا رہے تھے کہ عالمی سرمایہ داری مردہ باد، تم نے دنیا کو جہنم بنادیا ہے، سرمایہ داری کا متبادل دنیا کو جنت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ہم 99 فیصد ہیں، عالمگیریت مردہ باد، دنیا کی پیداواری قوتیں ایک ہیں، ہم دنیا کی سرحدوں کو نہیں مانتے۔ اس مظاہرے میں کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی، انارکسٹ، ٹراسکائیٹ، ماؤ نواز کمیونسٹ، جنگ مخالف قوتیں، ماحولیات کی تنظیمیں، سماجی تنظیمیں اور امن کمیٹیوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ذیلی تنظیموں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او، ڈبلیو ای ایف، جی 8، جی 20، غرضیکہ جو بھی سرمایہ داری کے لیے کام کررہا ہے یا اس کا حامی ہے، کا جب بھی کہیں اجلاس ہوتا ہے تو عوام کا جم غفیر سڑکوں پر امڈ آتا ہے۔ اس قسم کا مظاہرہ سب سے پہلے امریکی شہر سیاٹل میں ہوا تھا، جس میں صرف ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی جو بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئے۔ 2016 کے ستمبر میں ہندوستان کی کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی کال پر 17 کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔
ان تمام عوامل سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اب یہ نظام زیادہ چل نہیں سکتا ہے۔ اس لیے کہ جس دنیا میں گوداموں میں اجناس اٹے پڑے ہوں اور گوداموں کے سامنے لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر رہے ہوں، جہاں دواؤں کا مارٹ ہو اور لوگ عدم ادویات کی وجہ سے میڈیسن مارٹ کے سامنے کراہتے ہوئے دم توڑتے ہوں، جہاں ایک جانب منرل واٹر کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہو اور دوسری جانب گٹر کا پانی ملا ہوا پینے کا پانی پینے پر مجبور ہوں، وہاں اس نظام کے خاتمے کے بغیر عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان یا ایران کا نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ جاپان، جرمنی، امریکا اور فرانس کا بھی ہے۔ یہاں بھی لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں، کوڑے خانوں سے کھانا حاصل کرتے ہیں، سردیوں میں عدم توانائی کی وجہ سے ٹھٹھر کر مرجاتے ہیں۔ اس لیے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں مظاہرین کا یہ نعرہ ''جہنم میں خوش آمدید'' سو فیصد درست ہے۔ جرمنی کی سات کروڑ کی آبادی میں اگر ساٹھ لاکھ بے روزگار ہوں تو یہ کیا جہنم سے کم ہے؟ آئیے سرمایہ داری مخالف مہم میں شامل ہوکر اس جہنم نما دنیا کو جنت میں تبدیل کریں، یعنی ایک ایسا عالمی کمیونسٹ سماج قائم کریں جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔