سوشل اور الیکٹرانک میڈیا
سوشل میڈیا پر اشتہارات کی بھی بھرمار ہے اور اس کا مواد دیکھنے کے لیے پہلے اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں
کہا جا رہا ہے کہ آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس نے پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ دینے والے الیکٹرانک میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں آرہا اور سوشل میڈیا نے خود کو مادر پدر آزادی دے رکھی ہے جس کے خلاف موثر حکومتی کارروائی اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
سائبر کرائم کا نام تو سننے میں آرہا ہے مگر کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آرہے اور تاخیر سے چند اقدامات کے نتیجے میں بعض کو سزا اور حکومتی اقدامات کا سامنا توکرنا پڑا ہے جو کسی لحاظ سے بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیے جاسکتے۔ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ اتھارٹی قائم کی تھی جو پیمرا کے موجودہ قوانین کے تحت ملک میں موجود 109 ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں نہ اس کا پرنٹ میڈیا سے کوئی تعلق ہے۔
پیمرا ملک میں کام کرنے والے 109 ٹی وی چینلز کی مانیٹرنگ کر رہا ہے جس کا مانیٹرنگ سیل 24 گھنٹے ٹی پروگراموں اور ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی مانیٹرنگ کر رہا ہے اور اب پیمرا نے اپنی ٹیموں کو اسلام آباد سے باہر جاکر ٹی وی چینلز کے دفاتر جاکر پیمرا کے قوانین اور اقدامات سے آگاہی دینے پر مامور کیا ہے جو ٹی وی کارکنوں کے ساتھ مل کر انھیں ضروری باتیں بتا رہی ہے اور کارکنوں کے سوالات کا جواب بھی دے رہی ہے۔
پیمرا کے ایک ایسے ہی پروگرام میں راقم کو بھی شرکت کا موقعہ ملا جس میں پیمرا کی ایک خاتون افسر دیگر عملے کے ہمراہ پیمرا کے قوانین کی وضاحت کے ساتھ بعض ٹی وی چینلوں پر چلائے جانے والے قابل اعتراض پروگراموں، اشتہارات، بعض ٹی وی چینلز اور اینکروں کے غیر ذمے دارانہ رویوں کا بتا رہی تھیں۔
پیمرا قوانین پیمرا سے لائسنس لینے والوں پر لاگو ہوتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا کے لیے کوئی لائسنس ہے نہ سخت قانونی کارروائی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کو آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ جس کی چاہے پگڑی اچھالیں، جو چاہیں لکھیں بولیں ،کسی کے مذہبی جذبات مجروح کریں، فرقہ پرستی کو فروغ دیں یا سیاسی مخالفین کو گالیاں دیں یا جھوٹے الزامات عائد کریں، ذاتیات پر جو چاہیں کریں اور ملک کے آئینی اداروں کے خلاف نفرتیں پیدا کریں ان پر شرمناک بے ہودہ الزامات لگائیں انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ قوانین ان پر لاگو ہوتے ہیں نہ وہ گرفت میں آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ بھی برہمی کا اظہار کرچکی ہے اور حکومت کو ضروری کارروائی کی ہدایت بھی کرچکی ہے مگر سوشل میڈیا پر کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کہا ہے کہ مذہبی شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد برداشت نہیں کیا جائے گا ہمارے لیے مذہب اور مذہبی شخصیات سے مقدس کوئی چیز نہیں، مذہبی جذبات مجروح کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔حکومت کو اب یہ کون سمجھائے کہ سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ کرنے والوں کو آپ کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ حکومت ایسا غیر قانونی اور قابل اعتراض مواد سوشل میڈیا پر لانے والوں کو گرفت میں لا رہی ہے اور جو کوشش ہو رہی ہے وہ ناکافی ہے۔
وزیر داخلہ سے پاکستان کا پہلی بار دورہ کرنے والے فیس بک انتظامیہ کے نائب صدر سے بھی ملاقات کی ہے اور انھیں پاکستان میں فیس بک کا دفتر کھولنے کی بھی پیش کش کی ہے۔ فیس بک کے نائب صدر جوئل کیپلان نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ فیس بک انتظامیہ اپنے پلیٹ فارم سے جعلی اکاؤنٹس، قابل تردید، ناقابل برداشت ، نفرت انگیز اور اشتعال دلانے والے مواد کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے فیس بک انتظامیہ کے نائب صدر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور خاص طور پر فیس بک کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی آگاہ کیا اور کہا کہ پوری مسلم امہ کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر سخت تشویش ہے کیونکہ ہمارے لیے اپنے مذہب اسلام اور مذہبی شخصیات سے مقدس کوئی چیز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بعض ممالک سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کی طرف سے فیس بک، سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پیش کیے گئے گستاخانہ مواد پر پاکستان سمیت مسلم امہ ماضی میں سخت احتجاج کرچکی ہے جس کے بعد یہ سلسلہ کچھ دیر کے لیے بند ہو جاتا ہے مگر مستقل بند نہیں کیا جاتا اور آئے دن یہ شر انگیزی جاری رہتی ہے اور اسے آزادی اظہار کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمان مذہبی طور پر حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ سمیت عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابوں کا بھی احترام کرتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے کسی مذہب کے خلاف گستاخی کبھی نہیں کی گئی۔
سوشل میڈیا پر اشتہارات کی بھی بھرمار ہے اور اس کا مواد دیکھنے کے لیے پہلے اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں جن پر کوئی سنسر نہیں ہوتا اور سوشل میڈیا پر عام لوگوں اور خصوصاً نئی نسل کو گمراہ کرنے کے لیے نہایت قابل اعتراض اور بے ہودہ مواد پیش کیا جا رہا ہے اور نیٹ کی وجہ سے یہ مواد گھر گھر پہنچ رہا ہے جس سے فحاشی بڑھ رہی ہے مگر حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔
ٹی وی چینلوں پر قابل اعتراض پروگراموں اور اشتہارات بند کرائے گئے ہیں اور بعض چینلز اور اینکر پرسنز کے خلاف کارروائی اور جرمانے بھی کیے گئے ہیں مگر بعض اقدامات پر فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے حکم امتناعی لے لیا جاتا ہے ۔
پیمرا کی افسر نے بتایا کہ بعض ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے افواہوں کو فروغ دیتے ہیں اور کسی تصدیق کے بغیر غلط و بے بنیاد خبریں نشر کر دیتے ہیں جس سے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں اور اس سلسلے میں احتیاط نہیں برتی جاتی۔ حکومت پاکستان کا محکمہ اطلاعات پرنٹ میڈیا کے لیے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے ذریعے سرکاری طور پر جس طرح اشاعت کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اس طرح الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ کا عجب نظام ہے ۔ راقم نے پیمرا افسر سے پوچھا کہ کیا یہ اے بی سی کی طرح فراڈ نہیں ہے جس سے انھوں نے اتفاق تو کیا مگر کہا کہ ٹی وی ریٹنگ سے پیمرا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے آگے مکمل بے بسی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو سوشل میڈیا کا مادر پدر آزاد استعمال کون روکے گا اس سوال کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے اس آزادی کا غلط استعمال کرنے والے نہیں۔
سائبر کرائم کا نام تو سننے میں آرہا ہے مگر کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آرہے اور تاخیر سے چند اقدامات کے نتیجے میں بعض کو سزا اور حکومتی اقدامات کا سامنا توکرنا پڑا ہے جو کسی لحاظ سے بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیے جاسکتے۔ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ اتھارٹی قائم کی تھی جو پیمرا کے موجودہ قوانین کے تحت ملک میں موجود 109 ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں نہ اس کا پرنٹ میڈیا سے کوئی تعلق ہے۔
پیمرا ملک میں کام کرنے والے 109 ٹی وی چینلز کی مانیٹرنگ کر رہا ہے جس کا مانیٹرنگ سیل 24 گھنٹے ٹی پروگراموں اور ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی مانیٹرنگ کر رہا ہے اور اب پیمرا نے اپنی ٹیموں کو اسلام آباد سے باہر جاکر ٹی وی چینلز کے دفاتر جاکر پیمرا کے قوانین اور اقدامات سے آگاہی دینے پر مامور کیا ہے جو ٹی وی کارکنوں کے ساتھ مل کر انھیں ضروری باتیں بتا رہی ہے اور کارکنوں کے سوالات کا جواب بھی دے رہی ہے۔
پیمرا کے ایک ایسے ہی پروگرام میں راقم کو بھی شرکت کا موقعہ ملا جس میں پیمرا کی ایک خاتون افسر دیگر عملے کے ہمراہ پیمرا کے قوانین کی وضاحت کے ساتھ بعض ٹی وی چینلوں پر چلائے جانے والے قابل اعتراض پروگراموں، اشتہارات، بعض ٹی وی چینلز اور اینکروں کے غیر ذمے دارانہ رویوں کا بتا رہی تھیں۔
پیمرا قوانین پیمرا سے لائسنس لینے والوں پر لاگو ہوتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا کے لیے کوئی لائسنس ہے نہ سخت قانونی کارروائی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کو آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ جس کی چاہے پگڑی اچھالیں، جو چاہیں لکھیں بولیں ،کسی کے مذہبی جذبات مجروح کریں، فرقہ پرستی کو فروغ دیں یا سیاسی مخالفین کو گالیاں دیں یا جھوٹے الزامات عائد کریں، ذاتیات پر جو چاہیں کریں اور ملک کے آئینی اداروں کے خلاف نفرتیں پیدا کریں ان پر شرمناک بے ہودہ الزامات لگائیں انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ قوانین ان پر لاگو ہوتے ہیں نہ وہ گرفت میں آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ بھی برہمی کا اظہار کرچکی ہے اور حکومت کو ضروری کارروائی کی ہدایت بھی کرچکی ہے مگر سوشل میڈیا پر کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کہا ہے کہ مذہبی شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد برداشت نہیں کیا جائے گا ہمارے لیے مذہب اور مذہبی شخصیات سے مقدس کوئی چیز نہیں، مذہبی جذبات مجروح کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔حکومت کو اب یہ کون سمجھائے کہ سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ کرنے والوں کو آپ کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ حکومت ایسا غیر قانونی اور قابل اعتراض مواد سوشل میڈیا پر لانے والوں کو گرفت میں لا رہی ہے اور جو کوشش ہو رہی ہے وہ ناکافی ہے۔
وزیر داخلہ سے پاکستان کا پہلی بار دورہ کرنے والے فیس بک انتظامیہ کے نائب صدر سے بھی ملاقات کی ہے اور انھیں پاکستان میں فیس بک کا دفتر کھولنے کی بھی پیش کش کی ہے۔ فیس بک کے نائب صدر جوئل کیپلان نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ فیس بک انتظامیہ اپنے پلیٹ فارم سے جعلی اکاؤنٹس، قابل تردید، ناقابل برداشت ، نفرت انگیز اور اشتعال دلانے والے مواد کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے فیس بک انتظامیہ کے نائب صدر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور خاص طور پر فیس بک کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی آگاہ کیا اور کہا کہ پوری مسلم امہ کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر سخت تشویش ہے کیونکہ ہمارے لیے اپنے مذہب اسلام اور مذہبی شخصیات سے مقدس کوئی چیز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بعض ممالک سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کی طرف سے فیس بک، سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پیش کیے گئے گستاخانہ مواد پر پاکستان سمیت مسلم امہ ماضی میں سخت احتجاج کرچکی ہے جس کے بعد یہ سلسلہ کچھ دیر کے لیے بند ہو جاتا ہے مگر مستقل بند نہیں کیا جاتا اور آئے دن یہ شر انگیزی جاری رہتی ہے اور اسے آزادی اظہار کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمان مذہبی طور پر حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ سمیت عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابوں کا بھی احترام کرتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے کسی مذہب کے خلاف گستاخی کبھی نہیں کی گئی۔
سوشل میڈیا پر اشتہارات کی بھی بھرمار ہے اور اس کا مواد دیکھنے کے لیے پہلے اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں جن پر کوئی سنسر نہیں ہوتا اور سوشل میڈیا پر عام لوگوں اور خصوصاً نئی نسل کو گمراہ کرنے کے لیے نہایت قابل اعتراض اور بے ہودہ مواد پیش کیا جا رہا ہے اور نیٹ کی وجہ سے یہ مواد گھر گھر پہنچ رہا ہے جس سے فحاشی بڑھ رہی ہے مگر حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔
ٹی وی چینلوں پر قابل اعتراض پروگراموں اور اشتہارات بند کرائے گئے ہیں اور بعض چینلز اور اینکر پرسنز کے خلاف کارروائی اور جرمانے بھی کیے گئے ہیں مگر بعض اقدامات پر فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے حکم امتناعی لے لیا جاتا ہے ۔
پیمرا کی افسر نے بتایا کہ بعض ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے افواہوں کو فروغ دیتے ہیں اور کسی تصدیق کے بغیر غلط و بے بنیاد خبریں نشر کر دیتے ہیں جس سے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں اور اس سلسلے میں احتیاط نہیں برتی جاتی۔ حکومت پاکستان کا محکمہ اطلاعات پرنٹ میڈیا کے لیے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے ذریعے سرکاری طور پر جس طرح اشاعت کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اس طرح الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ کا عجب نظام ہے ۔ راقم نے پیمرا افسر سے پوچھا کہ کیا یہ اے بی سی کی طرح فراڈ نہیں ہے جس سے انھوں نے اتفاق تو کیا مگر کہا کہ ٹی وی ریٹنگ سے پیمرا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے آگے مکمل بے بسی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو سوشل میڈیا کا مادر پدر آزاد استعمال کون روکے گا اس سوال کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے اس آزادی کا غلط استعمال کرنے والے نہیں۔