قیادت کا فقدان
امکان ہے کہ اب 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز کے ووٹ بھی حاصل کرلے
پاکستان میں بے یقینی کی صورتحال میں گزشتہ دس سال میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ داخلی اور خارجی محاذ پر مسلسل چیلنجز ہیں، ابھی تک پاکستان اور افغانستان کے معاملات بہتر نہیں ہوئے جس کی وجہ افغانستان کا پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ ہے،ہندوستان سازش کر رہا ہے کہ وہ پاکستانکی خارجہ پالیسی کو ناکام بنا دے۔ ان دنوں ہمارے نہ امریکا سے نہ برطانیہ سے نہ ایران سے حتیٰ کہ خلیجی ممالک سے وہ تعلقات نہیں جو کبھی ہوا کرتے تھے۔
داخلی معاملات میں اداروں میں کوئی استحکام نظر نہیں آتا۔ اداروں کے سربراہوں کو فری ہینڈ نہیں دیا جاتا۔ حکومت قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو سربراہ بناتی ہے جو حکمرانوں کی جی حضوری کرتے ہوں۔ گزشتہ دو عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی سیاسی جماعتوں میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن ہے، دونوں نے اپنے اداروں میں ملکی ضروریات کے تقاضے پورے نہیں کیے، نہ بنیادی ضرورتوں پر توجہ دی، نہ عوام کو کوئی ریلیف ملا۔ اس کا مقصد ہے ہمیں ابھی تک کوئی ایسا رہنما نہیں ملا جو ملک اور قوم کی ایسی قیادت کرے جیسی ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ آج بھی ہم ایک اچھے رہنما سے محروم ہیں۔
جب تک ہمیں ایک اچھا فائدہ نہ ملے گا یہ قوم بحرانوں سے باہر نہ آئے گی۔ ہمیں سب سے زیادہ توجہ آنے والے عام انتخابات پر دینی ہوگی، نئی قیادت سامنے لانا ہوگی، آزمودہ لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ میری نظر میں ایک ایسی شخصیت ہے جس میں ملک کو اگے لے جانے کی بڑی صلاحیت ہے، اس شخصیت میں داخلی اور خارجی اور اقتصادی امور کو سمجھنے کی بھی صلاحیت ہے، وہ بین الاقوامی معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور پوری دنیا میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے زمانے میں، جس کی مدت 9 سال تھی ملک اور عوام کے لیے بہت بہتر کام انجام دیے۔ اگر آج پھر ان کو دوبارہ قیادت کا موقع دیا جائے تو اس ملک کو بہتر انداز میں آگے لے جاسکتے ہیں۔
لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے وہ جمہوری انداز میں فوری طور پر اقتدار میں نہیں آسکتے، کیونکہ جمہوری تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہوں اور وہ جماعت متحرک ہو۔ مگر اس ملک میں جہاں ایک کونسلر سے لے کر ایم این اے تک امیدوار کو انتخاب لڑنے کے لیے کروڑوں سے لے کر اربوں روپے خرچ کرنے ہوں وہ اتنی رقم اپنی جماعت کے لیے کہاں سے لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں مقابلہ پر نہیں آسکتے۔ مگر صرف ایک صورت ہے کہ اگر پاکستان کی وہ جماعتیں جو اقتدار میں آنا چاہتی ہیں مگر حکمرانی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتیں، اگر وہ چاہیں جن میں سب سے بڑی سیاسی تنظیم جو قیادت سے محروم ہے مگر جس کے پاس سیاسی قوت ان کے کارکن کی صورت میں ہے، انھں آج منزل نہیں رہنما چاہیے، اگر رہنما ہوتا تو پی ایس 114 کے انتخابات میں کبھی پانچ ہزار ووٹوں سے شکست نہ کھاتے۔ دوسری جماعت اسی سندھ میں ایسی لیگ ہے جو کبھی سابق پیر پگاڑا صاحب کی قیادت میں بہت متحرک تھی، وہ بھی آج غیر متحرک قیادت کی وجہ سے ایک ہی مقام پر کھڑی ہے۔
اور تیسری جماعت جو پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جسے ہم مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے جانتے ہیں، وہ بھی ایسی قیادت چاہتی ہے جسے وہاں کے عوام میں بہت مقبولیت ہو۔ چوہدری برادران، شریف برادران کے مقابلے پر اتنے مقبول نہیں ہیں، اسی لیے صوبہ پنجاب میں شریف برادران کو جو عوامی پذیرائی مل رہی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں، لیکن پاناما کی تفتیش کے بعد جو صورتحال سامنے آرہی ہے، اس میں شریف خاندان اور اس کا ہر فرد ایک جنگ لڑ رہا ہے۔ آیندہ جو عام انتخابات ہوں گے، اس میں اسی کو اسلام آباد میں اقتدار ملے گا جو پنجاب میں جیتے گا اور امکان ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں اور مقبول ہوجائے گی۔
کسی زمانے میں پنجاب کی مقبول ترین پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی تھی، لیکن آج وہ وہاں ختم ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی 2008 کے انتخابات میں اگر آصف زرداری ملک کی صدارت نہ سنبھالتے، اپنی جگہ امین فہیم جیسی مقتدر شخصیت کو صدر بنا دیتے اور خود پوری توجہ پی پی پی کی تنظیم کو پنجاب میں متحرک کرنے پر دیتے تو آج نتائج اس لیے مختلف ہوتے کہ 2008 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ان کا ووٹ پنجاب میں موجود تھا، جو ضایع ہوگیا، اور نتیجے میں 2013 کے عام انتخابات میں وہ ووٹر پی ٹی آئی کی طرف چلا گیا۔
امکان ہے کہ اب 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز کے ووٹ بھی حاصل کرلے ، اس طرح پی ٹی آئی آیندہ اقتدار میں اس لیے آ سکتی ہے کہ اس نے پنجاب میں اکثریت حاصل کی ہوگی۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور فنکشنل مسلم لیگ اور قائداعظم لیگ مل کر ایک اتحاد قائم کریں اور سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کو اس اتحاد کی قیادت دیں تو آنے والے انتخابات میں ایک اچھی قیادت ابھرے گی۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق جنرل پرویز مشرف کی سابقہ کارکردگی پر پاکستان کے عوام آج بھی مطمئن ہیں، کیونکہ اس ملک کی قیادت اسی کو ملنی چاہیے جو بین الاقوامی شہرت اور تمام داخلی، خارجی، اقتصادی معاملات پر گرفت رکھتا ہو۔ اس معیار پر جنرل پرویز مشرف پورے اترتے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور قائداعظم لیگ کے لیے ایک تلخ معاملہ ہوسکتا ہے، مگر اس کے جو نتائج سامنے آئیں گے وہ عوام کے لیے بہت شیریں ہوں گے۔
وطن کی تعمیر کے لیے کبھی کبھی ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی ایک قومی جماعت کی طرف گامزن ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور قائداعظم لیگ کو بھی قومی اور وفاقی جماعت بن کر ابھرنا ہوگا۔ اس اتحاد سے کم سے کم سندھ میں حکومت بنانے کا موقع ملے گا۔
عوام کی ایک خاموش اکثریت جو پنجاب میں بھی ہے، کے پی کے میں بھی، سندھ میں بھی اور دوسرے علاقوں میں بھی، وہ سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت کو دل سے قبول کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اگر اس اتحاد کو ان کی قیادت میں متحرک کیا تو کم سے کم پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت وجود میں آسکتی ہے۔ اور وطن عزیز میں بے یقینی کی کیفیت بھی ختم ہوگی اور تمام ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔ مہنگائی پر بھی بند باندھا جائے گا اور بے روزگاری پر توجہ ہوگی۔ انفرااسٹرکچر بھی بہتر ہوگا۔
میری بات پر یقین کرنے کے لیے اس دور کو دیکھیں جب جنرل پرویز مشرف تھے اور شہری حکومت کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں انفرااسٹرکچر پر کتنا کام کر رہی تھی۔ اگر اس اتحاد میں مصطفیٰ کمال، فاروق ستار، پیر پگاڑا، چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی جیسے لوگ ہوں تو یہ اتحاد عوام کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔
داخلی معاملات میں اداروں میں کوئی استحکام نظر نہیں آتا۔ اداروں کے سربراہوں کو فری ہینڈ نہیں دیا جاتا۔ حکومت قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو سربراہ بناتی ہے جو حکمرانوں کی جی حضوری کرتے ہوں۔ گزشتہ دو عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی سیاسی جماعتوں میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن ہے، دونوں نے اپنے اداروں میں ملکی ضروریات کے تقاضے پورے نہیں کیے، نہ بنیادی ضرورتوں پر توجہ دی، نہ عوام کو کوئی ریلیف ملا۔ اس کا مقصد ہے ہمیں ابھی تک کوئی ایسا رہنما نہیں ملا جو ملک اور قوم کی ایسی قیادت کرے جیسی ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ آج بھی ہم ایک اچھے رہنما سے محروم ہیں۔
جب تک ہمیں ایک اچھا فائدہ نہ ملے گا یہ قوم بحرانوں سے باہر نہ آئے گی۔ ہمیں سب سے زیادہ توجہ آنے والے عام انتخابات پر دینی ہوگی، نئی قیادت سامنے لانا ہوگی، آزمودہ لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ میری نظر میں ایک ایسی شخصیت ہے جس میں ملک کو اگے لے جانے کی بڑی صلاحیت ہے، اس شخصیت میں داخلی اور خارجی اور اقتصادی امور کو سمجھنے کی بھی صلاحیت ہے، وہ بین الاقوامی معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور پوری دنیا میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے زمانے میں، جس کی مدت 9 سال تھی ملک اور عوام کے لیے بہت بہتر کام انجام دیے۔ اگر آج پھر ان کو دوبارہ قیادت کا موقع دیا جائے تو اس ملک کو بہتر انداز میں آگے لے جاسکتے ہیں۔
لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے وہ جمہوری انداز میں فوری طور پر اقتدار میں نہیں آسکتے، کیونکہ جمہوری تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہوں اور وہ جماعت متحرک ہو۔ مگر اس ملک میں جہاں ایک کونسلر سے لے کر ایم این اے تک امیدوار کو انتخاب لڑنے کے لیے کروڑوں سے لے کر اربوں روپے خرچ کرنے ہوں وہ اتنی رقم اپنی جماعت کے لیے کہاں سے لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں مقابلہ پر نہیں آسکتے۔ مگر صرف ایک صورت ہے کہ اگر پاکستان کی وہ جماعتیں جو اقتدار میں آنا چاہتی ہیں مگر حکمرانی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتیں، اگر وہ چاہیں جن میں سب سے بڑی سیاسی تنظیم جو قیادت سے محروم ہے مگر جس کے پاس سیاسی قوت ان کے کارکن کی صورت میں ہے، انھں آج منزل نہیں رہنما چاہیے، اگر رہنما ہوتا تو پی ایس 114 کے انتخابات میں کبھی پانچ ہزار ووٹوں سے شکست نہ کھاتے۔ دوسری جماعت اسی سندھ میں ایسی لیگ ہے جو کبھی سابق پیر پگاڑا صاحب کی قیادت میں بہت متحرک تھی، وہ بھی آج غیر متحرک قیادت کی وجہ سے ایک ہی مقام پر کھڑی ہے۔
اور تیسری جماعت جو پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جسے ہم مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے جانتے ہیں، وہ بھی ایسی قیادت چاہتی ہے جسے وہاں کے عوام میں بہت مقبولیت ہو۔ چوہدری برادران، شریف برادران کے مقابلے پر اتنے مقبول نہیں ہیں، اسی لیے صوبہ پنجاب میں شریف برادران کو جو عوامی پذیرائی مل رہی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں، لیکن پاناما کی تفتیش کے بعد جو صورتحال سامنے آرہی ہے، اس میں شریف خاندان اور اس کا ہر فرد ایک جنگ لڑ رہا ہے۔ آیندہ جو عام انتخابات ہوں گے، اس میں اسی کو اسلام آباد میں اقتدار ملے گا جو پنجاب میں جیتے گا اور امکان ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں اور مقبول ہوجائے گی۔
کسی زمانے میں پنجاب کی مقبول ترین پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی تھی، لیکن آج وہ وہاں ختم ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی 2008 کے انتخابات میں اگر آصف زرداری ملک کی صدارت نہ سنبھالتے، اپنی جگہ امین فہیم جیسی مقتدر شخصیت کو صدر بنا دیتے اور خود پوری توجہ پی پی پی کی تنظیم کو پنجاب میں متحرک کرنے پر دیتے تو آج نتائج اس لیے مختلف ہوتے کہ 2008 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ان کا ووٹ پنجاب میں موجود تھا، جو ضایع ہوگیا، اور نتیجے میں 2013 کے عام انتخابات میں وہ ووٹر پی ٹی آئی کی طرف چلا گیا۔
امکان ہے کہ اب 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز کے ووٹ بھی حاصل کرلے ، اس طرح پی ٹی آئی آیندہ اقتدار میں اس لیے آ سکتی ہے کہ اس نے پنجاب میں اکثریت حاصل کی ہوگی۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور فنکشنل مسلم لیگ اور قائداعظم لیگ مل کر ایک اتحاد قائم کریں اور سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کو اس اتحاد کی قیادت دیں تو آنے والے انتخابات میں ایک اچھی قیادت ابھرے گی۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق جنرل پرویز مشرف کی سابقہ کارکردگی پر پاکستان کے عوام آج بھی مطمئن ہیں، کیونکہ اس ملک کی قیادت اسی کو ملنی چاہیے جو بین الاقوامی شہرت اور تمام داخلی، خارجی، اقتصادی معاملات پر گرفت رکھتا ہو۔ اس معیار پر جنرل پرویز مشرف پورے اترتے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور قائداعظم لیگ کے لیے ایک تلخ معاملہ ہوسکتا ہے، مگر اس کے جو نتائج سامنے آئیں گے وہ عوام کے لیے بہت شیریں ہوں گے۔
وطن کی تعمیر کے لیے کبھی کبھی ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی ایک قومی جماعت کی طرف گامزن ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور قائداعظم لیگ کو بھی قومی اور وفاقی جماعت بن کر ابھرنا ہوگا۔ اس اتحاد سے کم سے کم سندھ میں حکومت بنانے کا موقع ملے گا۔
عوام کی ایک خاموش اکثریت جو پنجاب میں بھی ہے، کے پی کے میں بھی، سندھ میں بھی اور دوسرے علاقوں میں بھی، وہ سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت کو دل سے قبول کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اگر اس اتحاد کو ان کی قیادت میں متحرک کیا تو کم سے کم پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت وجود میں آسکتی ہے۔ اور وطن عزیز میں بے یقینی کی کیفیت بھی ختم ہوگی اور تمام ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔ مہنگائی پر بھی بند باندھا جائے گا اور بے روزگاری پر توجہ ہوگی۔ انفرااسٹرکچر بھی بہتر ہوگا۔
میری بات پر یقین کرنے کے لیے اس دور کو دیکھیں جب جنرل پرویز مشرف تھے اور شہری حکومت کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں انفرااسٹرکچر پر کتنا کام کر رہی تھی۔ اگر اس اتحاد میں مصطفیٰ کمال، فاروق ستار، پیر پگاڑا، چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی جیسے لوگ ہوں تو یہ اتحاد عوام کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔