دھرتی جڑیں دیمک
جنگل اور بیابانوں کے اپنے قدرت کے طے شدہ قانون ہیں اور قدرت اپنے مظاہر اپنی تخلیق سے خوب واقف ہے
اتفاق ایسا ہے کہ رنی کوٹ اورکیرتھر نیشنل کے دورے کے دوران جنگل اور زمین سے کچھ وقت قریبی رابطہ رہا۔ بقول شاعر میں ایسے مواقعے کے لیے دل میں یہ مصرعہ دہراتا رہتا ہوں کہ:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
مقصد یہ ہوتا ہے کہ شاید ہماری ٹورسٹ ٹیم جس کے ہم تین ممبران ہیں اور تینوں کو ورلڈ بینک سے کچھ نہیں ملتا نہ قرض نہ سہولت تو ''اپنا جہان پیدا کر'' کے مطابق خود ہی انتظام اور خود ہی مہمان والا معاملہ ہے، ہاں سرکاری طور پر اب تک وائلڈ لائف کے محکمے سے زیادہ با اخلاق اور با مروت کوئی اور محکمہ نہیں دیکھا۔تمہیداً یہ گزارش کی ہے توصیف مقصود نہیں کہ عمل خود ہر چیز کا شاہد ہوتا ہے اور بولتا ہے۔ تو ان مختصر سے ادوار کے دوران کچھ چیزیں دیکھیں جن کے بارے میں تاریخ اور تاریخ دان مصلحتاً خاموش ہیں جیسے کہ رنی کوٹ کے قلعے کے بارے میں نہیں معلوم کہ کس نے بنایا حالانکہ غلام سرور جمالی ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف نے ہمیں وہ سائنسی تحقیقاتی رپورٹ بھی دکھائی جس کے مطابق یہ قلعہ تالپور عہد کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ مگر تعمیر کو دیکھ کر دل قبول نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کا شاید سب سے بڑا قلعہ ہے اوراس کی تعمیر کے لیے بہت بڑے وسائل اور ایک بڑا عہد اور حکمران ہونا ضروری ہیں۔
اس بات کا مقصد تالپور عہد کی شان و شوکت کم کرنا نہیں بلکہ حقائق کا سوال ہے اور ضرورت کا بھی کہ یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا اور کس نے تعمیر کیا۔ پہلے سوال میں دوسرے سوال کا جواب موجود ہے۔ خیر اب نہ سہی کبھی اور سہی یہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ جب نمونے درست اکٹھے کیے جائیںگے اور وہ لوگ اکٹھے کریںگے جو یہ کام کرتے ہیں اور تحقیق درست انداز میں ہوگی اور اس سے اس قلعے کے بارے میں مزید حیرت انگیز داستانیں سننے کو ملیںگی جو تاریخ سے تعلق رکھتی ہوںگی۔
سنا ہے کہ اشتیاق انصاری نے جو آج کل اس قلعے پر کام کررہے ہیں بہت کچھ ماضی جیسا کردیا ہے ورنہ نالائق لوگوں نے جن کو ہم جانتے ہیں ماضی کے روشن دروازوں پر سیمنٹ کا پلاستر یا درجہ بندی کردی تھی۔ کس قدر احمق تھے یہ افسران کی ماضی کو حال میں بدل رہے ہیں ۔ تاریخی عمارت کے لحاظ سے اب کبھی جانے کا موقع ملا تو دیکھیںگے کہ پریوں کے تالاب پر اب بھی پریاں آتی ہیں یا نہیں! یہ تو قلعے کے ایک مقام کا حوالہ ہم نے دیا، ایسے نہ جانے کتنے مقامات تلاش کردہ یا اب تک تلاش کے منتظر اس قلعے میں موجود ہیں اور ہوںگے۔
میراں کوٹ تک ہم جاسکتے تھے اور ہر چند کہ یہ ایک گرم دن تھا اور پانی ناپید، مگر وہاں کے بکھرے ہوئے آثار ایک عجیب سکون اور پر اسراریت لیے ہوئے تھے اور اپنے بارے میں کہہ سکتاہوں کہ میں دن میں ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔ رات کا عالم کیا ہوتا ہوگا۔ سنا ہے اشتیاق انصاری نے اسے بھی ماضی کا حسین رنگ و روپ لوٹا دیا ہے۔
ایک بار دیکھا ہے، بار بار دیکھنے کی ہوس ہے
ایک ایسے ملک کے ہم وارث ہیں جو عجائبات دنیا سے بھرا پڑا ہے۔ مگر زر پرستی نے ہمیں اندھا کردیا ہے۔ اس قلعے پر ہی اگر گزشتہ صرف 20 سال کی تاریخ یا 30 سال کی تاریخ دیکھی جائے تو کتنا سرمایہ شاید، لفظ شاید دوبارہ لکھ رہے ہیں حکومت نے خرچ کیا ہوگا مگر خرچ کی رقم کے آگے برابر کا نشان لگاکر دیکھیں تو جن نالائق لوگوں کا میں نے ذکر کیا انھوں نے اور ٹھیکیداروں نے کتنی رقم ہڑپ کی ہے اور سندھ کا ماضی دریافت اور درخشاں ہونے سے رہ گیا ہے۔
جنگل اور زمین کے حوالے سے گفتگو شروع کی تھی، زمین سے ایک زمانے کے بعد رابطہ استوار ہوا، نہ جانے کتنے عرصے سے پکے فرش اور سڑکوں پر چلتے چلتے پاؤں نڈھال ہے، زمین، پہاڑ، پتھریلے راستوں پر چلتے پاؤں کو نہ جانے کیوں ایک آشنائی کا احساس ہوا، کسی بھولے بسرے راستے کا کوئی ادھورا خواب حقیقت بنتا نظر آیا۔
جنگل اور زمین پر جو کچھ دیکھا وہ تو ایک طویل داستان ہے اور اس کے علاوہ بہت صفحات اور وقت چاہیے کہ تحریر کیا جاسکے مگر دو چیزیں ایسی ہی جن کا ذکر کرنا ضروری ہے، زمین کو جہاں جہاں شکستہ دیکھا، پہاڑ جہاں حرکاتِ ارضی سے دراڑوں میں تبدیل ہوئے رنی کوٹ اور کیرتھر نیشنل پارک کے علاقے میں وہاں ان دراڑوں میں پھول دیکھے، جھاڑیاں دیکھیں جن کی جڑوں نے دھرتی کو جوڑ رکھا ہے۔ اڑیال پستہ قد درختوں نما جھاڑیوں میں گرمی میں پناہ لیتے ہیں اڑیال پرنوں کی ایک نایاب قسم ہے جسے بڑے لوگ کھاجانا چاہتے ہیں۔ وطن کی ہر چیز کی طرح اور وائلڈ لائف بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
تو ان پستہ قد درختوں اور جھاڑیوں نے زمین میں اپنے پنجے جڑوں کی صورت گاڑھ کر انھیں انہ جانے کہاں کہاں سہارا دیا ہوا ہے ور وہیں ہم نے درختوں میں دیمک لگی دیکھی کہ جوان درختوں کو بظاہر خوبصورت بنا رہی ہے مگر اندر سے یہ درخت آخری ہوا کے جھونکے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ زمین بوس ہوکر ''عدم وجود'' کا مظاہرہ کریں۔
وجود اور عدم وجود قدرت کا قانون ہے اور قدرت نے ایکوسسٹم کے ذریعے ہر چیز کو قابل استعمال اور ایک کے خاتمے اور دوسرے کی زندگی کا سبب بنایا ہے، جنگل اور بیابانوں کے اپنے قدرت کے طے شدہ قانون ہیں اور قدرت اپنے مظاہر اپنی تخلیق سے خوب واقف ہے کہ کہاں کیا پیدا کرنا ہے، کب کرنا ہے، کتنا کرنا ہے، ہم کچھ نہیں کرتے، ہم صرف قدرت کی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور جواباً قدرت کے نظام کو کچھ نہیں دیتے جو کہ غلط ہے ایک عام بات ہے کہ اگر ایک درخت کاٹو تو کم سے کم چار پودے لگاؤ تاکہ دو درخت ضرور نئے پیدا ہوجائیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔
میں نے مشاہدہ بیان کیا ہے اسے ہماری سوسائٹی پر منطبق کرکے دیکھ لیجیے۔ زندگی اس جنگل اور بیابان میں لوگ چھوٹے قد کے ہیں کسی بھی اعتبار سے مگر بڑے کام کرتے ہیں اور جوبڑے ہیں وہ دیمک ہیں اس معاشرے کو نہ دھرتی کو کچھ دیتے ہیں نہ دھرتی پر رہنے والوں کو آرام سے رہنے دیتے ہیں۔ خدا ان کو خوش رکھے۔ (آمین)
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
مقصد یہ ہوتا ہے کہ شاید ہماری ٹورسٹ ٹیم جس کے ہم تین ممبران ہیں اور تینوں کو ورلڈ بینک سے کچھ نہیں ملتا نہ قرض نہ سہولت تو ''اپنا جہان پیدا کر'' کے مطابق خود ہی انتظام اور خود ہی مہمان والا معاملہ ہے، ہاں سرکاری طور پر اب تک وائلڈ لائف کے محکمے سے زیادہ با اخلاق اور با مروت کوئی اور محکمہ نہیں دیکھا۔تمہیداً یہ گزارش کی ہے توصیف مقصود نہیں کہ عمل خود ہر چیز کا شاہد ہوتا ہے اور بولتا ہے۔ تو ان مختصر سے ادوار کے دوران کچھ چیزیں دیکھیں جن کے بارے میں تاریخ اور تاریخ دان مصلحتاً خاموش ہیں جیسے کہ رنی کوٹ کے قلعے کے بارے میں نہیں معلوم کہ کس نے بنایا حالانکہ غلام سرور جمالی ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف نے ہمیں وہ سائنسی تحقیقاتی رپورٹ بھی دکھائی جس کے مطابق یہ قلعہ تالپور عہد کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ مگر تعمیر کو دیکھ کر دل قبول نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کا شاید سب سے بڑا قلعہ ہے اوراس کی تعمیر کے لیے بہت بڑے وسائل اور ایک بڑا عہد اور حکمران ہونا ضروری ہیں۔
اس بات کا مقصد تالپور عہد کی شان و شوکت کم کرنا نہیں بلکہ حقائق کا سوال ہے اور ضرورت کا بھی کہ یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا اور کس نے تعمیر کیا۔ پہلے سوال میں دوسرے سوال کا جواب موجود ہے۔ خیر اب نہ سہی کبھی اور سہی یہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ جب نمونے درست اکٹھے کیے جائیںگے اور وہ لوگ اکٹھے کریںگے جو یہ کام کرتے ہیں اور تحقیق درست انداز میں ہوگی اور اس سے اس قلعے کے بارے میں مزید حیرت انگیز داستانیں سننے کو ملیںگی جو تاریخ سے تعلق رکھتی ہوںگی۔
سنا ہے کہ اشتیاق انصاری نے جو آج کل اس قلعے پر کام کررہے ہیں بہت کچھ ماضی جیسا کردیا ہے ورنہ نالائق لوگوں نے جن کو ہم جانتے ہیں ماضی کے روشن دروازوں پر سیمنٹ کا پلاستر یا درجہ بندی کردی تھی۔ کس قدر احمق تھے یہ افسران کی ماضی کو حال میں بدل رہے ہیں ۔ تاریخی عمارت کے لحاظ سے اب کبھی جانے کا موقع ملا تو دیکھیںگے کہ پریوں کے تالاب پر اب بھی پریاں آتی ہیں یا نہیں! یہ تو قلعے کے ایک مقام کا حوالہ ہم نے دیا، ایسے نہ جانے کتنے مقامات تلاش کردہ یا اب تک تلاش کے منتظر اس قلعے میں موجود ہیں اور ہوںگے۔
میراں کوٹ تک ہم جاسکتے تھے اور ہر چند کہ یہ ایک گرم دن تھا اور پانی ناپید، مگر وہاں کے بکھرے ہوئے آثار ایک عجیب سکون اور پر اسراریت لیے ہوئے تھے اور اپنے بارے میں کہہ سکتاہوں کہ میں دن میں ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔ رات کا عالم کیا ہوتا ہوگا۔ سنا ہے اشتیاق انصاری نے اسے بھی ماضی کا حسین رنگ و روپ لوٹا دیا ہے۔
ایک بار دیکھا ہے، بار بار دیکھنے کی ہوس ہے
ایک ایسے ملک کے ہم وارث ہیں جو عجائبات دنیا سے بھرا پڑا ہے۔ مگر زر پرستی نے ہمیں اندھا کردیا ہے۔ اس قلعے پر ہی اگر گزشتہ صرف 20 سال کی تاریخ یا 30 سال کی تاریخ دیکھی جائے تو کتنا سرمایہ شاید، لفظ شاید دوبارہ لکھ رہے ہیں حکومت نے خرچ کیا ہوگا مگر خرچ کی رقم کے آگے برابر کا نشان لگاکر دیکھیں تو جن نالائق لوگوں کا میں نے ذکر کیا انھوں نے اور ٹھیکیداروں نے کتنی رقم ہڑپ کی ہے اور سندھ کا ماضی دریافت اور درخشاں ہونے سے رہ گیا ہے۔
جنگل اور زمین کے حوالے سے گفتگو شروع کی تھی، زمین سے ایک زمانے کے بعد رابطہ استوار ہوا، نہ جانے کتنے عرصے سے پکے فرش اور سڑکوں پر چلتے چلتے پاؤں نڈھال ہے، زمین، پہاڑ، پتھریلے راستوں پر چلتے پاؤں کو نہ جانے کیوں ایک آشنائی کا احساس ہوا، کسی بھولے بسرے راستے کا کوئی ادھورا خواب حقیقت بنتا نظر آیا۔
جنگل اور زمین پر جو کچھ دیکھا وہ تو ایک طویل داستان ہے اور اس کے علاوہ بہت صفحات اور وقت چاہیے کہ تحریر کیا جاسکے مگر دو چیزیں ایسی ہی جن کا ذکر کرنا ضروری ہے، زمین کو جہاں جہاں شکستہ دیکھا، پہاڑ جہاں حرکاتِ ارضی سے دراڑوں میں تبدیل ہوئے رنی کوٹ اور کیرتھر نیشنل پارک کے علاقے میں وہاں ان دراڑوں میں پھول دیکھے، جھاڑیاں دیکھیں جن کی جڑوں نے دھرتی کو جوڑ رکھا ہے۔ اڑیال پستہ قد درختوں نما جھاڑیوں میں گرمی میں پناہ لیتے ہیں اڑیال پرنوں کی ایک نایاب قسم ہے جسے بڑے لوگ کھاجانا چاہتے ہیں۔ وطن کی ہر چیز کی طرح اور وائلڈ لائف بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
تو ان پستہ قد درختوں اور جھاڑیوں نے زمین میں اپنے پنجے جڑوں کی صورت گاڑھ کر انھیں انہ جانے کہاں کہاں سہارا دیا ہوا ہے ور وہیں ہم نے درختوں میں دیمک لگی دیکھی کہ جوان درختوں کو بظاہر خوبصورت بنا رہی ہے مگر اندر سے یہ درخت آخری ہوا کے جھونکے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ زمین بوس ہوکر ''عدم وجود'' کا مظاہرہ کریں۔
وجود اور عدم وجود قدرت کا قانون ہے اور قدرت نے ایکوسسٹم کے ذریعے ہر چیز کو قابل استعمال اور ایک کے خاتمے اور دوسرے کی زندگی کا سبب بنایا ہے، جنگل اور بیابانوں کے اپنے قدرت کے طے شدہ قانون ہیں اور قدرت اپنے مظاہر اپنی تخلیق سے خوب واقف ہے کہ کہاں کیا پیدا کرنا ہے، کب کرنا ہے، کتنا کرنا ہے، ہم کچھ نہیں کرتے، ہم صرف قدرت کی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور جواباً قدرت کے نظام کو کچھ نہیں دیتے جو کہ غلط ہے ایک عام بات ہے کہ اگر ایک درخت کاٹو تو کم سے کم چار پودے لگاؤ تاکہ دو درخت ضرور نئے پیدا ہوجائیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔
میں نے مشاہدہ بیان کیا ہے اسے ہماری سوسائٹی پر منطبق کرکے دیکھ لیجیے۔ زندگی اس جنگل اور بیابان میں لوگ چھوٹے قد کے ہیں کسی بھی اعتبار سے مگر بڑے کام کرتے ہیں اور جوبڑے ہیں وہ دیمک ہیں اس معاشرے کو نہ دھرتی کو کچھ دیتے ہیں نہ دھرتی پر رہنے والوں کو آرام سے رہنے دیتے ہیں۔ خدا ان کو خوش رکھے۔ (آمین)