’’ٹائم ٹیلی اسکوپ‘‘ انٹرنیٹ کو تیزرفتار بنانے کی نئی کوشش
نیویارک کی ایک یونی ورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے ایسی ڈیوائس تیار کی ہے جس میں ڈیٹا کی منتقلی کی شرح 27 گنا بڑھ جاتی ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دورحاضر میں کاروبار زندگی کو رواں رکھنے کے اہم ترین عناصر کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں میں ان ایجادات کا دائرہ کار کچھ اس طرح وسیع ہوا ہے کہ اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی سے دامن بچاکر ایک قدم بھی چلنے کا تصور نہیں کرسکتے۔ انٹرنیٹ کی مقبولیت کا صحیح معنوں میں آغاز 90ء کی دہائی میں ہوا۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ پر ٹریفک کا دباؤ نہیں تھا کیوں کہ ڈیٹا کی ترسیل کا تناسب بہت کم تھا، لیکن جیسے جیسے اس انتہائی مفید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا گیا، اسی مناسبت سے ڈیٹا کی مقدار بھی بڑھتی گئی۔ بعدازاں جب بے شمار ویب سائٹس نے ملٹی میڈیا فائلوں کی ڈاؤن لوڈنگ اور شیئرنگ کی سہولت فراہم کرنی شروع کی تو انٹرنیٹ پر رواں رہنے والے ٹریفک کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوا خاص طور پر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی آمد کے بعد تو ڈیٹا کے بڑھنے کی رفتار کئی گنا ہوگئی۔
انٹرنیٹ ٹریفک کے اژدہام کوکنٹرول کرنے کے لیے ماہرین نے دو سمتوں میں کام کیا۔ انھوں نے کمپیوٹر مائیکرو پروسیسر کی رفتار بڑھانے پر توجہ دی جس کے نتیجے میں آج ایسے پروسیسر عام ہوچکے ہیں جو فی سیکنڈ کئی گیگابائٹ ڈیٹا پروسیس کرسکتے ہیں۔ مائیکروپروسیسر کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی روانی کو بہتر بنانے کی غرض سے بینڈوڈتھ ( ڈیٹا کی منتقلی کی شرح ) میں اضافہ کرنے پر کام شروع کیا جس کے نتیجے میں ڈی ایس ایل اور وائی میکس ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ آج انٹرنیٹ کی رفتار ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے،لیکن ڈیٹا کی مقدار میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے اسی لیے ماہرین انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی منتقلی کو مزید تیزرفتار بنانے پر مسلسل توجہ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سائنس دانوں نے حال ہی میں ایک اہم پیش رفت کی ہے۔
نیویارک کی ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی، کارنیل کی ریسرچ ٹیم نے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی ہے جس میں ڈیٹا کی منتقلی کی شرح کو 27 گنا بڑھانے کی صلاحیت ہے۔ سائنس داں اس ڈیوائس کے ابتدائی کام یاب تجربات کرچکے ہیں تاہم اس ڈیوائس کو جسے انھوں نے ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' کا نام دیا ہے ، بڑے پیمانے پر قابل استعمال بنانے کے لیے اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ عام کیبل کے مقابلے میں آپٹیکل فائبر کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی تیزی سے عمل میں آتی ہے کیوں کہ اس میں ڈیٹا روشنی کی لہروں پر سفر کرتا ہے۔ فزکس کا ایک عام اصول ہے کہ ایک دیے گئے وقت میں کسی لہر یا شعاع کے دو نشیوںیا دو فرازوں کا درمیانی فاصلہ (pulse) جتنا کم ہوگا، یا دوسرے الفاظ میںpulse جتنی چھوٹی ہوگی اس میں ڈیٹا کی منتقلی کی شرح (bandwidth ) اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ نئی ڈیوائس روشنی کی شعاعوں پر ڈیٹا کی مقدار کی موجودگی کے بجائے wave pulses کو دبانے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ ایجاد کسی ہارڈ ویئر کے بجائے لیزربیمز پر مشتمل ہے جو ویو پلس کو دبانے کے لیے سلیکون کی ایک انتہائی مختصر ساخت میں باہم مل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ویوپلس موجودہ سے 27 گنا سکڑ جاتی ہیں اور ان کی ڈیٹا منتقل کرنے کی گنجایش بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔
ٹیلی کمیونی کیشن میں ڈیٹا کی منتقلی کے لیے جو جدیدترین آلات استعمال کیے جارہے ہیں وہ 10 گیگاہرٹز بینڈ وڈتھ کی پلس پیدا کرتے ہیں اور ان پر معلومات کی براہ راست رمز بندی (encoding) کرتے ہیں۔ برقیاتی آلات سے مکمل طور پر آزاد ایک آپٹیکل سسٹم دس لاکھ گیگا ہرٹز بینڈ وڈتھ کی پلس پیدا کرسکتے ہیں لیکن اس بینڈوڈتھ کی پلس پر معلومات کی رمز بندی کرنا یا آسان الفاظ میں ڈیٹا کو پلس پر سوار کرانا، موجودہ الیکٹرونک آلات کے لیے ممکن نہیں۔
ایک ٹیلی اسکوپ میں روشنی کی شعاعیں ایک سے زاید عدسوں سے گزرتی ہیں۔ ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' میں عدسوں کا کام سلیکون سے بنے ہوئے دو انتہائی مختصر اسٹرکچر کرتے ہیں جنھیں waveguides کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک اسٹرکچر میں 10 گیگا ہرٹز کی پلس ڈیٹا لیے ہوئے داخل ہوتی ہے، اسی وقت ایک انتہائی کم پلس کی لیزر شعاع بھی سلیکون کی ساخت میں سے گزرتی ہے ۔ یہ شعاع ڈیٹا سے خالی ہوتی ہے۔ waveguides میں سے گزرتے ہوئے یہ دونوں شعاعیں آپس میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ یہ تمام عمل آپٹک فائبر میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران سلیکون ڈیٹا کی حامل شعاع کو انتہائی کم پلس کی حامل لیزرشعاع کی خصوصیات اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی ڈیٹا لے جانے کی گنجایش میں 27 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مارک فوسٹر کے مطابق اس انتہائی اہم اور پیچیدہ ڈیوائس میں توانائی کا استعمال بھی زیادہ نہیں اس لیے یہ صنعتی پیمانے پر استعمال کے لیے بہت موزوں رہے گی۔ ٹیلی کمیونی کیشن کے علاوہ ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' سے کیمسٹری اور بایولوجی کے میدان میں بھی کام لیا جاسکے گا ، تاہم اس ڈیوائس کا عام استعمال ممکن بنانے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
گذشتہ دو دہائیوں میں ان ایجادات کا دائرہ کار کچھ اس طرح وسیع ہوا ہے کہ اس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی سے دامن بچاکر ایک قدم بھی چلنے کا تصور نہیں کرسکتے۔ انٹرنیٹ کی مقبولیت کا صحیح معنوں میں آغاز 90ء کی دہائی میں ہوا۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ پر ٹریفک کا دباؤ نہیں تھا کیوں کہ ڈیٹا کی ترسیل کا تناسب بہت کم تھا، لیکن جیسے جیسے اس انتہائی مفید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا گیا، اسی مناسبت سے ڈیٹا کی مقدار بھی بڑھتی گئی۔ بعدازاں جب بے شمار ویب سائٹس نے ملٹی میڈیا فائلوں کی ڈاؤن لوڈنگ اور شیئرنگ کی سہولت فراہم کرنی شروع کی تو انٹرنیٹ پر رواں رہنے والے ٹریفک کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوا خاص طور پر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی آمد کے بعد تو ڈیٹا کے بڑھنے کی رفتار کئی گنا ہوگئی۔
انٹرنیٹ ٹریفک کے اژدہام کوکنٹرول کرنے کے لیے ماہرین نے دو سمتوں میں کام کیا۔ انھوں نے کمپیوٹر مائیکرو پروسیسر کی رفتار بڑھانے پر توجہ دی جس کے نتیجے میں آج ایسے پروسیسر عام ہوچکے ہیں جو فی سیکنڈ کئی گیگابائٹ ڈیٹا پروسیس کرسکتے ہیں۔ مائیکروپروسیسر کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی روانی کو بہتر بنانے کی غرض سے بینڈوڈتھ ( ڈیٹا کی منتقلی کی شرح ) میں اضافہ کرنے پر کام شروع کیا جس کے نتیجے میں ڈی ایس ایل اور وائی میکس ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ آج انٹرنیٹ کی رفتار ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے،لیکن ڈیٹا کی مقدار میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے اسی لیے ماہرین انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی منتقلی کو مزید تیزرفتار بنانے پر مسلسل توجہ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سائنس دانوں نے حال ہی میں ایک اہم پیش رفت کی ہے۔
نیویارک کی ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی، کارنیل کی ریسرچ ٹیم نے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی ہے جس میں ڈیٹا کی منتقلی کی شرح کو 27 گنا بڑھانے کی صلاحیت ہے۔ سائنس داں اس ڈیوائس کے ابتدائی کام یاب تجربات کرچکے ہیں تاہم اس ڈیوائس کو جسے انھوں نے ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' کا نام دیا ہے ، بڑے پیمانے پر قابل استعمال بنانے کے لیے اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ عام کیبل کے مقابلے میں آپٹیکل فائبر کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی تیزی سے عمل میں آتی ہے کیوں کہ اس میں ڈیٹا روشنی کی لہروں پر سفر کرتا ہے۔ فزکس کا ایک عام اصول ہے کہ ایک دیے گئے وقت میں کسی لہر یا شعاع کے دو نشیوںیا دو فرازوں کا درمیانی فاصلہ (pulse) جتنا کم ہوگا، یا دوسرے الفاظ میںpulse جتنی چھوٹی ہوگی اس میں ڈیٹا کی منتقلی کی شرح (bandwidth ) اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ نئی ڈیوائس روشنی کی شعاعوں پر ڈیٹا کی مقدار کی موجودگی کے بجائے wave pulses کو دبانے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ ایجاد کسی ہارڈ ویئر کے بجائے لیزربیمز پر مشتمل ہے جو ویو پلس کو دبانے کے لیے سلیکون کی ایک انتہائی مختصر ساخت میں باہم مل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ویوپلس موجودہ سے 27 گنا سکڑ جاتی ہیں اور ان کی ڈیٹا منتقل کرنے کی گنجایش بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔
ٹیلی کمیونی کیشن میں ڈیٹا کی منتقلی کے لیے جو جدیدترین آلات استعمال کیے جارہے ہیں وہ 10 گیگاہرٹز بینڈ وڈتھ کی پلس پیدا کرتے ہیں اور ان پر معلومات کی براہ راست رمز بندی (encoding) کرتے ہیں۔ برقیاتی آلات سے مکمل طور پر آزاد ایک آپٹیکل سسٹم دس لاکھ گیگا ہرٹز بینڈ وڈتھ کی پلس پیدا کرسکتے ہیں لیکن اس بینڈوڈتھ کی پلس پر معلومات کی رمز بندی کرنا یا آسان الفاظ میں ڈیٹا کو پلس پر سوار کرانا، موجودہ الیکٹرونک آلات کے لیے ممکن نہیں۔
ایک ٹیلی اسکوپ میں روشنی کی شعاعیں ایک سے زاید عدسوں سے گزرتی ہیں۔ ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' میں عدسوں کا کام سلیکون سے بنے ہوئے دو انتہائی مختصر اسٹرکچر کرتے ہیں جنھیں waveguides کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک اسٹرکچر میں 10 گیگا ہرٹز کی پلس ڈیٹا لیے ہوئے داخل ہوتی ہے، اسی وقت ایک انتہائی کم پلس کی لیزر شعاع بھی سلیکون کی ساخت میں سے گزرتی ہے ۔ یہ شعاع ڈیٹا سے خالی ہوتی ہے۔ waveguides میں سے گزرتے ہوئے یہ دونوں شعاعیں آپس میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ یہ تمام عمل آپٹک فائبر میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران سلیکون ڈیٹا کی حامل شعاع کو انتہائی کم پلس کی حامل لیزرشعاع کی خصوصیات اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی ڈیٹا لے جانے کی گنجایش میں 27 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مارک فوسٹر کے مطابق اس انتہائی اہم اور پیچیدہ ڈیوائس میں توانائی کا استعمال بھی زیادہ نہیں اس لیے یہ صنعتی پیمانے پر استعمال کے لیے بہت موزوں رہے گی۔ ٹیلی کمیونی کیشن کے علاوہ ''ٹائم ٹیلی اسکوپ'' سے کیمسٹری اور بایولوجی کے میدان میں بھی کام لیا جاسکے گا ، تاہم اس ڈیوائس کا عام استعمال ممکن بنانے کے لیے وقت درکار ہوگا۔